پیر، 11 اگست، 2025

عہدے اور امارت طلب کرنے کا فتنہ


 تحریر: محمد مبشر بدر

فی زمانہ عہدے اور امارت کی چاہت اور محبت نے ہر طبقے میں بڑی سطح پر تباہی مچا رکھی ہے خاص طور مذہبی طبقات میں یہ کھنچاؤ تو ہلاکت خیز ہے۔ ہر بندہ چاہتا ہے کہ اسے امیر، ذمہ دار، لیڈر اور عہدہ دار بنایا جائے۔ ہر بندہ خود کو اہل اور دوسروں کو نااہل سمجھ رہا ہے کہ میں فلاں سے بہتر اور اچھا کام کرسکتا ہوں اور دوسرا اس کو احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتا وغیرہ ۔ اسی پر ہر جگہ فسادات برپا ہیں۔امارت و عہدہ داری کے فتنے نے آج تمام شعبوں میں مسلمانوں کو کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کیا سیاست اور کیا مذہبیت، سب کچھ اتھل پتھل ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ شریعت میں عہدہ طلب کرنا ناپسند کیا گیا ہے، اس کی بہت زیادہ ذمہ داریاں اور مسئولیات ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ عہدے اور امارت سے دور بھاگتے تھے۔

ایک صحیح روایت میں آیا ہے:
أنه قال عند النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بئس الشيءُ الإمارةُ فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نعمَ الشيءِ الإمارةُ لمن أخذها بحقِّها وبئس الشيءُ الإمارةُ لمن أخذها بغيرِ حقِّها تكون عليه حسرةً يومَ القيامةِ
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 5/203
خلاصة حكم المحدث: [فيه] حفص بن عمر بن الصباح الرقي وثقه ابن حبان ، وبقية رجاله رجال الصحيح

یعنی " ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہا: امارت بری چیز ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لیے امارت اچھی چیز ہے جو اسے اس کے حقوق کا لحاظ کرکے سنبھالے اور اس شخص کے حق میں امارت بری چیز ہے جو اس کے حقوق کا لحاظ نہ کرے، یہ قیامت کے دن اس پر حسرت و افسوس کا سبب ہوگی۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن جُعلَ قاضيًا بينَ النَّاسِ ، فقد ذُبحَ بغيرِ سِكِّينٍ
الراوي: أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 3572
خلاصة حكم المحدث: صحيح

یعنی ’’ جسے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا مقرر کیا گیا گویا اسے بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔‘‘
اچھا فیصلہ کرنے کرنے والے کے لیے اجر اور ظلم کا فیصلہ کرنے والے کے لیے اتنا وبال ہے کہ گویا بغیر چھری کے ذبح کیے ہوئے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو امارت اور عہدہ طلب کرنے سے منع فرمایا۔
چنانچہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قال لي النبي -صلى الله عليه وسلم-: «يا عبد الرحمن بن سمرة:لاتسأل الإمارة، فإنك إن أوتيتها عن مسألة وكلت إليها، وإن أوتيتها من غير مسألة أعنت عليها، وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيراً فكفِّر عن يمينك وأت الذي هو خير» (صحیح مسلم)

مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اے عبدالرحمن بن سمرہ! تم امارت طلب نہ کرنا، کیوں کہ اگر تمہیں مطالبے پر امیر بنا دیا گیا وہ اس کی ذمہ داری تم پر ڈال دی جائے گی، اور اگر بغیر مطالبے کے تمہیں امیر بنایا گیا تو ( من جانب اللہ) تمہاری مدد کی جائے گی، اور اگر تم کسی بات پر قسم کھا بیٹھو اور اس کے علاوہ بات میں بہتری دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور خیر والی بات کو اختیار کرو۔‘‘

اس روایت میں امارت کو طلب کرنے سے منع کیا گیا اور اسے ناپسند کیا گیا ہے۔ ہاں اگر بغیرطلب کے اہل حل و عقد ازخود منتخب کردیں تو اللہ کی طرف سے مدد کا وعدہ ہے ورنہ ساری ذمہ داری عہدے کے طالب پر ہوگی۔

امارت طلب کرنا ایک مذموم امر ہے۔  لوگ اس میں حرص کرنے لگے ہیں، اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس کے حصول کے لیے جدو جہد کرنے لگے ہیں۔ اسی دور کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی کی اور امت پر اس کے اندیشے کا اظہار کیا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

إنكم ستَحرصونَ على الإمارةِ ، وستكون ندامةٌ يومَ القيامةِ ، فنِعْمَ المُرضعةُ وبئستِ الفاطمةُ
الراوي: أبو هريرة المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7148
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

یعنی ’’ تم عنقریب امارت پر حرص کرنے لگو گے، وہ قیامت کے دن تمہارے لیے ندامت اور شرمندگی کا سبب ہوگی الیٰ آخرہ"

ان روایات اور ان جیسی دیگر روایات پر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جس سے امت میں افتراق اور انتشار پیدا ہو امت پر اس کو منع کردیا گیا، امارت طلب کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ الا یہ کہ اہل علم و اہل الرائے کسی کو اعتماد پر منتخب کردیں تو پھر مذموم نہیں ، تب منتخب شخص کو اللہ سے استقامت اور حق کی طرف رہنمائی کی دعا کرنی چاہیے۔ ماضی میں امت مسلمہ کے زوال کے اسباب میں سے ایک یہ سبب بھی معلوم ہوتا ہے کہ امارت و عہدہ کی طلب میں بغاوتیں برپا کی گئیں اور کشت و خون کے دریا بہائے گئے۔اب دوبارہ وہی غلطیاں ہم دہرا رہے ہیں۔ خدارا کب ہم اپنی اصلاح کریں گے اور اپنا معاملہ اہلِ تقویٰ و فتویٰ کی زیرِ نگرانی چھوڑیں گے۔؟ طوالت کے خوف سے انہی روایات پر اکتفا کرتا ہوں اور درد دل سے عرض کرتا ہوں کہ خدارا! جہاں کہیں ایسا فتنہ کھڑا ہو وہاں یہ وعیدات پیش کریں

عہدے اور امارت طلب کرنے کا فتنہ

 تحریر: محمد مبشر بدر فی زمانہ عہدے اور امارت کی چاہت اور محبت نے ہر طبقے میں بڑی سطح پر تباہی مچا رکھی ہے خاص طور مذہبی طبقات میں یہ کھنچاؤ...