اتوار، 18 اگست، 2019

کم عمری میں نکاح اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کی تحقیق


ایک منکرِ حدیث کی پوسٹ پر کیا گیا مکالمہ
بقلم: مفتی محمد مبشر بدر

سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک نکاح کے وقت چھے سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال تھی ۔ یہ بات تمام کتب حدیث میں درج ہے جہاں نبی کریم ﷺ کے نکاح سے متعلق احادیث لائی گئی ہیں۔ کسی ایک بھی کتاب میں ایسا نہیں کہ نکاح کی وقت ان کی عمر سترہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال ہو۔ لیکن آج کے منکرین حدیث  اسلام دشمن عناصر کے اعتراض سے متاثر ہوکر احادیث مبارکہ کا مفہوم بگاڑ کر انہیں مشکوک کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی  کریم ﷺ  کا کم سن لڑکی سے نکاح اور رخصتی کرنا ظلم ہے بلکہ محدثین نے نعوذ باللہ آقا علیہ السلام پر جھوٹ بولا ہے۔

ایک طرف چودہ سو سال کی تحقیقات موجود ہیں، دوسری طرف آج کے دور کے بعض نام نہاد منکرین حدیث ہیں جو احادیث متواترہ کا انکار کرنے پر تلے ہیں۔ انہی کے خوشہ چینوں میں ایک شخص رضوان خالد نامی ہے، جسے عربیت کی شد بد بھی نہیں  حتیٰ کہ اردو رسم الخظ میں لکھی گنتی تک کی پہچان نہیں ہے۔ انہوں  نے اور ان کے ہم مشربوں نے ایسی تمام صحیح اور متواتر احادیث کا انکار کرکے لوگوں کے اذہان میں اس شرعی ماخذ کی قدر اور حجت کم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ میں نے مناسب جانا کہ اس سے اس پر تفصیلی دلیل سے بات کی جائے اور  اس کی تحریر کی کمزوری  واضح کی  جائے۔

 اس نے مشکوٰۃ شریف کے مصنف امام محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ مفہوم کشید کیا کہ سیدہ عائشہؓ سیدہ اسماءؓ سے دس سال چھوٹی تھیں اورسیدہ اسماء کا وصال تہتر۷۳ ہجری میں یعنی ہجرت کے اکہتر ۷۱ سال بعد ہوا اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی تھیں تو ان کی عمر سترہ سال ہوئی اسی سن میں ان کا نکاح ہوا اور رخصتی دو سال بعد ۱۹ سال کی عمر میں ہوئی۔ حالانکہ یہ صاحب مشکوٰۃ کی بات کا مفہوم اور خلاصہ ہی نہیں اور نہ ہی امام الخطیب رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے۔

چنانچہ امام خطیب اسی رسالہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حالاتِ زندگی میں لکھتے ہیں کہ:
عائشة الصديقة أم الموٴمنين: عائشة بنت أبی بکر الصديق خطبها النبیﷺ وتزوجها بمکة في شوال سنة عشر من النبوة قبل الهجرة بثلاث سنين وأعرس بها بالمدينة فی شوال سنة اثنتين من الجهرة علی رأس ثماني عشر شهراً ولها تسع سنين وقيل دخل بها بالمدينة بعد سبعة أشهر من مقدمه وبقيت معه تسع سنين ومات عنها ولها ثماني عشرة سنة» (الاکمال :ص۲۸ )

ترجمہ: "عائشہ صدیقہ اُمّ المومنین: یہ عائشہ ؓ حضرت ابوبکرؓ کی لڑکی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا اور آپ سے مکہ میں شوال کے مہینہ میں نکاح کیا۔ (یہ واقعہ) ۱۰/ نبوت میں ہوا یعنی ہجرت سے تین برس پہلے اور آپ نے ان کو ۱۸/ مہینہ گذرنے کے بعد ۲ ہجری میں اپنی دلہن بنایا جس وقت آپ کی عمر کل ۹ برس کی تھی اور بعض کا بیان ہے کہ یہ خلوت مدینہ میں تشریف آوری کے صرف سات ماہ بعد واقع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا قیام بھی (مکہ کے قیام کی طرح) صرف ۹ ہی برس رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی کل عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔"

اس کے بعد اس کی بڑی دلیل کا کباڑا ہوجاتا ہے۔ دریں گفتگو اس سے عرض کیا کہ قرآن میں نابالغ لڑکی کے نکاح، اس سے شوہر کے تخلیہ اور عدت کے بارے احکامات موجود ہیں اگر میں نے وہ آیت پیش کردی تو اپنا موقف غلط ہونا لکھ دو گے اور قرآنی حکم کو تسلیم کر کے مان لو گے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور رخصتی قرآن کی تعلیم کے مطابق بالکل ٹھیک ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ آیت پیش کریں مجھے یقین ہے کہ وہ میری ہی تائید کریں گی۔ میں نے  سورہ طلاق کی وہ آیت پیش کردی جس میں ہے کہ وہ کم سن بچیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا ان کی عدت تین ماہ ہے اس کا ذکر والائی لم یحضن سے ہے اب عدت اسی عورت کی ہوتی ہے جس کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت کے مطابق شوہر نے تخلیہ کر کے طلاق دی ہو۔ پڑہیے سورہ الطلاق

وَ الِّٰٓیۡٔ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا ﴿۴

 "تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔"

اس آیت میں تین قسم کی عورتوں کی عدت بیان کی گئی ہے اول وہ بوڑہی عورتیں جنہیں بڑہاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوجائے یا انہیں حیض یا استحاضہ میں شبہ لگ جائے، دوم وہ کم عمر لڑکیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا تیسری حمل والیاں۔ اس آیت کو پڑھنے، دیکھنے اور پرکھنے کے بعد بھی موصوف نے گلاٹی کھائی اور اس کا مفہوم غلط کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسا ترجمہ پیش کردیا جو کسی مفسر کے ہاں معتبر نہیں اور نہ ہی کسی مفسر نے وہ ترجمہ کیا ہے۔ کہتے ہیں اس سے مراد نابالغ لڑکیاں نہیں بلکہ وہ بالغ عورتیں ہیں جنہیں حیض رک گیا ہو، اور جامعۃ الازہر کے علماءکا حوالہ دینے لگے کہ میری اس آیت کے بارے ان سے گفتگو ہو چکی ہے انہوں نے میرے والا موقف ہی اپنایا۔ اس پر میں نے مفسرین کرام کی اہم اور معتبر تفاسیر کے حوالے پیش کیے تاکہ موصوف بات سمجھ جائیں اور اپنے موقف پر نظرِ ثانی کریں، چنانچہ عرض کیا:

 آپ شاید کتب تفسیر سے ہی بے خبر ہیں جامعۃ الازہر کے کن علما سے آپ ملے اور آیت کا مطلب سمجھا اس کا مجھے کیسے علم ہو میں آپ کو امت کے مفسرین کی متداول تفسیریں اور ان کی عبارتیں پیش کرتا ہوں جو امت کے اہل علم میں مقبول ہیں اور قرآن فہمی میں انہیں ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ان کے بغیر کتب خانے نامکمل تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں کتب کے حوالے اہل علم اپنی تحریروں میں دیا کرتے ہیں۔ جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ "واللاٰئی لم یحضن" سے مراد نابالغ اور کم عمر لڑکیاں ہی ہیں چنانچہ تفسیر طبری میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے:

(وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) يقول: وكذلك عدد اللائي لم يحضن من الجواري لصغر إذا طلقهنّ أزواجهنّ بعد الدخول. تفسیر الطبری جلد ۲۳ ص ۴۵۲

یعنی  "(وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) فرماتے ہیں کہ یہی حکم ان کم عمر لڑکیوں کا ہے جنہیں کم عمری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو جب کہ انہیں ان کے شوہروں نے دخول کے بعد طلاق دے دی ہو۔"

تفسیر ثعلبی میں اس آیت کے تحت ایک روایت لگائی گئی ہے پڑہیے۔

أخبرنا أبو سعيد محمد بن عبد الله بن حمدون، حدّثنا أبو حاتم مكي بن عيدان، حدّثنا أبو الأزهر أحمد بن الأزهر، حدّثنا أسباط محمد عن مطرف عن أبي عثمان عمرو بن سالم قال: لمّا نزلت عدّة النساء في سورة البقرة في المطلقة المتوفى عنها زوجها، قال أبي بن كعب: يا رسول الله إنّ أناسا من أهل المدينة يقولون قد بقي من النساء ما لم يذكر فيهن شيء. قال: وما هو؟ قال: الصّغار والكبار وذوات الحمل، فنزلت هذه الآيات وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسائِكُمْ ... إلى آخرها۔ (تفسیر ثعلبی جلد ۹ ص ۳۳۹)

یعنی  : " عثمان بن عمرو بن سالم فرماتے ہیں کہ جب ان عورتوں کی عدت کا حکم سورہ بقرہ میں نازل ہوا جو مطلقہ تھی یا ان کا شوہر فوت ہوگیا تھا تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یا رسول اللہ ﷺ ! مدینہ والوں میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی خواتین بھی باقی رہ گئی ہیں جن کی عدت کا حکم بیان نہیں ہوا۔"

آپ ﷺ نے دریافت فرمایا وہ کون ہیں ؟ کہا وہ کم عمر اور بڑی عمر اور حمل والی خواتین ہیں، پس اس پر یہ آیت نازل ہوئی "وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسائِكُمْ ... إلى آخرها۔"


تفسیر کشاف جلد ۴ ص ۵۵۷ میں علامہ جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ هن الصغائر. والمعنى: فعدتهن ثلاثة أشهر، فحذف لدلالة المذكور عليه."

"واللائی لم یحضن وہ عورتیں جنہیں حیض شروع نہیں ہوا سے مراد کم عمر عورتیں ہیں پس ان کی عدت تین ماہ ہے"

تفسیر کبیر میں امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: پڑہیے تفسیر رازی جلد ۳۰ ص ۵۶۳

إِنِ ارْتَبْتُمْ أي إن أشكل عليكم حكمهن  فِي عِدَّةِ الَّتِي لَا تَحِيضُ، فَهَذَا حُكْمُهُنَّ، وَقِيلَ: إِنِ ارْتَبْتُمْ فِي دَمِ الْبَالِغَاتِ مَبْلَغَ الْإِيَاسِ وَقَدْ قَدَّرُوهُ بِسِتِّينَ سَنَةً وَبِخَمْسٍ وَخَمْسِينَ أَهُوَ دَمُ حَيْضٍ أَوِ اسْتِحَاضَةٍ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ فَلَمَّا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا عِدَّةُ الصَّغِيرَةِ الَّتِي لَمْ تَحِضْ؟ فَنَزَلَ: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ أَيْ هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْكَبِيرَةِ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ عِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ، فَقَامَ آخَرُ وَقَالَ، وَمَا عِدَّةُ الْحَوَامِلِ يَا رَسُولَ اللَّه؟ فَنَزَلَ: وَأُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ مَعْنَاهُ أَجَلُهُنَّ فِي انْقِطَاعِ مَا بَيْنَهُنَّ وَبَيْنَ الْأَزْوَاجِ وَضْعُ الْحَمْلِ، وَهَذَا عَامٌّ فِي كُلِّ حَامِلٍ،

خلاصہ یہ ہے کہ "وہ بڑی عمر کی عورتیں جن کا حیض بڑی عمر کی وجہ سے بند ہوگیا اور وہ حیض سے ناامید ہوگئیں ان خواتین کی عمر کا اندازہ فقہاء نے ساٹھ سال یا پچپن سال سے لگایا ہے کی عدت سے متعلق جب آیت نازل ہوئی کہ تین ماہ ہے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یارسول اللہ ﷺ! اس کم عمر صغیرہ لڑکی کی عدت کا کیا حکم ہے جسے حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو؟"

تو یہ آیت نازل ہوئی وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ پس وہ اس بڑی عمر والی عورت کے حکم کے مرتبے میں ہے جس کا حیض رک گیا ہو۔ کہ تین ماہ عدت ہے۔ پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یارسول اللہ ﷺ حاملہ عورتوں کی عدت کیا ہے؟ تو یہ آیت وَأُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ نازل ہوئی۔

محترم میں بیسیوں بلکہ سیکڑوں کتابوں کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ یہاں نابالغ لڑکی کی ہی عدت کا بیان ہوا ہے اس لیے جو معنیٰ آپ نے پیش کیا وہ ٹھیک نہیں اور نہ ہی اسلاف میں سے کسی نے ایسا معنیٰ کیا ہے اس کا معنیٰ وہی ہے جسے میں نے مفسرین ائمہ کے اقوال سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ قرآن صرف ترجمے سے ہی نہیں سمجھ آتا بلکہ ترجمے کے ساتھ صحابہ کرام ، محدثین اور فقہائے کرام اور مفسرین کا فہم بھی لازم ہے۔ جب خالق کائنات  ایک بات کی اجازت دیتا ہے تو نبی کریم ﷺ پر سیدہ عائشہ سے کم عمری میں نکاح کرنے پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...