جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

امام الانبیاء ﷺ کے رمضان میں معمولات


محمد مبشر بدر

          نبی اکرم ﷺ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی دعوت و تبلیغ کی پرصعوبیت گھاٹیوں میں گزری ، وعظ و نصیحت ، انذار و تبشیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد اسے اسلامی اسٹیٹ بنا کر مسلمانوں کو عبادات ، معاملات ، اخلاقیات ، معاشرت ، عدالت اور سیاست وغیرہ کے احکامات سیکھانے کی طرف باضابطہ متوجہ ہوئے ۔ اسی دوران دو ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے۔ 2 سے 11  ہجری تک آپ علیہ السلام پر 9   ماہِ رمضان  آپ کی حیاتِ طیبہ میں آئے۔ہم نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرکے دیکھتے ہیں کہ آپ ماہِ  رمضان کی مبارک گھڑیاں کیسے گزارا کرتے تھے۔
آقا علیہ السلام کی مستقل عادت شریفہ تھی کہ خود چاند دیکھ کر  یا کسی بااعتماد ذرائع کی شہادت کی بنا پر روزہ رکھا کرتے ، چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ لوگ چاند دیکھنے کے لیے جمع ہوئے پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ ﷺ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ شعبان کے مہینے کی گنتی پر خصوصی توجہ دیتے جتنی دیگر مہینوں کی گنتی پر نہیں دیتے تھے تاکہ رمضان کی تاریخ میں غلطی واقع نہ ہواور امرِ شرعی فوت نہ ہو  چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ آپ شعبان کے مہینے کے دن اتنا اہتمام سے گنا کرتے تھے کہ اس کے علاوہ مہینوں کے اتنے اہتمام سے نہیں گنتے تھےپھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتےاور اگر اَبر ہوتا تو تیس دن پورے کرتےپھر روزہ رکھتے۔‘‘
آقا علیہ السلام سحری کھانے پر تاکید فرماتے اور خود بھی اس کا اہتمام فرماتے چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ سحری کھاؤ، اس لیے کہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ سحری کھاؤ اگرچہ پانی کا یک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ۔ سحری کھانے سے روزے میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اتباعِ سنت کی وجہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘یعنی اہل کتاب پر رات کو سونے کے بعد کھانا حرام تھا اور ابتدائے اسلام میں مسلمانوں پر بھی یہی حکم تھا جسے بعد میں منسوخ کردیا اور سحری کھانے کا حکم دے دیا گیا۔جس طرح آپ علیہ السلام اپنی امت کو سحری کاھنے کی ترغیب دیتے اسی طرح جلد افطاری کرنے کی تاکید فرماتےتھے کہ جب غروب آفتاب ہوجائے تو افطار کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔کیوں کہ اہل کتاب افطاری میں تاخیر کرتے تھے اس کی مخالفت بھی مقصود  ہے۔اس پر بخاری و مسلم نے یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ’’ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔(ترمذی)
آقا علیہ السلام کھجور سے روزہ کھولنا پسند فرماتے اگر کھجور میسر نہ ہوتی تو پانی سے کھول لیا کرتے تھے اور امت کو بھی اسی کی ترغیب دیا کرتے تھے ،چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی افطار کرے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرےپس کھجور برکت کا سبب ہے ، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرےکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔‘‘ کھجور ایک زودِ ہضم اور طاقتور غذا ہے ۔ اس کے کھانے سے ایک تو معدہ صاف ہوجاتا ہے دوسرا  روزے کی وجہ سے جسم میں غذائیت کی کمی کو پورا کردیتی ہے۔ عرب لوگ اسے شوق سے بکثرت کھاتے تھے۔تبھی آپ علیہ السلام نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا ہے۔بیہقی شعب الایمان کی ایک روایت میں ہے کہ  ’’ رمضان کے داخل ہوتے ہی  آپ علیہ السلام قیدیوں کو آزاد فرمادیتے اور ہر مانگنے والے کو عطا فرماتے۔‘‘ویسے تو غیر رمضان میں بھی آقا علیہ السلام سائلین کو خالی نہیں لوٹاتے تھے کہ اس در سے کبھی کوئی خالی لوٹ کر نہیں گیا لیکن  رمضان المبارک میں اس عادت شریفہ کو زیادہ کرتے۔
پیارے نبی ﷺ سے روزہ افطار کے وقت مختلف دعائیں پڑہنا منقول ہے جن میں سے یہ دعا زیادہ مشہور ہے  ’’ اَلّٰلھُمَّ إِنِّیْ لَکَ  صُمْتُ وَ بِکَ آمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ‘‘ ( اے پروردگار! یقینا میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اور تجھ پر ہی ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے رزق پر ہی افطار کرتا ہوں۔) روزے کے ساتھ آپ علیہ السلام مسواک کا استعمال بھی کثرت سے فرماتے تھے۔
رمضان کے داخل ہوتے ہی آپ علیہ السلام کا قرآن پاک کے ساتھ شغف بڑھ جاتا اور آپؑ بکثرت قرآن کی تلاوت فرماتے جناب جبرائیل امین علیہ السلام نازل ہوتے اور آقا علیہ السلام سے قرآن پاک کا دور کرتے۔ آپ کی تلاوت کا  وقت نمازِعشاء  کے بعد ہوتا تھا۔اور رات کے پچھلے پہر اٹھ کر بھی قرآن کی تلاوت فرماتے۔رمضان میں آپ اپنی کمر کس لیتے اور راتوں میں لمبا قیام کرتے تراویح کا اہتمام فرماتے اور صحابہ کرام کو پڑہنے کی ترغیب دیتےصحابہ کرام آپ علیہ السلام کی اقتدأ میں نماز تراویح پڑہنے کے لیے مسجد میں جمع ہونے لگے، آپ کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ امت پر فرض نہ ہوجائے چنانچہ آپ نے صحابہ کو انفرادا پڑہنے کا حکم دیا۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے وصال کے بعد مزاجِ شناسِ پیغمبر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو سیدنا ابی بن کعب کی اقتداء میں بیس رکعت تراویح باجماعت پڑہنے کی ترتیب مقرر فرمائی اور یوں اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع و اتفاق قائم ہوگیا۔
بخاری و مسلم میں سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ’’ نبی کریم ﷺ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بہت سخی تھے اور رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھےاور  رمضان کی ہر رات جبرائیل امین آپ سے ملاقات کرتے تھے، نبی اکرم ﷺ ان کے سامنے قرآن پڑہتے تھے، پس جس وقت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام سے ملاقات کرتے تو نبی کریم ﷺ کی سخاوت اس وقت ہوا کے جھونکوں سے بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔‘‘
آخری عشرے میں آپ علیہ السلام عبادات میں بہت زیادہ انہماک فرماتے ، آپ کے ذکر و فکر میں اضافہ ہوجاتا اور رات بھر جاگتے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو آپ علیہ السلام اپنا تہہ بند مضبوط باندھتے تھےاور رات بھر بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے۔‘‘ آپ ؑ کا معمول تھا کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ آپ علیہ السلام رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ان کی روح قبض کرلی۔ پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔‘‘( متفق علیہ )
اعتکاف میں آپ علیہ السلام طاق راتوں میں شبِ قدر کو تلاش فرماتے جو ہزار مہینوں  سے افضل ہے۔آپ فرماتے کہ ’’ ماہِ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہااور اس کی بھلائی سے وہی محروم ہوتا ہے جو مکمل محروم ہوتا ہے۔‘‘عید سے قبل آپ صدقہ فطر ادا فرماتے ۔ آپ نے ہر مسلمان مرد و عورت پر خواہ چھوٹا ہو یا بڑاصدقہ فطر لازم قرار دیا جس کی ادائیگی نمازِ عید سے پہلے کی جاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...