جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

انکارِ قرآن عقلوں کا نقص




محمد مبشر بدر

حقیقت قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کی صورت میں موجود ہے ، پر حقیقت کو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں جن میں عقل و شعور کا کمال ہو اور حقیقت کو سمجھ سکیں ، معاملہ فہم اور وسیع النظر ہوں ۔ ایسی عقلیں ناپید ہوتی جارہی ہیں جو قرآن کا ٹھیک سے ادراک  اور اسلام کا غیرجانب دارانہ مطالعہ کرسکیں ۔ علامات قیامت کے باب میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھا  ’’ ان من علامات الساعۃ ان تعزب العقول و تنقص الاحلام ‘‘ کہ قرب قیامت میں عقلیں ناپید ہوجائیں گی اور کم عقلوں کی کثرت ہوگی۔
آج وہی ذہن اکٹھے ہوگئے ہیں جو عقلوں سے خالی ہیں ، ظالم مادیت کا شکار ہو کر روحانیت کا انکار کررہے ہیں ، حالانکہ یہی لوگ جسمانی سیرابی کے باوجود بھی روحانی پیاس کا شکار ہوکر بلبلا رہے ہوتے ہیں ، روحانی کبیدہ خاطری کو قرار میں بدلنے  کے لیے یا تو منشیات کا سہارا لیتے ہیں یا گناہ کے پہلو میں لذت تلاش کرتے ہیں ۔ لیکن نہیں!  گناہ خود نیگٹو اور منفی ہے اورمنفی چیز سے سکون نہیں بے چینی اور اضطراب  ہی ملتا ہے۔ یہ ناہنجار وجود انسانی میں وقتی لذت کے بعد دائمی آگ لگادیتا ہے اور تڑپنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ سکون و قرار تو نیکی میں ہے جو پازیٹیو اور مثبت ہے اور مثبت چیز ہی اپنے دامن میں ذہنی و قلبی آسودگی رکھتی ہے، اور اسی نیکی کا راستہ تو قرآن ہی دکھاتا ہے، اس سے ہٹ کر تو بھٹکتا ہوا صحرا ہے ریت ہے اور نا ختم ہونے والی پیاس ۔
فَقُلۡ ہَلۡ لَّکَ اِلٰۤی اَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۸﴾ وَ اَہۡدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخۡشٰی ﴿ۚ۱۹
اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے ۔ اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو ( اس سے ) ڈرنے لگے ۔(النازعات)
ناسمجھ کہتا ہے کہ ’’ اگر دین الہامی ہوتا تو دنیا میں ملحد نہ ہوتے ‘‘ قائل اگر قرآن سمجھتا تو ایسی بے تکی بات نہ کہتا۔ انسانی عقل کی حد ہی کتنی ہے کہ وہ الٰہیات میں فیصل بنے ، جو عقلِ مجرد روح کی بے قراری کا علاج ہی دریافت نہیں کرسکی وہ خدائی فلسفوں کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟ قرآن محیر العقول کتاب ہے، اس کے لیے  دل و دماغ کے بند دریچے کھول کر غیرجانب دار ی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن غیرمسلموں نے قرآن کا مطالعہ کیا وہ اس کے اعجاز اور حقانیت سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے  قطع نظر اس کے کہ کوئی مسلمان قرآن سے دور رہ کر غیر مسلم بن جائےکیوں کہ یہ لازمی امر ہے کہ جس چیز کی قدر  و قیمت کا اندازہ نہ ہو اور دل اس کی اہمیت سے خالی ہو،  لوگ اس میں پڑنے سے دور رہتے ہیں ، الحاد کی بھٹی میں ہمیشہ وہی لوگ گرتے ہیں جن کے دل قرآن کی قدر و قیمت اور مرتبہ و مقام سے تہی دامن ہیں ، اور ان کے دماغ قرآن کے بارے شکوک و شبہات  کا شکار ہیں جس کی بنا پر وہ اس کے پڑہنے اور سمجھنے سے عاری رہے ۔
اگر عقلِ انسانی قرآنی حقانیت اور اعجاز  کا انکار کرتی ہےتو یہ عقلیں قرآن کے بارے متفاوت کیوں ؟ ان میں اس بارے آراء کا اختلاف کیوں پایا جاتا ہے؟ اگر ہم ملحدین اور غیرمسلموں کی ہی آراء اور عقلی  جہتیں دیکھتے ہیں تو وہ قرآن کے بارے ایک نظریئے پر استوار نظر کیوں نہیں آتیں ؟ پھر انہی  غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ہے  جو قرآن  کی حقانیت کا اعلان و اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ عقل کی افادیت کا انکار نہیں کیا جارہا بلکہ عقل کی حد کا معیار جانچا جارہا ہے کہ کتنا ہے، بہت سے لوگ عقل میں آنے والی ہر بات کو حتمی اور قطعی قرار دیتے ہیں ، ان کی سوچ عقل کے مادی حصے میں بند اور اس تک ہی محدود ہوتی ہے ، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو عقلیات کا ہی سرے سے انکار کردیتے ہیں اور روحانیت کی رسیوں میں جکڑے خلاؤوں میں تکتے رہتے ہیں ، جب کہ حقیقت روحانیت و مادیت کے مابین راہِ اعتدال میں دائر ہے۔
چنانچہ مشہور متعصب پادری ”ریورینڈر جی ایم ایڈویل“ قرآن کو بت پرستی ، جنات ،  مادیت کا شرک ، بچوں کے قتل، حرمتِ شراب ،چوری،  جوا ، زنا کاری اور قتل وغیرہ ایسے  جرائم کے مٹانے والا اور ان پر سزائیں مقرر کرنے والا قرار دیتا ہے۔
نپولن بونا پارٹ نے قرآن کا مطالعہ کیا اور تعصب کو بالائے طاق رکھ کر قرآن کے انصاف اور عدل سے لبریز نظام کو دیکھ کر اسے انسانی فلاح کا ضامن قرار دیتا ہےاور اس کے اصولوں کو سچا اور اس کے قوانین کو کھرا کہتا ہے۔
نامور فرانسیسی فاضل ’’ کلاضل ‘‘ قرآن کو صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ اسے اجتماعی اور سماجی اصولوں پر مبنی نظامِ برحق کہتے ہیں اور اسے انسانیت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔
ڈین شیلی نے تو کھلے الفاظ اقرار کیا کہ  ’’ قرآن پاک کا قانون بلاشبہ بائبل کے قانون سے زیادہ مؤثر ہے‘‘
ان کے علاوہ غیر مسلم دانشوروں کے ایسے سینکڑوں اقوال پیش کیے جاسکتے ہیں جنہوں نے قرآن کو گہرائی سے جانچا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں اس کی حقانیت کا اقرار کرنا پڑا۔ ڈاکٹر موریس بوکائے ایک مشہور سائنس دان سرجن  ہیں جنہوں نے بائبل ، قرآن اور سائنس نامی کتاب لکھ کر قرآن کی حقانیت کا اقرار کیا اور اسے خدا کا آخری کلام اور پیغام قرار دیا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کو تعصبات سے بالاتر ہوکر سمجھنے سے انسان کفر کی تاریکیوں میں نہیں رہ سکتے بشرطیکہ اس کے ذہن پر ذاتی مفادات کا پردہ نہ پڑا ہو۔
قرآن ایک عمل کی کتاب ہے ،اس کا موضوع انسان ہے ۔ پورا قرآن انسانی زندگی کا احاطہ کرتا ہے اور اسکی عقلی ، روحانی اور جسمانی مکمل تربیت کرتا ہے ۔  نہ تو یہ سائنس کی کتاب ہے کہ اس میں سائنسی وجوہات اور پہلو تلاش کیے جائیں اور نہ ہی یہ محض قصہ گوئی کا صحیفہ ہے کہ اس سے دل بہلایا جائے۔ چنانچہ سید قطبؒ اپنی تفسیر ظلال القرآن میں لکھتے ہیں :
’’ قرآن نہ تو سائنٹفک نظریات کی کتاب ہے نہ وہ اس لیے آیا ہے کہ تجربی طریقہ سے سائنس مرتب کرے۔ وہ پوری زندگی کے لیے ایک نظام ہے۔ یہ نظام عقل کی تربیت کرتا ہےتاکہ وہ اپنی حدود کے اندر آزادانہ سرگرمِ عمل ہوسکے۔ وہ سماج کو ایسا مزاج عطا کرتا ہے کہ وہ عقل کو مکمل آزادانہ عمل کاپورا  موقع دے ۔ قرآن ایسی جزئیات اور تفصیلات سے نہیں تعرض کرتا جو سائنٹفک ہوں ۔ یہ امور عقل کی تربیت اور اس کے لیے آزادیٔ عمل کے اہتمام کے بعد عقل کے لیے ہی چھوڑدیئے گئے ہیں۔‘‘
جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا تب  مشرکین و کفار نے اس کے انسانی کلام ہونے کے الزامات لگائے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں چیلنج دیا کہ اگر یہ انسانی بنایا ہوا کلام ہے تو تم بھی انسان ہو اور الفاظ تمہارے پاس بھی ہیں، تم بھی اس جیسا کلام بنا کر لاؤ ، چنانچہ وہ عاجز آگئے اور آج تک اس جیسا کلام نہیں بنا سکے ۔ پھر اللہ نے فرمایا: ’’ اگر تم اس جیسی کتاب نہیں لاسکتے تو دس سورتیں اس طرح کی  بنا کر لاؤ۔ کفار اس پر بھی بے بس رہے بالآخر اللہ نے آخری چیلنج دیا کہ اگر تم دس سوتیں بھی اس کی مثل نہیں لا سکتے تو کم از کم ایک سورت ہی بنا لو ، کفار تب بھی اس چیلنج کا جواب نہیں د ے سکے ، جو اس قرآن کے اعجاز کی بہت بڑی دلیل ہے۔اس کلام کا تحریف و تبدّل سے پاک ہونا اور اس کے احکامات کا ابدی اور تمام زمانوں کے لیے یکساں قابل عمل ہونا اس کے معجز اور حقیقی ہونے کی واضح دلیل ہے جس کا کوئی ضدی اور ہٹ دھرم ہی انکار کرسکتا ہے ، ایک عقلمند جس میں عقل و شعور کی کچھ مقدار ہے وہ اس کی حقانیت کا انکار نہیں کرسکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...