جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

اسلامی ناولوں میں جھوٹ کی آمیزش


محمد مبشر بدر

          فرضی ناول ، کہانی اور  افسانہ اگر کسی نیک مقصد کو سامنے رکھ کر تعمیرِ معاشرہ ، تعلیمِ اخلاق اور شریعت کی ان شرائط کو سامنے رکھ کر لکھے جائیں جو انہیں جائز ٹھہراتے ہیں  تو یہ محمود اور مستحسن ہیں ، بلکہ ان کے اچھے اثرات دیکھے گئے ہیں، اور اگر ان میں تخریب کے نشتر چھپے ہو ں اور اخلاق کی دھجیاں بکھری ہوں ، سیکس کا چورن لگا ہو اور جنسی ہیجانی کیفیات اور خیالات پروئے ہوئے ہوں تو یہ مذموم تر اور خطرناک حد تک قابلِ ملامت ہے۔ خاص طور پر تب اس کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے جب تاریخ اسلام کی مقدس شخصیات کے حالاتِ زندگی میں گڑ بڑ کر کے انہیں شرابی ، کبابی اور شبابی کرکے دکھایا گیا ہو، اور تاریخ اسلام کا حلیہ مسخ کیا گیا ہو۔ایسا بڑے پیمانے پر ہورہا ہے ، مارکیٹ میں ایسی کتابوں ، ناولوں اور افسانوں کی بھرمار ہے جو شریعت کی شرائط کو پامال کرکے مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھمائی جارہی ہیں۔
          مغربی ادیبوں کی طرح ہمارے بعض اردو ادیب  جب تک ناولوں اور افسانوں میں سیکس کا چٹخارہ نہ بھریں توان کا منجن فروخت ہی نہیں ہوتا ۔ لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ، ان کے جذبات  ابھارتے پھر انہیں بے قرار کرکے ان سے پیسے بٹورتے ہیں ، ٹی وی چینلز بھی اسی طرح شہوانی مناظر دکھا دکھا کر لوگوں کی جذبات سے کھیل کر  اپنا پیٹ انگاروں سے بھر رہے ہیں۔یہ وہ بعض  ناعاقبت اندیش لکھاری  ہیں جو مسلمانوں میں فحاشی اور بے حیائی پھیلا دینا چاہتے ہیں اور نوجوانوں کے اذہان میں گند انڈیل کر انہیں آوارہ اور ناکارہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے مصنفین انجام کار سے ناواقف ، خداخوفی سے عاری اور فکر آخرت سے بے پرواہ ہوتے ہیں ، ان کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ قلم کی عزت و حرمت کو بیچ کرکسی طرح سے متاعِ قلیل اکٹھی کرلیں اور چار روزہ فانی زندگی کے عوض اپنی آخرت کو بیچ ڈالیں۔
          یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ  چند نام نہاد صحافیوں نے پیسہ ، شہرت اور جھوٹی عزت کمانے کے لیے اسلامی تاریخ اور مسلم فاتحین کے احوال میں ناول طرز لاکر کافی رنگ آمیزی کی ہے ، جس کی وجہ سے حقیقت اور فریب آپس میں مل گئے ہیں ، بلکہ حقیقت پردوں میں چھپ کر رہ گئی ہے۔اگر ناول طرز میں حقیقت ہی عیاں کرتے اور واقعات میں خرد برد نہ کرتے تو بات اتنا سنگین نوعیت اختیار ہی نہ کرتی ۔اس میں سب سے بڑا ہاتھ مغربی مستشرقین کا ہے، جنہوں  نے اسلام دشمنی میں جل بھن کر اسلامی تاریخ اور تعبیر کو بگاڑ کر پیش کیا ہے، جسے پڑھ کر اچھا بھلا انسان کنفیوز ہوجاتا ہے۔سچ ہے کہ تعصب انسان کو اندھا کردیتا ہے۔ان کی کتابیں اور تحقیقات پڑہنے کے بجائے مسلم مستند محققین اور مورخین کی لکھی گئی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
مفتی اعظم پاکستان مولانا شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں، یہ سب چیزیں اسی لہو حرام میں داخل ہیں۔ اسی طرح گمراہ اہلِ باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کے لیے گمراہی کا سبب ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ راسخ العلم علماء ان کے جواب کے لیے دیکھیں تو کوئی مضائقہ نہیں ، اور جن کھیلوں میں نہ کفر ہے نہ کھلی ہوئی معصیت ، وہ مکروہ ہیں کہ ایک بے فائدہ کام میں اپنی توانائی اور وقت کو ضائع کرنا ہے۔‘‘
(معارف القرآن جلد ہفتم : ص: ۲۳ )
          ناول نگاری مستقل کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکی ہے  ،اور اس کے لیے اسلامی تاریخ کا انتخاب کر کے مستند تاریخی واقعات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے، انہیں فلمی اور ڈرامائی انداز میں پیش کرکے ان کی وقعت اور اہمیت نظروں سے گرانے کی کوشش کی گئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ پر مشتمل ناولز کی بہتات نظر آتی ہے جن میں جھوٹ کی اتنی زیادہ رنگ آمیزی کی گئی ہے کہ حقیقت بھی مسخ ہوگئی ہے۔چنانچہ  ’’ حجاز کی آندہی‘‘  نامی ناول کے پیشِ لفظ میں  عنایت اللہ التمش خود اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ وجہ یہ ہے کہ تاریخی ناولوں کے بیشتر مصنف تاریخ کم اور ناول زیادہ لکھتے ہیں۔ ان کا یہ انداز کاروباری ہے۔ وہ کہانی کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے کی کوشش میں تاریخ کو مسخ کردیتے اور تاریخ کے اصل واقعات کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اہم واقعات حذف ہو جاتے ہیں۔واقعات کا تسلسل بھی تہ و بالا ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے فوری بعد لکھتے ہیں:
’’  وہ ناول ہی کیا جس میں رومان نہ ہو، عشق و محبت کی چاشنی اور حسن بے مثال کا چسکا نہ ہو۔ تاریخی ناول لکھنے والوں نے ناول کے یہ مطالبات پورے کرنے پر زیادہ زورِ بیان صرف کیا ہے۔ تاریخی ناول بلکہ اسلامی تاریخی ناول لکھنے والے ایک مشہور و معروف ناول نویس ہیں جن کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ اس صنف کے خالق وہی ہیں۔ ان کے متعلق ایک مبصر نے کہا تھا کہ ان کے ہاں مجاہد کی یہ پہچان ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے بازو میں ایک نوخیز حسینہ ہو۔‘‘
العیاذ باللہ! کیا یہ ایک مسلمہ حقیقت نہیں کہ وہ مسلم فاتحین جنہیں ہم اپنے لیے ایک آئیڈیل اور نمونہ سمجھتے ہیں، جن کی حیا اور عفت کی مثالیں دی جاتی ہیں ، جو حدود اللہ کی پابندی کرنے والے اور دوسروں کو سختی سے اس پر عمل پیرا ہونےکی ترغیب دینے والے، احکاماتِ الٰہیہ کو نافذ کرنے والے اور دنیا سے ظلم و جور کو مٹانے والے تھے، جب ہمارے یہ نام نہاد ناول نگار انہیں شراب پیتا ہوا اور حسیناؤوں پر مرتا ہوا دکھاتے ہیں تو شرافت ، عفت  اور حیا بھی اپنا سینہ پیٹ کر رہ جاتی ہیں۔عقلیں محوِ تماشائے لبِ بام ہو کر رہ جاتی  ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...