جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

اسلام ہی پابندِ سلاسل کیوں ؟


محمد مبشر بدر

           اسلامی انقلابات کو دیکھ کر غیرمسلم حکومتوں کو اپنی بقا اور اقتدار خطرے میں نظر آرہا ہے ، جس کی بنا پر وہ اسلام مخالف بزدلانہ اقدامات پر مجبور ہوجاتیں ہیں جن سے انسانیت کیا حیوانیت بھی شرما جاتی ہے۔حالانکہ اسلام  امن و سلامتی کا دین ہے جس کی چھاؤوں میں ہر تہذیب و مذہب کا فرد سکھ چین کی زندگی  آرام سے گزار سکتا ہے ۔ ماضی کی اسلامی حکومتیں اس کی واضح مثال ہیں جن کے ماتحت لاکھوں  ،کروڑوں غیر مسلم افراد زندگی گزارتے تھے لیکن کبھی کسی پر اس کے مذہبی احکامات و شناخت  کے حوالےسےسختی نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں ان کی رسومات اور عبادات سے روکا گیا۔ہر ایک کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔جس کی گواہیاں آج بھی موجود ہیں۔
          لیکن آج مذہبی آزادی ، آزادیٔ اظہارِ رائے ، مساوات اور برابری کا درس دینے والی سیکولر حکومتیں اور ان کے ماتحت سیکولر باشندے اسلام کے ساتھ ناروا رویہ رکھے ہوئے ہیں اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے مسلمانوں پر نت نئی پابندیاں لگارہی ہیں ، اس طرح ان کی اسلام دشمنی نکھر کر سامنے آگئی ہے اورآزادی و مساوات جیسے  پر فریب کھوکھلے نعروں کی قلعی کھل گئی ہے۔کبھی سوئزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی لگادی جاتی ہے تو کبھی فرانس سمیت تمام یورپی ممالک میں پردے اور اسکارف پر پابندی کا حکمنا مہ سنایا جاتا ہے۔ کبھی داڑہی رکھنے پر مسلمان نوکری سے فارغ کیے جاتے ہیں تو کبھی دھماکے کر کے  مسجدوں کو اڑایا جاتا ہے۔
          انڈیا کے معروف ہندو گلو کار سونو نگھم نے اذان  کے خلاف ٹویٹ کیا کہ ’’ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے ہر روز اذان سننا پڑتی ہے ، یہ مذہبی غنڈا گردی کب ختم ہوگی؟ ‘‘  جسے  انڈین میڈیا نے خوب اچھالا  ۔  یہ وہ گلو کار ہے جس کے پروگراموں میں فل ساؤنڈ میوزک بج رہا ہوتا ہے، اسے اس وقت اپنی غنڈا گردی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے جس میں ہر مذہب والا دوسرے کے وجود کو برداشت کرتا ہے صرف ہندو ہی مسلمانوں کو برداشت نہیں کررہے ، مسلمان بھی ہندؤوں کو برداشت کررہے ہیں۔ کتنی چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں سہا جاتا ہے ، اسے غنڈا گردی نہیں کہا جاتا۔اگر ایسا بیان کوئی مسلمان ہندو شعار کے خلاف دے کر اسے غنڈہ گردی سے تعبیر کرتا تو اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور کہنے والے کی ایسی کی تیسی کردی جاتی۔گلوکار نے مشہوری کے بعد گم نامی سے نکلنے کا  اچھا طریقہ یہی ڈھونڈا ہے کہ مذہب کے خلاف بول کر سستی پبلک سٹی حاصل کی جائے، جس کے بعد میڈیا کو بھی بات کا بتنگڑ بنانے اور اسلامی شعائر کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہاتھ آگیا۔
امت مسلمہ پر در پے آفات کے نزول کے ساتھ چین کے مسلمانوں پر ایک اور آفت آگری ۔ چینی حکومت نے سنکیانک کے مقامی مسلمانوں پر بچوں کے اسلامی نام رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ سنکیانک  وہ صوبہ ہے جسے مقامی مسلمان مشرقی ترکستان کہتے ہیں کے دارالحکومت میں متعین ایک چینی سرکاری عہدے دار نے تصدیق کی ہے کہ حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ’’  اقلیتوں  کے لیے نام رکھنے کے قواعد ‘‘ کے نام سے ایک حکمنامہ جاری کیا ہے جس میں اسلامی ناموں کو شدت پسندی قرار دے کر پابندی لگائی گئی ہے۔جب کہ اس سے پہلے یہ پابندی سنکیانک صوبے کے جنوبی حصے ’’  ہوتان  ‘‘ میں عائد کی گئی تھی لیکن اب پورے صوبے میں عائد کردی گئی ہے۔
افریقی ملک انگولا میں تیزی سے بڑہتے اسلام کے سامنے بے بس حکومت نے اسلام پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اور کئی مساجد یہ الزام لگا کر مسمار کردی گئی ہیں کہ ان کی تعمیر کی اجازت نہیں لی گئی تھی ۔ امیریکا فرسٹ پیٹریاٹ نامی ویب سائٹ کے مطابق اب تک 80 مساجد مسمار کی جا چکی ہیں۔
ہالینڈ کی فریڈم پارٹی کے اسلام مخالف رہنما گیئرٹ ولڈر نے کہا کہ وہ ملک میں اسلام کے خلاف کسی بھی پابندی کی کھل کر حمایت کریں گے۔ گیئرٹ ولڈر کو ماضی میں کئی مقدمات کا سامنہ کرنا پڑا ہے جس میں سے اکثر اس کے مسلم مخالف بیانات اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز تقاریر ہیں ۔ دانش ور امریکی صدر کی کامیابی کی وجوہات میں سے ایک وجہ  اس کی شدت پسندانہ اور اسلام مخالفانہ ذہنیت کو قرار دے رہے ہیں ، ان کے اسلام اور مسلم مخالف بیانات کوشدت پسند امریکیوں میں  خوب پزیرائی ملی ہے۔
اسپین ، فرانس ، سوئزر لینڈ ، بیلجئیم ، بلغاریہ اور اٹلی سمیت تمام یورپی یونین نے پابندیاں لگا کر مسلمان عورتوں کو دوسرے درجے کی حیثیت دے دی اور ان کے نقاب پر پابندی عائد کر دی ۔ خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں بھاری جرمانہ عائد کردیا گیا ہے۔ جرمنی میں خواتین سرکاری ملازمین کے نقاب پہننے پر گزشتہ روز پابندی عائد کر دی گئی ہے ، جرمنی کے ایوانِ زیریں میں بل منظور کیا گیا جس میں سرکاری ملازم خواتین کو اس پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جرمنی اور ہمسایہ ملک فرانس کی دائیں بازوں کی جماعتیں پبلک مقامات پر  خواتین کے حجاب پر پابندی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ یہ تو ہے ان ممالک کا وہ رویہ جس کے سامنے ان کے آزادیٔ اظہارِ رائے اور مذہبی آزادی کے جھوٹے دعوے جھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں۔ ان کے آزادی یہ ہے کہ مسلمانوں کے مالوں پر قبضہ کیا جائے ، انہیں تنگ اور ذلیل کیا جائے، ان کے سامنے اسلام اور متعلقات اسلام کا مذاق اڑایا جائے ، حتیٰ کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی برملا توہین اور گستاخی کی جائے۔ اس میدان کو ہموا کرنے کے لیے ان اسلام دشمن قوتوں نے ایسے قوانین وضع کیے ہیں جو سراسر غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہیں ۔
مصر میں اسلامی جماعت اخوان المسلمین جمہوری طرز پر اقتدار میں پہنچی تو امتِ مسلماں نے خوشی سے سجدے کیےلیکن  سیکولر قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ کچھ ہی دنوں کے بعد نو منتخب صدر مرسی کو پابند سلاسل کرکے پسِ زنداں ڈال دیا گیا۔ماضی میں ترکی کے ساتھ ہونے حشر سب کے سامنے ہے  کہ وہاں مکمل اسلام پر پابندی لگادی گئی اور ترکی رسم الخط کو عربی سے انگریزی میں ڈھال دیا گیا۔ سویت یونین  سے آزاد ہونے والی وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستوں میں وہی لوگ برسرِ اقتدار آگئے جنہیں سویت یونین نے پرورش کی تھی چنانچہ اسلام پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ تاجکستان کی سیکولر حکومت نے مسلمانوں کے دینی احکامات پر عمل پیرا ہونے پر پابندیاں عائد کی  ہیں۔ وہاں حجاب ، حج اور داڑہی کے خلاف اعلانیہ مہم چلا رکھی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق تاجک آبادی ۹۹ % مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ہفتے کے دوران تیرہ ہزار افراد کی داڑہیاں مونڈی ہیں،اس سے قبل ہزاروں افراد کو داڑہی رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش اور انڈیا کی سیکولر حکومتوں کی اسلام مخالف پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور وہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبروں سے روزانہ اخبارات بھرے ہوتے ہیں۔کئی مذہبی رہنماؤوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور کئی ابھی تک جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی بنیاد بھی سیکولر خطوط پر استوار کی جارہی ہے جس کا اعلان وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک بیان میں کردیا ہے، اس کے بعد صاف ظاہر ہے مسلمانوں سے ان کا اسلام ( خدانخواستہ ) جبرا چھین لیا جائے گا۔ اس لیے دینی محاذ پر ڈٹنے اور دینی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں کا مصداق بن کر قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ آج امت مسلمہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود سوال کرتی ہے کہ آخر اسلام ہی پابندِ سلاسل کیوں ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...