جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

اسلام کا تصور آخرت


محمد مبشر بدر

          دنیا کی زندگی ایک چھوٹی ، عارضی اور ناپائیدار  زندگی ہے۔ انسانی خواہشات پورا کرنے کے لیے اس کا دامن تنگ ہے۔ دنیا دارالعمل ہے ، یہاں انسان کو ہرنیک و بد عمل کرنے کا اخٹیار دیا گیا ہے، یہ دارالجزاء نہیں ہے کہ انسان کو اس کے ہر اچھے برے عمل کا بدلہ دیا جائے ۔یہ کائنات اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہے ، یہ سزا و جزاء کے لیے ناکافی ہے ۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اور جہان بنایا ہےجسے آخرت کہتے ہیں۔ اگر ہم آخرت کے وجود کو تسلیم نہ کریں ،  دنیا اور اس کی موت کو انسانی زندگی کا خاتمہ قرار دے دیں تو اس سے زیادہ بے معنیٰ اور بے مقصد زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔قدرت نے اس کائنات میں ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی ہے اس لیے دنیا کا جوڑا آخرت ہے۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں آخرت ،توحید و رسالت کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، جسے قرآن نے کھول کر بیان فرمایا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (سورۃ الجاثیہ : ۲۶)
اس آیت میں انسان کی حیات و موت کے بعد کی زندگی کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں موت کے بعد دوبارا قیامت کے دن زندہ کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے،اور جو لوگ اس دن کا انکار کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ جانتے نہیں، جس دن وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے تب وہ جان لیں گے کہ اللہ کا وعدہ سچ تھا۔
آخرت کے دن کے نظریئے کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود ہیں جنہیں اس جہاں میں پورا کرنا ناممکن ہے ۔ انسان کی زندگی کا مقصد صرف چند روزہ زندگی ، پھر مر کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا نہیں ہےبلکہ اس کا ہر عمل یا تو اسے ہمیشہ کی کامیابی کی طرف لے جارہا ہے یا ہمیشہ کی ناکامی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دنیا میں خیر و شر کی جنگ ، عدل و انصاف کے تقاضوں کا پورا نہ ہونا، ظلم و ستم ، نیکی و بدی کا وجود ، قاتل اور ظالم کا بغیر سزا کے دندناتے پھرنا،کمزور ، ضعیف اور ناتواں کا اپنے حق کے لیے مارا مارا پھرنااس بات کا متقاضی ہےکہ ایک جہان ایسا ہو جس میں عدل و انصاف کے تمام تقاضے  پورے کیے جائیں ، جس دن میزانِ عدل قائم کی جائے، ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ اور مظلوم کو اس کا حق دلایا جائے، خیر و شر اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کیا جائے، خالق کائنات نے ایسا دن مقرر کرکھا ہے جسے قرآن میں متعدد ناموں سے ذکر کیا گیا ہے۔
یوم الجزاء، یوم الدین  ، یوم الاخرۃ، یوم الفصل ، یوم القیامۃ، یوم العدل ، یوم الحساب ، یوم العاجلۃ ، یوم الحسرۃ ، یوم الواقعۃ ، یوم القارعۃ، یوم الراجفۃ، یوم الرادفۃ، یوم الطلاق، یوم الفراق، یوم التناد، یوم العذاب، یوم الفرار، یوم الحق، یوم الجمع، یوم التغابن اور یوم الساعۃ وغیرہ قیامت کے اسماء ہیں ۔اس کا زیادہ مشہور نام یوم القیامۃ ہے جسے قرآن مجید میں ستر بار ذکر کیا گیا ہے۔
قیامت قائم کرنے اور انسان کادوبارہ  زندہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ عدل و انصاف ظاہر فرمائےاور نیکوکاروں کو بہترین جزا دے اور بدکاروں کو ان کے اعمالِ بد کی سزا دے ۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے: ’’پھر تمہارے پروردگار کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ ساری باتیں بتا دے گاجن میں تم اختلاف کرتے تھے۔‘‘
سورہ یونس میں فرماتا ہے۔’’ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے ، اللہ کا کیا ہوا وعدہ سچا ہے ۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ تاکہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو انصاف کے ساتھ جزاء دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گااور کفر کی وجہ سے ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘
سورۃ طٰہٰ  میں فرماتا ہے: ’’ قیامت آنے والی ہے جسے میں پوشدہ رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔‘‘
ان آیات کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے بدکار جو عیش و راحت میں ہیں اور بہت سے نیکوکار ظالموں کے ظلم کا شکار ہیں، اس لیے دنیا میں عدل و انصاف اپنے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔انسان کو دنیا میں بے مقصد و بے فائدہ نہیں پیدا کیا گیا کہ اس کی زندگی ہی سرے سے بے کار و بے سود ہو اللہ نے انسان کی زندگی کو ایک عظیم مقصد دیا ہے اور اللہ ہی کی طرف اس کی پلٹ ہے۔ سورہ مؤمنون میں ہے۔ ’’ سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کرنہیں آؤ گے۔‘‘
بروزِ قیامت حساب و جزا پر یقین رکھنا ایمان کے لیے ضروری ہے۔ اس دن انسان کے اعمال کے لیے میزان قائم کیا جائے گا اور اس سے حساب و کتاب لیا جائے گا ۔ اس کے کیے کے مطابق اسے بدلہ دیا جائےگا۔سورہ غاشیہ میں اللہ فرماتا ہے۔ ’’بے شک ہماری طرف ہی ان کو لوٹ کر آنا ہے پھر ہمارے ہی ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔‘‘سورہ انعام میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’ اور جو کوئی ( اللہ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ قیامت کے دن حساب کے بارے بیان کیا جائے گا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اپنا کرم بھی بیان فرمارہا ہےکہ قیامت کے دن ایک نیکی کا بدلہ دس گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور برائی کا بدلہ ایک ہی برائی کے بقدر ہوگا۔
سورہ انبیاء  میں اللہ میزانِ عدل کےبارے بیان فرماتا ہے۔ ’’ اور قیامت کےدن ہم انصاف کی ترازو قائم کریں گے پھر کسی پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل ہوگا تو اسے بھی ہم لے آئیں گے اور ہم ہی حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
جنت اور جہنم آخرت کا انجام کار ہیں، حساب و کتاب کے بعد یا تو انسان کے لیے جنت کا فیصلہ کیا جائے گا یا پھر جہنم کا، یہ مخلوق کے ابدی ٹھکانے ہیں۔ جنت اہل ایمان کے لیے نعمتوں کا گھر ہے جہاں وہ عیش و عشرت سے رہیں گے ، وہاں ان کے دل بہلانے کا مکمل سامان موجود ہوگا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سورہ البینہ میں فرماتا ہے ۔ ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے یہی لوگ ساری مخلوق میں سب سے بہترہیں۔ ان کے پروردگار کے پاس ان کا انعام وہ سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ وہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ ان سے خوش ہوگا، اور وہ اس سے خوش ہوں گے۔ یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھتا ہو۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے۔ ’’ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان چھپا کر رکھا گیا ہے۔(سورہ السجدہ)
جب کہ جہنم اللہ کا عذاب ہے جو اس نے مجرمین اور ظالم کافروں کے لیے تیار کررکھا ہے، جو اللہ کے رسولوں اور اس کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں ۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سورہ الکہف میں فرماتا ہے۔’’ بلاشبہ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کررکھی ہے ، جس کی قناتیں انہیں گھیرلیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہوگا، جو چہرے کو بھون دے گا۔بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی ہی بری آرام گاہ۔‘‘
ایمان والوں کے لیے آخرت بہت ہی بہتر اور عمدہ جہان ہےقرآن پاک میں اللہ نے اسے اہل ایمان کے لیے بہتر، اعلیٰ اور ہمیشہ رہنے والا جہان قرار دیا ہے۔ سورہ الضحیٰ میں آقا علیہ السلام کو فرمایا گیا ہے کہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہت بہتر ہےاور سورہ الاعلیٰ میں ایمان والوں کو فرمایا ۔ ’’ بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘ سورہ القصص میں اللہ فرماتا ہے۔’’وہ آخرت والا گھرتو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے، جو زمین میں نہ تو بڑائی چاہتے ہیں، اور نہ فساد، اور آخری انجام پرہیز گاروں کے حق میں ہوگا۔‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...