جمعرات، 23 اپریل، 2015

حیاء،پاکیزہ معاشرے کی اساس



 محمد مبشر بدر
قدرت نے انسان کو بنا کر یونہی بیکار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے ایک کامیاب اور پرسکون زندگی جینے کے لیے جس طرح کچھ اصول اور رولز بتادیئے ہیں جن کے تحت وہ خوشگوار اور پر امن زندگی گزار سکتا ہے اور ان اصولوں کے ساتھ اس کی زندگی کی راحت جوڑ دی ہے جن سے انحراف کرکے وہ کہیں اطمینان نہیں پاسکتا، اسی طرح خدا نے انسانوں کو بے شمار فطری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک اہم خوبی شرم  و حیاء ہے،  جو اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ  معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے۔جن قوموں اور معاشروں سے شرم و حیاء رخصت ہوجاتی ہے وہ پستی اور ذلت کی اتاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں ، وہ خود اور ان کی نسلیں تباہی اور بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں ۔

چنانچہ مشکوٰۃ شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی کو سمجھا   رہا تھا کہ زیادہ شرم و حیاءنہ کیا کرو، آپ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:’’اس کو چھوڑ دو کیوں کہ حیاء ایمان کا جزء ہے‘‘۔ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ حیاء ایمان کا حصہ ہے ، ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔‘‘ ۔شریعت کی اصطلاح میں حیاء وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان بے ہودہ ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ شریعت میں حیاء  کا بہت اہم مقام ہے ، اسے اپنانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ نوجوان اسے اپنا کر معاشرے کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کریں اور منکرات و فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہےتاکہ انارکی اور فساد کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔

اسی شرم و حیاء سے خاندانی اور ازدواجی زندگی پرسکون اور کامیاب رہتی ہے ۔ حیاء طبعی خواہشات پورا کرنے کے لیے ہرفردکو اپنے رفیق ِ سفر تک محدود رکھتی ہے اسے اِدھر اُدھر منہ مارنے سے روکتی ہے، حیاء سے خاندانی تعلقات ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں ، ازدواجی تعلقات مضبوط رہتے ہیں اور اگر جنسی بے راہ روی عام ہو کر معاشرے اور ماحول میں رائج ہوجائے تو نوجوان گھر بسانے کے متعلق سوچیں گے بھی نہیں۔ جب خواہشات پوری ہورہی ہیں تو بیوی کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ، اسی جنسی بے راہ روی سے خاندانی نظام  کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے، زندگیوں میں یاس و ناامیدی در آتی ہے ، کوئی کسی کا سہارا بننے کو تیار نہیں ہوتا  ، بس اپنا مطلب نکال کر سب اپنی راہ چل پڑتے ہیں جس سے مایوس ہوکر بہت سے لوگ خودکشی پر مجبور ہوکر اپنی جانیں تک گنوا دیتے ہیں۔

دوسری طرف عفت و پاکدامنی گھروں کو مضبوط بنادیتی ہے۔ انسان کو معزز اور معتبر بنا دیتی ہے۔ وہ افراد جو ہوا و ہوس اور جنسی خواہشات میں مگن ہوجاتے ہیں لوگوں کے نزدیک قابل وثوق نہیں رہتے۔حدیثِ مبارک میں ہے:’’ حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے ۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی ۔‘‘حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ سورة القصص میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ترجمہ : ’’اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی ۔‘‘سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد مبارک ہے :حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مشکوٰۃ)حرام نگاہ صحیح فیصلے کی قوت ِقلب کو سلب کر دیتی ہے۔ اکثر جنسی انحرافات کی ابتدا دیکھنے سے ہوتی ہے۔ یہ اثرات عورت کا مرد اور مرد کا عورت کو دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اس سے منع کردیا ہے۔چنانچہ فرمایا:

          ’’ مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں کہ یہی زیادہ پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کے کاموں سے خوب واقف ہے اور مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کونیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں مگر جو ظاہر ہو اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبانوں پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے شوہر، باپ ، دادا اور وہ بچے جو عورتوں کی شرمگاہوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور اپنے پاؤں پٹخ کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے۔ ‘‘(سورۂ نور)

گویا نظر کو حیاء میں خاصا دخل ہے۔چنانچہ رسول  اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ لعنت برسائے دیکھنے والے اور دیکھنے کا موقع دینے والے پر۔ (مشکوٰۃ)ایک اور مقام پر فرمایا:’’غیر محرم کی طرف دیکھنا شیطان کا ایک زہریلا تیر ہے جو میرے خوف سے اسے ترک کردے گا میں اسے ایمان میں بدل دوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور اس کے قہر و غصے کی پھٹکار ہے۔‘‘ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ تم اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو ورنہ اللہ تمہاری شکلوں کو تبدیل کردے گا۔‘‘ (ترغیب و ترہیب)

لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ترجمہ ۔’’جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔‘‘  ترغیب و ترہیب میں ایک اور حدیث درج ہے جس میں  آقا علیہ السلام نے فرمایا  : ’’ بے شک حیاء اور پاکدامنی ایمان کا حصہ ہیں جب زندگی پاکدامن نہ رہی تو ایمان کہاں بچا؟۔‘‘ایک مقام پر آقا علیہ السلام نے فرمایا :’’حیاء اور ایمان دو جڑوے بھائیوں کی طرح ہیں جب ایک زندگی سے نکل جائے تو دوسرا بھی نکل جائے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب) یعنی اگر حیاء نہ رہے تو ایمان بھی نہ رہا اور ایمان نہ رہا تو حیاء نہ رہی ۔ ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے انتہائی اہم اور خطرے کی بات ارشاد فرمائی : ’’جب اللہ تعالی کسی بندے کی ہلاکت کا ارادہ کرتاہے تو اس سے حیاء کھینچ لیتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)

ایک نوبل انعام یافتہ مسلم لڑکی سے کسی صحافی نے پوچھا :’’ آپ حجاب کیوں پہنتی ہیں جب کے آپ باشعور ہیں آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے؟‘‘

’’ اْس عظیم لڑکی نے جواب بھی لاجواب دیا: ’’ آغازِ کائنات میں انسان بالکل بے لباس تھا اور جب اْسے شعور آیا تو اس نے لباس پہننا شروع کیا ،آج میں جس مقام پر ہوں اور جو پہنتی ہوں وہ انسانی سوچ اور انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مقام ہے، حجاب تحفظ و اعتماد کا احساس عطا کرتا ہے، یہ قدامت پسندی نہیں، اگر لوگ پرانے قوموں کی طرح پھر سے بے لباس ہوجائیں تو یہ قدامت پسندی ہے ، ‘‘اس عورت سے خوبصورت کوئی نہیں اس دنیا میں جو صرف اور صرف اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے پردہ کرتی ہو‘‘

جس طرح اللہ نے شریعت مطہرہ میں حیاء کا یک مقام اور اہم درجہ بیان فرمایا اور اسے اپنانے کا حکم فرمایا اسی طرح بے حیائی ، بے شرمی اور فحاشی سے سختی سے منع فرما دیا۔چنانچہ پاکدامنی کو بہترین عبادت قرار دینے  کے بعد اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے۔’’شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے۔‘‘ جب کہ اللہ تعالی بے حیائی سے روکتا ہے۔چنانچہ فرمایا:’’ یقیناً اللہ عدل، نیکی، قرابتداروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برے کاموں اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔‘‘

سورۂ اعراف میں فرماتا ہے:’’ کہہ دیجیے میرے پروردگار نے ہر قسم کی اعلانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے۔فحش کی تعریف کرتے ہوئے راغب اصفہانی کہتے ہیں:’’ہر بری شے کو فحش کہتے ہیں چاہے اس کا تعلق فعل سے ہو یا قول سے۔‘‘(مفردات راغب،ص ۳۷۴ )

ان تمام ارشادات کوسامنے رکھتے ہوئے ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہمارے حیاء و عفت والے معاشرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یورپ کے ننگے اور شرم و حیاء سے عاری معاشرے میں ڈھالنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں ، دن رات فلموں ، ڈراموں ، اخباروں ،حیاء سوز لٹریچروں ،مغربی مخلوط تہواروں اور مخلوط طرزِ تعلیم  کے ذریعے ہماری نوجوان نسلوں کومادر پدر آزاد معاشرے کی طرح آوارگی کا  درس دیا جارہا ہے ۔ اگر یہ سب کچھ ایسے چلتا رہا اور اس پر شرفاء اور نیک لوگ خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہےتو ایک دن ہم سب ننگِ دین و ننگِ ملت بن کر شرم و حیاء سے عاری ہوجائیں گے اور اپنا  وقار و  تہذیب سے محروم ہوجائیں گے اور جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر متعارف کرانا چاہتے اور مسلم معاشرے میں اسے رائج کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے بارے سورۂ نور کی اس آیت میں وعید ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہے۔“ یعنی وہ تمام ذرائع اور وسائل جس سے فحاشی وعریانی اور بے حیائی کی اشاعت‘ بے راہروی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلیں ممنوع اورحرام ہیں۔

یہ سوچنے اور خاموش بیٹھے رہنے  کا وقت نہیں ،ہمیں  حیاء ،پاکدامنی اور عفت کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہوگا ، اس کا سب سے پہلا اور مؤثر مرحلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا اور خود کو حیاء و پاکدامنی کے زیور ِ حسن سے آراستہ کرنا ہوگا ، تبھی ایک پاکیزہ اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔

حجاب! خواتین کا محافظ



محمد مبشر بدر

اللہ تعالیٰ نے عورت کو شرم و حیا   کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے۔بلکہ یہ چیزیں اس کی فطرت اور جبلت میں شامل کردی گئیں ہیں۔ چنانچہ وہ فطری طور پر حیادار اور عفت پسند ہوتی ہے۔اس کی مثال ایک خوبصورت نگینے کی سی ہے جس کی طرف آنکھیں متوجہ ہوتیں  اور ہاتھ چھونے کے لیے بڑہتے ہیں ۔ اگر اسے چھپا کر نہ رکھا جائے تو چوروں کی نظریں اس کے تعاقب میں رہتی ہیں تاکہ موقع پا کر اس کی نزاکت پر حملہ کردیں ۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے  اسے  پردہ کرنے کا حکم دیا،  دورِ جاہلیت کی طرح گھروں سے باہر نکلنے سے منع کیااور اجنبی مردوں سےکھردرے  لہجے میں بات کرنے کا امر دیا ہے تاکہ کسی بدباطن شخص کی طبیعت میں نرم گفتگو کی وجہ سے فتور واقع نہ ہو جائے ۔

پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لیے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کو باہمی اختلاط سے روکا گیا؛ تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ خصوصیت اب تک باقی تھی اور تقریباً پچاس سال سے غیروں کی حیاسوزی کی تحریک؛ بلکہ یلغار سے ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس اور حد درجہ ماتم کی چیز یہ ہے کہ اس کا مقابلہ اورفحاشی کا خاتمہ کرنے اور اس پر روک لگانے کے بجائے بعض مسلم دانشوران اس کوشش میں ہیں کہ بے حجابی کو جواز کا درجہ دے دیا جائے؛ بلکہ بعض نے تو چہرہ کے حجاب کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے اور اس بات کا دعوی ہی نہیں؛ بلکہ دعوت دینی شروع کردی ہے کہ چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کو کھلا رکھا جائے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیتے ہوئے  فرماتا ہے:’’ اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ‘‘(سورۃ الاحزاب،آیت: ۵۹ )
اسلام نے یہ بتایا کہ عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہے:

ترجمہ : اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔ (سورۃ الاحزاب: ۳۳)
اس سے ظاہر ہے کہ نمائش کے لئے بن سنور کر نکلنا درست نہیں البتہ کسی ضرورت کے لئے باہر نکلنا شرعا جائز ہے چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔ ترجمہ: ’’ تم کو اپنی ضرورتوں کے لئے باہر نکلنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔‘‘

لیکن اس کے لئے اصول وقوانین دے گئے ہیں کہ وہ کس طرح پردہ کا اہتمام کریں کیونکہ پردہ ان کی عفت وعصمت کا محافظ ہے اور عفت وعصمت عورت کا جوہر ہے ، جس عورت کا یہ جوہرداغ دار ہوجاتاہے وہ اخلاق کی بلندی سے اتر کر قعر مذلت میں جا پڑتی ہے اس لئے پردے کا حکم دیا گیا۔

حجاب کے درجات
اسلام نے عورت کے اصولی طور پر گھر میں رہنے اور بوقت ضرورت باہر نکلنے ہردو صورتوں میں پردے کے معتدل ومتوازن حدود وقیود مقرر کئے ہیں ۔

پہلا درجہ:  حجاب کے سلسلہ میں پہلا درجہ حجاب اشخاص کا ہے کہ عورتوں کا شخصی وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو ، وہ اپنے گھروں میں رہیں اور ان کے لباس وپوشاک پر بھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے ، یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے چنانچہ اس سلسلہ میں باری تعالی کا ارشاد ہے ۔: ’’ اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔‘‘  (سورۃ الاحزاب:۳۳ )
اور ارشاد خداوندی ہے: ’’ اور جب عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۵۳)
جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد اور مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:
’’ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں ، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سے ارشاد فرمایا : ان سے پردہ کرو!حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تونا بینا ہیں ، ہم کو تو وہ دیکھ نہیں سکتے ، آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم بھی نابینا ہو؟ اور فرمایا : تم ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘

دوسرا درجہ : ضرورت کے وقت عورت کو جب باہر نکلنا پڑے تو حکم دیا گیا کہ وہ کسی برقع یا لمبی چادر کو سرسے پیر تک اوڑھ کر نکلے ، اس طرح کہ بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہواور وہ خوشبولگائے ہوئے نہ ہو، بجنے والا کوئی زیور نہ پہنے ، راستہ کے کنارے پر چلے ، مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

ترجمہ: ’’ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی ازواج مطہرات و بنات طیبات اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنے اوپر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں ، اس سے بآسانی ان کا شریف زادی ہونا معلوم ہوجائے گا ، انہیں ستایا نہیں جائے گا۔(سورۃ الاحزاب: ۵۹ )

تیسرا درجہ:  گھر کے اندر رشتہ داروں ، عزیزوں ، ملازمین واحباب کے آنے جانے اور انفرادی واجتماعی طور پر کھانے پینے سے منع نہیں کیا گیا البتہ اس سلسلہ میں اصولی ہدایات دی گئیں :

ترجمہ: ’’ اور آپ حکم فرمادیجئے ایماندار عورتوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی اور نہ ظاہر کیا کریں اپنی آرائش کو مگر جتنا اس سے خود بخود نمایاں ہو اور ڈالے رہیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ، نہ ظاہر ہونے دیں اپنی آرائش کو مگر اپنے شوہروں کے لئے یا اپنے باپ کے لئے یا شوہر کے باپ کے لئے یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں کے لئے اپنے بھانجوں کےلئے یا اپنی ہم مذہب عورتوں پر یا اپنی باندیوں پر یا اپنے ایسے نوکروں پر جو عورت کے خواہشمند نہ ہوں یا ان بچوں پر جو عورتوں کی پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہوں اور نہ زور سے ماریں اپنے پاؤں زمین پر کہ معلوم ہوجائے وہ بناؤسنگار جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں اور رجوع کرو اللہ کی طرف تم سب اے ایمان والو تاکہ تم بامراد ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃ النور:۳۱ )

جہاں تک مرد اور عورت کے تعلق کا مسئلہ ہے تو اس میں بعض ایسے رشتے آتے ہیں جو فطرۃ ً عورت کی عصمت وعفت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں یہ وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہے ، ان کو محارم کہتے ہیں جیسے باپ ، دادا ، نانا، بھائی چچا، ماموں ، بھتیجا، بھانجہ ، پوتا ، نواسہ، خسر، وغیرہ اور بہت سے وہ رشتے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز ودرست ہے ان کو غیر محارم کہا جاتاہے جیسے چچازاد بھائی ، ماموں زاد بھائی ، خالہ زاد بھائی ، پھوپھی زاد بھائی ، دیور جیٹھ وغیرہ ۔ اوریہ ایک فطری بات ہے کہ تمام رشتے آپس میں برابر نہیں ہوسکتے ، بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھتی ہی نہیں اور وہ خود اس کی عفت وعصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ، اور بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھ سکتی ہیں اس لئے اسلام نے پردہ کے احکام میں بھی فرق کردیا ہے ، اس لحاظ سے اس کی دوقسمیں بنتی ہیں۔
عورت کے پردہ سے متعلق احکام قرآن مجید کی سات آیات میں بیان کئے گئے ہیں ۔ سورۂ نور کی تین آیات اور سورۂ احزاب کی چار آیات ۔پردے کے بارے میں تقریبا ستر(۷۰) احادیث شریفہ میں احکام بتلائے گئے ہیں۔

شوہر سے پردے کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ اپنی بیوی کے سرسے لیکر قدم تک کے ہر حصۂ بدن کو دیکھ سکتا ہے تاہم آداب میں یہ بات داخل ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ کو نہ دیکھیں۔

وقال الحنفية من الادب ان يغض کل من الزوجين النظر عن فرج صاحبه - (الموسوعۃ الفقھیہ ، ج۳۱ ،ص:۵۳ )

البتہ باپ دادا اور دیگر محارم سے پردے کے سلسلہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ عورت ناف سے لیکر گھٹنے تک ، پیٹ پیٹھ اور ران کو مستور رکھے ۔محارم میں سے کسی کو بھی ان اعضاء کے دیکھنے کی اجازت نہیں ، ان کے علاوہ دیگر اعضاء جیسے چہرہ ، سر، پنڈلی اور بازو وغیرہ تو اس کو دیکھنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...