جمعہ، 18 اکتوبر، 2019

کافروں کے نیک اعمال کا بدلہ کیا ہوگا؟


         مفتی محمد مبشر بدر

         بعض مسلمان دوست کم علمی کی بنا پر ان غیر مسلموں کے بارے تذبذب کا شکار رہتے ہیں جو دنیا میں رحمدلانہ اور نیک اعمال کرتے ہیں کہ آیا وہ  بھی جہنم میں جائیں گے؟؟
 جواب میں جب ہم ( ہاں وہ پھر بھی جہنم میں جائیں گے) کہتے ہیں تو وہ ہم سے بحثنا شروع کردیتے ہیں کہ آپ لوگوں نے جنت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کسی غیر مسلم کو اس کے نیک اعمال کی بنا پر جنت میں داخلہ کیوں نہیں ملے گا؟؟ 

        ہم انہیں قرآن کی رو سے جواب دیتے ہیں کہ: اگر یہ ایمان نہ لائے اور کفر پر مرے تو یقینا جہنم میں جائیں گے ۔ اللہ نے قرآن میں صاف صاف فرما دیا:

      وَالَّذِینَ  کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ  لَمۡ  یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ  اللّٰہَ عِنۡدَہٗ  فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ سورة النور ۳۹﴾

         یعنی " اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہوجسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب ( وہ مشقت جھیل کر)  اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے ۔ اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے ۔ "

          اس آیت میں یہی مفہوم درج ہے کہ کافر لوگ جنت کی امید پر اعمال تو کرتے ہیں لیکن انہیں ریت ہی ملے گی کیوں کہ جنت کے لیے ایمان اور توحید شرط ہے۔ جو کافروں کے پاس نہیں۔ چنانچہ مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ آسان ترجمہ قرآن میں آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

          " ریگستان میں جو ریت چمکتا نظر آتا ہے، دور سے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنی ہو، اسے ’’ سراب‘‘ کہتے ہیں۔ جس طرح سفر کرتے ہوئے آدمیوں کو سراب دھوکا دیتا ہے کہ وہ اسے پانی سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہوتا، اسی طرح کافر لوگ جو عبادت نیکی سمجھ کر کرتے ہیں، وہ سراب کی طرح ایک دھوکا ہے۔"

          سورہ احقاف آیت 20 میں اللہ اسے. مزید وضاحت سے بیان فرماتا ہے:

         وَ یَوۡمَ  یُعۡرَضُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَلَی النَّارِ ؕ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنۡیَا وَ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہَا ۚ فَالۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ  تَفۡسُقُوۡنَ ﴿٪۲۰﴾

           ترجمہ : "  پھر جب یہ کافر آگ کے سامنے لا کھڑے کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔"

          اسی طرح ابن جدعان کفر کی حالت میں فوت ہوا۔ اس کے نیک اعمال کو دیکھ کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کہ کیا اس کے نیک اعمال اسے بروز محشر نفع دیں گے ؟ آگے آپ مکمل حدیث پڑھ کر فیصلہ کریں۔

       عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:    لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ  ( مسلم حدیث 518 )

          " حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کےرسول! ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا : ’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے ، ( کیونکہ ) اس نے کسی ایک دن ( بھی ) یہ نہیں کہا تھا : میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔"

            قرآن پاک اور حدیث نبوی کی ان تصریحات کو سامنے رکھ کر سوچنے سے کفار کے نیک اعمال کا صلہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ہی ان کی نیکیوں کا بدلہ دے دیا جاتا ہے آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ آخرت صرف ایمان والوں کے لیے خاص ہے اس لیے کامیابی اور جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کیے جائیں تب وہ ذخیرئہ آخرت بنیں گے ورنہ چمکتی ریت پر پانی کا گماں کچھ فائدہ نہ دے گا۔

اتوار، 18 اگست، 2019

کیا پاکستان میں قادیانی مظلوم ہیں؟


(ایک عرب قادیانی کی پوسٹ کا جواب)
بقلم :مفتی محمد مبشر بدر

ایک عرب قادیانی غنیم رواح الاطوری نے پوسٹ لگائی کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں، دوکانوں ، مساجد اور املاک کو جلایا جاتا ہے۔ ہزاروں قادیانیوں کو پاکستان میں قتل کر دیا گیا ، اس پر اس نے جمعیت علمائے اسلام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرکے مرزا مسرور علیہ ماعلیہ کا ویڈیو بیان پیش کیا جس میں وہ عذاب الیم کی پیشین گوئیاں کررہا ہے۔ اور پشاور میں ہوئی جمیعت علمائے اسلام کی ریلی کا ذکر کیا جس میں قائد جمیعت نے قادیانی مسئلہ اٹھایا، اس نے عالم مجلس تحفظ ختم نبوت پر الزام جڑا کہ جتنے قادیانی اب تک پاکستان میں مارے گئے ہیں ( حالانکہ یہ جھوٹ ہے) ان کا اصل محرک یہ مجلس ہے، اس نے کافی غم و غصے کا اظہار کیا۔ آپ اس کی عربی عبارت پڑہیں۔

الى كل المعارضين للجماعة الإسلامية الأحمدية ونخص بالذكر ما يسمى بجمعية ختم النبوة وما يسمى بجمعية علماء الإسلام في باكستان الذين جمعوا بالأمس حشودا سمّوها بالمليونية في شوارع وساحات مدينة بيشاور الباكستانية، وألقوا خطابات التكفير والتحريض العدواني ضد الجماعة الإسلامية الأحمدية، وهم المسؤل الأول عن قتل واغتيال المئات من أفراد الجماعة الإسلامية الأحمدية في السنوات الماضية في باكستان، وحرق وتدمير محلاتهم ومنازلهم، بالإضافة إلى تدمير بعض من مساجد الجماعة، وبمباركة ودعم السلطات الباكستانية. إلى كل هؤلاء نقدم مقاطع من خطابات سيدنا أمير المؤمنين حضرة ميرزا مسرور أحمد أيده الله تعالى بنصره العزيز الخليفة الخامس للإمام المهدي والمسيح الموعود عليه السلام.

اس پر اسے یہ جواب دیا:



لما قال نبینا محمد ﷺ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی فلایجوز لشخص ما ان یدعی النبوۃ بعد نبوۃ محمد ﷺ۔ من اعتقد ان یاتی نبی بعد سیدنا محمد ﷺ فقد کفر بما نزل علی محمد ﷺ فقد قال النبی ﷺ انا عاقب یعنی لا نبی بعدہ و لا رسول بعدہ۔ فقد افتیٰ جمیع علماء الامۃ المسلمۃ بان القادیانیین کافرون بالاجماع حتیٰ یتوبوا۔ ما قتل ای قادیانی فی الباکستان بل ہم محفوظ انفسہم و املاکہم۔ لوکان معک الحق لما بقی بیت واحد لہم فی الباکستان مع انہم کثیرون، و لہم ریاسۃ مستقلۃ فی بنجاب اقلیم باکستان۔ الباکستانیون  یطالبون من القادیانیین ان یسلموا قرار بارلیمان الباکستانی بانہم غیر مسلمین لان المیرزا غلام احمد القادیانی قد افتیٰ علیٰ کل من لم یسلم بنبوتہ فہو کافر و قال بتکفیر جمیع المسلمین الذین انکروا ادعاء المیرزا۔ فکیف نقول بانکم مسلمون۔

یعنی: "  جب نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمادیا کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس کے بعد کسی شخص کے لیے ہزگز جائز نہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی آئے گا۔ اگر کسی نے ایسا عقیدہ رکھا اس نے حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کا انکار کیا۔ تمام علماء نے قادیانیوں کے کفر پر متفقہ فتویٰ دیا، تاوقتیکہ وہ توبہ تائب ہوکر اسلام قبول نہیں کرلیتے۔پاکستانی پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول کرکے آپ کو بھی قادیانیوں کو کافر سمجھ کر توبہ کرنا چاہیے۔ پاکستانی مسلمان ، قادیانیوں سے صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلیں۔آپ نے پاکستان میں ہزاروں قادیانیوں کے قتل کی بات کی یہ جھوٹ ہے۔

قادیانیوں کی جان اور مال پاکستان میں محفوظ ہے اگر آپ کی بات سچ ہوتی تو ایک گھر بھی قادیانیوں کا باقی نہ ہوتا جب کہ یہ لوگ بڑی مقدار میں پاکستان میں رہ رہے ہیں۔بلکہ انہوں نے تو صوبہ پنجاب میں ایک الگ ریاست تک قائم کی ہوئی ہے۔ مرزے غلام احمد علیہ ما علیہ نے ان تمام مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ جاری کیا جنہوں نے مرزا کے جھوٹے دعوے کو مسترد کردیا تو پھر ہم قادیانیوں کو مسلمان کیسے مانیں جن کے نزدیک ہم خود کافر ہیں۔"
اس نے اپنی پوسٹ پر میرا کمنٹ ڈیلیٹ کردیا اور پاکستان میں ہوئے قادیانیوں پر فرضی مظالم کے لنکس نکال کرپیسٹ کردیے۔ اس پر میں نے اسے جواب دیا:

ھٰذا کلہ کذب۔ قد اکد فی البرلیمان الباکستانی بان القادنیین غیر مسلمین بعد مناقشۃ طویلۃ بین میرزا ناصر القادیانی و فضیلۃ الشیخ المفتی محمد محمود رحمہ اللہ حول قضیۃ القادیانیۃ حتیٰ انہزم وکیل القادیانیۃ فی الدلائل لما سئلہ مفتی محمد محمود رحمہ اللہ امام اعضاء البرلیمان ما ھو اعتقادکم عن المسلمین الذٰین ینکرون ادعاء میرزا غلام احمد القادیانی قال میرزا ناصر وکیل القادیانیۃ انہم کلہم کفار۔ فقد حصل علی الجواب فکتبت الھزیمۃ لہم فی البرلیمان و المحکمۃ العلیاء، انا اریکم صورکم فی المرآۃ ان شاء اللہ فتبین لکم انکم کاذبون حتماً۔ لقد حذفت تعليقي هذه هي حجة هزيمتك۔ الروابط التي قدمتها هي دعاية للقاديانيين۔
ما افتیٰ العلماء المسلمون بقتل القادیانیین، انما منعوا العامۃ و الخاصۃ عن التعرض لدینہم، و مالہم و انفسہم، حتیٰ لو قام احد بالتعرض و التصدی لعرض القادیانیۃ و انفسہم فالعلماء بریئون عنہ۔ ارنی ایّ فتویٰ فی قتل القادیانیۃ ان کنت صادقا فی دعواک، قد خاضنا معركة قانونية معك لا معرکۃ دامیۃ وان دعانا زمان الی المحاربۃ فلن نتسلل الیٰ وراءنا۔ ان شاء اللہ

یعنی یہ سب جھوٹ اور پروپیگنڈا ہے پاکستانی پارلیمنٹ میں مرزا ناصر قادیانی اور مفتی محمود رحمہ اللہ کے درمیان قادیانی مسئلے پر ایک طویل بحث ہوئی حتیٰ کہ قادیانی وکیل شکست سے دو چار ہوا۔ جب مفتی محمود نے ارکان پارلیمنٹ کے سامنے پوچھا کہ جو مسلمان مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کو نہیں مانتے ان کے بارے تمہارا کیا نظریہ ہے اس نے کہا وہ کافر ہیں۔ اسے جواب مل گیا کہ جب تم مسلمانوں کو کافر کہتے ہو تو تم خود غیر مسلم کیون نہیں؟؟

پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں قادیانیوں کی شکست لکھ دی گئی۔ ان شاء اللہ میں تمہیں تمہارا چہرہ آئینے میں دکھاؤں گا یہاں تک کہ تمہارے سامنے تمہارا جھوٹ کھل جائے۔ آپ نے میرا کمنٹ ڈیلیٹ کیا یہ تمہاری شکست کی بڑی دلیل ہے۔ ہم نے تم سے قانونی جنگ لڑی ہے جس میں ہمیں فتح ہوئی علماء کرام نے قادیانیوں کے جان مال اور عزت سے تعرض کرنے کا فتویٰ نہیں دیا کوئی ایک فتویٰ دکھا دو۔ اگر وقت نے ہمیں تمہارے ساتھ میدان جنگ میں پکارا تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ان شاء اللہ۔

کم عمری میں نکاح اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کی تحقیق


ایک منکرِ حدیث کی پوسٹ پر کیا گیا مکالمہ
بقلم: مفتی محمد مبشر بدر

سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک نکاح کے وقت چھے سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال تھی ۔ یہ بات تمام کتب حدیث میں درج ہے جہاں نبی کریم ﷺ کے نکاح سے متعلق احادیث لائی گئی ہیں۔ کسی ایک بھی کتاب میں ایسا نہیں کہ نکاح کی وقت ان کی عمر سترہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال ہو۔ لیکن آج کے منکرین حدیث  اسلام دشمن عناصر کے اعتراض سے متاثر ہوکر احادیث مبارکہ کا مفہوم بگاڑ کر انہیں مشکوک کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی  کریم ﷺ  کا کم سن لڑکی سے نکاح اور رخصتی کرنا ظلم ہے بلکہ محدثین نے نعوذ باللہ آقا علیہ السلام پر جھوٹ بولا ہے۔

ایک طرف چودہ سو سال کی تحقیقات موجود ہیں، دوسری طرف آج کے دور کے بعض نام نہاد منکرین حدیث ہیں جو احادیث متواترہ کا انکار کرنے پر تلے ہیں۔ انہی کے خوشہ چینوں میں ایک شخص رضوان خالد نامی ہے، جسے عربیت کی شد بد بھی نہیں  حتیٰ کہ اردو رسم الخظ میں لکھی گنتی تک کی پہچان نہیں ہے۔ انہوں  نے اور ان کے ہم مشربوں نے ایسی تمام صحیح اور متواتر احادیث کا انکار کرکے لوگوں کے اذہان میں اس شرعی ماخذ کی قدر اور حجت کم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ میں نے مناسب جانا کہ اس سے اس پر تفصیلی دلیل سے بات کی جائے اور  اس کی تحریر کی کمزوری  واضح کی  جائے۔

 اس نے مشکوٰۃ شریف کے مصنف امام محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ مفہوم کشید کیا کہ سیدہ عائشہؓ سیدہ اسماءؓ سے دس سال چھوٹی تھیں اورسیدہ اسماء کا وصال تہتر۷۳ ہجری میں یعنی ہجرت کے اکہتر ۷۱ سال بعد ہوا اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی تھیں تو ان کی عمر سترہ سال ہوئی اسی سن میں ان کا نکاح ہوا اور رخصتی دو سال بعد ۱۹ سال کی عمر میں ہوئی۔ حالانکہ یہ صاحب مشکوٰۃ کی بات کا مفہوم اور خلاصہ ہی نہیں اور نہ ہی امام الخطیب رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے۔

چنانچہ امام خطیب اسی رسالہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حالاتِ زندگی میں لکھتے ہیں کہ:
عائشة الصديقة أم الموٴمنين: عائشة بنت أبی بکر الصديق خطبها النبیﷺ وتزوجها بمکة في شوال سنة عشر من النبوة قبل الهجرة بثلاث سنين وأعرس بها بالمدينة فی شوال سنة اثنتين من الجهرة علی رأس ثماني عشر شهراً ولها تسع سنين وقيل دخل بها بالمدينة بعد سبعة أشهر من مقدمه وبقيت معه تسع سنين ومات عنها ولها ثماني عشرة سنة» (الاکمال :ص۲۸ )

ترجمہ: "عائشہ صدیقہ اُمّ المومنین: یہ عائشہ ؓ حضرت ابوبکرؓ کی لڑکی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا اور آپ سے مکہ میں شوال کے مہینہ میں نکاح کیا۔ (یہ واقعہ) ۱۰/ نبوت میں ہوا یعنی ہجرت سے تین برس پہلے اور آپ نے ان کو ۱۸/ مہینہ گذرنے کے بعد ۲ ہجری میں اپنی دلہن بنایا جس وقت آپ کی عمر کل ۹ برس کی تھی اور بعض کا بیان ہے کہ یہ خلوت مدینہ میں تشریف آوری کے صرف سات ماہ بعد واقع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا قیام بھی (مکہ کے قیام کی طرح) صرف ۹ ہی برس رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی کل عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔"

اس کے بعد اس کی بڑی دلیل کا کباڑا ہوجاتا ہے۔ دریں گفتگو اس سے عرض کیا کہ قرآن میں نابالغ لڑکی کے نکاح، اس سے شوہر کے تخلیہ اور عدت کے بارے احکامات موجود ہیں اگر میں نے وہ آیت پیش کردی تو اپنا موقف غلط ہونا لکھ دو گے اور قرآنی حکم کو تسلیم کر کے مان لو گے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور رخصتی قرآن کی تعلیم کے مطابق بالکل ٹھیک ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ آیت پیش کریں مجھے یقین ہے کہ وہ میری ہی تائید کریں گی۔ میں نے  سورہ طلاق کی وہ آیت پیش کردی جس میں ہے کہ وہ کم سن بچیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا ان کی عدت تین ماہ ہے اس کا ذکر والائی لم یحضن سے ہے اب عدت اسی عورت کی ہوتی ہے جس کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت کے مطابق شوہر نے تخلیہ کر کے طلاق دی ہو۔ پڑہیے سورہ الطلاق

وَ الِّٰٓیۡٔ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا ﴿۴

 "تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔"

اس آیت میں تین قسم کی عورتوں کی عدت بیان کی گئی ہے اول وہ بوڑہی عورتیں جنہیں بڑہاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوجائے یا انہیں حیض یا استحاضہ میں شبہ لگ جائے، دوم وہ کم عمر لڑکیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا تیسری حمل والیاں۔ اس آیت کو پڑھنے، دیکھنے اور پرکھنے کے بعد بھی موصوف نے گلاٹی کھائی اور اس کا مفہوم غلط کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسا ترجمہ پیش کردیا جو کسی مفسر کے ہاں معتبر نہیں اور نہ ہی کسی مفسر نے وہ ترجمہ کیا ہے۔ کہتے ہیں اس سے مراد نابالغ لڑکیاں نہیں بلکہ وہ بالغ عورتیں ہیں جنہیں حیض رک گیا ہو، اور جامعۃ الازہر کے علماءکا حوالہ دینے لگے کہ میری اس آیت کے بارے ان سے گفتگو ہو چکی ہے انہوں نے میرے والا موقف ہی اپنایا۔ اس پر میں نے مفسرین کرام کی اہم اور معتبر تفاسیر کے حوالے پیش کیے تاکہ موصوف بات سمجھ جائیں اور اپنے موقف پر نظرِ ثانی کریں، چنانچہ عرض کیا:

 آپ شاید کتب تفسیر سے ہی بے خبر ہیں جامعۃ الازہر کے کن علما سے آپ ملے اور آیت کا مطلب سمجھا اس کا مجھے کیسے علم ہو میں آپ کو امت کے مفسرین کی متداول تفسیریں اور ان کی عبارتیں پیش کرتا ہوں جو امت کے اہل علم میں مقبول ہیں اور قرآن فہمی میں انہیں ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ان کے بغیر کتب خانے نامکمل تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں کتب کے حوالے اہل علم اپنی تحریروں میں دیا کرتے ہیں۔ جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ "واللاٰئی لم یحضن" سے مراد نابالغ اور کم عمر لڑکیاں ہی ہیں چنانچہ تفسیر طبری میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے:

(وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) يقول: وكذلك عدد اللائي لم يحضن من الجواري لصغر إذا طلقهنّ أزواجهنّ بعد الدخول. تفسیر الطبری جلد ۲۳ ص ۴۵۲

یعنی  "(وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) فرماتے ہیں کہ یہی حکم ان کم عمر لڑکیوں کا ہے جنہیں کم عمری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو جب کہ انہیں ان کے شوہروں نے دخول کے بعد طلاق دے دی ہو۔"

تفسیر ثعلبی میں اس آیت کے تحت ایک روایت لگائی گئی ہے پڑہیے۔

أخبرنا أبو سعيد محمد بن عبد الله بن حمدون، حدّثنا أبو حاتم مكي بن عيدان، حدّثنا أبو الأزهر أحمد بن الأزهر، حدّثنا أسباط محمد عن مطرف عن أبي عثمان عمرو بن سالم قال: لمّا نزلت عدّة النساء في سورة البقرة في المطلقة المتوفى عنها زوجها، قال أبي بن كعب: يا رسول الله إنّ أناسا من أهل المدينة يقولون قد بقي من النساء ما لم يذكر فيهن شيء. قال: وما هو؟ قال: الصّغار والكبار وذوات الحمل، فنزلت هذه الآيات وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسائِكُمْ ... إلى آخرها۔ (تفسیر ثعلبی جلد ۹ ص ۳۳۹)

یعنی  : " عثمان بن عمرو بن سالم فرماتے ہیں کہ جب ان عورتوں کی عدت کا حکم سورہ بقرہ میں نازل ہوا جو مطلقہ تھی یا ان کا شوہر فوت ہوگیا تھا تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یا رسول اللہ ﷺ ! مدینہ والوں میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی خواتین بھی باقی رہ گئی ہیں جن کی عدت کا حکم بیان نہیں ہوا۔"

آپ ﷺ نے دریافت فرمایا وہ کون ہیں ؟ کہا وہ کم عمر اور بڑی عمر اور حمل والی خواتین ہیں، پس اس پر یہ آیت نازل ہوئی "وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسائِكُمْ ... إلى آخرها۔"


تفسیر کشاف جلد ۴ ص ۵۵۷ میں علامہ جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ هن الصغائر. والمعنى: فعدتهن ثلاثة أشهر، فحذف لدلالة المذكور عليه."

"واللائی لم یحضن وہ عورتیں جنہیں حیض شروع نہیں ہوا سے مراد کم عمر عورتیں ہیں پس ان کی عدت تین ماہ ہے"

تفسیر کبیر میں امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: پڑہیے تفسیر رازی جلد ۳۰ ص ۵۶۳

إِنِ ارْتَبْتُمْ أي إن أشكل عليكم حكمهن  فِي عِدَّةِ الَّتِي لَا تَحِيضُ، فَهَذَا حُكْمُهُنَّ، وَقِيلَ: إِنِ ارْتَبْتُمْ فِي دَمِ الْبَالِغَاتِ مَبْلَغَ الْإِيَاسِ وَقَدْ قَدَّرُوهُ بِسِتِّينَ سَنَةً وَبِخَمْسٍ وَخَمْسِينَ أَهُوَ دَمُ حَيْضٍ أَوِ اسْتِحَاضَةٍ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ فَلَمَّا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا عِدَّةُ الصَّغِيرَةِ الَّتِي لَمْ تَحِضْ؟ فَنَزَلَ: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ أَيْ هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْكَبِيرَةِ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ عِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ، فَقَامَ آخَرُ وَقَالَ، وَمَا عِدَّةُ الْحَوَامِلِ يَا رَسُولَ اللَّه؟ فَنَزَلَ: وَأُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ مَعْنَاهُ أَجَلُهُنَّ فِي انْقِطَاعِ مَا بَيْنَهُنَّ وَبَيْنَ الْأَزْوَاجِ وَضْعُ الْحَمْلِ، وَهَذَا عَامٌّ فِي كُلِّ حَامِلٍ،

خلاصہ یہ ہے کہ "وہ بڑی عمر کی عورتیں جن کا حیض بڑی عمر کی وجہ سے بند ہوگیا اور وہ حیض سے ناامید ہوگئیں ان خواتین کی عمر کا اندازہ فقہاء نے ساٹھ سال یا پچپن سال سے لگایا ہے کی عدت سے متعلق جب آیت نازل ہوئی کہ تین ماہ ہے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یارسول اللہ ﷺ! اس کم عمر صغیرہ لڑکی کی عدت کا کیا حکم ہے جسے حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو؟"

تو یہ آیت نازل ہوئی وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ پس وہ اس بڑی عمر والی عورت کے حکم کے مرتبے میں ہے جس کا حیض رک گیا ہو۔ کہ تین ماہ عدت ہے۔ پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یارسول اللہ ﷺ حاملہ عورتوں کی عدت کیا ہے؟ تو یہ آیت وَأُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ نازل ہوئی۔

محترم میں بیسیوں بلکہ سیکڑوں کتابوں کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ یہاں نابالغ لڑکی کی ہی عدت کا بیان ہوا ہے اس لیے جو معنیٰ آپ نے پیش کیا وہ ٹھیک نہیں اور نہ ہی اسلاف میں سے کسی نے ایسا معنیٰ کیا ہے اس کا معنیٰ وہی ہے جسے میں نے مفسرین ائمہ کے اقوال سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ قرآن صرف ترجمے سے ہی نہیں سمجھ آتا بلکہ ترجمے کے ساتھ صحابہ کرام ، محدثین اور فقہائے کرام اور مفسرین کا فہم بھی لازم ہے۔ جب خالق کائنات  ایک بات کی اجازت دیتا ہے تو نبی کریم ﷺ پر سیدہ عائشہ سے کم عمری میں نکاح کرنے پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟

اسلام امن کا داعی یا فساد کا سبب


مفتی محمدمبشر بدر

عالمِ اسلام مخدوش حالت سے گزر رہا ہے۔مسلمانوں کو اسلام کا نام لیوا ہونے کی سزادی جارہی ہے۔جس اسلامی خطے پر نظر دوڑاؤ اس کا پیرہن خون سے تر بتر نظر آتا ہے۔ جہاں اسلامی تحریک اٹھتی ہے اسے بزورِ بازو دبا دیا جاتا ہے۔ اسلامی شناخت رکھنے والوں کو دہشت گرد سمجھا جاتاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بے بنیاد الزام ہے کہ مسلمان بزورِ بازو تمام دنیا پر اسلامی نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔تمام لوگوں کو ایک سسٹم میں قید کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کی چودہ سو سالہ تایخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جس میں کسی غیر مسلم کو جبراً مسلمان کیا گیا ہویا ان کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کی گئی ہو۔

تمام ادیان میں اسلام وہ واحد دین ہے جس کے مطلب اور مفہوم سے امن اور سلامتی کا درس ملتا ہے ۔جو اپنے پیروؤں کو امن ، محبت اور سلامتی سے زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے۔ بھلا وہ دین جو جانوروں ، چوپایوں اورغیر موذی حشرات کو تکلیف دینے اور انہیں بلاوجہ مارنے سے روکتا ہے وہ انسانیت کی جان، مال اور متاع کو بلاوجہ ضائع کرنے کی کیوں کر تلقین کرے گا۔ وہ اس سے اس کا مقام کیوں کر چھینے گا۔ وہ کیوں کر دہشت گردی کو فروغ دے کردنیا کا امن و امان تباہ کر ے گا؟

اسلام کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیاجائے تو واضح ہو جائے گا کہ اس نے زمانے میں رسوا اور بے عزت عورتوں کو عزت کا تاج پہنایا۔ انہیں ظلم اور تشدّد کی چکی سے نکال کر شفقت اور رحمت کی آغوش میں بٹھایا۔ انہیں ماں، بہن،بیٹی اور بیوی کا درجہ دے کرعزت اور شرف کی خلعت سے نوازا۔ جب کہ دورِ جاہلیت میں پیدا ہو تے ہی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا یا اس سے جانوروں کی طرح مشقت والا کام لیا جاتا تھا۔ اسے کوئی مقام حاصل نہ تھا۔ صرف خواہشات کی تکمیل کے لیے بطور رکھیل رکھا جاتا۔ اسلام نے آ کر اسے تحفظ عطاکیا اور اس کے قدموں میں جنت رکھ دی ۔

اسلام نے بے زبان جانوروں کو ان کے حقوق عطا کیے ،جب کہ اس سے پہلے ان پر زیادہ بوجھ لادا اور چارہ کم ڈالا جاتا تھا۔ اسلام نے اس ظلم اور مصیبت کو رفع کیا، حد سے زیادہ بوجھ لادنے اور کم چارہ کھلانے سے منع کیا۔ جو دین بے زبان جانوروں کو حقوق عطا کرے وہ کیوں کر فساد،بدامنی اور خونخواری کا درس دے سکتا ہے؟

صرف یہ ہی نہیں اسلام نے تو مزدوروں کو بھی حقوق عطاکیے ہیں۔ اسلام سے پہلے مالدار اور جاگیر دار مزدوروں سے کام زیادہ لیتے اور بدلے میں یا تو اجرت ہی کم دیتے یا بالکل دبا لیتے تھے۔نہ وہ بچارا مزدوری چھوڑ سکتا اور نہ ہی اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکتا۔ یوں وہ ظلم کی چکی میں پستا رہتا۔ اسلام نے آ تے ہی اعلان کیا کہ مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے مزدوری ادا کرو۔خود آقا علیہ السلام نے مزدور کا ہاتھ چوم کر فرمایا: "محنت مزدوری کر کے کمانے والا اللہ کا دوست ہے"۔ یہ بات دعوے سے کی جاسکتی ہے کہ جتنا اسلام نے مزدور کو مرتبہ اور مقام عطاکیا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں کیا۔ غرض ایک لمبی فہرست ہے جو اسلام کے عدل و انصاف اور اخوت و مساوات جیسے خوبصورت عنوانات سے سجی ہوئی ہے۔ آپ انصاف کیجیے بھلا ایسا خوبصورت مذہب دہشتگردی اور انارکی پھیلانے کا سبب کیسے بن سکتاہے؟کیوں کر کسی پر جبرکر کے اسے اسلام لانے پر مجبور کر سکتا ہے؟

ماہِ ذوالحج کی اہمیت اورخصائص

مفتی محمد مبشر بدر
ماہِ ذوالحجہ ہجری تاریخ کا آخری مہینہ ہے۔ اس  پر قمری سال کا اختتام ہوجاتا ہے پھر محرم سے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس ماہِ مقدس کو بنیادی طور پر دو وجوہات سے منفرد اور امتیازی مقام حاصل ہے۔ اول یہ کہ اس ماہ کا شمار اشہرِ حُرُم یعنی حرمت والے چار مہینوں ( ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب) اور اشہر حج میں ہوتا ہے۔ اشہر حج یعنی حج والے مہینے جو کہ تین ہیں: شوال، ذوالقعدہ اورذوالحجہ کےپہلے  دس دن ۔ اسی ماہ  اسلام کے پانچویں رکن حج کی دائیگی کے لیے لوگ دور دراز مقامات سے سفر کرکے حرم شریف پہنچتے ہیں اور اپنے رب کے حضور فریضہ بجا لاتے ہیں۔ تبھی اس ماہ کو ذوالحجہ یعنی حج والا مہینہ کہا جاتا ہے۔یہ اس ماہ کی اہم خصوصیت ہے جو اسے باقی مہینوں سے ممتاز کرتی ہے۔

حج ارکان اسلام میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ چنانچہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: " اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، لا الٰہ الا اللہ  و اَن محمدا رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، روزہ رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو حج بیت اللہ کرنا۔" حج کی فرضیت کی تاریخ کے بارے پانچ ہجری  ، چھے، نو اور دس ہجری کے اقوال ملتے ہیں جن میں آخری دو زیادہ راجح معلوم ہوتے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی حج کی عبادت مشروع تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد کے لوگ حج کرتے تھے لیکن  عمرو بن لحی نے جب عرب میں بت پرستی کو رواج دیا تو حج کے احکام اور طریقے میں بھی رد و بدل کیا گیا۔ہم ملتِ ابراہیمی ؑ پر ہیں  اور حج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار ہے۔ تعمیر بیت اللہ کے بعد انہوں نے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی تھی، جس کے جواب میں اس وقت سے  اب تک لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں اور حکم ربی بجا لاتے ہیں۔
چنانچہ اللہ فرماتا ہے:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26 ) وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) (سورۃ الحج)

ترجمہ: " اور جب کہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو ( لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں۔"
حج اور دیگر عبادات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دیگر عبادات کہیں اور کسی وقت بھی ادا کی جاسکتی ہیں لیکن حج ایسا فریضہ ہے کہ مخصوص ایام (یعنی ذوالحجہ کے پانچ دن) میں مکہ مکرمہ کے مخصوص مقامات (یعنی مسجد حرام، مزدلفہ، منی اور عرفات) میں ہی ہوسکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دس ہجری میںایک ہی حج کیا جس میں آپ نے امت کو مکمل حج کا صحیح طریقہ سمجھا دیا، جسے حجۃ الوداع  کہا جاتا ہے۔ جس میں آپ ﷺ نے مشہور خطبہ ارشاد فرمایا جو بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی موقع پر نبی کریم ﷺ پر تکمیل دین کی آیت نازل ہوئی اور آپ نے اسلام کے بطورِ دین  مکمل ہونے کا اعلان فرما دیا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا۔ (سورۃ المائدۃ)

ترجمہ: "  آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین ( ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔"

اس ماہ کی دوسری بڑی امتیازی وجہ عید الاضحیٰ ہے۔جو دس ذو الحجہ کو پورے عالم اسلام میں عقیدت اور احترام سے منائی جاتی ہے۔سورہ کوثرمیں اس کا ذکر اس آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ( پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر) میں ہے ۔ عید الاضحیٰ میں سنت ابراہیمی کی اتباع میں جانور کی قربانی کی جاتی ہے ۔ یہ قربانی  سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یادگار ہے جب انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے عزیز از جاں لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا کر اپنے رب کے نام پر قربان کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ کو سیدنا ابراہیم کی یہ ادا، جانثاری اور قربانی اس قدر پسند آئی کہ سیدنا اسماعیل کی جگہ ایک مینڈہا بھیج دیا اور بعد والے لوگوں میں یہ طریقہ جاری کردیا۔ یہ درحقیقت  اس بات کا عملی اظہار تھا کہ ایک مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں دنیا کی  کوئی چیز کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ جان، مال، اولاد اور خاندان سب کچھ اللہ کے حکم پر چھوڑنا پڑ جائے تو چھوڑا جاسکتا ہے لیکن اپنے خالق کو قطعاً نہیں چھوڑا جاسکتا۔ باوجود اس کے کہ اللہ کو ہمارے جان، مال اور اولاد کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ تو اپنے بندوں کو نواز کر آزماتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ کی کتنی اہمیت اور محبت ہے۔

ویسے تو اس  مبارک ماہ کے پہلے عشرے میں تکبیر وتہلیل مستحب اور پسندیدہ ہے، لیکن  نو ذوالحجہ یعنی عرفہ کی نمازِ فجر کے بعد سے تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد  ایک بار تکبیرتشریق  کہنا واجب ہے۔ مرد بلند آواز سے جب کہ خواتین آہستہ آواز سے پڑہتی ہیں۔ نماز عید الاضحیٰ کے لیے جاتے ہوئے راستے میں تبیرےات بلند آواز سے پڑہنی چاہییں۔ تکبیر تشریق یہ ہے:

اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد

اللہ تعالیٰ نے سورہ فجر میں ذو الحجہ کے پہلے دس دن کی قسم اٹھائی ہے۔ نو ذوالحج یعنی یوم عرفہ کا روزہ رکھنامستحب اور باعث اجر ہے چنانچہ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " عرفے کے دن روزہ رکھنے سے مجھے امید ہےکہ وہ گذشتہ اور آئندہ ( دو سالوں) کے گناہ معاف فرما دے گا۔" اسی طرح ترغیب عن البیہقی اور الطبرانی  سے سند حسن کے ساتھ روایت مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: " عرفہ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔" لیکن ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

ہفتہ، 27 جولائی، 2019

پی ٹی آئی حکومت کے ابتدا میں ہی اسلام مخالف اقدامات

محمد مبشر بدر
اہل ایمان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ موجودہ حکومت پر نظر رکھیں کہ وہ کیسے تدریجا اسلامی احکام کو اس ملک سے کالعدم کرتی ہے اور سیکولرازم و لبرازم کی ترویج کرتی ہے۔ وزیر اعظم کا کرسمس سرکاری سطح پر منانے کا اعلان اسی سیکولرازم کی کڑی ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ مغربی اقوام کی تائید اور حوصلہ افزائی کے لیے اس ملک کی مذہبی اسلامی شناخت مٹانے پر تلے ہیں۔ یہ جتنا اقلیتوں پر مرتے ہیں اتنا انہیں اکثریت نظر نہیں آتی۔ یہ اقلیت کے حقوق کی آڑ میں اکثریت کے مزاج، کلچراور اقدار پر حملہ آور ہیں۔ بسنت جیسا ہندوانہ تہوار جس کی بنیاد ہی توہین رسالت ﷺ میں سزا یافتہ ہندو کی سزا سے ڈالی گئی اسے اس ملک میں تہذیب و کلچر کے نام پر نافذ کرنا اور سرکاری سطح پر منانا ایک گھناؤنا اور اسلام بیزارانہ طرز عمل ہے۔

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے تب سے اب تک کے حکومتی اقدامات پر نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس حکومت نے سب سے پہلے قادیانی عاطف کو مشیر بنانے کی ناپاک کوشش کی حالانکہ انہیں حالات کی نزاکت کا علم تھا اب تو فواد چودھری کی وہ خفیہ ویڈیو بھی لیک ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لندن میں قادیانیوں سے ملاقات کے وقت ایک صحافی کے سوال کہ آپ نے عاطف قادیانی کو کیوں ہٹایا کے جواب میں کہا کہ اب تک ملک چند لوگوں (مذہبی لوگوں) کے دباؤ میں تھا اب آپ نے نہیں دیکھا کہ آسیہ مسیح کیس میں حکومت نے ان مولویوں کے خلاف کس قدر سخت ایکشن لیا ہے آپ دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کا منظر کچھ اور ہوگا۔ ہم پاکستان کو ماڈرن پاکستان بنائیں گے۔ یہ وزیر اطلاعات کی گفتگو کا ماحصل ہے کہ وہ کیسے اپنے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھارہے ہیں۔

اس حکومت نے دو عدالتوں سے سزائے موت پانے والی آسیہ ملعونہ کو رہا کروایا اس پر عمران خان کافی فکر مند اور پریشان دکھائی دیتے تھے اور وہ بہت جلد مغربی ایما پر اس ملعونہ کی رہائی چاہتے تھے سو انہوں نے وہ کر دکھایا جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ مغربی پارلیمنٹ میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے اور مبارک بادیں دی گئی جب کہ مسلمانوں نے احتجاج کیا نتیجتاً ان مسلمانوں سے معاہدہ کرکے احتجاج ختم کروایا اور انہیں گھر بھیج دیا پھر فواد چودھری کا بیان آیا کہ آج کے بعد کوئی مولوی احتجاج کرتا سڑکوں پر نظر نہیں آئے گا۔ ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور فورا ًمعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علماء اور مذہبی لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں بھرا جانے لگا۔

اسی حکومت کی رکن پارلیمنٹ خاتون عاصمہ حدید نے پارلیمنٹ میں یہ تجویز پیش کی کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات بنائے اور ان سے دوستی لگائے حالانکہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر یہود و نصاریٰ سے دوستی لگانے سے منع کیا اور انہیں مسلمانوں کا ازلی دشمن بتایا۔

اسی حکومت کے ایک ہندو رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر رمیش نے شراب کے لائسنس کینسل کرنے اور پاکستان میں شراب پر پابندی عائد کرنے کا بل پیش کیا جس پر پی ٹی آئی کے فواد چودھری نے ان کا مذاق اڑایا اور انہیں سستی شہرت کا بھوکا کہہ کر ان کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ پاکستان میں شراب پر پابندی نہیں لگا سکتے کیوں کہ یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے طالبان کا پاکستان نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا شراب پر پابندی کا مطالبہ طالابانائزیشن ہے اللہ اور رسول کا حکم نہیں؟؟اس ملک کو کس نہج پر لے جایا جارہا ہے؟  کیا ریاست مدینہ میں شراب کی کھلے عام اجازت تھی اور لائسنس جاری کیے جاتے تھے؟

اسی حکومت نے سکھوں کے مفاد کے نام پر کرتار پور بارڈر کھول کر قادیانیوں کو راستہ فراہم کیا کیوں کہ بارڈر سے 45 منٹ کے فاصلے پر قادیانی ہیڈ کوارٹر قادیان واقع ہے، اس فیصلے پر قادیانیوں نے خوشیاں منائیں اور مبارک بادیں دی۔ اسی حکومت کے دور حکومت میں کے پی میں چوتھی جماعت کی کتاب میں ختم نبوت کا لفظ ہٹا دیا گیا جسے مسلمانوں کے احتجاج کے بعد دوبارہ بحال کردیا گیا۔

اسی حکومت نے فرقہ ورانہ نفرت روکنے کے لیے علماء سے منبر و محراب کا اختیار چھین کر حکومتی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ سرگرمیاں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بہت ہی کم کہیں ایسا ہوتا ہو کہ فرقہ ورایت کو ہوا دی جاتی ہو جب کہ ملک کی اکثریتی مذہبی مساجد اس سے پاک ہیں۔ دراصل حکومت قادیانیوں کے خلاف بولنے اور لکھنے پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے تاکہ کوئی انہیں کافر نہ کہہ سکے۔ عالمی دباؤ کے پیش نظر حکومت کو یہ اقدام کرنا پڑ رہا ہے تاکہ حکومت کے کسی اسلام مخالف اقدام کی مخالفت منبر سے نہ ہوسکے اور علماء عوام کو حقائق نہ بتا سکیں۔ کیوں کہ علماء سیکولرازم اور لادینیت کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی حکومت نے عوامی خوشنودی حاصل کرنے اور سیکولرپاکستان کا نظام آگے بڑہانے کے لیے ہندوانہ رسم بسنت کی اجازت دی حالانکہ گذشتہ حکومتوں نے جانی نقصان ہونے کی بنا پر اس پر پابندی عائد کررکھی تھی۔

اسی حکومت نے پاکستان میں اسلامیات اور عربی نصاب پڑہانے میں اقلیت کا کوٹہ مقرر کر دیا حالانکہ غیر مسلم اقلیت کا اسلامیات اور عربی سے کوئی واسطہ اور تعلق ہی نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اورتربیت ہے کہ ایک مسلمان ٹیچر یہ علوم پڑہا کر مسلمان بچوں کو اسلام سے روشناس کراسکتا ہے۔ کیا اب ہندو، سکھ اور قادیانی مسلمانوں کو اسلام پڑھایا کریں گے جو خود اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ یہ کیسا اسلام دشمنی پر مبنی اقدام ہے اور کوئی اس کے خلاف بولنے والا نہیں۔ کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا تھا کہ یہودی مسلمانوں کو قرآن سمجھاتے تھے؟؟

اسی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان میں بھارتی فلمیں بند نہیں کر سکتے، فواد چودھری نے کہا کہ وہ غیر ملکی فلم سازوں کو لانے کی کوشش کررہے ہیں، ملک میں 187 سینما سکرینز ہیں جو 1100 ہونی چاہییں۔ اس طرح اس حکومت نے فحاشی کو پرموٹ کرکے اس ملک کو بے حیائی اور بدکرداری کی راہ پر ڈالنے کا عزم کرلیا ہے تاکہ ان فلموں کے ذریعے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوتے رہیں، اس کے لیے 14 ارب روپے مختص کیے جاچکے ہيں۔ کیا یہی ہے ریاست مدینہ کا تصور؟؟

اسی حکومت نے فیملی پلاننگ کا ناپاک منصوبہ پاکستان میں شروع کررکھا ہے تاکہ مسلمانوں کی شرح پیدائش کم ہوجائے حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اللہ نے اس کائنات میں اس سے زیادہ وسعت رکھی ہے جتنی وہ اس میں اپنی مخلوقات بسا رہا ہے یہ اس خدائی نظام سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔

بھائیو! علماء کرام شروع سے کہتے تھے کہ ان بے دین لوگوں کو ووٹ دے کر مت جتواؤ جن کی اپنی حقیقی زندگی میں اسلام کی ادنیٰ رمق بھی باقی نہیں، اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو سب سے پہلے وہ اس ملک سے اسلامی تشخص مٹائیں گے اور اسے سیکولر اور شراب و کباب، اور رقص وسرود کا مرکز بنادیں گے اور مخالفت کرنے والے علماء کو جیلوں میں ڈال کر ان پر تشدد کریں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا حکومت نے اتنے اقدامات کرلیے ہیں سوچیں وہ آنے والے دنوں میں کیا کرنے والی ہے۔ اللہ کی پناہ مانگیں اور توبہ تائب ہوں۔ اس تحریر کو خوب سے خوب شیئر کریں تاکہ حق لوگوں تک پہنچتا رہے اور مسلمان حالات کی نزاکت سمجھ جائیں۔

بدھ، 3 اپریل، 2019

قبول اسلام کا قضیہ اور میڈیائی پروپیگنڈا


محمد مبشر بدر
ایک کالم نظر سے گزرا، جسے کسی لبرل صحافیہ نے لکھا۔ اسے گھوٹکی سندھ کی نادیہ اور آسیہ نامی دو نومسلم لڑکیوں کے مسلمان ہونے پر شدید اختلاف اور غصہ ہے، اپنے کالم میں اسی خفگی کا اظہار کرکے اپنی اسلام دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کیا، موصوفہ نے لڑکیوں کے اغوا اور جبری تبدیلئ مذہب کا الزام مسلمانوں کے سر تھونپ دیا۔ حالانکہ نہ تو یہ اغوا تھا اور نہ ہی جبر، نومسلم لڑکیوں نے اپنی مرضی سے ہی اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکوں سے شادی کرلی۔ یہ بات مسلم ہے لیکن یہودی سرپرستی میں چلنے والی نیوز ایجنسی " بی بی سی" نے اس متعصبانہ اور غلط اوہام پر مبنی کالم کو نمایاں جگہ دی۔ نومسلم لڑکیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے جبرا اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی خوشی سے قبول کیا ہے۔ وہ اپنے تحفظ کے لے ماری ماری پھر رہی ہیں اور ہائیکورٹ سے التجا کررہی ہیں کہ ان کے خلاف غلط میڈیائی پروپیگنڈا ختم کیا جائے اور ان کی جان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ قبول اسلام پر ویڈیو بیانات بھی سامنے آچکے۔ لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی بلکہ ان کے لے مزید مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں تاکہ کوئی غیر مسلم اسلام قبول ہی نہ کرسکے۔
میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہم ایک اسلامی ملک میں جی رہے ہیں؟ ہم نے اپنا ملک کن کے ہاتھوں میں سونپ دیا ؟ ان لوگوں کے جو اسلام پر یقین ہی نہیں رکھتے اور مسلمانوں میں پیدا ہوکر بھی فکری الحاد اور ارتداد کا شکار ہوچکے ہیں، ایسے ملحدین میڈیا پر ہر سو چھا چکے ہیں، پاکستان کے کلیدی عہدوں اور وزارتوں پر انہیں بڑی مقدار میں تعینات کردیا گیا ہے۔ میڈیا مسلمان نسلوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرے تب یہ موم بتی مافیا اسے تحفظ فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دو ماہ قبل " رہف " نامی سعودی لڑکی نے اسلام چھوڑا تو اسے مکمل تحفظ فراہم کیا گیا اور کینیڈا نے اسے شہریت دے دی، موم بتی مافیا اس پر خوشی کے شادیانے بجاتا رہا کسی نے آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی جبر اور اغواء کا الزام لگایا، اس کے برعکس اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرے تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اللہ انہیں کافی ہو، انہوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔
کالم نگار کویہ غم ستائے جارہا ہے کہ آخر قیام پاکستان کے وقت 23 فیصد اقلیتیں سکڑ کر 5 فصد کیوں رہ گئی ہیں؟ ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے وہاں تو ریاستیں اور حکومتیں بھی غیرمسلموں کی ہیں پھر وہاں کفر کیوں سکڑ رہا ہے اور آئے دن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ یہ تو اسلام کا حسن ہے جو پھیلتا جارہا ہے اور اس پھلاؤ کی نوید قرآن سناتا ہے۔ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو جبراً مسلمان کرنے پر رضامند نہیں اور نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے الزامات لگانے کے بجائے حقائق کا ادراک کرنا ناگزیر ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کی سورت ممتحنہ میں واضح فرماتا ہے کہ اگر غیر مسلموں کی عورتیں مسلمان ہوکر تمہارے پاس آجائیں تو انہیں جانچو کہ یہ مسلمان ہوگئی ہیں یا نہیں اگر مسلمان ہوگئی ہوں تو انہیں کافروں کے حوالے نہ کرو۔ ؎
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ ؕ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ ؕ  (الممتحنۃ)
ترجمہ: " اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو ، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں۔"
کاش ان لبرلز کو ان کے والدین نے قرآن کا علم سکھایا ہوتا تو آج یہ اسلام دشمنوں کی صفوں میں نہ کھڑے ہوتے اور قرآن کے برخلاف شیطانی راہ اختیار نہ کرتے۔ آج اسلام کی راہ میں رکاوٹ کوئی غیر مسلم نہیں، وہ تو پہلے ہی اسلام کی سچائی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں بلکہ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ یہی اسلام کے ظاہری دعوے دار ہیں جو آئے روز پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے اسلامی نظریے کی بقا اور تحفظ کے لیے ان کا صفایا کرنا ضروی ہے انہیں برطرف کرنا اور اعلیٰ اور کلیدی عہدوں سے معزول کرنا ایک لازمی امر اور وقت کا تقاضا ہے۔ ان لفافہ خور صحافیوں کی صفائی بھی ضروری ہے تاکہ پاکستانی میڈیا پاکستان کی صحیح ترجمانی کرسکے، ورنہ یہ پاکستان میں بیٹھ کر اسلام دشمنوں سے روپیہ لے کر انہیں کی زبان استعمال کرتے رہیں گے۔ اس کے لیے پاکستانی عدالتوں اور اسلام کا درد رکھنے والے حکمرانوں سے التماس ہے کہ وہ پاکستان کے نظریے کی حفاظت کریں اور ایسے اسلام دشمن عناصر کے خلاف کاروائی کریں اور اسلام قبول کرنے والی بچیوں کی بات توجہ سے سن کر انہیں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی دی جائے۔
اسلام کسی کو جبراً مسلمان کرنے کی اجازت نہیں دیتا، مسلمان یہ بات بخوبی جانتے ہیں لیکن اپنی خوشی سے مسلمان ہونے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اور انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...