جمعہ، 18 اکتوبر، 2019

کافروں کے نیک اعمال کا بدلہ کیا ہوگا؟


         مفتی محمد مبشر بدر

         بعض مسلمان دوست کم علمی کی بنا پر ان غیر مسلموں کے بارے تذبذب کا شکار رہتے ہیں جو دنیا میں رحمدلانہ اور نیک اعمال کرتے ہیں کہ آیا وہ  بھی جہنم میں جائیں گے؟؟
 جواب میں جب ہم ( ہاں وہ پھر بھی جہنم میں جائیں گے) کہتے ہیں تو وہ ہم سے بحثنا شروع کردیتے ہیں کہ آپ لوگوں نے جنت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کسی غیر مسلم کو اس کے نیک اعمال کی بنا پر جنت میں داخلہ کیوں نہیں ملے گا؟؟ 

        ہم انہیں قرآن کی رو سے جواب دیتے ہیں کہ: اگر یہ ایمان نہ لائے اور کفر پر مرے تو یقینا جہنم میں جائیں گے ۔ اللہ نے قرآن میں صاف صاف فرما دیا:

      وَالَّذِینَ  کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ  لَمۡ  یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ  اللّٰہَ عِنۡدَہٗ  فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ سورة النور ۳۹﴾

         یعنی " اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہوجسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب ( وہ مشقت جھیل کر)  اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے ۔ اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے ۔ "

          اس آیت میں یہی مفہوم درج ہے کہ کافر لوگ جنت کی امید پر اعمال تو کرتے ہیں لیکن انہیں ریت ہی ملے گی کیوں کہ جنت کے لیے ایمان اور توحید شرط ہے۔ جو کافروں کے پاس نہیں۔ چنانچہ مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ آسان ترجمہ قرآن میں آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

          " ریگستان میں جو ریت چمکتا نظر آتا ہے، دور سے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنی ہو، اسے ’’ سراب‘‘ کہتے ہیں۔ جس طرح سفر کرتے ہوئے آدمیوں کو سراب دھوکا دیتا ہے کہ وہ اسے پانی سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہوتا، اسی طرح کافر لوگ جو عبادت نیکی سمجھ کر کرتے ہیں، وہ سراب کی طرح ایک دھوکا ہے۔"

          سورہ احقاف آیت 20 میں اللہ اسے. مزید وضاحت سے بیان فرماتا ہے:

         وَ یَوۡمَ  یُعۡرَضُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَلَی النَّارِ ؕ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنۡیَا وَ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہَا ۚ فَالۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ  تَفۡسُقُوۡنَ ﴿٪۲۰﴾

           ترجمہ : "  پھر جب یہ کافر آگ کے سامنے لا کھڑے کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔"

          اسی طرح ابن جدعان کفر کی حالت میں فوت ہوا۔ اس کے نیک اعمال کو دیکھ کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کہ کیا اس کے نیک اعمال اسے بروز محشر نفع دیں گے ؟ آگے آپ مکمل حدیث پڑھ کر فیصلہ کریں۔

       عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:    لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ  ( مسلم حدیث 518 )

          " حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کےرسول! ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا : ’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے ، ( کیونکہ ) اس نے کسی ایک دن ( بھی ) یہ نہیں کہا تھا : میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔"

            قرآن پاک اور حدیث نبوی کی ان تصریحات کو سامنے رکھ کر سوچنے سے کفار کے نیک اعمال کا صلہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ہی ان کی نیکیوں کا بدلہ دے دیا جاتا ہے آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ آخرت صرف ایمان والوں کے لیے خاص ہے اس لیے کامیابی اور جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کیے جائیں تب وہ ذخیرئہ آخرت بنیں گے ورنہ چمکتی ریت پر پانی کا گماں کچھ فائدہ نہ دے گا۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...