بدھ، 3 اپریل، 2019

قبول اسلام کا قضیہ اور میڈیائی پروپیگنڈا


محمد مبشر بدر
ایک کالم نظر سے گزرا، جسے کسی لبرل صحافیہ نے لکھا۔ اسے گھوٹکی سندھ کی نادیہ اور آسیہ نامی دو نومسلم لڑکیوں کے مسلمان ہونے پر شدید اختلاف اور غصہ ہے، اپنے کالم میں اسی خفگی کا اظہار کرکے اپنی اسلام دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کیا، موصوفہ نے لڑکیوں کے اغوا اور جبری تبدیلئ مذہب کا الزام مسلمانوں کے سر تھونپ دیا۔ حالانکہ نہ تو یہ اغوا تھا اور نہ ہی جبر، نومسلم لڑکیوں نے اپنی مرضی سے ہی اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکوں سے شادی کرلی۔ یہ بات مسلم ہے لیکن یہودی سرپرستی میں چلنے والی نیوز ایجنسی " بی بی سی" نے اس متعصبانہ اور غلط اوہام پر مبنی کالم کو نمایاں جگہ دی۔ نومسلم لڑکیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے جبرا اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی خوشی سے قبول کیا ہے۔ وہ اپنے تحفظ کے لے ماری ماری پھر رہی ہیں اور ہائیکورٹ سے التجا کررہی ہیں کہ ان کے خلاف غلط میڈیائی پروپیگنڈا ختم کیا جائے اور ان کی جان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ قبول اسلام پر ویڈیو بیانات بھی سامنے آچکے۔ لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی بلکہ ان کے لے مزید مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں تاکہ کوئی غیر مسلم اسلام قبول ہی نہ کرسکے۔
میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہم ایک اسلامی ملک میں جی رہے ہیں؟ ہم نے اپنا ملک کن کے ہاتھوں میں سونپ دیا ؟ ان لوگوں کے جو اسلام پر یقین ہی نہیں رکھتے اور مسلمانوں میں پیدا ہوکر بھی فکری الحاد اور ارتداد کا شکار ہوچکے ہیں، ایسے ملحدین میڈیا پر ہر سو چھا چکے ہیں، پاکستان کے کلیدی عہدوں اور وزارتوں پر انہیں بڑی مقدار میں تعینات کردیا گیا ہے۔ میڈیا مسلمان نسلوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرے تب یہ موم بتی مافیا اسے تحفظ فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دو ماہ قبل " رہف " نامی سعودی لڑکی نے اسلام چھوڑا تو اسے مکمل تحفظ فراہم کیا گیا اور کینیڈا نے اسے شہریت دے دی، موم بتی مافیا اس پر خوشی کے شادیانے بجاتا رہا کسی نے آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی جبر اور اغواء کا الزام لگایا، اس کے برعکس اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرے تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اللہ انہیں کافی ہو، انہوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔
کالم نگار کویہ غم ستائے جارہا ہے کہ آخر قیام پاکستان کے وقت 23 فیصد اقلیتیں سکڑ کر 5 فصد کیوں رہ گئی ہیں؟ ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے وہاں تو ریاستیں اور حکومتیں بھی غیرمسلموں کی ہیں پھر وہاں کفر کیوں سکڑ رہا ہے اور آئے دن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ یہ تو اسلام کا حسن ہے جو پھیلتا جارہا ہے اور اس پھلاؤ کی نوید قرآن سناتا ہے۔ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو جبراً مسلمان کرنے پر رضامند نہیں اور نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے الزامات لگانے کے بجائے حقائق کا ادراک کرنا ناگزیر ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کی سورت ممتحنہ میں واضح فرماتا ہے کہ اگر غیر مسلموں کی عورتیں مسلمان ہوکر تمہارے پاس آجائیں تو انہیں جانچو کہ یہ مسلمان ہوگئی ہیں یا نہیں اگر مسلمان ہوگئی ہوں تو انہیں کافروں کے حوالے نہ کرو۔ ؎
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ ؕ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ ؕ  (الممتحنۃ)
ترجمہ: " اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو ، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں۔"
کاش ان لبرلز کو ان کے والدین نے قرآن کا علم سکھایا ہوتا تو آج یہ اسلام دشمنوں کی صفوں میں نہ کھڑے ہوتے اور قرآن کے برخلاف شیطانی راہ اختیار نہ کرتے۔ آج اسلام کی راہ میں رکاوٹ کوئی غیر مسلم نہیں، وہ تو پہلے ہی اسلام کی سچائی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں بلکہ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ یہی اسلام کے ظاہری دعوے دار ہیں جو آئے روز پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے اسلامی نظریے کی بقا اور تحفظ کے لیے ان کا صفایا کرنا ضروی ہے انہیں برطرف کرنا اور اعلیٰ اور کلیدی عہدوں سے معزول کرنا ایک لازمی امر اور وقت کا تقاضا ہے۔ ان لفافہ خور صحافیوں کی صفائی بھی ضروری ہے تاکہ پاکستانی میڈیا پاکستان کی صحیح ترجمانی کرسکے، ورنہ یہ پاکستان میں بیٹھ کر اسلام دشمنوں سے روپیہ لے کر انہیں کی زبان استعمال کرتے رہیں گے۔ اس کے لیے پاکستانی عدالتوں اور اسلام کا درد رکھنے والے حکمرانوں سے التماس ہے کہ وہ پاکستان کے نظریے کی حفاظت کریں اور ایسے اسلام دشمن عناصر کے خلاف کاروائی کریں اور اسلام قبول کرنے والی بچیوں کی بات توجہ سے سن کر انہیں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی دی جائے۔
اسلام کسی کو جبراً مسلمان کرنے کی اجازت نہیں دیتا، مسلمان یہ بات بخوبی جانتے ہیں لیکن اپنی خوشی سے مسلمان ہونے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اور انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...