پیر، 30 مارچ، 2015

تقلیدِ شخصی کیوں واجب ہے؟



محمد مبشر بدر

پوری امت ایک راستے پر چلتی چلی آرہی ہوتی ہے ۔ اس کا ایک منہج ، ایک نظریہ اور ایک فکر ہوتی ہے ۔ گویا ایک اجتماعیت ہوتی ہے جس میں اس کی قوت و مضبوطی پنہاں ہوتی ہےپر فساد اور انتشار کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جہاں سے اس کے منہج و نظریئے کی یا تو غلط تعبیر و تشریح کی جائے یا اس کے سابق منہج سے سرمو انحراف کرکے الگ راہ نکال لی جائےاور سبیل ِالمؤمنین کی مخالف راہ اختیار کی جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے اور فتنہ ، فساد اور انتشار کو ہوا ملتی ہے ۔

قدرت نے جس طرح اسلام کی بقا کی ضمانت لی ہے جو بذریعہ نزولِ ملائکہ نہیں کہ فرشتے اتریں اور  اسلام کی اشاعت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں بلکہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کو گروہِ انسانیت میں سے پیدا کرکے اپنے پیغام کی تبلیغ کرائی گئی ٹھیک اسی طرح اسلام کی حفاظت کے لیے ایسے رجالِ کار کو امتِ مسلمہ میں پیدا فرمایا جنہوں نے اسلام کےنظریئے اور مزاج کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا اور تھکایا یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا۔

جناب رسول اللہ ﷺ جب تک موجود رہے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے مسائل کے حل کے لیے درِ رسول ﷺ پر حاضر ہوجاتے وہاں سے انہیں مسائل کا حل مل جاتا ۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ علیہ السلام نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا:

 ’’ میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تم میں زندہ رہوں گا۔لہٰذا  (فاقتدوابالذین من بعدی  ابی بکر ؓو عمرؓ ) تم میرے بعد ابو بکر ؓاور عمرؓ کی اقتداء کرنا۔‘‘(ترمذی۔ابنِ ماجہ۔مستدرک)

 اس امر کی تعمیل میں لوگ آقا علیہ السلام کی رحلت شریفہ کے بعد سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آنے لگے۔جب کہ صحابہؓ کرام  میں اجلہ صحابہ ؓ  کی ایک معتد بہ تعداد منصب اجتہاد کو پہنچی ہوئی تھی  جنہیں آقا علیہ السلام کے علم کا وافر حصہ ازبر تھا وہ لوگوں کو نئے پیش آمدہ مسائل کا حل بتایا کرتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب شریعت کے تمام مسائل مدون اور مرتب نہیں ہوئے تھے اس لیے کسی ایک عالم کی اتباع کا اس درجے اہتمام نہیں تھاکہ اس کے سوا دوسرے عالم سے رجوع جائز نہ ہو،  بلکہ لوگ کسی ایک عالم سے رجوع کرتے تو کبھی دوسرے سے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی عالم کے تقویٰ ، تبحرِ علمی  اوراس پر  اعتمادِ خاص کی وجہ سے لوگ اسی سے ہی تمام یا اکثر مسائل میں  رجوع کرتے ، اس کے ہوتے ہوئے دوسرے سے رجوع مناسب نہ سمجھتے ۔اور اس سے اس مسئلے کی دلیل بھی طلب نہیں کرتے تھے بس  تقویٰ اور تبحرِ علمی پر ہی اعتماد کرتےتھے اور یہی اصطلاح میں تقلید کامطلب ہےکہ ’’مجتہد کے قول پر بغیر مطالبۂ دلیل عمل کرنا اس حسنِ ظن کے ساتھ کہ  وہ قرآن و سنت سے ماخوذ اور  مطابق ہے۔

اس نوعیت کی ایک روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ’’ اہلِ مدینہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا کہ ’’کیا جب عورت حیض میں مبتلا ہوجائے تو اس کے لیے طواف زیارت کے بعد طواف ِ وداع چھوڑ کر اپنے وطن جانا جائز ہے؟‘‘جواب میں سیدنا ابن ِ عباس ؓ نے جواز کا قول فرمایا جس پر لوگ کہنے لگے ہم آپ کی بات لے کر سیدنا زید ؓ کی بات نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ عورت کے لیے طوافِ وداع چھوڑ کروطن جانا جائز نہیں۔اس کی وجہ حضرت زید رضی اللہ عنہ پر ان کا زیادہ اعتماد تھاتبھی سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے پر توجہ نہ دی پھر جب سیدنا زید ؓ تک حدیثِ صفیہ ؓ پہنچی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا۔یہ اس بات کی مثال تھی کہ لوگ اپنے اعتماد والے عالم پر دیگر علماء کی نسبت زیادہ رجوع کرتے تھےاور اس کے فتاویٰ کو دوسرے علماء کے فتاویٰ پر ترجیح دیتے تھے۔

یہ سب اس وقت تھا جب مذاہب مدون نہ تھے ۔ ان  کے اصول وضع نہیں ہوئے تھے۔اس لیے لوگ کسی خاص فقہ کے پابند بھی نہ تھے۔بس بعض تو مختلف علماء  سے جہاں موقع ملتا رجوع کرلیا کرتے اور بعض اپنے معتمد علیہ فقیہ کے فتاویٰ پر انحصار کرتے۔خیرالقرون کے زمانے میں فقہاء مجتہدین کی کمی نہ تھی، وہ  ہزاروں کی تعداد میں تھے جو بلادِ اسلامیہ میں پھیلے ہوئے تھے۔لیکن جو مقبولیت اللہ کی طرف سے فقہائے اربعہ امام ابوحنیفہ ،امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کو حاصل ہوئی وہ کسی کو حاصل نہیں ہوئی ۔سب سے پہلے جدید پیش آمدہ مسائل کی تدوین کی طرف سیدنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ متوجہ ہوئے انہوں نے باقاعدہ قرآن و سنت میں غور و خوض کر کے فقہ کے اصول مرتب فرمائےاور یوں سلسلہ چل نکلا اور وقت گزرنے کے ساتھ چار فقہ متعارف ہوگئیں جنہیں لوگوں میں قبولیتِ تامہ حاصل ہوئی۔جب کہ باقی فقہاء کو وہ مقام اور مقبولیت نصیب نہ ہوسکی یہاں تک کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا یاکہیں کسی کتاب میں ان فقہاء کا کوئی ایک آدھ قول مل جاتا ہے۔جب کہ مدون اور مرتب صورت میں ان چار فقہ کو شہرت حاصل ہوگئی۔ جن کا ماخذ صرف اور صرف قرآن و سنت تھا  نہ کہ خواہشاتِ و ہوائے نفس کی اتباع ، جن سے یہ فقہاء ماوراء تھے۔فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین اہلِ علم نے اس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام گوشوں سے متعلق مسائل حل فرما کر امت سے  استنباط و استخراج  کا بوجھ اتار دیا اور صحیح منہج امت کو دے گئے۔

یہ چاروں  فقہ عالمِ اسلام میں رائج ہوگئیں ۔ان کے مرتب اور مدون ہونے کے بعد انتظامی طور پر  لوگ کسی ایک فقہ جن پر ان کا اعتماد تھا عمل پیرا ہوگئے اور اپنی زندگی میں پیش آمدہ تمام مسائل کے حل کے لیے اس فقہ کے ماہر علماء سے رجوع کرنے لگے۔عالم اسلام کے تمام اہل علم کا ان مذاہبِ اربعہ کی حقانیت پر اجماع ہوگیا ۔در اصل یہی اہلسنت والجماعت کا اصلی مصداق ہیں جن سے عدول اہلسنت والجماعت سے خروج ہے۔

ان میں واقع ہونے والا آپس میں فقہی اختلاف در اصل احادیث مبارکہ اور اقوال و اعمال صحابہؓ کے اختلاف کی وجہ سے رونما ہوا ۔ہر فقیہ نے دلائل کی بنیاد پر ایک جانب کو راجح قرار دے کر دوسری جانب کو مرجوح قرار دیا ۔ ان میں سے کسی کو بھی قرآن و سنت کی مخالفت کرنے اور خواہشات پر عمل کرنے والا نہیں کہا جاسکتا ۔جسے بنیاد بنا کر یار لوگوں نے ان چاروں فقہ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے قرآن و سنت سے مخالف اور گمراہی کا موجب بنا کرپیش کیا (معاذاللہ) اور تقلید کے خلاف مکمل محاذ آرائی قائم کرلی اور امت کے متواتر و متوارث طریقے کے خلاف ایک الگ راہ اختیار کرکے خود کو مجتہد سمجھنے لگے۔

یاد رکھیے کہ غیر مجتہد پر چاروں فقہ میں سے کسی ایک فقہ کی تقلید لازم ہے اور یہ لزوم و وجوب کسی شرعی و قطعی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ انتظامی طور پر ہے جیسا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’سوہم تقلیدِ شخصی کو فی نفسہٖ فرض یا واجب نہیں کہتے ، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ تقلید شخصی میں دین کا انتظام ہے اور ترکِ تقلید میں بے انتظامی ہے۔‘‘(خطبات حکیم الامت ؒ: ج:۶ ص: ۱۷۲ )۔ اب یہاں سے اس  اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ بیک وقت  تمام فقہوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا صرف تقلید شخصی کو کیوں واجب کیا گیا ہے؟ اس کا جوا ب یہ ہے کہ  اگر تمام فقہوں کی بیک وقت تقلید جائز قرار دی جائے تو اس سے اتباعِ شریعت کے بجائے اتباعِ خواہشات لازم آتی ہے۔ خاص طور اس فساد کے دور میں جب کہ احکامات پر عمل کمزور پڑگیا ہے اور دین کے بجائے خواہشات کی اتباع کی جارہی ، لوگ ان فقہاء کے اقوال کو کھیل بنالیں گے ۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ  کے ہاں بدن سے خون نکلنا ناقضِ وضو نہیں ہے جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے۔اس طرح بیسیوں مسائل ہیں۔اب کوئی شخص اپنی آسانی دیکھتے ہوئے جس وقت جس پر چاہے عمل کرلے گا جب کہ یہ شریعت پر عمل تو نہ ہوا خواہشات کی تقلید ہوئی جسے حرام کہا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کے عظیم شارح علامہ نووی  ؒ نے اپنی کتاب ’’ المجموع شرح المہذب ، مقدمہ ، فصل فی آداب المستفتی ( ۱ ؍ ۵۵ ) ‘‘ میں لکھا ہےکہ ’’ اگر لوگوں کے لیے اپنی چاہت کے مذاہب پر عمل کو جائز قرار دیا جائے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہوگی کہ وہ ان مذاہب اربعہ کے رخصت اور آسانی والی مسائل کو چن کر عمل کرنے لگیں گے جو کہ خواہشات کی اتباع ہے نہ کہ شریعت کی۔ ‘‘

اسی وجہ سے علمائے کرام  رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ غیر مجتہد کے لیے ان چار مذاہبِ فقہیہ میں سے ایک کی تقلیداس طور پر واجب ہے کہ اس کے سوا پھر دوسرےمذہب کی تقلید نہ کرے۔‘‘ اور یہ وجوب انتظاماً ہے۔اللہ تعالی خواہشات کی اتباع سے محفوظ فرما کر اپنے دین کی اتباع کرنے کی اور امت کے سوادِ اعظم کے ساتھ چمٹا  رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تحریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند


 محمد مبشربدر

پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد اسی وقت سے ہی پڑ گئی تھی جب ملتِ اسلامیہ  کے عظیم جرنیل محمد بن قاسم ؒ نے ایک مسلمان بہن کی پکار پر ہندوستان پر لشکر کشی کر کے فتح حاصل کی  اور ایک عادلانہ حکومت قائم کرکے ہندؤوں کو ان کے حقوق دیئے جو اس سے قبل ہندو راجاؤں نے ضبط کیے ہو ئے تھے۔اس حسن سلوک ، نیکی اور عدل سے متأثر ہوکر لاکھوں ہندو حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے ۔ یہ سلسلہ برابر چلتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ کٹر بند ہندؤوں کو اسلام کی پھیلتی روشنی اور ہندوازم کا خاتمہ بالکل برداشت نہیں تھااسی لیے وہ مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کے جالے بنتے رہے۔

 جب کہ ادھر سرزمینِ ہند پر ایک بہت بڑی افتاد آن پڑی۔ تجارت کی غرض سے ہند میں وارد ہونے والے انگریزوں نے ہندوستان پر چڑہائی کر کے ناجائز قبضہ جمالیا ، مسلمانوں کی  مغلیہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ اس یلغار کو روکنے کے لیے علمائے اسلام میدان میں آئے جن میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں جو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ  کے مشن کے صحیح معنی میں جانشین تھے۔دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کےاساسی  مقاصد میں سے علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج ، تزکیہ ٔ نفوس اور انگریز کے خلاف جہاد شامل تھا۔ علمائے دیوبند نے  مسلمانوں میں اپنے ملک و ملت کو بچانے کے لیے انگریز کے خلاف جہاد کا شوق و ولولہ پیدا کیا جس کی بدولت انگریز کو ہندوستان سے  بھاگنا پڑااور یوں عملا ً تو ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن انگریز کے بنائے ہوئےکالے قوانین کی زنجیروں میں ایسی بری طرح  جکڑا کہ آج تک ان سے آزاد نہیں ہوسکا۔

انگریز کے چلے جانے کے بعد پاکستان میں ہندو  مسلم فسادات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے  دو قومی نظریے نے قوت پکڑی ۔مسلمان یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ انگریز کی مسلط کی ہوئی جمہوریت کی بنا پر ہندو بر بنا اکثریت  مسلمانوں پر حکمرانی کریں گے اور مسلمان ہندؤوں کی غلامی  میں پستے رہیں گے۔ اس وقت کے موجودہ حالات بھی ہندؤوں کے مکروہ عزائم کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ چنانچہ  مسلمانوں نے الگ اسلامی ملک کی صدا بلند کی جس میں وہ اسلامی احکامات کو نافذکرکے اسلام کے زیرِ سایہ اپنی زندگی گزار سکیں۔مسلمانوں کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

اسلامی سلطنت کے قیام کا خیال جو علامہ اقبال نے۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء آل انڈیا مسلم لیگ کےاجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں اپنے خطبہء صدارت کے دوران ظاہر کیاتھا بالکل وہی خیال ان سے بہت پہلے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی مجالسِ عامہ میں کئی بار ظاہر فرما چکے تھے، جس کا تذکرہ مولانا محمد علی جوہر کے دست راز اور کانگریس کے حامی مولانا عبدالماجد دریاآبادی اپنی کتاب ’’ نقوش و تأثرات ‘‘میں بیان کیا ہے۔یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے بارے ان لوگوں کی گواہی ہے جو کانگریس کے حامی اور نظریہء پاکستان کے مخالف تھے اور خود حضرت تھانوی ؒ سے متعدد بار اسلامی ملک کی تاسیس کے بارےسن چکے تھے۔

۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیں جس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانت المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی  کتاب شخصی اصلاح اور  اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح  کے لیے تھیں۔

جب مسلم لیگ  ۱۹۳۹ء  میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی اعظم مفتی شفیع  اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا ۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے ۔ ان کے ہزاروں متوسلین ، ،معتقدین اور خلفاء قصبہ قصبہ اور  قریہ قریہ  پھیلے ہوئے تھے۔

عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’ جب کونسلوں،میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمیعت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا سید حسین احمد مدنی فرمارہے تھےاور دوسری  مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے ، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ  اور پاکستان کی حمایت میں تھے ۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی ۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی شفیع اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر علمائے دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمیعت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو کم علمی اور تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا طوالت کے خوف سے اس عنوان پر پھر کبھی تفصیلاً روشنی ڈالوں گا۔

تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی ہیں ۔ مسلمانانِ ہند کو پاکستان کی طرف ہجرت پر ابھارنے والے علمائے دیوبند تھے۔ قائد اعظم کی تائید کرنے والے علامہ اشرف علی تھانویؒ تھے۔ مشرقی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ تھے ۔ مغربی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے حتی کہ قائدِ اعظم مرحوم نے اپنے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ پڑہائیں چنانچہ وصیت کے مطابق علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے ہی قائد ِاعظم کا جنازہ پڑہایا جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کے تعاون کے بغیر پاکستان کا بننا محال تھا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان میں ہر طبقے کی کوششیں شامل رہی ہیں لیکن جو امتیاز علمائے دیوبند کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں۔تحریک پاکستان میں علمائے دیوبند کے کردار کو جان بوجھ کر فراموش کیا جارہا ہے کیوں کہ اسلام مخالف سیکولر لابی اس ملک میں  اسلامی نظام نہیں چاہتی ،اس لیے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ نئی نسلوں کے ذہن سے یہ بات مٹ جائے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر قائم ہے اور اس میں علمائے اسلام کا بہت بڑا کردار ہے۔

اسلام ایک راہ ِ اعتدال


محمد مبشر بدر
اسلام اعتدال وتوازن اور عدل واستقامت کا دین ہے۔ قرآن وسنت میں بہت سی ایسی آیات واحادیث ہیں جو اسلام کی وسطیت اور اس کے افراط وتفریط سے پاک متوازن ومعتدل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ایسی وسطیت جس میں کوئی انحراف وکجی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ حق ہے جو آسمان سے اترا ہے۔ لہذا وہ غلو وتقصیر اور افراط وتفریط سے پاک ہے۔ نہ اس میں انتہا پسندی ہے اور نہ ا ضاعت وبربادی اور نہ سستی ودلیری۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے۔ تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔‘‘ (البقرہ: ۱۴۳)
سورہ آل عمران میں فرمایا: ’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔‘‘ ایک اورجگہ  فرمایا: ’’ اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بےجا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ یعنی ایسا انسان مغلوب ہو جاتا ہے اور دین پر عمل ترک کر دیتا ہے۔ پس تم سیدھے راستے پر رہو اور رات کے کچھ حصہ کی عبادت سے مدد حاصل کرو۔‘‘  (بخاری)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،انہوں  نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے عقبہ کی شب، جب آپ اپنی سواری  پر تھے فرمایا: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، تو میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آ جائیں۔ آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں  ہلاتے تھے اور فرماتے تھے:انہی جیسی کنکریاں مارو۔ پھر آپ نے فرمایا:لوگو! تم دین میں غلو سے بچو،  کیوں کہ تم سے پہلے   کے لوگوں  کو دین  کے غلو   نے ہی ہلاک وبر باد کردیا۔
ابن جریر طبری  فرماتے ہیں:’’  میرے خیال سے اللہ  تبارک وتعالیٰ  نے  ان مومنوں  کو، دین  میں درمیانہ طریقہ اپنانے کی وجہ سے امت  وسط سے متصف کیا۔ چنانچہ وہ  دین کے بارے میں غلو کرنے والے نہیں۔ان عیسائیوں  کے غلو کی طرح، جنہوں نے ترہیب  میں اور حضرت عیسیٰ علیہ  السلام  کے سلسلے  میں غلو کیا  اور وہ حد سے آگے بڑھ گئے اور انہیں الوہیت کا درجہ دے دیا ۔اور نہ ہی وہ تقصیر  وکوتا ہی والے  ہیں ۔  ان یہودیوں کی  کوتاہی کی   طرح، جنہوں   نے کتاب اللہ کو بدل ڈالا۔ اپنے انبیاء کو قتل کردیا۔ اپنے رب کا انکار  کیا ۔ لیکن وہ دین میں توسط، واعتدال  والے ہیں۔‘‘  اور علامہ  شاطبی نے کہا کہ: ’’  جب آپ شرعی  کلیہ پر غور   کریں گے تو اسے توسط کا ہی حامل دیکھیں گے۔‘‘
میانہ روی اور اعتدال پسندی اسلام کے تمام   شعبوں   میں نمایاں  ہے، جیسے شعبۂ  اعتقاد میں۔ اسلام  اقوام  وملل کے بیچ درمیانی مذہب  بن کرآیا۔چنانچہ اسلام  میں نہ الحاد ہے اور نہ  وثنیت(بت پرستی )، بلکہ ربوبیت  والوہیت اللہ کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح اسلام اسماء وصفات میں تشبیہ وتمثیل اور تحریف  وتعطیل کے قائلین  کے  بیچ درمیانی مذہب ہے۔   اور قضاء  وقدر کے سلسلے میں  اسلام کا موقف، قدریہ اور جبریہ کے دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک معتدل موقف ہے۔
 مسئلہ ایمان  کے سلسلے میں یعنی اہل سنت والجماعت کا موقف افراط وتفریط سے پاک ہے۔ وہ عمل کو ایمان کے لیےحسن و جمال قرار دیتے ہیں اور معصیت کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے، اسی  طرح گنہگار   کو کامل  الایمان نہیں سمجھتے،بلکہ وہ  اپنے  ایمان  کے سبب مومن ہوگا،مگر گناہ کبیرہ کے سبب  فاسق ہوگا۔
نبوت  وولایت  اور صحابیت کے سلسلے میں  بھی توسط ہے، ان لوگوں کی طرح  غلو نہیں جنہوں نے نبیوں اور ولیوں کو رب بنا لیا۔ اور نہ ان یہودیوں کی طرح جنہوں نے نبیوں او رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا۔
اہل اسلام   درمیانی   راہ  اپناتے ہوئے   اللہ کے تمام  رسولوں  اور پیغمبروں پر ایمان  رکھتے ہیں اور اس کی کتابوں  پر بھی۔ اس کے ولیوں  سے محبت  کرتے اور آپ کے تمام صحا بہ  رضی اللہ عنہم سے خوش رہتے  ہیں ۔   اللہ ان سے راضی  ہوا  اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
قارئین ! ایک اور میدان بھی ہے، جہاں اس امت کی اعتدال پسندی واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ اور وہ ہے عبادت اور فطری تقاضوں کی پاسداری کا میدان ،روحانی تجرد ،اور مادی ارتکا زمیں غلو کیے بغیر روح اور بدن کے بیچ نادر رشتے کی بقاء کا مسئلہ، چنانچہ یہاں نہ تو رہبانیت ہے اور نہ ہی صرف مادیت ،بلکہ فرمان حق تعالیٰ کی روشنی میں ایک ربط وسلیقگی ، اور اعتدال ومیانہ روی ہے:قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے: ’’ اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول۔‘‘ (القصص: 77)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کے تبتل (مجرد زندگی گزارنے کی حالت)کی تردید کی اور اس آدمی کی نکیر کی ، جس نے دنیا کی پاکیزہ چیزوں کو اپنے لیے حرام کرلیا، فرمایا: " میں تو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے لیے تقویٰ شعار ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا ہوں۔نماز بھی پڑھتا ہوں اور رات میں سوتا بھی ہوں۔ ساتھ ہی بیویوں سے ہمبستری بھی کرتا ہوں۔‘‘(بخاری ومسلم) اور مسلم وغیرہ میں ہے: ’’ غلو کرنے والے ہلاک ہوئے۔‘‘ اور یہ بھی: ’’ یہ دین آسان ہے اس لیے اس میں نرمی وآسانی سے داخل ہوؤ۔ اور جو دین میں بےجا سختی کرےگا تو دین اس پر غالب آجائےگا۔‘‘
اور انفاق وخرچ کرنے کے سلسلے  میں میانہ روی اس فرمان الہٰی سے واضح   ہے: ’’ اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘  (الفرقان:۶۷) حقوق ومعاملات میں بھی دین کی اعتدال روی نمایاں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق ہے۔ تمہارے گھروالوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حقدار کا حق ادا کرو۔‘‘ (احمد ومسلم)
 کچھ اور اہم شعبے ہیں جن کے اندر اس امت کی اعتدال پسندی اور میانہ روی نمایاں ہے۔ ان کا تعلق تشریع تحلیل وتحریم ،منہج فکر ونظر اور طریق استدلال سے ہے۔ ان شعبوں میں شریعت اسلامیہ نے افراط وتفریط کے بیچ میانہ روی اختیار کی۔ واضح رہے کہ تحلیل وتحریم کے فیصلے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے ۔ ’’إن الحکم إلا للہ‘‘  ’’ فیصلے کا اختیار صرف اللہ کے لیے ہے۔‘‘ ’’ ألا لہ الخلق والأمر‘‘ ’’ اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق اور حاکم ہونا۔‘‘
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ (الأعراف:۳۲)
’’ آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟‘‘
منہج فکر ونظر اور استنباط میں اسلام نے حصول معرفت کے مصادر میں موازنہ کر کے صحیح منقول اور صریح معقول کے بیچ موافقت پیدا کی ہے۔ قواعد وضوابط سے رہنمائی اور شریعت کے اسرار اور رموز کی حکمت میں توافق کا راستہ اپنایا ہے۔ مصالح ومنافع اور خرابی ونقصان کے درمیان موازنہ کیا ہے۔
ان کے علاوہ متعدد مقامات ہیں جہاں اسلام ہمیں راہِ اعتدال پرکھڑا  نظر آتا ہےاور اپنے پیروان کو بھی اسی راہ چلنے کی تلقین کرتا ہے ۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں : ’’ افراط میں پڑنا آسان ہے اور تفریط کی طرف مائل ہونا بھی سہل ہے پر اپنے آپ کو اعتدال پر قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ ‘‘

بدھ، 18 مارچ، 2015

اسلام اور آدابِ معاشرت


محمد مبشر بدر
موجودہ معاشرے میں دینِ  اسلام کو صرف نماز ، روزہ اور دیگر عبادات میں بند کر دیا گیا ہے اور اسی کو ہی دین داری کا معیار سمجھاجارہا ہے حالانکہ اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ اس میں صرف عبادات ہی نہیں بلکہ عقائدبھی ہیں معاملات کی ایک لمبی فہرست  ہے ۔ اخلاقیات کا وسیع باب موجود ہے جب کہ معاشرت سے آج کل بہت ہی زیادہ پہلو تہی کی جارہی ہے حتیٰ کہ دین دار کہلانے والے طبقات میں بھی اس طرف سے بہت بے پرواہی برتی جارہی ہے۔آج منبر و محراب  سے بھی اس موضوع پر خال خال ہی صدا سننے کو ملتی ہے ورنہ اکثر خطبات اس عنوان سے خالی  ہوتے ہیں ۔
آج باہمی اتفاق و اتحاد کی کمی کا سب سے بڑا سبب سوءِ معاشرت ہے ۔ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ بھائی بھائی سے دست و گریبان ہے۔قلبی انقباض اور مزاجوں میں گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ ہر طرف نفرتوں اور کدورتوں کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ان سب مسائل  کی وجہ معاشرتی بگاڑ ہے۔جب کہ قرآن و سنت میں معاشرتی زندگی گزارنے کے بہت ہی پیارے اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ اگر ان اصولوں کو سامنے رکھ کر زندگی گزاری جائے تو پورا معاشرہ سکھ چین کی زندگی گزار سکتا ہے۔ خاندانی نظام میں جوڑ اور اتفاق پیدا ہوسکتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ مجلس سے متعلق ایک ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’ اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے جگہ میں کشادگی کردو توجگہ فراخ کر دی کرواور جب تم سے کہا جائے کہ کھڑے ہو جاؤ تو کھڑے ہوجایا کرو۔(سورہ مجادلہ  آیت ۱۱ )۔اسی طرح آقا علیہ السلام کا ارشاد پاک مروی ہے کہ دو شخصوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنا حلال نہیں۔خود آقا علیہ السلام مجلس کے آداب کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے چنانچہ جب آپ علیہ السلام کو چھینک آتی تو اپنا منہ ہاتھ یا کپڑے سے ڈہانک لیتے اور آواز پست فرماتے۔اس سے معلوم ہوا کہ اپنے جلیس کی اس قدر رعایت رکھی جائے کہ اس کو سخت آواز سے وحشت و اذیت نہ ہو۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم آپ علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہوتے تو جو جہاں جگہ پاتا وہیں بیٹھ جاتا  یعنی لوگوں کو چیر پھاڑ کے آگے نہ بڑہتا۔
کسی کے گھر میں داخل ہونے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے مبارک اصول بیان فرمائے ہیں چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’ مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔یہ تمہارے حق میں بہتر ہے شاید تم یاد رکھو۔‘‘ (سورہ النور آیت:۲۷ ) ایک بار حضرت جابر رضی اللہ عنہ درِ اقدس پر حاضر ہوئےاور دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا ’’میں ہوں۔‘‘ آپ نے ناگواری سے فرمایا ’’میں ہوں ،میں ہوں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو صاف بات کہنی چاہیے تاکہ دوسرے کو سمجھنےیا پہچاننے  میں دشواری نہ ہو۔ یہ اتنے پیارے اصول ہیں کہ اگر ان کا لحاظ کر کے زندگی گزاری جائے تو خاندانی نظام میں  امن اور محبت میں  اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح گفتگو میں آداب کا لحاظ رکھنے سے  بہت سے سماجی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ آج کل ہر کوئی جدید دور کے جدید تقاضوں میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ سر کھجانے کو وقت نہیں ملتا ، جب انسان شام کو تھکا ہارا اپنے گھر یا حلقہء دوستاں میں آتا ہے تو تھکاوٹ کی وجہ سے مزاج میں سختی کا پیدا ہونا فطری عمل ہے جس کا اندازِ گفتگو پر گہرا اثر پڑتا ہے لیکن اگر اس نازک موقع پر ہم ان قرآنی ارشادات کو  مدنظر رکھیں تو  بہت حد تک تعلقات ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’اور لوگوں سے بھلی بات کہنا۔’’البقرہ‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا ’’ اور اپنی چال میں اعتدال اختیارکرو اور اپنی آواز آہستہ رکھو۔بیشک سب سے بری آواز گدہوں کی آواز ہے۔ ‘‘( لقمان )  دیکھیے کس طرح بات کرنے طریقہ سکھا دیا کہ بولنے میں آواز نیچی رہنی چاہیے۔  اونچی آواز میں اور گلا       پھاڑ کر بات کرنا  انتہائی نامناسب اور جانوروں کے مشابہہ عمل ہے۔
اسی طرح کھانا کھانے سے متعلق آقا علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک ساتھ کھانا کھاتے وقت دو دو چھوارے ایک دم نہیں لینا چاہییں تاوقتیکہ اپنے رفیقوں سے اجازت نہ لے لے۔ ‘‘دیکھیں اس حدیث مبارک میں ایک لطیف بات ارشاد فرمادی کہ محض بے تمیزی اور کھانے میں شریک دوسرے ساتھیوں کی ناگواری کے اندیشہ سے ایک ساتھ دودو کھجوریں لینے سے منع فرمادیا۔ایک مرتبہ آقا علیہ السلام کھانا تناول فرمارہے تھے آپ کے ساتھ ایک کم عمر لڑکا کھانے میں شریک تھا جو کھانا کھانے میں مختلف جہات سے لقمے لے رہا تھا آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا اپنے سامنے سے کھاؤ ۔کس قدر ایک قیمتی ادب بیان فرمایا کہ بجائے پورے کھانے میں ہاتھ گھمانے کے اپنی سائیڈ سے کھایا جائے تو اس سےسامنے والے کی طبیعت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بدمزگی سے بچاؤ ہوجاتا ہے۔آپ ﷺ ہاتھ دھو کر اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع فرماتے جب کھانا کھا چکتے تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ایک جگہ آقا علیہ السلام کا ارشادِمبارک ہے کہ’’لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے وقت گو پیٹ بھر جائےمگر جب تک دوسرے فارغ نہ ہوجائیں تب تک ہاتھ نہ کھینچےکیوں کہ اس سے دوسرا کھانا کھانے والا شرما کر ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔شاید اس کو ابھی کھانے کی حاجت باقی ہو۔‘‘
مہمان نوازی بہت مبارک اور اللہ کو پسندیدہ عمل ہے اس میں بھی شریعت میں حد مقرر فرمادی اور مہمان کو تین دن سے زیادہ میزبان کے پاس اس کی مشقت کی وجہ سے رہنے سے منع فرمادیا۔چنانچہ ارشاد فرمایا’’مہمان کے لیے حلال نہیں کہ میزبان کے پاس اتنا قیام کرےکہ وہ تنگ ہوجائے۔‘‘ اس ارشاد میں ایسے امر پر ممانعت ہے جس سے دوسروں پر تنگی ہو۔ غور کیجئے کتنےمبارک اصول آپ علیہ السلام نے ااپنی امت کو سکھائے ہیں۔ معاشرے میں جتنا بگاڑ پیدا ہورہا ہے ان اصولوں کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

مریض کی تیمار داری کو عظیم  نیکی ارشاد فرمایا گیا ہے  لیکن اس میں بھی ایک حد مقرر فرمادی کہ عیادت میں مریض کے پاس ( اس کی مشقت کے پیشِ نظر)  زیادہ دیر تک نہ بیٹھے تھوڑا بیٹھ کر اٹھ کھڑا ہو۔آقا علیہ السلام نے نے صرف اپنے اقوال اور افعال اس کے اہتمام پراکتفا نہیں فرمایا بلکہ خدام کی ذرا بے پرواہی پر ان  کو صحیح آداب پر عمل کرنے پر مجبور بھی فرمایا چنانچہ ایک صحابی آپ کی خدمت میں ہدیہ لے کر بغیر سلام و اجازت کے داخل ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ’’باہر واپس جاؤ اور ’’ السلام علیکم! کیا میں حاضر ہوں؟‘‘ کہہ کر حاضر ہو۔‘‘ در حقیقت لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق کی اساس اور بنیاد یہی امر ہے کہ میرے قول و فعل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے جس کی بنیاد پر انسانیت کو معاشرے میں زندگی گزارنے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔چنانچہ آقا ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ’’ کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ظاہر سی بات ہے کہ معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے جس میں انسان باہم مل کررہتے ہیں ۔یہاں ایک دوسرے سے معاملات پیش آتے ہیں ۔ایک انسان کی دوسرے انسان سے کچھ ضروریات وابستہ ہوتی ہیں ۔ کچھ تعلقات ہوتے ہیں ، رشتہ داروں کے حقوق کی پاسداری کرنی ہوتی ہے ۔اس لیے  شریعتِ مطہرہ میں اس باہمی رہن سہن کے کچھ آداب بیان کیے گئے ہیں ، جن کا لحاظ کرنے سے معاشرے میں پھیلے بگاڑ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر


 محمدمبشربدر 
        سوال اٹھتا ہے کہ ہماری نسلیں اسلامی تہذیب و ثقافت چھوڑ کر انگریزی کلچر کیوں اپنا رہی ہیں ، آخر ایسا کیا ہے جو اسلام نے نہیں دیا؟اخلاق دیئے ، کردار دیا ، امانت و صداقت ، غیرت و شجاعت ، ایمان و یقین ، عدل و انصاف ، نیکی پر اجر ، گناہوں پر عتاب ، اطاعت و عبادت ،  اخوت و رواداری ، حقوق اللہ و حقوق العباد ، مساوات و میراث ایسے اوصاف حمیدہ ، احکام جلیلہ عطا فرمائے، اس کے علاوہ ہم ایک ایسی قوم تھے جن کے در پر کل تک کفار رحم و کرم کی بھیک مانگا کرتے تھے پھرآج  ہم اپنے اقدار چھوڑ کر ایسوں کے پیچھے چل پڑے ہیں جن میں دنیا کی ساری خرافات موجود ہیں ، جن کے معاشروں سے فحاشی اور عریانی کا گند ابل ابل کر ہماری حیا اور پاکدامنی والی تہذیب کو مٹائے جارہا ہے۔ ایسی قوم کے پیچھے کیوں چل پڑے ہیں جن پر خود اللہ نے دنیا و آخرت میں پھٹکار کی ہے، جن کے ہاں نہ حقوق اللہ کا خیال کیا جاتا ہے نہ حقوق العباد کا پاس۔ جن کا خدا معدہ اور مادہ ہے، جو منہ سے لے کر شرم گاہ تک کی سوچتے ہیں ، جن کے سامنے آخرت نہیں؟
      جواب آسان سا ہے کہ دنیا کی قدرو قیمت مال و اسباب سے ہے جسے مادہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ مغرب نے مادہ پر محنت کی ، گارے مٹی پر خود کو کھپایا ، دوسرے مالدار ممالک پر ناجائز قبضہ کیا ، ان کی دولت کو لوٹا پھر اسی دولت سے کمپنیاں بنائیں ، ان کمپنیوں میں قیدیوں سے بلا اجرت مشقت کا کام لیا جس کے بل بوتے پر آج وہ مال و اسباب میں سب سے آگے ہیں ۔ ان کے پاس دنیا کی بادشاہت ہے اس لیے ان کے تمام عیوب کو بھی اہل دنیا کے ہاں فیشن اور ہنر سمجھا جاتا ہے ، جس سے ہمارے بھولے مسلمان مرعوب ہو کر خود کو کوستے اور حلال و حرام کی تمییز کیے بغیر اہل مغرب کی نقالی کرتے ہیں۔      ؎
جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے ۔
ان کا  ہر عیب ،زمانے  کو  ہنر  لگتا  ہے۔
      حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے پہلے ہی فرما دیا تھا:
      ’’اگر اس دنیا کی حیثیت اللہ کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کافروں کو ایک گھونٹ بھی پانی نصیب نہ ہونے دیتا۔‘‘ایک اور جگہ آقا علیہ السلام نے فرمایا جس کا مفہوم ہے:  ’’اگر اہل ایمان کے ایمان کمزور ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ کافروں کے گھروں کے زینے بھی سونے کے بنا دیتا‘‘ ( چونکہ یہ سب دیکھ کر ایمان والے لالچ میں پڑ سکتے تھے اس لیے اللہ نے ایسا نہیں کیا)۔
      اہلِ ایمان کو  دنیا کی دوڑ میں کفار کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا مقصود نظر آخرت کی لامحدود زندگی کو سنوارنا  اوراپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنا ہونا چاہیے، جو اللہ نے ان کے مقاصدِ حیات میں اہم طور پر بیان کیا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان دنیا کو بالکل ہی چھوڑ دے ، شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے ، بلکہ دنیا کے حصول کے ساتھ اول ترجیح اللہ تعالی کے احکامات کو دے جنہیں سامنے رکھ کر وہ اپنے معمولاتِ زندگی احسن طریقے سے سرانجام دے ، اسی میں اس کی فلاح و کامیابی ہے۔مذمت اس بات کی ہورہی ہے کہ انسان دنیا اکٹھی کرنے میں ہی غرق ہوکر اُخروی حیات کو سنوارنے  کے تمام تقاضے بھلا بیٹھے اور اپنی مرضیات پر چل کر اپنے خالق و مالک کے احکامات کو پسِ پشت گرا دے۔
        ہم اپنے محبوب آقا ﷺ کی طرز زندگی کی طرف نظر کریں ،جو ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں ،  اللہ کی طرف سے سب آسائشوں کے اختیار دیئے جانے کے باوجود انہوں نے سادگی اور مسکینی کی زندگی کو آسائش و آرائش کی زندگی پر ترجیح دی۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں میں یہ مشہور واقعہ درج ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:
’’میرے رب نے مجھ پر یہ پیش فرمایا کہ میرے لیےمکہ کے پہاڑوں کو سونے کا بنا دیا جائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ! مجھے تو یہ پسند ہے کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھاؤں تو دوسرے دن بھوکا رہوں تاکہ جب بھوکا ہوں تو تیری طرف زاری کروں اور تجھے یاد کروں اور جب پیٹ بھروں تو تیرا شکر کروں ، تیری تعریف کروں۔‘‘
        اسی طرح ایک اور واقعہ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجرۂ نبوی میں تشریف لے گئے وہاں جا کر دیکھا تو حضورِ اقدس بوریئے پر لیٹے ہوئے ہیں، بوریئے کے نشانات جسم ِاقدس پر نمایاں ہیں ، سرہانے کھجور کا ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے ،مزید اِدھراُدھر نظر دوڑائی تو تین چمڑے بغیر دباغت دیئے ہوئے اور ایک مٹھی جَو ایک کونے میں پڑے ہوئے ملے یہ گھر کا کل سامان تھا۔ سیدنا عمر کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔ حضورِ انور ﷺ نے دریافت فرمایا: عمر ! کیوں رورہے ہو؟عرض کیا یارسول اللہ! کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریئے کے نشانات آپ کے بدن مبارک پر پڑ رہے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  عرض کیا: یارسول اللہ!دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے،ان پر تو یہ وسعت ، یہ قیصر و کسریٰ تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور خاص بندے ہوکر یہ حالت۔ نبی اکرم ﷺ تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے،حضرت عمر کی یہ بات سن کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو ؟ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہت بہتر  ہے۔ ان کفار کو طیبات ( آسائش و آرائش) اور اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فورا عرض کی یارسول اللہ ! میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔
       پیارے رسول ﷺ کی کا طرز زندگی اور یہ تعلیمات دیکھ کر بھی کیا ہم اللہ و رسول کے دشمن کفارکی نقالی سے باز نہیں آئیں گے؟مومن کا اصل ٹھکانا آخرت ہے ، ہم دنیا کی دوڑ لگانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے بلکہ آخرت کی دوڑ کے لیے پیدا ہوئے ہیں ممکن ہے کچھ دوست میری بات کو دقیانوسی قرار دیں لیکن جو حق ہے وہ بیان کرنا پڑے گا جس کا کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ آقا علیہ السلام نے علاماتِ قیامت میں ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی کہ لوگ فخر اور ریا کے طور پر اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔آج کے اس مادی دور میں دیکھ لیا جائے دنیا داری اور مالداری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے مقابلہ بازی ہورہی ہے ، لمبی لمبی عمارتیں بنا کر ایک دوسرے سے بڑہنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غیرمسلمز کو چھوڑ کر آپ مسلمانوں کی حالت ِ زار دیکھیے ، دبئی میں برج خلیفہ کی تعمیر پر پوری دنیا سے دادِ تحسین سمیٹی جارہی ہے،یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے2722فٹ لمبی اس عمارت کے163فلور ہیں ۔دنیا کی ہر آسائش اس عمارت میں دستیاب ہے۔ دنیا کی بلند ترین کلاک ٹاور مکہ میں بیت اللہ کے سامنے ابراج البیت ٹاور نامی کمپلیکس میں ( جو دنیا کی تیسری بلند ترین عمارت ہے) سات بڑے بلندمیناروں میں سے چھ 42 سے 48 منزلہ کے درمیان یہ کلاک ٹاور موجود ہے، جو دوسرے میناروں سے تقریباً دوگنا اونچا ہے۔
      بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنا حقیقی مقصد بھول کر عارضی اور ختم ہوجانے والی دنیا میں اپنی جان ، وقت اور مال کھپا رہے ہیں جو یقینا یہیں رہ جائے گا، اور یہ سب ہم غیروں کی نقالی میں کرہے ہیں تاکہ ان سے اونچے اور بلند معلوم ہوں جس کی  آقا علیہ السلام نے مذمت فرمائی ہے۔ہم بلاشبہ دنیا میں آگے بڑہیں ، اپنا دفاعی اور معاشی نظام بہتر سے بہتر بنائیں لیکن اپنے مقصدِ حقیقی سے بالکل غافل نہ ہوں ۔ خود اسلام دنیا و آخرت کی بھلائی اور آسودگی حاصل کرنے کی دعائیں اور تدبیریں سکھاتا ہے ، اس کے ساتھ ہمارے اعمال کا ہمارے احوال پر اثر انداز ہونے کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اسلام روحانیت اور مادیت کو ساتھ لے کر چلتا ہے، جب کہ ہم روحانی اقدار کو پامال کر کے صرف مادیت کے پیچھے بھاگتے چلے جارہے ہیں جو آخرت کے طالب کے لیے حیران کن بات ہے۔اس لیے ہمیں اغیار کی عیش و عشرت کی طرف دیکھ کر مرعوب نہیں ہونا چاہیے، ان کی نقالی میں اسلامی تعلیمات کو نہیں بھول جانا چاہیے۔چنانچہ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں؎
اپنی  ملت کو  قیاس  اقوامِ مغرب  سے  نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیﷺ


پیر، 16 مارچ، 2015

ایک ملحد سے گفتگو....!

ایک ملحد سے ایک فورم پر بات ہوئی میں نے پوچھا تمہیں کس نے پیدا کیا ؟
کہا میٹیریل (مادہ) نے۔۔۔
پوچھا ’’میٹیریل کو کس نے پیدا کیا؟؟
کافی دیر کے بعد جواب آیا:
’’مجھے علم نہیں پر سائنس کہتی ہے میٹیریل پہلے سے ہے اور قدیم ہے ، ابد سے ہے اس لیے اس کا کوئی خالق نہیں...‘‘
اس پر عرض کیا:
" سائنس تو یہ بھی کہتی ہے کہ یہ جہاں ایک دن فنا ہوجائے گا تو جو چیز فنا ہوجانے والی ہو وہ خالق اور ابد سے کیسے ہوسکتی ہے ؟
اور دوسری بات کہ اگر میٹیریل ہی تمہارا خالق ہے تو اس میں تغیرات کیوں پیش آتے رہتے ہیں..؟
اور جو چیز خود ہیئت بدلے اور متغیر ہو وہ خود خالق کیسے ہوسکتی ہے؟؟‘‘
اس سوال کے بعد وہ سٹپٹا گیا اور جواب نہ دیا۔
عقل و دانش کو خدا ماننے والے اتنی آسان سی بات کو بھی نہیں سمجھتے!! بات وہی ہے کہ جب عقلوں پر تالے لگ جائیں تب آسان سی بات بھی سمجھ نہیں آتی ۔اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین۔

ہوس اور محبت

آج کے دور میں لوگوں نے ہوس اور ناجائز خواہش کی تکمیل کا نام محبت رکھ لیا ہے.اگر محبت شہوت پوری کرنے کا نام ہے تو حقیقی محبت وہ ہے جو نکاح کے بعد میاں اور بیوی کے درمیان ہوتی ہے. جسے اللہ نے اپنے ہاں ایک مقدس مقام دیا ہے.نہ کہ مغربی تہذیب کا وہ گند جو ان ممالک سے ابل ابل کر ہمارے پاکیزہ کلچر کو تباہ کررہا ہے, جو کہ سب کا سب فراڈ ' بے راہ روی اور آوارہ پن ہے.اگر فلموں میں دکھائی جانی والی محبتیں سچی ہوتیں تو فلمی ایکٹروں کی ازدواجی زندگیاں اس محبت کا ایک نمونہ اور ماڈل ہوتیں جب کہ آپ ان جھوٹوں کی زندگیوں کو دیکھیں گے کہ ہر دس میں سے آٹھ اپنی محبت والی بیویوں کو طلاق دے چکے ہیں.

جمعرات، 12 مارچ، 2015

کیا مسیحیوں پر قرآن نے لعنت کی ہے...؟؟

مسیحیوں کی پوسٹ پر کیا گیا ایک کمنٹ افادے کے لیے پیشِ خدمت ہے.
قرآن نے مسیحیوں پر لعنت نہیں کی بلکہ جب مسیحی حضرت محمد ﷺ کے دربار میں وفد بنا کر آئے وہاں آپ ﷺ سے مناظرہ کیا جب آپ ان کے سب سوالوں کے جوابات دے چکے ، مسیحی علما تب بھی نہیں مانے تب خدا نے فیصلہ فرمایا کہ اگر تم دلیل سے نہیں مانتےتو خود میدان میں آجاؤ اور محمد ﷺ بھی اپنی اولاد کو لے کر میدان میں آتے ہیں ، یہاں آکر دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو ،،،،
آیت یہ ہے۔۔۔
﴿فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ 61؀﴾ ( آل عمران)
ترجمہ: ''پھر اگر کوئی شخص علم (وحی)آجانے کے بعد اس بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اسے کہیے :آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلالیں اور خود بھی حاضر ہوکر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ ''جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔''
یہ ایک چیلنج تھا ۔ اگر مسیحی سچے تھے تو انہیں یہ چیلنج قبول کرلینا چاہیے تھا جب کہ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے ۔۔۔ محمد سچے تھے تبھی اپنی اولاد کو لے کر میدان میں کھڑے رہے۔۔۔
اس آیت سے کہاں مسیحیوں پر لعنت ثابت ہے....
لعنت تو جھوٹوں پر تھی جو وہ تمہارے پادریوں نے اس وقت چیلنج ٹھکرا کر خود کو ثابت کردیا...

اسلام نے سزائیں کیوں مقرر کی ہیں؟

اسلام نے ہاتھ کاٹنے کی سزا رکھی ہے تاکہ معاشرے سے چوریاں ہی ختم ہوجائیں....
اگر اسلامی سزاؤں کا نفاذ ہوجائے تو معاشرے سے تمام معاشرتی برائیاں خود بخود مٹ جائیں گی...
موجودہ دور میں بڑہتی ہوئی چوریوں اور لٹتی ہوئی عزتوں کا سبب نظام کا بگاڑ ہے....
اوپر سے لے کر نیچے تک سب بگڑے ہوئے ہیں اس لیے سب کو کھلی چھٹی ہے ادھر زنا پر ابھارنے والے مناظر عام کیے جارہے ہیں جس سے معاشرے سے عفت و پاکیزگی اٹھتی جارہی ہے اور نوجوان نسل دھڑا دھڑ زنا کی طرف بڑہتی جارہی ہے جب تک اسلامی سسٹم نہیں آتا تب کسی کی عزت، جان اور مال محفوظ نہیں ....
اس کی بہترین مثال سعودیہ عربیہ ہے جہاں یہ سزائیں کسی قدر نافذ ہیں جس کی وجہ سے وہاں جرائم ، چوری ڈاکہ ، عصمت دری اور قتل نہ ہونے کے برابر ہیں....
اسلام تمام انسانیت کی جان ، مال اور آبرو کا دفاع کرتا ہے....نہ کہ یہ سب لوٹنے کا حکم کرتا ہے.

برصغیر میں انگریزی تسلط سے قبل بنگال کے مدارس دینیہ کی حالت

انگریز مصنف کبیری ہارڈی نے بیکس مولر کے حوالہ سے یہ کیفیت بیان کی ہے۔
”انگریزی عملداری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدارس تھے، اس طرح ہر چار سو آدمیوں پر ایک مدرسہ کا اوسط نکلتا ہے۔ اسی صوبہ بنگال میں سلاطین وامراء نے مدارس کے لئے جو جائیداد یں وقف کی تھیں، ان اوقاف کا مجموعی رقبہ مسٹر جیمز گرانٹ کے بیان کے مطابق بنگال کے چوتھائی رقبہ سے کم نہ تھا، اوقاف کے علاوہ سلاطین وامراء نقد وظائف کے ذریعہ سے بھی اہل علم کی اعانت کرتے تھے، مدارس اور درسگاہوں کا ملک میں پھیلاہوا یہ عظیم الشان سلسلہ کیونکر ٹوٹا اور یہ مدارس ومکاتب کیونکر تباہ کئے گئے؟ اس سوال کے جواب کے لئے بارہویں صدی ہجری اور اٹھارہویں صدی عیسوی کی ہندوستانی سیاسی تاریخ کا جاننا ضروری ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...