اتوار، 5 جنوری، 2020

عرب ممالک میں قادیانیت کی ہزیمت

مفتی محمد مبشر بدر عفی عنہ

قادیانی اپنے جھوٹے مذہب کی ترویج کے لیے اتنے متحرک ہیں کہ انہوں نے پوری دنیا میں دعوتی سرگرمیاں پھیلانے کا عزم کررکھا ہے۔ یہ مکر و فریب، جھوٹ اور دجل کا ایسا گورکھ دھندا ہے کہ پوری دنیا کو دھوکا دیا ہوا ہے کہ قادیانیت اور اسلام میں کوئی فرق نہیں۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے عرب مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسانا شروع کردیا ۔ سب سے پہلے 1928 میں اسرائیلی شہر حیفا میں قادیانی تبلیغی مرکز کھولا۔ جہاں سے انہوں نے پورے عرب کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ عرب خطے میں قادیانی تبلیغ کی صد سالہ محنت کے نتیجے میں ان کا ایک حلقہ بن چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر کنٹرول حاصل کر کےاسے  تبلیغی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اردو زبان سے ناواقفیت کی بنا پر اہل عرب  قادیانی مکائد اور چالاکیوں سے بے خبر رہے، وہ انہیں ایک عام مسلمان تنظیم سمجھتے رہے، اور اب بھی اکثر عرب ان کی اصلیت سے ناواقف ہونے کی بنا پر ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تبھی ان کی گمراہانہ جال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

لیکن اب تبدیلی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ عرب قادیانیت کی گمراہیوں کو پہچاننے لگے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ قادیانیت کے فلسطین، مصر اور دیگر عرب ممالک کے متحرک اور سرگرم مبلغ جناب ہانی طاہر نے قادیانیت کو خیر باد کہہ دیا اور 31 اگست کو اسلام قبول کرلیا۔ 47 سالہ ہانی طاہر ایک تعلیم یافتہ اور منجھے ہوئے صحافی ہیں جو کہ قادیانیت کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بہت بڑا نام تھا۔وہ قادیانیوں کے عرب ٹی وی چینل 3 کے پروگراموں قرآۃ فی الصحف، سبیل الہدیٰ، الحوار المباشر، اور الخزائن الروحانیہ کے میزبان کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ انہوں نے ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ قادیانیت کے خلاف تحقیقی اور علمی ویڈیو کلپ  بنا کر انٹر نیٹ پر پھیلانی شروع کردیں۔ ہانی طاہر کا کہنا ہے کہ جب تک مرزا قادیانی کی کتب کا عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا تب تک قادیانی جو کچھ بتاتے ہم اسے سچ سمجھتے رہے لیکن جب غلام احمد قادیانی کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا تو ہم پر اس گروہ کی حقیقت کھلنا شروع ہوگئی، اور میں اس نتیجے تک پہنچا کہ مرزا غلام احمد نہ تو مسیح موعود ہے اور نہ ہی مہدی  بلکہ وہ ایک جھوٹا اور اور مکار شخص ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ایسے شخص کے لیے تبلیغ کرتا رہا اور اپنی زندگی کے بہترین لمحات اس کے پرچار میں گنوا دیے۔

ہانی طاہر نے مرزے کی کتابوں سے تضادات اور تناقضات کو اکٹھا کرکے ویڈیو کلپ بنا کر یوٹیوب پر لگانے شروع کیے  اور ساتھ ہی مرزے کی عربی دانی کا پول کھول دیاکہ مرزے کی عربی میں انتہائی فاش قسم کی صرفی، نحوی اور ادبی اغلاط موجود ہیں جو قطعا کلام الٰہی نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی وہ الہامی عبارات ہوسکتی ہیں۔ طاہر ہانی نے واضح کیا کہ مرزے نے کس طرح عرب ادباء کی ادبی عبارتوں اور جملوں کو چوری کیا اور انہیں الہام اور وحی  کا درجہ دے کر عامۃ الناس کو دھوکہ دیا۔ مرزے کے دجل و فریب سے نقاب اٹھتے دیکھ کر قادیانیوں کی  نیندیں اڑ گئیں۔ ہانی طاہر کے دلائل اتنے قوی اور مضبوط ہوتے کہ خود قادیانی بھی جماعتی سطح پر اس کا جواب نہیں دے سکے۔جس کے نتیجے میں بہت سے قادیانیت کا شکار عربوں نے قادیانیت سے توبہ کی اور ہانی طاہر کی ٹیم ورک کا حصہ بن گئے۔

ہانی طاہر کی کاوشوں سے ہدایت پانے والے خوش نصیبوں میں لندن قادیانی مرکز کے مؤذن ، نائب امام اورمرزا مسرورکے انتہائی قریبی عکرمہ نجمی بھی شامل ہیں جنہوں نے ہانی طاہر کی ویڈیوز سے متاثر ہوکر قادیانیت پر چار حرف بھیجے۔ قادیانیوں نے انہیں لندن میں مرزا مسرور کی رہائش گاہ کے قریب عالیشان گھر دیا ہوا تھا۔عکرمہ نجمی عرب قادیانیوں میں صف اول کے مبلغ شمار ہوتے تھے اور پیدائشی قادیانی تھے۔ ان کے نانا نے سب سے پہلے قادیانیت قبول کی اور یوں ان کا گھرانہ اس سلسلے میں جڑ گیا۔

عکرمہ نجمی نے خود اپنے اسلام قبول کرنے سے متعلق لکھا کہ جب ہانی طاہر کے دندان شکن اعتراضات کا جواب قادیانیوں سے نہیں بن پڑا تو مرزا مسرور نے مجھ سے اس بابت پوچھا۔ میں نے کہا اس کے دلائل کے سامنے ہماری جماعت  بے بس دکھا ئی دیتی ہے اور کوئی خاطر خواہ جواب نہیں بن پارہا۔ مرزا مسرور نے یہ سن کر میری ذمہ داری لگائی کہ تم تیاری کرو اور اس کا جواب دو۔ میں نے انتہائی جاں فشانی سے ہانی طاہر کو جواب دینے کی کوشش کی لیکن جب مرزا قادیانی کی کتب کی طرف مراجعت کی  اور جوں جوں کتب پڑہتا گیا میں انکار، خوف، تنگی، شدید افسوس، کوفت اور دقت جیسےکئی مرحلوں سے گزرتا گیا۔میرے لیے بیان کرنا مشکل ہے کہ میں کس اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوگیا یہاں تک کہ ہدایت کا مرحلہ آیا اور میں نے مرزائیت سے برائت کا اعلان کردیا۔

مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ مرزا قادیانی نے عربی کتب سے سرقہ کیا ہے۔ حالانکہ جماعت احمدیہ یہ باور کراتی رہی تھی کہ مرزا غلام احمد نے کسی سے عربی تعلیم حاصل نہیں کی یہ وہبی اور عطائی صلاحیت ہے جو اللہ نے انہیں خصوصیت سے معجزانہ طور پر عطا فرمائی ہے۔ مرزے کی کتب میں عربی ادب کی اہم کتاب "مقامات حریری" کے ابتدائی چالیس صفحوں کے (1000) ادیبانہ جملے دیکھے جو مرزے نے چوری کرکے اپنی عربی تحاریر میں فٹ کیے تھے۔ ہانی طاہر نے مرزا کی کتب سے سو نحوی اور لغوی غلطیاں بھی نکالیں جس سے مجھ پر اس کا کذب اور جھوٹ کھل گیا۔  وہ شخص کیسے الہامی یا من جانب اللہ مقرر شدہ نبی و مہدی ہوسکتا ہے جو مقامات حریری اور دیگر عربی کتب کے ادبی جملوں کی چوری کرکے اپنی کتابوں میں لکھے اور کہے کہ یہ کلام من جانب اللہ نازل ہوا ہے؟اسی طرح مرزے کی پیشین گوئیاں جو جھوٹی ثابت ہوئیں اور محمدی بیگم بارے مرزے کی اشتہار بازی ، پیشین گوئی اور اس سے نکاح کی مذموم کوشش جس میں قادیانی بالکل ناکام رہا اور ساری پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں،  ان تمام چیزوں نے میری نگاہ میں مرزے کا دجل کھول دیا۔ اب میری ذمہ داری تھی کہ میں جماعت کے سامنے حق بات کھول کر بیا  ن کروں اور مرزے اور اس کی جماعت کی حقیقت بیان کروں۔

چنانچہ سب سے پہلے میں نے مرزائی خلیفہ  مسرور کو خط لکھا اور مرزے کی تمام خرافات بارے بات کی،  نیز یہ کہ ہانی طاہر سچ کہہ رہا ہے۔ اب سارا معاملہ آپ کے ہاتھ ہے اس وقت آپ خلافت کے تخت پر ہیں سب لوگ آپ کی بات توجہ سے سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔  آپ ہی موجودہ لوگوں اور آنے والی نسلوں کو اس ورطے سے نکال سکتے ہیں۔ آپ کو آج حق بتا دینا چاہیے اور اس دجل سے پردہ ہٹا دینا چاہیے۔ کم از کم اتنا ہوگا کہ قادیانی احباب کو بہت زیادہ دکھ و الم ہوگا لیکن اس کے بعد آخرت کی رسوائی سے تو بچ جائیں گے۔ آپ اپنی جماعت کا رخ  کسی مثبت فلاحی کاموں کی طرف موڑیں اور ان دعاوی کو چھوڑ دیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر آپ نے ایسا عظیم الشان کام کردکھایا تو تاریخ آپ کا نام سنہری حروف سے لکھے گی اور اس پر آپ کو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی طرف سے بہت اچھا بدلہ ملے گا۔ اگر آپ میری تجویز قبول کریں تو میں آخر تک آپ کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔

میں نے خط انہیں دیا، انہوں نے پوچھا کہ اس خط میں کیا ہے؟ میں نے کہا آپ کے پڑہنے سے پہلے میں کچھ نہیں بتا سکتا، آپ اسے پڑہیں اس کے بعد آپ سے ملاقات ہوگی۔ میں نے یہ توقع نہیں کی تھی کہ میری ساری زندگی اس طرح کے خواب دیکھ سکے گی! انہوں نے کہا، " کیا بات ہے، کیا تم جماعت چھوڑنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا میں نے آپ کو خط کے مندرجاتپڑہنے تک باتملتوی رکھنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں ایک یا دو  دن میں اسے پڑھ کر دوبارہ ملوں گا۔ چالیس منٹ بعد ایک خادم نے آکر کہا آپ کو خلیفہ صاحب بلا رہے ہیں۔ جب میں اندر گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے کلام میں ارتعاش تھا ۔ وہ دوران گفتگو کانپ رہے تھے اور ا ن کے ہاتھ بہت زیادہ  لرز رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا:
"تم نے بانی ءجماعت کے بارے جو غیر منطقی باتیں کی ہیں میں انہیں قبول نہیں کرتا۔  ہمارے دین اور طریقے پر تواتر قائم ہوچکا ہے۔ میں نے تمہارا تمام پیغام پڑھ لیا ہے ۔ اس کے بعد میں تمہیں ملازمت اور جماعت سے نکالنے پر مجبور ہوں۔ شیخ عکرمہ مزید لکھتے ہیں کہ: بجائے اس کے کہ مجھے قائل کیا جاتا اور مرزا قادیانی کی سچائی کے دلائل دیے جاتے اور میرے اشکالات دور کیے جاتےبلکہ  الٹا مجھے صاف جواب دیا کہ میں تمہیں ملازمت سے فارغ کرنےاور جماعت سے نکالنے پر مجبور ہوں۔ یہ کیسی سچائی ہے ؟

قارئین! میں نے عکرمہ نجمی کے خط کے ایک حصے کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا جب کہ طوالت کے ڈر سے مرزے کے بارے جو باتیں روشن دلائل سے لکھی تھیں انہیں  چھوڑ دیا۔ عکرمہ نجمی پہلے ہی قادیانیت سے توبہ تائب ہوچکے تھے۔ ملازمت سے فارغ کیے جانے اور جماعت سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے قادیانیت کی حقیقت سے ان نادان عربوں کو نکالنے کی ٹھانی جو مرزے کے دجل کا شکار ہوچکے تھے۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے اور بہت سے عرب قادیانیوں کی ہدایت کا ذریعے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ شیخ امجد سقلاوی  اردن کے تعلیم یافتہ سکالر ہیں جو قادیانیت کا شکار ہوچکے تھے بعد ازاں حقیقت کھلنے پر وہ  توبہ تائب ہوئے اور بھر پور طریقے سے قادیانیت کے خلاف کام کررہے ہیں۔

میرا مضمون طویل ہوگیا ۔ اگر مزید افراد کے نام لکھوں کو طوالت بڑھ جائے گی۔ یہ افراد اس وقت سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں اور قادیانیت کے خلاف سرگرم ِعمل ہیں۔میری خوش نصیبی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایڈ ہوں انہوں نے میری ریکویسٹ کو قبول کرکے مجھے اعزاز بخشا۔قارئین! آپ نے پڑھا کہ قادیانیت کا سورج اب سر زمینِ عرب میں ڈوب رہا ہے۔ یہ اب پستی کی طرف لڑھک رہے ہیں۔  ان نو مسلم افراد کی محنت رنگ لارہی ہے جو خود قادیانیت کی گود میں پل کر آئے ہیں اور اللہ نے انہیں ہدایت کی راہ دکھا دی ہے۔ ان شاء اللہ انگریزی ایما ء پر قائم کیا ہوا قادیانی شجرہء خبیثہ اب کھوکھلا ہورہا ہے۔ ان شاء اللہ آنے والے وقتوں میں آپ بہت بڑی خوشخبریاں سنیں گے۔

ہفتہ، 4 جنوری، 2020

آخر اک روز تو پیوندِ زمیں ہونا ہے


بقلم مفتی محمد مبشر بدر
آئیں ! کچھ دیر موت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کچھ عالم آخرت کی پہلی منزل کے بارے سوچتے ہیں۔  تھوڑا دنیا کے جھمیلوں سے وقت نکال کر آخرت کی وسعتوں کی طرف جھانکتے ہیں۔ انسان کو جہانِ دنیوی میں لمحاتِ زیست عطا ہوئے ہیں تو موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے جو تمام لذتوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ روئے زمین پر اللہ کے وجود کے منکر تو ملیں گے لیکن موت کا انکاری کوئی نہیں ملے گا۔ زندگی انسان کو عدم سے وجود میں لانے کا ذریعہ بنی تو موت انسان کو پھر سے عدیم بنا دیتی ہے۔ صدیوں سے انسان موت کا حل ڈھونڈنے میں لگا ہے، پھر بھی اپنی کوششوں میں ناکام ہے اور یہ ماننے پر مجبور ہے کہ موت کا کوئی علاج اور حل نہیں، موت سے کوئی مفر نہیں۔ اب انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے تجربات کررہا ہے اور اس کوشش میں ہے کہ مرے ہوؤں کو دوبارہ زندہ کر دے جو صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن  ہے۔ خالقِ موت و حیات  نے خود اپنی کتاب قرآن مجید میں فرما دیا:

اَۡ ینَمَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ  فِیۡ  بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ سورۃ النساء

یعنی " تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ پکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو۔"
موت انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی یہاں تک کہ مقررہ مقام پر پا کر اپنے پنجوں میں دبوچ لیتی ہے۔ پھر نہ تو انسان کو محفوظ قلعے بچا پاتے ہیں اور نہ ہی کوئی مضبوط تدبیر کار گر ثابت ہوتی ہے۔ تمام انسان، جن اور ملک زور لگا کر ایک انسان کو موت سے بچانا چاہیں تو بھی نہیں بچا سکتے۔ زندگی اور موت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی انسان کو پیدا کرتا ہے پھر اسے موت دے کر اپنے پاس اٹھا لیتا ہے، کچھ کو بچپن میں وفات دیتا ہے  تو کچھ کو جوانی میں اور کچھ بڑہاپے تک پہنچ کر فوت ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورہ نحل میں اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ یَتَوَفّٰىکُمۡ   ۟ ۙ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ  یُّرَدُّ   اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ  لِکَیۡ لَا یَعۡلَمَ  بَعۡدَ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ  قَدِیۡرٌ ﴿٪۷۰

ترجمہ : " اللہ تعالیٰ نے ہی تم سب کو پیدا کیا ہے، وہی پھر تمہیں فوت کرے گا، تم میں ایسے بھی ہیں جو بدترین عمر ( بڑہاپے ) کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے بوجھنے کے بعد بھی نہ جانیں۔ بیشک اللہ دانا  اور توانا ہے۔"

سورہ واقعہ میں فرمایا کہ ہم نے ہی انسانوں میں موت کو مقرر کررکھا ہے:

نَحۡنُ قَدَّرۡنَا بَیۡنَکُمُ الۡمَوۡتَ وَ مَا نَحۡنُ بِمَسۡبُوۡقِیۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾ سورہ واقعہ

ترجمہ : " ہم نے ہی تمہارے درمیان موت کے فیصلے  کررکھے ہیں، اور کوئی نہیں ہے جو ہمیں اس بات سے عاجز کرسکے۔"

سورہ انبیاء میں اللہ فرماتا ہے:

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ  الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ  فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا  تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۵

ترجمہ: " ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کررہے ہیں۔ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔"
مذکورہ آیت میں صاف فرمایا کہ انسان کی زندگی اور موت تو بس ایک آزمائش کے لیے ہے۔ موت کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کس نے کیسے اعمال کیے اسی کو سورہ ملک میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ"  اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ " انسان کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے۔ کسی نے ہمیشہ اس جہاں میں نہیں رہنا۔ انبیاء علیہم السلام جیسی مقدس ہستیاں بھی جہانِ فانی چھوڑ کر چلی گئیں، پھر ہماری کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ کسی  کو موت سے کوئی مفر نہیں۔ اگر کوئی موت سے بھاگنا بھی چاہے تب بھی نہیں بچ سکتا۔ چنانچہ فرمایا:

قُلۡ لَّنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ  فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ  اِلَّا  قَلِیۡلًا ﴿۱۶﴾ (الاحزاب)

ترجمہ: " اے نبی (ﷺ)! ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگا۔ اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا۔"

قُلۡ  اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِیۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡہُ  فَاِنَّہٗ مُلٰقِیۡکُمۡ  ثُمَّ  تُرَدُّوۡنَ  اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ  فَیُنَبِّئُکُمۡ  بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ٪﴿۸﴾ (سورۃ الجمعۃ)

ترجمہ: " کہو کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے، پھر تمہیں اس (اللہ) کی طرف لوٹایا جائے گا جسے تمام پوشیدہ اور کھلی ہوئی باتوں کا پورا علم ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کچھ کیا کرتے تھے۔"

سورہ ق میں فرماتا ہے:

وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ  الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ  تَحِیۡدُ ﴿۱۹
ترجمہ: " اور موت کی سختی سچ مچ آنے ہی والی ہے۔ (اے انسان!) یہ وہ چیز ہے جس سے تو بدکتا ہے۔"

موت کی سختی حقیقت لے کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ سکرات کا وقت ہے۔ جب انسان عالم بالا کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ گویا اللہ فرماتا ہے اے انسان! اب تک تو دنیا میں نعمتوں کے مزے میں تھا، تو نے آخرت کو بھلائے رکھا۔ اب موت کی سختی تجھے حقیقت دکھا رہی ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ جس حقیقت سے منہ موڑے چلتا رہا آج انسان کو اسی حقیقت سے سامنا کرنا ہے۔ انسان موت سے بدکتا اس وجہ سے ہے کہ موت کی تیاری نہیں کی ہوتی، آخرت کی ہولناکیاں آنکھوں کے سامنے آچکی ہوتی ہیں تب عزیز و اقارب کا ساتھ ہونے کے باوجود مرنے والا بدک رہا ہوتا ہے اور وحشت زدہ ہوتا ہے۔ تبھی  اللہ نے فرمایا کہ یہ وہ موت ہے جس سے تو بدکتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے جہاں موت کو کثرت سے یاد کرنے کی تاکید کی وہیں موت کی تمنا کرنے سے بھی منع کیا: چنانچہ ارشاد فرمایا: أكثروا ذكر هاذم اللَّذات: الموت  ( ترمذی) "لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو" دوسری حدیث میں ہے:

لا يتمنَّينَّ أحدُكم الموتَ لضُرٍّ نزل به، فإن كان لا بدَّ مُتمنِّيًا فليقل: اللَّهم أحيني ما كانت الحياةُ خيرًا لي، وتوفَّني ما كانت الوفاةُ خيرًا لي ( متَّفقٌ عليه)

ترجمہ: "تم میں سے کوئی کسی مصیبت کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے پس اگر اس کو لا محالہ کرنی ہی ہے تو اسے چاہئے کہ يہ کہے: اے اللہ مجھے زندہ رکھـ جب تک کہ زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہو اور مجھے موت دے جب موت میرے لئے بہتر ہو۔"

مؤمن کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ موت بدکردار اور برے انسان کے لیے بھیانک اور روح فرسا ہے تو مؤمن کے لیے خوشی کا مژدہ اور تحفہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "الموت تحفۃ المؤمن" یعنی موت مومن کا تحفہ ہے، مؤمن ہر وقت اپنے رب سے ملنے کا آرزو مند ہوتا ہے تبھی وہ ہر وقت اللہ سے ملاقات کی تیاری میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ  (البقرة: 46) یعنی " وہ لوگ جو  یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کریں گے اور یقیناً  اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔"

کافر بارے سورہ یونس میں اللہ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ ۙ﴿۷﴾ اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ۔ ترجم: " حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے ۔" صحیحین کی روایت میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے:

عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلممن أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه. فقلت: يا نبي الله أكراهية الموت؟ فكلنا نكره الموت. فقال: ليس كذلك، ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته أحب لقاء الله فأحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكره الله لقاءه۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ میں نے کہا یانبی اللہ ! کیا موت کی ناپسندیدگی مراد ہے؟ ( اگر ایسا ہے تو) ہم میں سے ہر کوئی موت کو ناپسند کرتا ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا یہ مطلب نہیں۔ مؤمن کو جب اللہ کی رحمت ، رضا اور جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے پس اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور ناراضگی کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔" (متفق علیہ)

پریشانی اس شخص کے لیے ہے جو من مانی کرتا رہا اور خواہشات کی پیروی کرتا رہا۔ مطیع و فرمانبردار کے لیے تو موت ایک عظیم نعمت ہے۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نےمزید  زندہ  رہنے  اور موت میں اختیار دیا ،  انہوں نے موت کو ہی پسند کیا۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " عقلمند آدمی وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور بے وقوف ہے وہ شخص جو اپنے آپ کو خواہشات پورا کرنے میں لگا دے اور اللہ پر (بخشش کی) امیدیں لگائے۔" چنانچہ ہمیں موت سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے، دنیاوی زندگی سے دھوکہ کھا کر مرنے کے بعد کے دن یومِ جزاء سے غافل نہیں ہونا چاہیے،  اس کے تقاضے پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ بقولِ شاعر: ؎    آخر اک روز تو پیوندِ زمیں ہونا ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...