اتوار، 18 اگست، 2019

کیا پاکستان میں قادیانی مظلوم ہیں؟


(ایک عرب قادیانی کی پوسٹ کا جواب)
بقلم :مفتی محمد مبشر بدر

ایک عرب قادیانی غنیم رواح الاطوری نے پوسٹ لگائی کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں، دوکانوں ، مساجد اور املاک کو جلایا جاتا ہے۔ ہزاروں قادیانیوں کو پاکستان میں قتل کر دیا گیا ، اس پر اس نے جمعیت علمائے اسلام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرکے مرزا مسرور علیہ ماعلیہ کا ویڈیو بیان پیش کیا جس میں وہ عذاب الیم کی پیشین گوئیاں کررہا ہے۔ اور پشاور میں ہوئی جمیعت علمائے اسلام کی ریلی کا ذکر کیا جس میں قائد جمیعت نے قادیانی مسئلہ اٹھایا، اس نے عالم مجلس تحفظ ختم نبوت پر الزام جڑا کہ جتنے قادیانی اب تک پاکستان میں مارے گئے ہیں ( حالانکہ یہ جھوٹ ہے) ان کا اصل محرک یہ مجلس ہے، اس نے کافی غم و غصے کا اظہار کیا۔ آپ اس کی عربی عبارت پڑہیں۔

الى كل المعارضين للجماعة الإسلامية الأحمدية ونخص بالذكر ما يسمى بجمعية ختم النبوة وما يسمى بجمعية علماء الإسلام في باكستان الذين جمعوا بالأمس حشودا سمّوها بالمليونية في شوارع وساحات مدينة بيشاور الباكستانية، وألقوا خطابات التكفير والتحريض العدواني ضد الجماعة الإسلامية الأحمدية، وهم المسؤل الأول عن قتل واغتيال المئات من أفراد الجماعة الإسلامية الأحمدية في السنوات الماضية في باكستان، وحرق وتدمير محلاتهم ومنازلهم، بالإضافة إلى تدمير بعض من مساجد الجماعة، وبمباركة ودعم السلطات الباكستانية. إلى كل هؤلاء نقدم مقاطع من خطابات سيدنا أمير المؤمنين حضرة ميرزا مسرور أحمد أيده الله تعالى بنصره العزيز الخليفة الخامس للإمام المهدي والمسيح الموعود عليه السلام.

اس پر اسے یہ جواب دیا:



لما قال نبینا محمد ﷺ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی فلایجوز لشخص ما ان یدعی النبوۃ بعد نبوۃ محمد ﷺ۔ من اعتقد ان یاتی نبی بعد سیدنا محمد ﷺ فقد کفر بما نزل علی محمد ﷺ فقد قال النبی ﷺ انا عاقب یعنی لا نبی بعدہ و لا رسول بعدہ۔ فقد افتیٰ جمیع علماء الامۃ المسلمۃ بان القادیانیین کافرون بالاجماع حتیٰ یتوبوا۔ ما قتل ای قادیانی فی الباکستان بل ہم محفوظ انفسہم و املاکہم۔ لوکان معک الحق لما بقی بیت واحد لہم فی الباکستان مع انہم کثیرون، و لہم ریاسۃ مستقلۃ فی بنجاب اقلیم باکستان۔ الباکستانیون  یطالبون من القادیانیین ان یسلموا قرار بارلیمان الباکستانی بانہم غیر مسلمین لان المیرزا غلام احمد القادیانی قد افتیٰ علیٰ کل من لم یسلم بنبوتہ فہو کافر و قال بتکفیر جمیع المسلمین الذین انکروا ادعاء المیرزا۔ فکیف نقول بانکم مسلمون۔

یعنی: "  جب نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمادیا کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس کے بعد کسی شخص کے لیے ہزگز جائز نہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی آئے گا۔ اگر کسی نے ایسا عقیدہ رکھا اس نے حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کا انکار کیا۔ تمام علماء نے قادیانیوں کے کفر پر متفقہ فتویٰ دیا، تاوقتیکہ وہ توبہ تائب ہوکر اسلام قبول نہیں کرلیتے۔پاکستانی پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول کرکے آپ کو بھی قادیانیوں کو کافر سمجھ کر توبہ کرنا چاہیے۔ پاکستانی مسلمان ، قادیانیوں سے صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلیں۔آپ نے پاکستان میں ہزاروں قادیانیوں کے قتل کی بات کی یہ جھوٹ ہے۔

قادیانیوں کی جان اور مال پاکستان میں محفوظ ہے اگر آپ کی بات سچ ہوتی تو ایک گھر بھی قادیانیوں کا باقی نہ ہوتا جب کہ یہ لوگ بڑی مقدار میں پاکستان میں رہ رہے ہیں۔بلکہ انہوں نے تو صوبہ پنجاب میں ایک الگ ریاست تک قائم کی ہوئی ہے۔ مرزے غلام احمد علیہ ما علیہ نے ان تمام مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ جاری کیا جنہوں نے مرزا کے جھوٹے دعوے کو مسترد کردیا تو پھر ہم قادیانیوں کو مسلمان کیسے مانیں جن کے نزدیک ہم خود کافر ہیں۔"
اس نے اپنی پوسٹ پر میرا کمنٹ ڈیلیٹ کردیا اور پاکستان میں ہوئے قادیانیوں پر فرضی مظالم کے لنکس نکال کرپیسٹ کردیے۔ اس پر میں نے اسے جواب دیا:

ھٰذا کلہ کذب۔ قد اکد فی البرلیمان الباکستانی بان القادنیین غیر مسلمین بعد مناقشۃ طویلۃ بین میرزا ناصر القادیانی و فضیلۃ الشیخ المفتی محمد محمود رحمہ اللہ حول قضیۃ القادیانیۃ حتیٰ انہزم وکیل القادیانیۃ فی الدلائل لما سئلہ مفتی محمد محمود رحمہ اللہ امام اعضاء البرلیمان ما ھو اعتقادکم عن المسلمین الذٰین ینکرون ادعاء میرزا غلام احمد القادیانی قال میرزا ناصر وکیل القادیانیۃ انہم کلہم کفار۔ فقد حصل علی الجواب فکتبت الھزیمۃ لہم فی البرلیمان و المحکمۃ العلیاء، انا اریکم صورکم فی المرآۃ ان شاء اللہ فتبین لکم انکم کاذبون حتماً۔ لقد حذفت تعليقي هذه هي حجة هزيمتك۔ الروابط التي قدمتها هي دعاية للقاديانيين۔
ما افتیٰ العلماء المسلمون بقتل القادیانیین، انما منعوا العامۃ و الخاصۃ عن التعرض لدینہم، و مالہم و انفسہم، حتیٰ لو قام احد بالتعرض و التصدی لعرض القادیانیۃ و انفسہم فالعلماء بریئون عنہ۔ ارنی ایّ فتویٰ فی قتل القادیانیۃ ان کنت صادقا فی دعواک، قد خاضنا معركة قانونية معك لا معرکۃ دامیۃ وان دعانا زمان الی المحاربۃ فلن نتسلل الیٰ وراءنا۔ ان شاء اللہ

یعنی یہ سب جھوٹ اور پروپیگنڈا ہے پاکستانی پارلیمنٹ میں مرزا ناصر قادیانی اور مفتی محمود رحمہ اللہ کے درمیان قادیانی مسئلے پر ایک طویل بحث ہوئی حتیٰ کہ قادیانی وکیل شکست سے دو چار ہوا۔ جب مفتی محمود نے ارکان پارلیمنٹ کے سامنے پوچھا کہ جو مسلمان مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کو نہیں مانتے ان کے بارے تمہارا کیا نظریہ ہے اس نے کہا وہ کافر ہیں۔ اسے جواب مل گیا کہ جب تم مسلمانوں کو کافر کہتے ہو تو تم خود غیر مسلم کیون نہیں؟؟

پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں قادیانیوں کی شکست لکھ دی گئی۔ ان شاء اللہ میں تمہیں تمہارا چہرہ آئینے میں دکھاؤں گا یہاں تک کہ تمہارے سامنے تمہارا جھوٹ کھل جائے۔ آپ نے میرا کمنٹ ڈیلیٹ کیا یہ تمہاری شکست کی بڑی دلیل ہے۔ ہم نے تم سے قانونی جنگ لڑی ہے جس میں ہمیں فتح ہوئی علماء کرام نے قادیانیوں کے جان مال اور عزت سے تعرض کرنے کا فتویٰ نہیں دیا کوئی ایک فتویٰ دکھا دو۔ اگر وقت نے ہمیں تمہارے ساتھ میدان جنگ میں پکارا تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ان شاء اللہ۔

کم عمری میں نکاح اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کی تحقیق


ایک منکرِ حدیث کی پوسٹ پر کیا گیا مکالمہ
بقلم: مفتی محمد مبشر بدر

سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک نکاح کے وقت چھے سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال تھی ۔ یہ بات تمام کتب حدیث میں درج ہے جہاں نبی کریم ﷺ کے نکاح سے متعلق احادیث لائی گئی ہیں۔ کسی ایک بھی کتاب میں ایسا نہیں کہ نکاح کی وقت ان کی عمر سترہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال ہو۔ لیکن آج کے منکرین حدیث  اسلام دشمن عناصر کے اعتراض سے متاثر ہوکر احادیث مبارکہ کا مفہوم بگاڑ کر انہیں مشکوک کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی  کریم ﷺ  کا کم سن لڑکی سے نکاح اور رخصتی کرنا ظلم ہے بلکہ محدثین نے نعوذ باللہ آقا علیہ السلام پر جھوٹ بولا ہے۔

ایک طرف چودہ سو سال کی تحقیقات موجود ہیں، دوسری طرف آج کے دور کے بعض نام نہاد منکرین حدیث ہیں جو احادیث متواترہ کا انکار کرنے پر تلے ہیں۔ انہی کے خوشہ چینوں میں ایک شخص رضوان خالد نامی ہے، جسے عربیت کی شد بد بھی نہیں  حتیٰ کہ اردو رسم الخظ میں لکھی گنتی تک کی پہچان نہیں ہے۔ انہوں  نے اور ان کے ہم مشربوں نے ایسی تمام صحیح اور متواتر احادیث کا انکار کرکے لوگوں کے اذہان میں اس شرعی ماخذ کی قدر اور حجت کم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ میں نے مناسب جانا کہ اس سے اس پر تفصیلی دلیل سے بات کی جائے اور  اس کی تحریر کی کمزوری  واضح کی  جائے۔

 اس نے مشکوٰۃ شریف کے مصنف امام محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ مفہوم کشید کیا کہ سیدہ عائشہؓ سیدہ اسماءؓ سے دس سال چھوٹی تھیں اورسیدہ اسماء کا وصال تہتر۷۳ ہجری میں یعنی ہجرت کے اکہتر ۷۱ سال بعد ہوا اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی تھیں تو ان کی عمر سترہ سال ہوئی اسی سن میں ان کا نکاح ہوا اور رخصتی دو سال بعد ۱۹ سال کی عمر میں ہوئی۔ حالانکہ یہ صاحب مشکوٰۃ کی بات کا مفہوم اور خلاصہ ہی نہیں اور نہ ہی امام الخطیب رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے۔

چنانچہ امام خطیب اسی رسالہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حالاتِ زندگی میں لکھتے ہیں کہ:
عائشة الصديقة أم الموٴمنين: عائشة بنت أبی بکر الصديق خطبها النبیﷺ وتزوجها بمکة في شوال سنة عشر من النبوة قبل الهجرة بثلاث سنين وأعرس بها بالمدينة فی شوال سنة اثنتين من الجهرة علی رأس ثماني عشر شهراً ولها تسع سنين وقيل دخل بها بالمدينة بعد سبعة أشهر من مقدمه وبقيت معه تسع سنين ومات عنها ولها ثماني عشرة سنة» (الاکمال :ص۲۸ )

ترجمہ: "عائشہ صدیقہ اُمّ المومنین: یہ عائشہ ؓ حضرت ابوبکرؓ کی لڑکی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا اور آپ سے مکہ میں شوال کے مہینہ میں نکاح کیا۔ (یہ واقعہ) ۱۰/ نبوت میں ہوا یعنی ہجرت سے تین برس پہلے اور آپ نے ان کو ۱۸/ مہینہ گذرنے کے بعد ۲ ہجری میں اپنی دلہن بنایا جس وقت آپ کی عمر کل ۹ برس کی تھی اور بعض کا بیان ہے کہ یہ خلوت مدینہ میں تشریف آوری کے صرف سات ماہ بعد واقع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا قیام بھی (مکہ کے قیام کی طرح) صرف ۹ ہی برس رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی کل عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔"

اس کے بعد اس کی بڑی دلیل کا کباڑا ہوجاتا ہے۔ دریں گفتگو اس سے عرض کیا کہ قرآن میں نابالغ لڑکی کے نکاح، اس سے شوہر کے تخلیہ اور عدت کے بارے احکامات موجود ہیں اگر میں نے وہ آیت پیش کردی تو اپنا موقف غلط ہونا لکھ دو گے اور قرآنی حکم کو تسلیم کر کے مان لو گے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور رخصتی قرآن کی تعلیم کے مطابق بالکل ٹھیک ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ آیت پیش کریں مجھے یقین ہے کہ وہ میری ہی تائید کریں گی۔ میں نے  سورہ طلاق کی وہ آیت پیش کردی جس میں ہے کہ وہ کم سن بچیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا ان کی عدت تین ماہ ہے اس کا ذکر والائی لم یحضن سے ہے اب عدت اسی عورت کی ہوتی ہے جس کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت کے مطابق شوہر نے تخلیہ کر کے طلاق دی ہو۔ پڑہیے سورہ الطلاق

وَ الِّٰٓیۡٔ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا ﴿۴

 "تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔"

اس آیت میں تین قسم کی عورتوں کی عدت بیان کی گئی ہے اول وہ بوڑہی عورتیں جنہیں بڑہاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوجائے یا انہیں حیض یا استحاضہ میں شبہ لگ جائے، دوم وہ کم عمر لڑکیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا تیسری حمل والیاں۔ اس آیت کو پڑھنے، دیکھنے اور پرکھنے کے بعد بھی موصوف نے گلاٹی کھائی اور اس کا مفہوم غلط کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسا ترجمہ پیش کردیا جو کسی مفسر کے ہاں معتبر نہیں اور نہ ہی کسی مفسر نے وہ ترجمہ کیا ہے۔ کہتے ہیں اس سے مراد نابالغ لڑکیاں نہیں بلکہ وہ بالغ عورتیں ہیں جنہیں حیض رک گیا ہو، اور جامعۃ الازہر کے علماءکا حوالہ دینے لگے کہ میری اس آیت کے بارے ان سے گفتگو ہو چکی ہے انہوں نے میرے والا موقف ہی اپنایا۔ اس پر میں نے مفسرین کرام کی اہم اور معتبر تفاسیر کے حوالے پیش کیے تاکہ موصوف بات سمجھ جائیں اور اپنے موقف پر نظرِ ثانی کریں، چنانچہ عرض کیا:

 آپ شاید کتب تفسیر سے ہی بے خبر ہیں جامعۃ الازہر کے کن علما سے آپ ملے اور آیت کا مطلب سمجھا اس کا مجھے کیسے علم ہو میں آپ کو امت کے مفسرین کی متداول تفسیریں اور ان کی عبارتیں پیش کرتا ہوں جو امت کے اہل علم میں مقبول ہیں اور قرآن فہمی میں انہیں ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ان کے بغیر کتب خانے نامکمل تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں کتب کے حوالے اہل علم اپنی تحریروں میں دیا کرتے ہیں۔ جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ "واللاٰئی لم یحضن" سے مراد نابالغ اور کم عمر لڑکیاں ہی ہیں چنانچہ تفسیر طبری میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے:

(وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) يقول: وكذلك عدد اللائي لم يحضن من الجواري لصغر إذا طلقهنّ أزواجهنّ بعد الدخول. تفسیر الطبری جلد ۲۳ ص ۴۵۲

یعنی  "(وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) فرماتے ہیں کہ یہی حکم ان کم عمر لڑکیوں کا ہے جنہیں کم عمری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو جب کہ انہیں ان کے شوہروں نے دخول کے بعد طلاق دے دی ہو۔"

تفسیر ثعلبی میں اس آیت کے تحت ایک روایت لگائی گئی ہے پڑہیے۔

أخبرنا أبو سعيد محمد بن عبد الله بن حمدون، حدّثنا أبو حاتم مكي بن عيدان، حدّثنا أبو الأزهر أحمد بن الأزهر، حدّثنا أسباط محمد عن مطرف عن أبي عثمان عمرو بن سالم قال: لمّا نزلت عدّة النساء في سورة البقرة في المطلقة المتوفى عنها زوجها، قال أبي بن كعب: يا رسول الله إنّ أناسا من أهل المدينة يقولون قد بقي من النساء ما لم يذكر فيهن شيء. قال: وما هو؟ قال: الصّغار والكبار وذوات الحمل، فنزلت هذه الآيات وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسائِكُمْ ... إلى آخرها۔ (تفسیر ثعلبی جلد ۹ ص ۳۳۹)

یعنی  : " عثمان بن عمرو بن سالم فرماتے ہیں کہ جب ان عورتوں کی عدت کا حکم سورہ بقرہ میں نازل ہوا جو مطلقہ تھی یا ان کا شوہر فوت ہوگیا تھا تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یا رسول اللہ ﷺ ! مدینہ والوں میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی خواتین بھی باقی رہ گئی ہیں جن کی عدت کا حکم بیان نہیں ہوا۔"

آپ ﷺ نے دریافت فرمایا وہ کون ہیں ؟ کہا وہ کم عمر اور بڑی عمر اور حمل والی خواتین ہیں، پس اس پر یہ آیت نازل ہوئی "وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسائِكُمْ ... إلى آخرها۔"


تفسیر کشاف جلد ۴ ص ۵۵۷ میں علامہ جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

"وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ هن الصغائر. والمعنى: فعدتهن ثلاثة أشهر، فحذف لدلالة المذكور عليه."

"واللائی لم یحضن وہ عورتیں جنہیں حیض شروع نہیں ہوا سے مراد کم عمر عورتیں ہیں پس ان کی عدت تین ماہ ہے"

تفسیر کبیر میں امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: پڑہیے تفسیر رازی جلد ۳۰ ص ۵۶۳

إِنِ ارْتَبْتُمْ أي إن أشكل عليكم حكمهن  فِي عِدَّةِ الَّتِي لَا تَحِيضُ، فَهَذَا حُكْمُهُنَّ، وَقِيلَ: إِنِ ارْتَبْتُمْ فِي دَمِ الْبَالِغَاتِ مَبْلَغَ الْإِيَاسِ وَقَدْ قَدَّرُوهُ بِسِتِّينَ سَنَةً وَبِخَمْسٍ وَخَمْسِينَ أَهُوَ دَمُ حَيْضٍ أَوِ اسْتِحَاضَةٍ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ فَلَمَّا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا عِدَّةُ الصَّغِيرَةِ الَّتِي لَمْ تَحِضْ؟ فَنَزَلَ: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ أَيْ هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْكَبِيرَةِ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ عِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ، فَقَامَ آخَرُ وَقَالَ، وَمَا عِدَّةُ الْحَوَامِلِ يَا رَسُولَ اللَّه؟ فَنَزَلَ: وَأُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ مَعْنَاهُ أَجَلُهُنَّ فِي انْقِطَاعِ مَا بَيْنَهُنَّ وَبَيْنَ الْأَزْوَاجِ وَضْعُ الْحَمْلِ، وَهَذَا عَامٌّ فِي كُلِّ حَامِلٍ،

خلاصہ یہ ہے کہ "وہ بڑی عمر کی عورتیں جن کا حیض بڑی عمر کی وجہ سے بند ہوگیا اور وہ حیض سے ناامید ہوگئیں ان خواتین کی عمر کا اندازہ فقہاء نے ساٹھ سال یا پچپن سال سے لگایا ہے کی عدت سے متعلق جب آیت نازل ہوئی کہ تین ماہ ہے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یارسول اللہ ﷺ! اس کم عمر صغیرہ لڑکی کی عدت کا کیا حکم ہے جسے حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو؟"

تو یہ آیت نازل ہوئی وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ پس وہ اس بڑی عمر والی عورت کے حکم کے مرتبے میں ہے جس کا حیض رک گیا ہو۔ کہ تین ماہ عدت ہے۔ پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یارسول اللہ ﷺ حاملہ عورتوں کی عدت کیا ہے؟ تو یہ آیت وَأُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ نازل ہوئی۔

محترم میں بیسیوں بلکہ سیکڑوں کتابوں کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ یہاں نابالغ لڑکی کی ہی عدت کا بیان ہوا ہے اس لیے جو معنیٰ آپ نے پیش کیا وہ ٹھیک نہیں اور نہ ہی اسلاف میں سے کسی نے ایسا معنیٰ کیا ہے اس کا معنیٰ وہی ہے جسے میں نے مفسرین ائمہ کے اقوال سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ قرآن صرف ترجمے سے ہی نہیں سمجھ آتا بلکہ ترجمے کے ساتھ صحابہ کرام ، محدثین اور فقہائے کرام اور مفسرین کا فہم بھی لازم ہے۔ جب خالق کائنات  ایک بات کی اجازت دیتا ہے تو نبی کریم ﷺ پر سیدہ عائشہ سے کم عمری میں نکاح کرنے پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟

اسلام امن کا داعی یا فساد کا سبب


مفتی محمدمبشر بدر

عالمِ اسلام مخدوش حالت سے گزر رہا ہے۔مسلمانوں کو اسلام کا نام لیوا ہونے کی سزادی جارہی ہے۔جس اسلامی خطے پر نظر دوڑاؤ اس کا پیرہن خون سے تر بتر نظر آتا ہے۔ جہاں اسلامی تحریک اٹھتی ہے اسے بزورِ بازو دبا دیا جاتا ہے۔ اسلامی شناخت رکھنے والوں کو دہشت گرد سمجھا جاتاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بے بنیاد الزام ہے کہ مسلمان بزورِ بازو تمام دنیا پر اسلامی نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔تمام لوگوں کو ایک سسٹم میں قید کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کی چودہ سو سالہ تایخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جس میں کسی غیر مسلم کو جبراً مسلمان کیا گیا ہویا ان کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کی گئی ہو۔

تمام ادیان میں اسلام وہ واحد دین ہے جس کے مطلب اور مفہوم سے امن اور سلامتی کا درس ملتا ہے ۔جو اپنے پیروؤں کو امن ، محبت اور سلامتی سے زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے۔ بھلا وہ دین جو جانوروں ، چوپایوں اورغیر موذی حشرات کو تکلیف دینے اور انہیں بلاوجہ مارنے سے روکتا ہے وہ انسانیت کی جان، مال اور متاع کو بلاوجہ ضائع کرنے کی کیوں کر تلقین کرے گا۔ وہ اس سے اس کا مقام کیوں کر چھینے گا۔ وہ کیوں کر دہشت گردی کو فروغ دے کردنیا کا امن و امان تباہ کر ے گا؟

اسلام کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیاجائے تو واضح ہو جائے گا کہ اس نے زمانے میں رسوا اور بے عزت عورتوں کو عزت کا تاج پہنایا۔ انہیں ظلم اور تشدّد کی چکی سے نکال کر شفقت اور رحمت کی آغوش میں بٹھایا۔ انہیں ماں، بہن،بیٹی اور بیوی کا درجہ دے کرعزت اور شرف کی خلعت سے نوازا۔ جب کہ دورِ جاہلیت میں پیدا ہو تے ہی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا یا اس سے جانوروں کی طرح مشقت والا کام لیا جاتا تھا۔ اسے کوئی مقام حاصل نہ تھا۔ صرف خواہشات کی تکمیل کے لیے بطور رکھیل رکھا جاتا۔ اسلام نے آ کر اسے تحفظ عطاکیا اور اس کے قدموں میں جنت رکھ دی ۔

اسلام نے بے زبان جانوروں کو ان کے حقوق عطا کیے ،جب کہ اس سے پہلے ان پر زیادہ بوجھ لادا اور چارہ کم ڈالا جاتا تھا۔ اسلام نے اس ظلم اور مصیبت کو رفع کیا، حد سے زیادہ بوجھ لادنے اور کم چارہ کھلانے سے منع کیا۔ جو دین بے زبان جانوروں کو حقوق عطا کرے وہ کیوں کر فساد،بدامنی اور خونخواری کا درس دے سکتا ہے؟

صرف یہ ہی نہیں اسلام نے تو مزدوروں کو بھی حقوق عطاکیے ہیں۔ اسلام سے پہلے مالدار اور جاگیر دار مزدوروں سے کام زیادہ لیتے اور بدلے میں یا تو اجرت ہی کم دیتے یا بالکل دبا لیتے تھے۔نہ وہ بچارا مزدوری چھوڑ سکتا اور نہ ہی اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکتا۔ یوں وہ ظلم کی چکی میں پستا رہتا۔ اسلام نے آ تے ہی اعلان کیا کہ مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے مزدوری ادا کرو۔خود آقا علیہ السلام نے مزدور کا ہاتھ چوم کر فرمایا: "محنت مزدوری کر کے کمانے والا اللہ کا دوست ہے"۔ یہ بات دعوے سے کی جاسکتی ہے کہ جتنا اسلام نے مزدور کو مرتبہ اور مقام عطاکیا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں کیا۔ غرض ایک لمبی فہرست ہے جو اسلام کے عدل و انصاف اور اخوت و مساوات جیسے خوبصورت عنوانات سے سجی ہوئی ہے۔ آپ انصاف کیجیے بھلا ایسا خوبصورت مذہب دہشتگردی اور انارکی پھیلانے کا سبب کیسے بن سکتاہے؟کیوں کر کسی پر جبرکر کے اسے اسلام لانے پر مجبور کر سکتا ہے؟

ماہِ ذوالحج کی اہمیت اورخصائص

مفتی محمد مبشر بدر
ماہِ ذوالحجہ ہجری تاریخ کا آخری مہینہ ہے۔ اس  پر قمری سال کا اختتام ہوجاتا ہے پھر محرم سے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس ماہِ مقدس کو بنیادی طور پر دو وجوہات سے منفرد اور امتیازی مقام حاصل ہے۔ اول یہ کہ اس ماہ کا شمار اشہرِ حُرُم یعنی حرمت والے چار مہینوں ( ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب) اور اشہر حج میں ہوتا ہے۔ اشہر حج یعنی حج والے مہینے جو کہ تین ہیں: شوال، ذوالقعدہ اورذوالحجہ کےپہلے  دس دن ۔ اسی ماہ  اسلام کے پانچویں رکن حج کی دائیگی کے لیے لوگ دور دراز مقامات سے سفر کرکے حرم شریف پہنچتے ہیں اور اپنے رب کے حضور فریضہ بجا لاتے ہیں۔ تبھی اس ماہ کو ذوالحجہ یعنی حج والا مہینہ کہا جاتا ہے۔یہ اس ماہ کی اہم خصوصیت ہے جو اسے باقی مہینوں سے ممتاز کرتی ہے۔

حج ارکان اسلام میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ چنانچہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: " اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، لا الٰہ الا اللہ  و اَن محمدا رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، روزہ رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو حج بیت اللہ کرنا۔" حج کی فرضیت کی تاریخ کے بارے پانچ ہجری  ، چھے، نو اور دس ہجری کے اقوال ملتے ہیں جن میں آخری دو زیادہ راجح معلوم ہوتے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی حج کی عبادت مشروع تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد کے لوگ حج کرتے تھے لیکن  عمرو بن لحی نے جب عرب میں بت پرستی کو رواج دیا تو حج کے احکام اور طریقے میں بھی رد و بدل کیا گیا۔ہم ملتِ ابراہیمی ؑ پر ہیں  اور حج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار ہے۔ تعمیر بیت اللہ کے بعد انہوں نے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی تھی، جس کے جواب میں اس وقت سے  اب تک لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں اور حکم ربی بجا لاتے ہیں۔
چنانچہ اللہ فرماتا ہے:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26 ) وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) (سورۃ الحج)

ترجمہ: " اور جب کہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو ( لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں۔"
حج اور دیگر عبادات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دیگر عبادات کہیں اور کسی وقت بھی ادا کی جاسکتی ہیں لیکن حج ایسا فریضہ ہے کہ مخصوص ایام (یعنی ذوالحجہ کے پانچ دن) میں مکہ مکرمہ کے مخصوص مقامات (یعنی مسجد حرام، مزدلفہ، منی اور عرفات) میں ہی ہوسکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دس ہجری میںایک ہی حج کیا جس میں آپ نے امت کو مکمل حج کا صحیح طریقہ سمجھا دیا، جسے حجۃ الوداع  کہا جاتا ہے۔ جس میں آپ ﷺ نے مشہور خطبہ ارشاد فرمایا جو بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی موقع پر نبی کریم ﷺ پر تکمیل دین کی آیت نازل ہوئی اور آپ نے اسلام کے بطورِ دین  مکمل ہونے کا اعلان فرما دیا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا۔ (سورۃ المائدۃ)

ترجمہ: "  آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین ( ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔"

اس ماہ کی دوسری بڑی امتیازی وجہ عید الاضحیٰ ہے۔جو دس ذو الحجہ کو پورے عالم اسلام میں عقیدت اور احترام سے منائی جاتی ہے۔سورہ کوثرمیں اس کا ذکر اس آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ( پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر) میں ہے ۔ عید الاضحیٰ میں سنت ابراہیمی کی اتباع میں جانور کی قربانی کی جاتی ہے ۔ یہ قربانی  سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یادگار ہے جب انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے عزیز از جاں لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا کر اپنے رب کے نام پر قربان کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ کو سیدنا ابراہیم کی یہ ادا، جانثاری اور قربانی اس قدر پسند آئی کہ سیدنا اسماعیل کی جگہ ایک مینڈہا بھیج دیا اور بعد والے لوگوں میں یہ طریقہ جاری کردیا۔ یہ درحقیقت  اس بات کا عملی اظہار تھا کہ ایک مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں دنیا کی  کوئی چیز کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ جان، مال، اولاد اور خاندان سب کچھ اللہ کے حکم پر چھوڑنا پڑ جائے تو چھوڑا جاسکتا ہے لیکن اپنے خالق کو قطعاً نہیں چھوڑا جاسکتا۔ باوجود اس کے کہ اللہ کو ہمارے جان، مال اور اولاد کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ تو اپنے بندوں کو نواز کر آزماتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ کی کتنی اہمیت اور محبت ہے۔

ویسے تو اس  مبارک ماہ کے پہلے عشرے میں تکبیر وتہلیل مستحب اور پسندیدہ ہے، لیکن  نو ذوالحجہ یعنی عرفہ کی نمازِ فجر کے بعد سے تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد  ایک بار تکبیرتشریق  کہنا واجب ہے۔ مرد بلند آواز سے جب کہ خواتین آہستہ آواز سے پڑہتی ہیں۔ نماز عید الاضحیٰ کے لیے جاتے ہوئے راستے میں تبیرےات بلند آواز سے پڑہنی چاہییں۔ تکبیر تشریق یہ ہے:

اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد

اللہ تعالیٰ نے سورہ فجر میں ذو الحجہ کے پہلے دس دن کی قسم اٹھائی ہے۔ نو ذوالحج یعنی یوم عرفہ کا روزہ رکھنامستحب اور باعث اجر ہے چنانچہ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " عرفے کے دن روزہ رکھنے سے مجھے امید ہےکہ وہ گذشتہ اور آئندہ ( دو سالوں) کے گناہ معاف فرما دے گا۔" اسی طرح ترغیب عن البیہقی اور الطبرانی  سے سند حسن کے ساتھ روایت مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: " عرفہ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔" لیکن ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...