پیر، 1 مئی، 2017

ترکی ! اسلامی نظام کی طرف گامزن

               محمد مبشر بدر
’’ تم کبھی تعلیم نہیں حاصل کرسکتی جب تک حجاب پہنتی ہو ، تم دہشت گرد ہو ۔‘‘ یہ کہہ کر ایک سیکولر خاتون نے پردہ میں مستور سولہ سالہ فاطمہ کا حجاب کھینچ کر اس کے  منہ پر تھپڑ ماردیا۔ یہ واقعہ ترکی میں پیش آیا جب فاطمہ ایک پبلک بس میں سفر کررہی تھی۔ وہ ساتھ بیٹھی خاتون سے یونیورسٹی میں داخلے کی بات کررہی تھی۔ دوسری سیٹ پر بیٹھی سیکولر خاتون کو فاطمہ کا حجاب ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔اس نے وہ کام کردیا جس سے اکثریتی مسلم ملک ترکی ہل کررہ گیا ، جو کہ ماضی میں حجاب پر جبر و سختی کے حوالے سے بدنام تھا۔لڑکی کی درخواست پر مقامی عدالت نے دھمکیوں ، تذلیل ، مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور تھپڑ مارنے پر سیکولر خاتون کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
یقین نہیں آتا کہ کیا یہ وہی ترکی ہے جس کو۱۹۲۳ء میں خلافتِ عثمانیہ  کے سقوط کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیرِ قیادت  جبراً سیکولر اسٹیٹ بنادیا گیا تھا  اور اسے ایک لادینی جمہوری آئینی حیثیت دے کر اسلامی شعائر اور تشخص کو پابندِسلاسل کردیا گیا تھا، جس کے اثراتِ بد کا اب تدریجاً صفایا ہورہا ہے۔ یہ مصطفیٰ کمال اتاترک جیسے سفاک اور جابر ڈکٹیٹر کا ظلم تھا ، جس نے خواتین کے لیے حجاب اور مردوں کے لیے داڑہی رکھنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے لاطینی میں تبدیل کردیا تھا۔
          ترکی میں  جس تیزی سے اسلامی تشخص اور اقدار کو مٹایا گیا ، اسلام سے روکنے کے لیے جتنے حربے ، رکاوٹیں اور  پابندیاں لگائی گئیں، اسلام اتنا ہی دلوں میں قرار پکڑتا گیا اور اسلامی جماعتیں لوگوں میں مقبول عام حاصل کرتی گئیں۔جس میں نمایاں مقام طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو حاصل ہے جو اس وقت ترکی کی حکمران جماعت ہے۔ ترکی معیشت کی ابتر حالت کی وجہ سے جب سیکولروں کو خفت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا  تب اسلام پسند جماعتیں تندہی اور محنت سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹ رہی تھیں ۔
          ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں  اسلام پسند جماعت عدالت و ترقی پارٹی کے سربراہ رجب طیب اردوغان کو   ۱۹۹۸ء  میں اپنی تقریر میں اسلام کے حق میں بیان کی بنا پر وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ان کی جگہ ان کے نائب عبداللہ گل وزیرِ اعظم بنائے گئے، بعد میں ایک آئینی ترمیم کی ذریعے اس پابندی اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والی سزا کو ختم کیا گیا۔۹ مارچ کو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے اردوغان کو پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ان کو وزارت میں لانے کے لیے عبداللہ گل مستعفی ہوگئے۔انہیں پہلے دور میں وزیرِ خارجہ بعد ازاں صدر منتخب کیا گیا ۔ ترکی کے بارہویں صدر طیب اردوغان کی اہلیہ حجاب استعمال کرتی ہیں ، جس کی بنا پر انہیں کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن اردوان کی عبقری اسلام پسند شخصیت نے ترکی میں مذہبی آزادی کا پروانہ جاری کیا  مسلم خواتین کے حجاب پر لگی پابندی کو ختم کرکے حجاب پہننے کی اجازتِ عام دے دی، جس سے سیکولر طبقوں میں کافی کھلبلی مچی۔
          حال ہی میں ترک  پولیس کے بعد فوج میں بھی سروس کرنے والی  خواتین کے حجاب پر لگی پابندی ہٹانے کے لیے سرکاری گزٹ جاری کردیا گیا ہے۔اس کے علاوہ عسکری نوکری کرنے والی خواتین حمل کے بعد سول کپڑے بھی پہن سکیں گی۔حکم کے مطابق اب سول ملٹری، جنرل کمانڈ اور کوسٹ گارڈ کمانڈ میں عسکری نوکری کرنے والی خواتین اپنی مرضی سے حجاب پہن سکیں گی۔ جب کہ دو مئی ۱۹۹۹ ء کو مریم کواکچی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں ، لیکن انہیں حجاب کی وجہ سے حلف اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ کہتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا کہ ’’ یہ کوئی جگہ نہیں جہاں ریاست کو چیلنج کیا جائے ۔ ‘‘
البتہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ برسرِ اقتدار آکر اس پابندی کو ختم کرے گی ، اب اردوان نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا ۔ کئی عرصہ بحث و مباحثے کے بعد آخر کار ۲۰۱۰ء میں جامعات ، ۲۰۱۳ء میں دیگر سرکاری اداروں اور ۲۰۱۴ء میں سکولوں میں پابندی ختم کردی ، اب ترکی میں اس راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ ترک حکومت کی طرف سے جاری کردہ مراسلے میں مرد سول فوجی اہلکاروں کو بھی داڑہی رکھنے کی اجازت دینے سمیت موسمِ گرما میں ٹائی نہ پہننے کی چھوٹ دے دی ، اس سے قبل مرد سویلین اہلکاروں کو داڑہی رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس سے قبل گذشتہ سال خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی دوران سروس جمہوری پیکیج کے تحت حجاب پہننے کی اجازت دی گئی تھی جسے بڑے پیمانے پر حلقہءِ نسواں میں سراہا گیا تھا۔
رجب طیب ایردوان کی زیر قیادت آق پارٹی نے ۲۰۱۱ء میں یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی پابندی ہٹا دی تھی جبکہ ۲۰۱۳ء میں خواتین ممبرانِ پارلیمنٹ کو بھی حجاب کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ترکی میں سیکولر آئین کے تحت ۱۹۲۳ء میں خواتین پر حجاب اور مردوں کے لیے داڑھی رکھنے کی مکمل پابندی عائد کی گئی تھی، رجب طیب ایردوان کی زیرقیادت ترک حکومت آہستہ آہستہ عوام کو آزادی دیتے ہوئے ان کو اپنے ذاتی اور دینی عقائد کے مطابق حجاب کرنے اور داڑھی رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔
حالیہ صدارتی ریفرینڈم میں طیب اردوان کی فتح اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ترقی کا مستقبل اسلام ہے۔اس ریفرینڈم کے نتیجے میں  اردوان کو اب  وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔یہ بالیقین اسلام کی فتح ہے ۔حقیقت ہے کہ نیک صالح قیادت امن و سلامتی والے معاشروں کو تشکیل دیتی ہے۔ ہمارے ہاں یہی المیہ ہے کہ ایک تو ہمہ جہت قیادت میسر نہیں آئی اور دوسرا یہ کہ ہم نے کبھی اسلام پسند جماعتوں کو ووٹ دے کر ایک بار موقع نہیں دیا ورنہ پاکستان بھی ترکی کی راہوں پر گامزن ہوتا۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...