منگل، 14 نومبر، 2023

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر

شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نماز کی فرضیت مکلف پر لاگو ہوجاتی ہے۔ تاہم اگر کہیں شرعی عذر لاحق ہوجائے تو آیا دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کا اس بارے کیا عمل رہا ہے  اس پر احناف کا موقف یہ ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک جمع حقیقی یعنی ایک وقت میں دو نمازیں جمع کردی جائیں،  دوسری  قسم جمع صوری یعنی اول نماز اس کے آخری وقت میں ادا کی جائے اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں ادا کی جائے۔ یوں دونوں نمازیں صورتاً جمع ہوجائیں گی لیکن حقیقتاََ اپنے اپنے وقت پر ہی ادا ہوں گی۔اگر ہم حقیقتاً جمع بین الصلاتین کے قائل ہوجائیں جیسا کہ کچھ لوگوں کا موقف ہے تو اس سے کچھ احادیث پر عمل اور کچھ کو ترک کرنا لازم آئے گا جب کہ جمع صوری پر عمل کرنے سے تمام احادیث پر یکساں عمل ہوگا کسی کا ترک لازم نہیں ہوگا۔

احناف کایہی اصول رہا ہے کہ ایسا موقف اختیار کیا جائے جس پر زیادہ سے زیادہ احادیث پر عمل ہو جتنا روایات میں مطابق دی جاسکتی ہو دی جائے۔ جہاں مطابقت ممکن نہ ہوں وہاں راجح جانب کو ترجیح دے کر ثانی موقف کی تاویل کردی جائے۔ چنانچہ اس حوالے سے قرآنی آیات اورتمام احادیث کا ادراک کرنے کے بعد اہلسنت احناف کا فہم اور موقف یہ ہے کہ جمع حقیقی صرف ایام حج میں مزدلفہ اور عرفات میں جائز ہے اس کے علاوہ کسی عذر کی وجہ سے جائز نہیں جب کہ جمع صوری شرعی عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ اس موقف پر چند دلائل پیش خدمت کرتا ہوں تاکہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ اہلسنت احناف کا موقف محض رائے پر قائم نہیں جیسا کہ بعض لوگ غلط تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں  بلکہ قرآن و سنت کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔

دلیل 1 :

احناف کی پہلی دلیل قرآن مجید کی آیت ہے۔

﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾  (النساء:۱۰۳ )

ترجمہ: "بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے"۔

امام بیضاوی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 ای فرضا محدود الاوقات لایجوز اخراجھا عن اوقاتہا فی شیئ من الاحوال

ترجمہ: " نماز ایسا فرض ہے  جسے اپنے اوقات میں محدود کردیا گیا ہے ، ان نمازوں کو پنے مقررہ اوقات سے باہر نکالنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔"

آیت مبارکہ اس معنیٰ میں واضح اور خاص ہے کہ ہر نماز کا ایک مقرر وقت ہے۔  وقت داخل ہوتے ہی نماز فرض ہوجاتی ہے،  اپنے وقت سے پہلے کوئی نماز فرض نہیں ہوتی۔ قرآن کے اس فیصلے کے بعد ہم تمام روایات کو اسی اصول پر پرکھیں گےکیوں کہ قرآن اصل الاصول ہے باقی دلائل اس کے تابع ہیں۔

دلیل نمبر 2:

اسی طرح قران مجید میں ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔ سورۃ الماعون )

ترجمہ: ان نمازیوں کیلئے ویل نامی جہنم کی جگہ ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔

دلیل نمبر 3:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (بقرۃ آیت:  ۲۳۸)

ترجمہ: "نمازوں کی حفاظت کرو۔"

اس آیت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی لکھتا ہے کہ { حافظوا عَلَى الصلوات } بالأداء لوقتها والمداومة عليها۔

ترجمہ: " یعنی اپنے وقت پر ادائیگی اور اسپر مداومت کے ساتھ اس نماز کی حفاظت کرو۔"

دلیل نمبر 4 :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ"۔ (سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)

ترجمہ: "جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں)جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔"

اس روایت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کی ممانعت ہے حتیٰ کہ کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ نمازوں کا اصل حکم ہے کہ بلا عذر ایک وقت میں دو نمازیں جمع نہ کرے۔یہ قرآن کی آیت کی تائید ہے۔

دلیل5 :

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا"۔

(صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع:۱٦۸۲)

ترجمہ: " میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ ﷺ نے جمع فرمائیں، اور مزدلفہ میں فجر کو معمول کے وقت سے پہلے (فجر کے بالکل ابتدائی وقت میں) ادا فرمایا  "۔

اس روایت میں سیدنا ابن مسعود فرمارہے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھتے نہیں دیکھا سوائے مزدلفہ کے۔ اس کے علاوہ کہیں جائز نہیں۔ نیز اس روایت میں آپ ﷺ کا فجر کی نماز کو وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:

" المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين"۔
(حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية:7، 1 / 228 ط:هنديه)

ترجمہ: "یعنی فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عموماً فجر کی نماز جس وقت (آخرِ وقت) ادا کرنے کا معمول تھا، اس وقت سے پہلے (ابتدائی) وقت میں فجر کی نماز ادا فرمائی، نہ کہ طلوع فجر (وقت داخل ہونے) سے پہلے ادا فرمائی ؛ کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے فجر کی نماز ادا کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع سے ناجائز ہے۔"

دلیل6 :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ، يُؤَخِّرُ صَلاَةَ المَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ العِشَاءِ» قَالَ سَالِمٌ: «وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ المَغْرِبَ، فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا، ثُمَّ يُسَلِّمُ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ العِشَاءَ، فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ، وَلاَ يُسَبِّحُ بَيْنَهُمَا بِرَكْعَةٍ، وَلاَ بَعْدَ العِشَاءِ بِسَجْدَةٍ، حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ»

(الصحیح للبخاری رقم الحدیث 1109)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے،پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓبھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے، مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے، پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے، دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے) "۔

اس روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر ؓ نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے تو حضرت ابن عمرؓ کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔ خود حافظ ابن حجرؒ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس روایت میں صورتا جمع کرنا مراد ہے۔

دلیل 7 :

خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روایات کی بنا پر انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ:

" يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ "۔

(موطأ محمد، باب الجمع بین الصلاتین في السفر:۲۰۵)

ترجمہ: "کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔"

اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین  حقیقتاًجائز نہیں ہے بلکہ صورتاً جائز ہے۔

پیر، 6 نومبر، 2023

استاذ القراء قاری محمد ابراہیم رحیمی رحمہ اللہ ایک قابلِ رشک شخصیت

مفتی محمد مبشر بدر عفی عنہ

کچھ لوگ قابلِ رشک ہوتے ہیں، جو حقیقی کامیابیاں سمیٹ کر اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوجاتے ہیں اور اپنے لیے ذخیرہ  آخر ت اتنا جمع کرجاتے ہیں کہ ملائکہ بھی ان پر رشک کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رضا کے متلاشی  اور اس کی نازل کردہ کتاب کے خادم ہوتے ہیں۔ جن کی پوری زندگی قرآن  پڑھنے پڑھانے میں گزر جاتی ہے اور وہ مخلوق سے اس کا صلہ و بدلہ نہیں چاہتے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: رشک دو آدمیوں کے سوا کسی پر جائز نہیں ایک اس  شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا علم دیا  اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا  آدمی جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔ (بخاری) قاری قرآن کی شان یہ ہے کہ گویا  وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتا ہے۔  ایک روایت میں ہے کہ "جنت کے درجات آیاتِ قرآن کے بقدر ہیں، قاری ء قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا جہاں آخری آیت ہو وہاں تمہارا مقام ہے۔"

محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قرآن پاک کے قاری نے گویا نبی کریم ﷺ کی زیارت کرلی" ( تنبیہ الغافلین) یہ خوش نصیب لوگ جن کی اللہ اور ملائکہ کے ہاں عزت ہے آج دنیا  کے طالب ان کی قدر و منزلت سے نا آشنا ہیں۔ یہ قابلِ رشک لوگ بروزِ محشر باعزت و باکرامت ہوں گے۔  شاعر ان پراسرار عبادِ ربانی کے بارے کہتا ہے:

؎          یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر

انہی کے اتقاء پہ ناز کرتی ہے مسلمانی

 استاذ القراء خادم القرآن  قاری محمد ابرہیم رحیمی نور اللہ مرقدہ انہیں قابل رشک لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے قرآن مجید کی خدمت کے لیے خاص کیا ، انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن پڑہنے پڑھانے میں گزار دی ، اور یوں امت کے بہترین طبقے میں شامل ہوگئے چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَهُ  یعنی " تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے۔" دنیا میں بھلا کوئی ان کی قدر جانے یا نہ جانے پر رسول اللہ ﷺ کی زبانی ان کا مرتبہ بیان کیا جاچکا کہ اللہ کے ہاں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

آپ  1940 ء کو ضلع مظفرگڑھ کے قصبہ شاہجمال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علاقے کے معروف عالم دین  اور مشہور قاری مولانا صالح محمد رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں خیر المدارس ملتان میں  استاذ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ سے قرآن کی تکمیل کی۔ آپ استاذ کے حد درجہ فرمانبردار اور تابعدار تھے۔ ایک مرتبہ قاری رحیم بخش رحمہ اللہ نے فرمایا: "ساری زندگی آپ نے جامع مسجد سنارے والی  شاہجمال  تحصیل و ضلع مظفرگڑھ میں اللہ کا قرآن پڑھانا ہے۔"  پس آپ نے رضائے  ربی میں استاذ کے حکم کی تعمیل کی اور ساری عمر جامع مسجد سنارے والی  میں گزار دی۔ آپ نے 65 برس امامت اور تدریس میں صرف کیے اور ہزاروں لوگوں کے دلوں کو قرآن کی تعلیم سے منور کیا ۔

آپ کے شاگرد اور فیض یافتہ کرہ ارضی پر پھیلے ہوئے ہیں، نصف شہر سے زیادہ لوگوں نے آپ کے سامنے  زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ کے پڑھانے کا انداز انتہائی آسان اور عمدہ  تھا۔ جہاں پورے شہر میں سادہ قرآن پڑھانے کا رواج تھا، مخارج اور تلفظ کی صحیح ادائیگی پر توجہ نہیں دی جاتی تھی وہاں استاذ محترم قاری ابراہیم رحمہ اللہ تمام حروف کو ان سے مخارج سے ادا کرنے کا اہتمام فرماتے۔ چنانچہ ناظرہ پڑھنے والے بچوں کے مخارج اور الفاظ کی ادائیگی مشاق قراء کرام کی طرح عمدہ اور شستہ ہوتی۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا آپ رسول اللہ ﷺ کے ان  فرامین پر بدرجہ اتم عمل فرماتے: ’’اِقْرَئُوُا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ العَرَبِ وَأَصْوَاتِھَا‘‘۔ ترجمہ: " قرآن کو عرب کے لہجے اور ان کی آواز میں پڑھو۔" (شعب الایمان)   ایک اور روایت میں ارشاد ہے: ’’حَسِّنُوا القُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُم؛ فانَّ الصَّوتَ الحَسَنَ یَزِیْدُ القُرآنَ حُسْنًا۔ ترجمہ: " اچھی آواز سے قرآن کوپڑھاکرو؛اس لیے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن کوبڑھادیتی ہے"(شعب الایمان)

آپ سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا تاہم چند معززین علاقہ جن میں: " مفتی محمد اصغر (ملتان)، مفتی محمد حذیفہ و مفتی محمد جعفر( کراچی)، مولانا  زین العابدین (شاہجمال) ( فاضل دارالعلوم کراچی)، ( راقم الحروف)مفتی محمد مبشر بدر (فاضل دارالعلوم کراچی) مولانا عبد الخالق رحمانی( خطیب پاکستان کبیر والہ)، حافظ عبد الرحمٰن انصاری سابق جج ہائیکورٹ لاہور، حافظ عبدالشکور انصاری چیف انجینئر ایریگیشن آف پنجاب، قاری خدا بخش قصائی،قاری محمد اسماعیل شاہجمال (برادر)، قاری مولانا عبدالستار (شاہجمال)،  ڈاکٹر میاں محمد اقبال، ڈاکٹر محمد فرخ رضا، میاں محمد عمران دھنوتر، سابق چئرمین یونین کونسل شاہجمال مہر غلام علی جانگلہ وغیرہ سر فہرست ہیں جب کہ  آپ  جامعہ دارالقرآن فیصل آباد کے بانی و مہتمم قاری محمد یٰسین حفظہ اللہ اور جامعہ طیبہ  فیصل آباد کے بانی و مہتمم قاری محمد ابرہیم  رحمہ اللہ کے ہم در س و ہم سبق رہے ہیں ان کے علاوہ  مفتی محمد اصغر علی ربانی رحمہ اللہ (نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی)، قاری محمد ادریس صاحب مہتمم  جامعہ رحیمیہ ملتان، الحاج  قاری مولانا اکرام الحق انصاری رحمہ اللہ، الحاج قاری عبد الکریم مدنی (مدینہ منورہ) قاری محمد منظور صاحب ( خانگڑھ) ایسے عظیم لوگ آپ کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے ہیں۔

حضرت قاری صاحب پانی پتی لہجے میں اتنی عمدہ اور سحر انگیز  تلاوت فرماتے تھے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے اور داد دیے بغیر نہ رہتے۔ ہر لفظ کو اس کے مخرج سے سہولت سےادا فرماتے ۔ قریب و جوار کے لوگ ان کی تلاوت کے مداح اور خطباتِ جمعہ و عیدین کے دیوانے تھے۔

؎          وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ

 آپ نے سادہ اور درویشانہ زندگی گزاری۔ چہرہ ہشاش بشاش  رہتا اور جسے ملتے والہانہ انداز اور خندہ پیشانی سے ملتے ۔ سخی تھے اور لوگوں کی بخیلی اور کنجوسی پر نالاں رہتے اور انہیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا کہتے رہتے۔حرمین شریفین  سے  اس درجہ وارفتگانہ اور عاشقانہ تعلق تھا کہ اسباب و زر کی قلت  کے باوجود ایک حج اور تین عمرے کی ادائیگی کی سعادت مع اہلیہ محترمہ حاصل کی۔ آپ کی محنتوں اور کاوشوں سے کئی لوگوں کے عقیدے درست ہوئے اور کئی صالحین بنے۔ ملامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے دور اقتدار میں آپ نے افغانستان کا سفر کیا۔

آپ نے 83 سال کی عمر میں  19 ستمبر بمطابق 2 ربیع الاول بروز منگل صبح 9 بج کر 20 منٹ پر تمام اعزاء و اقارب، مقتدیوں، شاگردوں، اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کیا ۔ اپنے پیچھے ایک بیوہ  چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔ جن میں سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں الحمدللہ حافظ قرآن  اور حضرت استاذ محترم کے لیے ذخیرہ آخرت ہیں۔ آپ کے بیٹوں میں قاری محمد اسحاق، قاری محمد محبوب احمد اور قاری محمد ایوب صاحب شعبہ امامت و تدریس قرآن سے منسلک ہیں جبکہ ماسٹر محمد یعقوب صاحب گورنمنٹ سکول شاہجمال کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ قاری محمد ابرہیم رحمہ اللہ کی وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے چھوٹے بیٹے قاری محمد ایوب الرحمٰن  حفظہ اللہ نے  گورنمنٹ ہائی سیکنڈری سکول شاہجمال میں پڑہائی۔ آپ کا جنازہ  شاہجمال کی تاریخ کا ایک عظیم  جنازہ تھا جس میں تمام مسالک کےجید علمائے کرام اور قراءِ عظام کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اللہ کی اس عظیم شخصیت قدسیہ  پر کروڑوں رحمتیں ہوں اور ان کی قبر نور سے منور ہو۔ اللہم آمین

؎         تیری جدائی پہ مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

          مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ا بھی تک یقیں نہیں ہے

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...