بدھ، 16 نومبر، 2016

انسانی زندگی پر فلموں کے مضر اثرات


                     
 محمد مبشر بدر

فلم انڈسٹری نے دنیا کو ایک نئی جہت اورموڑ دے دیا اور پورے کلچر کو بدل کر ہی رکھ دیا ہے۔ یہ جہاں دیکھنے والوں پرایک خاص اثر ڈالتی  ہیں ، وہاں انسانی دماغوں کو بھی اپنے سحر میں مبتلا کردیتی ہیں ۔ سکرین پر ہر سیکنڈ بدلتے مناظر انسانی دماغ میں تجسس اور جستجو پیدا کردیتے ہیں کہ اس سین کے بعد کون سا منظر ہوگا ۔ ہر لمحہ بدلتے مناظر لوگوں کی توجہ اپنے طرف مبذول کیے رہتے ہیں ، اگر بیچ میں کوئی بول پڑے تو سبھی ناگواری محسوس کرتے ہوئے بولنے والے کو روک دیتے ہیں تاکہ دیکھنے میں خلل پیدا نہ ہواور سسپینس برقرار رہے۔
            فلموں اور ڈراموں سے متعلق لوگوں کی آراء دو قسموں میں بٹی ہوئی ہیں ۔ بعض لوگ ان میں مثبت پہلو  دیکھ کر انہیں تعمیرِ معاشرہ میں ایک اہم عنصر قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرا گروہ  ان کے مضر اثرات اور نقصان دہ پہلوؤں  کی جانب دیکھ کر انہیں  انسانی اقدار و اخلاق کی تباہی کا سبب بتلاتا ہے ۔
            اس میں کوئی شک نہیں کہ فلموں اور ڈراموں نے انسانیت کو بجائے اخلاقیات ، حیاء داری ، نیکی ، تقویٰ ،  دیانت داری ،  برداشت اور تعمیرِ معاشرہ کے بداخلاقی ، بے حیائی ، فسق و فجور ،  بددیانتی ، تکبر ،  عدم برداشت اور تخریبِ معاشرہ کا ہی درس دیا ہے۔ انسانی رویوں میں بڑی حد تک تبدیلی پیدا کرنے میں فلموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس میں شہرت ، عزت اور پیسے کی ہوس ہی پائی جاتی ہےجن کی تلاش میں  اداکار ہر گھٹیے سے گھٹیا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔اور خواتین پیسے اور شہرت کی بھوک میں اپنا جسم تک ظاہر کرنے اور عزت لٹوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں ، بلکہ الٹا اسے ایک آرٹ اور فن سمجھا جاتا  ہے۔
ٹیلی ویژن ، ڈش ، کیبل ، انٹر نیٹ نے  لوگوں کی ذہنیت کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ پوری مشرقی تہذیب بدل کررکھ دی ۔ بچیوں کا لباس اور اور لباس پہننے کا ڈھنگ بدل گیا، حجاب چہروں سے اتر گیا اور سروں سے دوپٹہ غائب ہو گیا، سوچنے سمجھنے کے معیار اور پیمانے تک بدل گئے۔کل تک جن برائیوں کو برائی سمجھا جاتا تھا آج اس کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔جن عریاں مناظر کو کل تک انسان اپنے لیے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا تھا آج اپنی بیٹیوں ، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتا ہے، مجال ہے کہ چہرے پر کچھ ملال آئے اور کچھ غیرت جاگے۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فلمیں انسان کی ادبی زندگی پر بڑا  اثر ڈالتی ہیں اور اس سے اردو میں روانی اور پختگی پیدا ہوتی ہے ، جب کہ ان  سے انسان کی ادبی صلاحیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا ، الٹا وہ متکبرانہ جملے اور ڈائیلاگ دماغ میں گھومتے رہتے ہیں جو ہیرو یا ولن بولتے ہیں ۔ حتیٰ کہ آج وہ ڈائیلاگز بچوں اور جوانوں کی زبان پر اس طرح جاری ہوتے ہیں ایسے قرآن پاک کی سورتیں بھی جاری نہیں ہوتیں ،  وہ خود کو ہیرو  سمجھنے لگتے ہیں   ۔بلکہ ہر شخص خود کو ہیرو کے کردار میں تصور کرتا ہے اور خود کو اسی گیٹ اپ میں دیکھنا پسند کرتا ہے ، کوئی بھی خود کو ولن کے روپ میں دیکھنا پسند نہیں کرتا چاہے اس کا کردار کتنا ہی منفی کیوں نہ ہو۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ ان فلموں کے جذباتی اور پرتشدد مناظر کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت کا عنصر پروان چڑہا ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایکشن فلم ریلیز ہو کر سینما گھروں اور انٹرنیٹ پر آتی  ہے جنہیں مسلسل دیکھ کر جوانوں میں اسی تناسب سے لڑائی جھگڑے کا شوق و جوش بھی پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو سگریٹ،  شراب اور چرس کے علاوہ آوارگی کا درس انہی فلموں سے ملتا ہے ۔حال میں دنیا میں بڑہتی ہوئی منشیات فروشی کے کاروبار کے سدِ باب کے لیے تمام ممالک نے ایڑہی چوٹی کا زور لگادیا لیکن منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بجائے کمی کے الٹا خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔حتیٰ کہ عالمی رپورٹ میں بڑہتے ہوئے منشیات کے استعمال کا سبب فلموں کو قرار دیا جا چکا ہے ، جن میں ہیرو کو بار بار ایکشن سے سگریٹ ، شراب وغیرہ پیتا  دکھایا جاتا ہے ، جنہیں دیکھ کر نوجوان بھی ان مضر صحت اشیاء کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جرائم کا فروغ بھی انہی فلموں کا مرہون منت ہے، جن سے جرائم پیشہ افراد وارداتوں کی تربیت لیتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  انڈیا کی بت پرستانہ اور مشرکانہ تہذیب انہی فلموں کی وجہ سے مسلمانوں میں در آئی ہے ۔آج مسلمان کی نسل بجائے خدائے واحد کی ذات پر یقین رکھنے کے بجائے دیوی دیوتاؤوں ، مندروں اور گرجوں کی اسیر ہورہی ہے ۔ آج  مسلمان کا بچہ شادی میں باپ سے پوچھتا ہے پاپا! شادی میں سات پھیرے کب لیے جائیں گے۔؟ اسی طرح آج مسلمان بچے  گھروں میں کھلونوں کے سامنے ہاتھ جوڑے ہندوانہ پوجا پاٹ کی ایکٹنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہندوانہ کلچر آج جس تیزی سے مسلمان نسلوں میں پھیل رہا ہے اس کی بنیادی وجہ انڈیا کی فلمیں اور ڈرامے ہیں۔شادی ، غمی کی تمام رسمیں ہندو کلچر سے آج ہمارے معاشرے میں رواج پکڑتی جارہی ہیں۔اسلامی احکامات کا مذاق اڑایا جاتا اور انہیں روندا جاتا ہے۔  نکاح و شادی اور دیگر معاملات میں مسلم و غیر مسلم کی تفریق ختم کرکے انسانیت کو بطورِ مذہب پیش کیا جارہا ہے۔
فلموں میں سماجی مسائل کا حل کم اور عریانیت زیادہ پیش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے بچے قبل از بلوغت جوان اور نوجوان قبل از نکاح بےکارے ہورہے ہیں ۔فحاشی کا عنصر پہلے سے بہت بڑھتا جارہا ہے ، جس کے نقصانات نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ہر فلم میں ایک ہی جیسی پریم کہانی ہوتی ہے جس میں ہیرو اپنی ہیروین کو حاصل کرنے کے لیے سماج سے ٹکراجاتا ہے اور ہزاروں افراد کا خون کرکے اپنا گھر بساتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ پر مبنی ہیں پھر بھی شوق سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پروفیسر گیل ڈائنز نے لکھاہے کہ :‏ ”‏جس طرح کی فحاشی کو چند سال پہلے نہایت ہی بےہودہ خیال کِیا جاتا تھا،‏ آج‌کل اُسے معمولی سی فحاشی خیال کِیا جاتا ہے۔‏“‏ یہ سب مسلسل فلم بینی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جس کے حل کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا بلکہ اسے برائی اور گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ، جو کہ سنگین گناہ ہے۔


ان فلموں کی سب سے بڑی خرابی فیشن پرستی کو رواج اور تقویت دینا ہے ۔فلم بینی کو کسی صورت محمود نہیں کہا جاسکتا یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار اور فتنہ ہے جس نے بچوں اور بچیوں کے اذہان کو غلاظت سے بھردیا ہے ۔انڈیا فلم انڈسٹری میں سب سے اوپر جارہا ہے لیکن خواتین کی عصمت دری بھی اسی تناسب سے بڑہتی جارہی ہے، عصمت دری کے حساب سے انڈیا نمبر ون ملک قرار دیا جاچکا ہے ۔جب کہ ہالی وڈ کی خباثت ، فحاشی اور عریانی تو سب پر سبقت لے گئی ہے۔ آج سنبھلنے کا وقت ہے ، اپنی اور اپنی اولاد کی صحیح دینی تقاضوں کے مطابق نگہداشت بہت ضروری ہے ورنہ دنیا بھی جائے گی اور عقبیٰ بھی۔

اتوار، 6 نومبر، 2016

ایک کا سات سو گنا




محمدمبشربدر

انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور جاتا بھی  خالی ہاتھ ہی ہے۔ دنیا میں جو کچھ اس کی ملک میں آتا ہے وہ سب اللہ عزوجل کی دین ہے جو وہ اپنے لطف و کرم سے اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے۔وہ انسانوں کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی، اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔انسان کہتا ہے ’’میرا مال ، میرا مال ‘‘ حالانکہ اس نے جو کھایا وہ فائدہ میں رہا جو آخرت کے واسطے بھیجا وہ ذخیرہ ہوگیا جو اسے بڑہا چڑہا کر دیا جائے گا اور جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑا اس کے بارے قیامت کے دن اس سے سوال کیا جائے گا۔
فطری طور پر انسان کے دل میں مال کی محبت ڈال دی گئی ہے، چنانچہ انسان کے لیے مال کی کمی طبعاً ناگوار ہوتی ہے، وہ ذخیرہ اندوزی کا قائل ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس سونے چاندی کے انبار لگے ہوں ،لیکن اس کا پیٹ مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔  جیسا کہ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اکثر گھر میں داخل ہوتے وقت یہ فرماتے تھے ’’  اگر ابن آدم کے پاس  سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تمنا کرنے لگے گا کہ اس کے ساتھ تیسری بھی مل جائے اور ابنِ آدم کا پیٹ تو مٹی ہی پر کرے گی۔‘‘( بخاری و مسلم)
مال کی اس حد درجہ محبت کی وجہ سے انسان میں بخل کا مرض پیدا ہوجاتا ہے ، جس کی شریعتِ مطہرہ میں مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سخی ہے اور سخاوت کو پسند کرتا ہے ۔ بخیل کبھی بھی اللہ کا دوست نہیں بن سکتا، اسی وجہ سے خدائے لم یزل نے انسانوں کو اپنے پاکیزہ مالوں  میں سے خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور قرآن مقدس میں جابجا صدقہ و خیرات کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ عبادات دو قسم کی ہیں :ایک کا تعلق انسان کے بدن سے ہے جسے بدنی عبادات کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کا تعلق انسان کے مال سے ہے جسے مالی عبادات کہا جاتا ہے۔ مالی عبادات میں صدقات و خیرات وغیرہ شامل ہیں جن کی دو قسمیں ہیں ’’صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ‘‘ صدقاتِ واجبہ میں اول  درجہ زکوٰۃ کا ہے ، جو ارکانِ اسلام میں اہم ترین رکن ہے اور مشہور قول کے مطابق قرآن مقدس میں بیاسی (۸۲) جگہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے ، جہاں جہاں صرف زکوٰۃ کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:
’’ اور میری رحمت ( ایسی عام ہے کہ ) تمام چیزوں کو محیط ہے ۔ پس اس کو ان لوگوں کے لیے( کامل طور پر خاص طور سے )  لکھوں گا جو خدا سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ۔‘‘
آیت مبارکہ میں زکوٰۃ دینے والوں کے لیے اللہ کی رحمت کاملہ کی مکمل بشارت ہے، جو بہت بڑی سعادت اور نعمتِ عظمیٰ ہے کہ محض چند روپے اللہ کے راستے میں دینے سے انسان اتنے بڑے انعام کا مستحق ہوتا ہے ۔زکوٰۃ سے مال پاکیزہ اور محفوظ ہوجاتا ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں آیا ہے کہ:
’’ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کےذریعے محفوظ بناؤ ، اپنے بیماروں کا صدقہ کے ذریعے علاج کرو، بلا اور مصیبت کی موجوں کا دعااور اللہ کے سامنے عاجزی سے مقابلہ کرو۔‘‘ (ابوداؤد ، طبرانی، بیہقی)
صدقہ دینے سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں ، صدقہ جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے۔ فقراء و مساکین پر خرچ اللہ کی رضا اور خوشنودی کا سبب اور آمدنی کا ذریعہ ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اے ابنِ آدم تو( میرے ضرورت مند بندوں پر ) اپنی کمائی خرچ کر ، میں اپنے خزانے سے تجھے دیتا رہوں گا۔‘‘( بخاری و مسلم)
سورہ بقرہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں  کے روپے کو اس دانے سے تشبیہ دی گئی ہے ، جسے زمین میں بویا جائےپھر اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں ، یعنی کہ ایک دانے سے سات سو دانے بن جاتے ہیں ، اسی طرح اللہ اخلاص والوں کے اخلاص کے بقدر مقدار میں اضافہ فرماتا جاتا ہے۔ ایمان والا ایک روپیہ خرچ کرے اللہ اس کو سات سو گنا تک بڑہا کر واپس کرتا ہے۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔
’’ کون ہے جو اللہ کو قرض دے کہ اللہ اس کو بڑہا چڑہا کر لوٹائے گا۔‘‘القرآن
اسلام کا یہ حکم انسانیت کی فلاح اور پرسکون معاشرہ تشکیل  دینے میں  اہم کردار ادا کرتا ہے، اگر تمام مال دار لوگ اپنے مالوں  کی زکوٰۃ نکالیں تو معاشرے میں غربت و افلاس ختم کی جاسکتی ہے، جس کے ہاتھوں تنگ آکر اچھے بھلے شریف لوگ بھی ڈاکہ زنی اور چوری چکاری کی عادت اپنا لیتے ہیں۔دنیا میں خود کشی کا عنصر تیزی سے پھیل رہا ہے اس میں سب سے زیادہ تعداد غربت کے ہاتھوں مجبور افراد کی ہوتی ہے جو بے روز گاری اور افلاس کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہم شادی بیاہ اور دیگر رسومات میں فضول پیسہ اڑا دیتے ہیں ، محض دل بہلانے کے واسطے لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کردیتے ہیں ، لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمارے مالوں میں غرباء کا حق رکھ دیا ہے۔ 

انسانیت کی ابتداء اور انتہاء


    محمد مبشر بدر
خلقتِ انسانی ایک انوکھے انداز میں ظہور پزیر ہوئی ، مٹی سے بنے انسان کو نورانی مخلوق پر ترجیح دے کر اسے مسجودِ ملائکہ کا اعزاز دینا قدرت کی زبردست حکمت تھی ۔ حضرتِ انسان کو وسیع و عریض اور پرتعیش جنت کی سیر کروا کر مقامِ اعلیٰ سے دنیا کے بے ثبات ،  بے مزہ اور پرمشقت مقامِ ادنیٰ پر آباد کرنا ایک بہت بڑے امتحان کی تمہید تھی، جہاں نہ جنت سا سکون میسر تھا ، نہ وہ راحت و چین ، نہ ہی ویسی  نعمتوں کی بہتات تھی اور نہ ہی وہ فراغ و لذت آفرینی۔

            فرشتے یہ دیکھ کر بول اٹھے’’ خدایا! یہ انسان دنیا کی وحشتوں میں کیوں کررہ سکے گا؟ جہاں نہ من مانی ہے اور نہ ہی جی بہلانے کا سامان ، نہ ہی لذت نفسانی کے اسباب میسر ہیں اور نہ ہی وہ حاکمانہ حیات ۔‘‘ ارشادِ باری ہوا ’’ ہم انسانوں کو زمین میں ایک خاص وقت تک کے لیے منفعت دیں گے پھر انہیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہوگا۔میں ان میں امید پیدا کردوں گا جس کی بنا پر یہ زمین پر بسیرا کریں گے۔ ان میں سے نیکوں کاروں کو جنت میں دوبارا وہی مقام عطا کروں گا جو ان سے چھن چکا ہے اور ان کے بدکرداروں کو جہنم کا ایندہن بناؤں گا۔

            چنانچہ انسان کو زمین پر بھیج دیا گیا اور اس کو خیر و شر کی دو راہیں سجھا دی گئیں  ’’ وَھَدَیْنَاہٗ النَّجْدَیْنِ ‘‘  اب اس کی مرضی ، چاہے اللہ کی رضا والے راستے پر چل کر کامیاب و سرخرو ہو یا شیطان کے نشاناتِ قدم کی اتباع کر کے گمراہی کے راستے پر خود کو ڈال دے اور ناکامی و نامرادی کو اپنے سر لے۔انسان کی دنیاوی زندگی ایک امتحان ہے ، اس کی مثال ایک حباب و بلبلے کی سی ہے جو تہہ سے اٹھ کر سطحِ آپ پر آکر فنا ہوجاتا ہے۔یہ جسدِ خاکی بھی کائنات کی فنائیت کی طرح فنا ہوجائے گا ، پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ حیات دے کر اپنے روبرو لا کھڑا کرے گا۔ ’’ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (۲۶) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (۲۷) ’’ سب پر فنا ہےبس  ایک اللہ کو بقا ہے۔

`           کامیابی کا راستہ اسلام ہے جو انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور  اسے نیکی کا حکم  کرتا اور برائی سے روکتا ہے ۔ اسلام کی بنیاد کلمہ ٔ توحید پر ہے ، جس میں خدا کی وحدانیت اور حضرت محمدﷺ کی رسالت کا اقرار ہے۔ اسلام میں انسانوں کو برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکنے اور بچانے کے لیے ایک اہم نظریہ پیش کیا گیا ہے جسے نظریۂ آخرت کہتے ہیں ۔ اس نظریۂ آخرت کو سن کر ملحدین مذاق اڑاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں کہ بھلا مرنے کے بعد کی زندگی کیوں کر سچ ہوسکتی ہے ، جب کہ قبر میں انسان مر کھپ جاتا ہے، ہڈیاں بوسیدہ ہو کر چورہ چورہ ہوجاتی ہیں۔  ان کے اس نظریئے کی کھلے الفاظ میں تردید کی گئی اور واضح الفاظ میں فرمایا گیا : آیاتِ ربانی کا مفہوم ہے۔’’ جس ذات نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا  کیا اس کے لیے تمہیں دوبارا پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔جس ذات نے تمہیں عدم سے وجود دے کر حیاتِ دنیوی بخشی وہ تمہیں دوبارا نابود کرکے بھی وجود میں لا سکتا  ہے۔بھلا دیکھو تو! آسمان کا بنانا زیادہ مشکل ہے یا انسان کابنانا؟۔ حالانکہ اس ذاتِ باری تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے مضبوط آسمانوں کو بنایا، جن میں کوئی پھٹن اور شگاف بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے  تمہیں دوبارا پیدا کرنا کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘‘

اللہ فرماتا ہے:

            وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا(۴۹) قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا (۵۰) أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا (۵۱) يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا(۵۲)

’’اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہمارا وجود ہڈیوں میں تبدیل ہوکر چورا چورا ہوجائے گا تو بھلا کیا اُس وقت ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اُٹھایا جائے گا ؟‘‘ کہہ دو کہ : ’’ تم پتھر یا لوہا بھی بن جاؤ یا کوئی اور ایسی مخلوق بن جاؤ جس کے بارے میں تم دل میں سوچتے ہو کہ (اس کا زندہ ہونا) اور بھی مشکل ہے، ( پھر بھی تمہیں زندہ کردیا جائے گا) ‘‘ اب وہ کہیں گے کہ : ’’ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ؟‘‘ کہہ دو کہ : ’’ وہی زندہ کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘ پھر وہ تمہارے سامنے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ : ’’ ایسا کب ہوگا؟‘‘ کہہ دینا کہ : ’’ کیا بعید ہے کہ وہ وقت قریب ہی آگیا ہو۔ ‘‘ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اُس کے حکم کی تعمیل کرو گے ، اور یہ سمجھ رہے ہوگے کہ تم بس تھوڑی سی مدت ( دنیا ) میں رہےتھے ۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل)

            خداوندِ کریم قرآن میں انسان کے دوبارہ پیدا کیے جانے اور اپنے روبرو کھڑا کرنے کے بارے متعدد مقامات پر کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ بندگانِ خدا کو اپنی فنائیت اور بے ثباتی کا یقین آجائے تاکہ  وہ خواہشات کی اتباع کے بجائے  خدا کی منشاء و مراد کی پیروی کریں۔انسان اپنی ابتدا سے لے کر انتہا تک اپنے خالق کی نعمتوں اور احسانات میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کا وجود ، اس کے لیے لاکھوں چیزوں کو ایجاد محض اتفاق اور خوش فہمی نہیں بلکہ ایک خالقِ قیوم کی قدرت کا مظہر اور ایک امتحان ہے جس سے انسان کو گزرنا ہے ، اس لیے کامیاب اور عقلمند انسان وہ ہے جو اپنا وقت  ضائع کیے بغیر اپنے مولا کی رضا کو تلاش کرے ۔ اس کے حکموں کو دل و جان سے تسلیم کرکے ان کی پیروی کرے  اور ابدی بہشت کا مستحق بن کر ہمیشہ کے مزے اڑائے۔

اخلاص سے اعمال میں وزن پیدا کیجیے


 
محمد مبشربدر

انسان کے اعمال میں نیت کو خاص دخل حاصل ہے ، شریعت میں اعمال کا دارومدار نیت پر رکھا گیا ہے۔جس قسم کی نیت ہوگی اسی طرح اعمال کا اس پر ترتب ہوگا۔اس لیے ہر نیک عمل شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ وہ عمل اللہ کے ہاں قبولیت سے ہمکنار ہو ۔ آج کل کے اس نمود و نمائش کے دور میں اعمال میں وہ اخلاص ختم ہوتا جارہا ہے جس کے بل بوتے پر اعمال میں وزن پڑتا ہے اور وہ بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت پاتے ہیں۔اخلاص کو ایمان کہا گیا ہے چنانچہ آقا علیہ السلام سے پوچھا گیایارسول اللہ ﷺ ’’ایمان کیا ہے؟‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا! ’’ اخلاص ‘‘ ( بیہقی )
عمل خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اخلاص کے بقدر اس کا وزن پہاڑوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔اللہ غیرت والا ہے ، وہ اپنے بندوں کے صرف وہی اعمال قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لیے کیے جائیں ، اگر دکھاوا و ریاکاری کا ذرہ بھی شامل ہوجائے تو وہ عمل اللہ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرپاتا، بلکہ الٹاپکڑ کا سبب بنتا ہے۔حدیث پاک میں ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ شرک اصغر کیا ہے ؟ فرمایا: ریاکاری جس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیں گے تو فرمائیں گے۔ چلے جاؤ انہیں کی طرف جنہیں دکھانے کے لیے تم دنیا میں عمل کرتے تھے اور دیکھوکہ کیا تم ان کے پاس بھلائی پاتے ہو۔( مسند احمد) ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے دکھاوے کی نماز پڑہی اس نے شرک کیا ، جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیااور جس نے دکھانے کے لیے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔‘‘ ( مسند احمد )
ریاکار کا عمل رائیگاں جاتا ہے ۔تنبیہ الغافلین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ : ’’ ریا کار کی چار نشانیاں ہیں : جب تنہا ہو تو سست ہو، جب لوگوں کے ساتھ ہو تو چستی دکھائے، جب اس کی تعریف کی جائے تو مزید کام کرے اور جب مذمت کی جائے تو پہلا بھی چھوڑ دے۔‘‘ اس روایت پر غور کریں اور اپنے حال کا جائزہ لیں کہ یہ علامات کہیں ہم میں تو نہیں پائی جاتیں؟ اگر پائی جاتیں ہو تو اس سے خوب خوب بچنے کا اہتمام کریں۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہےکہ جب انسان نیک عمل کرنے لگتا ہے تو شیطان اول تو اسے اس نیک عمل سے ہٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے ۔ جب بندۂ مؤمن کے عزم کے سامنے ہارجائے تو اس کے دل میں ریاکاری کا  وسوسہ ڈالتا ہےتاکہ وہ ریاکاری کے ڈر سے عمل چھوڑ دے ایسے میں شیطان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے اور اپنے عمل کو جاری رکھنا چاہیے، ریا کاری کے ڈر سے نیک عمل نہیں چھوڑنا چاہیے ، چنانچہ تنبیہ الغافلین میں ابوبکر واسطی رحمہ اللہ کا قول لکھا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ: ’’نیکی کی حفاظت عمل سے زیادہ مشکل ہے ۔ اس کی مثال شیشے کی سی ہےکہ جلد ٹوٹ جاتا ہےاور اصلاح کے قابل نہیں رہتا۔ اسی طرح جب عمل کو ریا کاری اور عجب چھوتے ہیں تو توڑ ڈالتے ہیں اور جب بندہ کسی کام کا ارادہ کرے اور ریاکاری بھی خوب ہو تو اگر اپنے دل سے ریاکاری نکال سکتا ہو تو کوشش کرے، اگر ایسا نہ کرسکتا ہوتو اسے چاہیے کہ عمل کرکے ریاکاری کی وجہ سے نہ چھوڑے اور ریاکاری جو کچھ ہوگئی اس پر استغفار کرے ۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اگلے عمل میں اخلاص کی توفیق عطا فرمادیں گے۔‘‘
اخلاص کو عبادات میں روح کا درجہ حاصل ہے ۔ جیسے بغیر روح کے جسم بےجان اور بے کار ہوتا ہے اسی طرح بغیر اخلاص کے عبادات بھی بے جان اور ناکارہ ہوتی ہیں۔علماء نے عمل قبول کرنے کی دو شرطیں لکھیں ہیں:پہلی یہ کہ عمل میں اخلاص ہونا چاہیے دوسرا یہ کہ وہ عمل سنت رسول ﷺ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو عمل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔عمل میں سنت رسول ﷺ کی اتباع نہ ہو خواہ کتنا ہی اخلاص سے بھرپور کیوں نہیں ، پھر بھی قابل قبول نہیں اور عمل میں اخلاص نہ ہو خواہ کتنا ہی سنت رسول کے مطابق ہو پھر بھی مردود ہے ۔دونوں کا ہونا لازم ہے۔
اللہ کو عبادات میں یہ پسند ہے کہ بندہ صرف اسی کے لیے ہی عبادت کرے چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ’’اور خاص اسی کی ہی عبادت کرواور اسی کو پکارو‘‘(اعراف)ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے۔’’ اللہ تعالیٰ کو نہ تو ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون ، بلکہ ان کے پاس تو تمہاری پرہیز گاری پہنچتی ہے۔ یعنی (ان کے ہاں تو تمہارے دلی جذبات دیکھے جاتے ہیں)(الحج)۔اللہ مومن کا دل دیکھتا ہے کہ اس میں کتنا اخلاص ہے تب عمل قبول کرتا ہے ۔ قربانی کے جو جانور ذبح ہوتے ہیں ، اللہ فرماتا ہے مجھے ان کے گوشت اور خون کی کوئی ضرورت نہیں میں تو بس تمہارے دلوں کی آزمائش کرتا ہوں کہ ان میں میری محبت اور رجحان کتنا ہے؟َ۔
آج کے اس نمود و نمائش کے دور میں اعمال میں ریاکاری کا عنصر بہت پایا جاتا ہے۔ قربانی کا جانور اس لیے ذبح کیا جاتا ہے کہ اگر ذبح نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟۔حج اس لیے کیا جاتا ہے کہ لوگ حاجی کہیں گے۔ علم دین اس لیے سیکھاجاتا ہے کہ لوگ عالم کہیں گے۔خیرات اس لیے کی جاتی ہے کہ لوگ سخی کہیں گے۔آج کے دور میں اخلاص سے زیادہ نمود و نمائش کو ترجیح دی جاتی ہے ، بڑے بڑے بینر لگوا کر اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے۔لمبے چوڑے سخاوت کے اعلانات کرائے جاتے ہیں۔سنت سے زیادہ بدعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔فرائض چھوڑ کر منکرات کو اپنایا جاتا ہے۔ گمنامی پر شہرت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس پر اتنی روایات ہیں کہ مضمون کا دامن اس کا متحمل نہیں ورنہ وہ روایات یہاں بیان کردیتا کہ اللہ و رسول کو کیا پسند ہے اور ہم کیا اختیار کررہے ہیںَ؟۔ صحابہ کرام نے کس قدر اعمال کو چھپایا اور ہم ظاہرکررہے ہیں۔ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ سب ہی ایسا کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ کے نیک مخلص بندے موجود ہیں جو خالص اللہ کی رضا کے لیے ہی اعمال کرتے ہیں ذرا بھی اپنے دل میں ریاکاری کو راستہ نہیں دیتے۔اگراس نیت دے کوئی دکھاوے کا عمل کرے کہ دوسروں کو ترغیب ہو اور دل میں اخلاص موجزن ہو تو علمائے کرام فرماتے ہیں ایسا دکھاوا جائز بلکہ مستحسن ہے ، اگر اپنا دل ہی ریاکاری کی طرف مائل ہے تو چھپا کرہی عمل کرے۔

بسا اوقات نماز و دیگر عبادات میں شیطان انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں ، اس وسوسے سے مومن پریشان ہوجاتا ہے، یاد رہے یہ شیطان کا ایک حربہ ہے جو وہ ایمان والے پر آزماتا ہے تاکہ وہ ریاکاری کے خوف سے عمل ہی چھوڑ دے۔ علماء فرماتے ہیں جب ایسی حالت ہو تو دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرکے عبادت میں لگا رہے ریاکاری کے خوف سے ترک نہ کرے اور شیطان کو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دے۔

حکومت کا فیضی ! غامدی

   محمد مبشر بدر
 کچھ عرصہ سے ایک مخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے اس مغربی فکر کو پروان چڑہانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’’ اسلام کے احکامات میں تبدیلی کرنی چاہیے، اسے جدیددور سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے‘‘۔ جن میں سرِ فہرست اسلامی ریاست کا قیام،  حدود و تعزیرات ، تعددِ ازواج ، طلاق ، جہاد ، اسلامی لباس و شباہت ( داڑہی اور پردہ) اور بیسیوں اسلامی احکامات میں تبدیلی اور ترمیم کرنا ہے۔ اسی آڑ میں انہیں احکامات کو زیادہ نشانہء ملامت بنایا جارہا ہے اور ان کی تبدیلی پر سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔چونکہ علماء کرام اس مقصد میں کامیابی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اس لیے وہ اکثر ان کے نشانہ پر رہتے ہیں ۔حالانکہ اسلام کے قطعی اور اتفاقی مسائل میں تبدیلی  کی گنجائش بالکل نہیں جو ہر دور کے  لیے یکساں حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کی گنجائش ہےجن کو ماہر علماء اجتہاد کرکے حل کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو متجددین کہتے ہیں جو دین کی تشکیلِ نو اور تدوینِ نو کا ایجنڈا لے کر اٹھے ہیں ۔ یہ  درحقیقت مغربیت کے اس نظرئیے سے متاثر ہیں کہ شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں کی گئی بلکہ یہ آقا علیہ السلام کے وضع کردہ قوانین ہیں، لہٰذا ان انسانی وضع کردہ قوانین میں تغیر ِزمانہ کی وجہ سےتبدیلی کرنی چاہیے۔جس کے لیے سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔
اہل کلیسا کی طرف سے مسلمانوں کی وحدت میں چھرا گھونپنے کے لیے اسلامی صفوں سے کئی ایسے لوگ کھڑے کیے گئے ہیں جو اپنی چرب زبانی اور طلاقتِ لسانی سے یہ کام سرانجام دے رہے ہیں ۔جن میں سے ایک جاوید احمد غامدی ہے۔ جسے الیکٹرانک اور پریس میڈیا کے ذریعے مقبول کیا جارہا ہے تاکہ وہ اسلامی متفقہ مسائل میں رخنہ اندازی کرکے انہیں مشکوک بنائے ۔ اس طرح کفریہ طاقتوں کے لیےاسلامی سرحدات کی طرح اسلامی احکامات و نظریات پر شب خون مارنےکے لیے راستہ ہموار ہوجائے۔
ہمارے زمانے میں فتنۂ انکار حدیث کی آبیاری کرنے والوں میں ایک بڑا  نام موصوف کا ہے جن کی تحقیقات کا میدان تحریفِ قرآن تک پھیلا ہوا ہے۔ اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار  کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔جاوید احمد غامدی صاحب دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک عظیم فتنہ ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارا نوجوان ، دنیاوی تعلیم یافتہ ، اردو دان طبقہ کافی حد تک اس فتنہ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔
فی زمانہ غامدی فکر ایک مکمل مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بھیڑ کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے
 ‎ جو لوگ بے عملى كا شكار ہوتے ہيں وہ دين اور دينى احكام كا ذكر آنے پر کسی آسانی کی تلاش میں رہتے ہيں اور كسى ايسى پناہ كى تلاش ميں ہوتے ہيں جو اس احساس سے ان كى جان چھڑا دے۔۔ ايسے ميں يہ نام نہاد سكالرز ان  كے كام آتے ہيں اور
خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں
دین اور اہل ِ دین سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نفس اور شیطان انسان پر حاوی ہوکر اسے خواہش پرست اور آزادی پسند بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان جس چیز کو اپنی غرض، خواہش اور مشن کے لئے سد ِ راہ اور رکاوٹ خیال کرتا ہے، غلط تاویلات اور فاسد خیالات کے ذریعہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا

 قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ:
وما اٰتٰکم الرسول فاخذوہ ومانہٰکم عنہ فانتھوا (اعشر آیت 59، ع 7)
ترجمہ: ’’ رسول جو کچھ تمہیں دیں، اس کو لے لو، اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔‘‘
غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔  یہ صاحب  اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس فتنے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اُن کو الیکٹرانک میڈیاکی توجہ و سرپرستی حاصل ہے۔
غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہات ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہاتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے کہ احادیث میں تو تضاد ہے۔یہی وہ پہلا خفیہ پینترا ہے جس کے ذریعے پھر بڑی چابک دستی کے ساتھ انکار حدیث کی راہ ہموار ہوجاتی ہے ۔ اب ہم ذیل میں موصوف کے گمراہ کن اور امت مسلمہ سے الگ باطل نظریات  آپ حضرات کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کو غامدی صاحب کی گمراہی کا اندازہ ہو۔
غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ۔
۱ : قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرائتیں عجم کا فتنہ ہیں۔ ( میزان ص ۲۵ ، ۲۶ ، ۳۲ طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ )
۲ : سنت قرآن سے مقدم ہے ۔ (میزان ص ۵۲ ، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ )
۳ : حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا ۔ ( میزان ص۶۴ طبع دوم )
۴ : نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد کسسی شخص کو  کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ( ماہنامہ اشراق، دسمبر۲۰۰۰ ص ۵۴ ، ۵۵ )
۵ : مرتد کے لیے قتل کی سز نہیں ہے ۔ ( برہان ص  ۴۰ ، طبع چہارم)
۶ : شادی شدہ  اور کنواری ماں زانی دونوں کے لیے ایک ہی سزا سو کوڑےہیں۔( میزان ص ۲۹۹ ، ۳۰۰ طبع دوم )
۷ : شراب نوشی پر شرعی کوئی سزا نہیں ہے۔ ( برہان ص ۱۳۸ ،طبع چہارم )
۸ : سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔( ماہنامہ اشراق ، اکتوبر ۱۹۹۸ ص ۷۹ )
۹ : عورت کے لیے دوپٹہ یا اوڑہنی پہننا کوئی شرعی حکم نہیں ۔ ( ماہنامہ اشراق ، مئی ۲۰۰۲ ص ۴۷ )
۱۰ : کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون ، مردار ، سؤر کا گوشت ، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ۔ (میزان ص ۳۱۱ طبع دوم)
۱۱ : حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ ( میزان حصہ اول، ص ۲۲، ۲۳، ۲۴ طبع ۱۹۸۵ )
۱۲ : جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے۔( ادارہ المورد کی کتاب’’ تصویر کا مسئلہ ‘‘ )
۱۳ : موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے۔ ( ماہنامہ اشراق ، مارچ ۲۰۰۴ص ۸ ، ۱۹ )
۱۴ : عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ (ماہنامہ اشراق مئی ۲۰۰۵ ، ص  ۳۵ تا ۴۶ )
۱۵ : اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ ( میزان ص ۲۶۴ ،، بطع دوم اپریل ۲۰۰۲)
۱۶ : کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور نفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں۔  ( میزان ص ۲۷۰ )
یہ چند باطل نظریات ہیں جو آپ کے سامنے پیش کیے ہیں ان کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جس میں موصوف نے پوری امت سے ہٹ کر ایک الگ راہ قائم کی ہوئی ہے۔
آخر میں ہم خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے،ہدایت کو ہمارا مقدر بنائے، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو  فریب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اگر ہدایت ان کا مقدر ہے تو جلد انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے ورنہ انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے۔آمین۔

اہلِ کتاب کا کفر



محمدمبشربدر
بعض تاریک خیال کج فہم لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اہل کتاب جنہوں نے حضرت محمد علی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا وہ بھی بہشت میں جائیں گے، انہیں کافر نہیں کہا جاسکتا ،اور اس باطل نظریئے کی ہر فورم پر تشہیر کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے ہیں ۔ دلیل میں وہ سورہ آل عمران اور سورۂ  مائدہ کی آیات پیش کرتے ہیں جن کا ہم الگ الگ تفصیلی جواب دیں گے۔ پہلی دلیل سورۂ آل عمران کی درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں۔

لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (۱۱۳) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ (۱۱۴)

اس آیت مبارکہ میں اہل کتاب کے ایک ایسے گروہ کا ذکر کیا گیا ہے جو راتوں کو اٹھ کر  اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں  ، سجدہ  کرتے ہیں ، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں  ، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرتے ہیں  اور نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہیں ، آخر میں ایسے اوصاف کے حامل اہلِ کتاب جو صالحین میں شمار کیا گیا ہے کہ یہی لوگ نیکو کار ہیں ۔اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، دلیل اسی آیت میں ہے کہ وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں ، اب آیات سے کیا مراد ہے؟؟ قرآن کی آیات مراد ہیں کیوں کہ توراۃ کو وہ ویسے ہی تبدیل کرچکے تھے۔ دلیل یہ ہے کہ سورۂ آل عمران کے آخر میں ان اہلِ کتاب کی تعریف بیان کی گئی ہے جو تورات کے ساتھ قرآن پر بھی ایمان لے آئے اور آقا علیہ السلام پر جو احکامات نازل ہوئے انہیں صدقِ دل سے مانا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۱۹۹)

یعنی : ’’ اور بے شک اہلِ کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور اس کتاب پر بھی جو تم پر نازل کی گئی ہےاور اس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی ، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں۔ بیشک اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔‘‘

دوسری دلیل مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر ہے جسے علامہ طبری نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے:

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ" مَنْ آمَنَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

یعنی ’’ اللہ تعالی کے اس قول سے مراد وہ اہل کتاب ہیں ’’ مَنْ آمَنَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.‘‘ جو حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔اس روایت سے ان کا  من پسند استدلال باطل ہوگیا۔اسی طرح اس آیۃ کے شان نزول میں ایک اور روایت کتب تفسیر میں موجود ہے:

وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، وَثَعْلَبَةُ بْنُ سَعْيَةَ ، وَأُسَيْدُ بْنُ سُعَيَّةَ، وَأُسَيْدُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمَنْ أَسْلَمَ مِنْ يَهُودَ، فَآمَنُوا وَصَدَّقُوا وَرَغِبُوا فِي الْإِسْلَامِ وَرَسَخُوا فِيهِ، قَالَتْ أَحْبَارُ يَهُودَ وَأَهْلُ الْكُفْرِ مِنْهُمْ: مَا آمَنَ بِمُحَمَّدٍ وَلَا تَبِعَهُ إِلَّا شِرَارُنَا، وَلَوْ كَانُوا مِنْ خِيَارِنَا مَا تَرَكُوا دِينَ آبَائِهِمْ وَذَهَبُوا إِلَى غَيْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ:" لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ. إِلَى قَوْلِهِ:" وَأُولئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ"

مفسر قرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جب یہود کے علماء یعنی عبداللہ بن سلام ، ثعلبہ بن سعیہ، اسید بن عبید اور یہود کے دیگر لوگ ایمان لا کر مسلمان ہو گئے ، انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کی ، اسلام میں رغبت کی اور اس میں راسخ ہوگئے تب یہودیوں کے علماء اور اہل کفر نے کہا :

"محمد ﷺ پر یہود میں سے صرف وہ لوگ ایمان لائے ہیں جو ہم میں شریر ہیں اور اگر وہ ہم میں بہترین اور عمدہ ہوتے تو اپنے آباء کا دین چھوڑ کر غیر کی طرف نہ جاتے۔ پس اسی وقت اللہ نے ان کی اس بات کی وجہ سے یہ آیات نازل فرمائیں جن میں اہل کتاب میں سے اہل ایمان کے محاسن بیان کیے۔

دوسری دلیل سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۶۹پیش کرتے ہیں ۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۹)
یعنی: ’’حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی ، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی یا نصرانی ، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا ، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہونگے۔‘‘

اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں صرف اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر ہے جس کی بنا پر انہیں آخرت میں خوف و غم سے آزادی کا پروانہ دیا جارہا ہے۔ معلوم ہوا کہ اہل کتاب محض انکارِ رسول کی بنا پر  کافر نہیں ۔

اس کا جواب علامہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں دیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔
وَالْمَقْصُودُ أَنَّ كُلَّ فِرْقَةٍ آمنت بالله واليوم الآخر وهو الميعاد وَالْجَزَاءُ يَوْمُ الدِّينِ، وَعَمِلَتْ عَمَلًا صَالِحًا، وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى يَكُونَ مُوَافِقًا لِلشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ بَعْدَ إِرْسَالِ صَاحِبِهَا الْمَبْعُوثِ إِلَى جَمِيعِ الثَّقَلَيْنِ فَمَنِ اتَّصَفَ بِذَلِكَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَهُ، وَلَا عَلَى مَا تَرَكُوا وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ، وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ، (تفسیر ابن کثیر ج، ۳ / ص،۱۱۴)

’’ اور آیت سے مقصود یہ ہے کہ ہر وہ فرقہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے ، اور اس نے نیک اعمال کیے تو اس کا حکم اس طرح نہیں (جیسے ظاہری آیت سے سمجھا جارہا ہے) یہاں تک کہ وہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے موافق نہ ہوجائے اس  کے صاحب کے تمام جن و انس کی طرف رسول بنا کر بھیجے جانے کے بعد۔پس جو اس وصف کے ساتھ متصف ہوگیا اس پر مستقبل میں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی گزشتہ زمانے کے اعمال پر کوئی غم۔‘‘

          ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ تب  تک خلاصی نہیں جب تک حضرت محمد ﷺ پر ایمان لاکر ان کی اتباع نہ کرلی جائے ، خواہ وہ اسلام کے کتنےہی  احکامات  کا اقرار کیوں نہ کرتا ہو ، ایمان کا مدار آقا علیہ السلام کی ذات اقدس ہے۔جن پر شریعت اسلامیہ نازل کی گئی۔ جب کہ اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ نے اپنے ادیان میں تحریف کی تورات و انجیل کو بدل دیا، ، توحید کو چھوڑ کر شرک کا کھلا ارتکاب کیا ،حق کی ناحق مخالفت کی ،  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کاقتلِ  ناحق کیا۔

 اب اگر کوئی شخص یہ یہود و نصاریٰ کے بارے یہ موقف اختیار کرے کہ ان میں سے جن تک دعوت اسلام نہیں پہنچی اور انہوں نے بالقصد جان بوجھ کر اسلام کا انکار نہیں کیا وہ کافر نہیں کہلائے جاسکتے بلکہ انہیں مسلمانوں میں شمار کیا جانا چاہیے، یہ نظریہ باطل اور غلط ہے ، کیوں کہ یہود تو اسی روز ہی کافر ہوگئے تھے جب انہوں نے تورات میں تحریف کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا اور  انہیں قتل کرنے کی کوشش کی جب کہ نصاریٰ عقیدۂ تثلیث  ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنانے اور تحریف انجیل  کی بنا پر کافر قرار دیئے گئے لہٰذا انکارِ مصطفیٰ  ﷺکی بنا پر ان کے کفر میں زیادتی ہوئی ہے ، پھر اس کے مقابلے میں یہ قول کہاں وقعت رکھتا ہے کہ اہلِ کتاب کے نادانست اسلام کا انکار کرنے والے لوگ کافر نہیں جب کہ انہیں ہدایت کی دعوت دینے کے لیے اللہ کا کلام قرآن مقدس اپنے معجزانہ اسلوب و اثر کی وجہ سے بند دلوں کے قفل کھولنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ کوئی ہدایت کا طالب بنے۔اس رو سے موجودہ اہل کتاب کافر اور جہنمی ٹھہرتے ہیں.باقی بے شمار دلائل طوالت کے ڈر سے ترک کرتا ہوں۔ اپنے من پسند کے مطلب سے کام نہیں چلے گا۔اللہ نے صاف فرمادیا : ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے پس جو اسلام کو چھوڑ کر اور دین لایا اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔۔ اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ (آل عمران:آیت ۸۵ )

اس آیت میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں کہ جان بوجھ کر انکار کرے یا بلاجانے اسلام کا انکار کرے ، قیامت کے دن اس کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اسلام کی آفاقی سچائی کے مناظراورحقائق دیکھ کرمسلمان نہ ہوجائے۔اب جویہودونصاریٰ اپنےآباءکی پیروی کریں گےان کا حشر انہی جیسا ہوگا وہ بھی ان کی پیروی میں کافر رہیں گے اگر ایمان نہ لائے تو ہمیشہ کی جہنم میں جلیں گے۔

اللہ اہل کتاب کے بارے فرماتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا (۱۵۰) أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (۱۵۱) المائدہ ۔


یعنی: " بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کیا اور کہنے لگے ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں.یہی لوگ پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

ہمارا ناقص نظامِ تعلیم

     محمدمبشربدر
تعلیم کا انسان کی تربیت و سوچ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔انسان کو  جس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے  ویسے اثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں اور ویسی ہی تربیت کا ظہور ہوتا ہے۔ صدیوں سے انسان میں تہذیب و شعور کی شمع فروزاں کرنے کے لیے مختلف طریقہائے تعلیم وضع کیے جاتے رہے ہیں ۔ اسلام نے آکر تعلیم کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ، حتیٰ کہ پہلی وحی تعلیم و تعلم سے متعلق ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی علم کے حصول پر زور دیا ہےاور ہر مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا، خود اپنے بارے آقاﷺ نے فرمایا:  ’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘انسان اس وقت تک انسانیت کی معراج کو نہیں پہنچ سکتا جب تک تعلیم یافتہ نہ ہو جائے۔ تعلیم زندگی کے لیے ہی نہیں بلکہ خود زندگی ہے، آج اکیسویں صدی میں تعلیم کی اہمیت کو پہلےسے زیادہ محسوس کیا جارہا ہے۔ نہ صرف یہ معاشرتی بلکہ سب سے زیادہ  اہم اقتصادی مسئلہ ہے۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک جانا جاتا ہے۔پاکستانی قوم میں وہ تمام تر صلاحتیں موجود ہیں جو ترقی کی اوجِ ثریا تک پہنچاسکتی ہیں ، لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ہنر مند افراد کی ایک بڑی مقدار بیرون ممالک میں اپنے فن کے جوہر دکھلارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ناسازگار ماحول اور منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بروقت اور مناسب منصوبہ بندی کرکے پاکستان میں روزگار کے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کرےتاکہ قابل اور ہنرمند افراد پاکستان میں ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔
ہمارا نظامِ تعلیمی اتنا ناقص اور ناکارہ ہے کہ ہنر مند افراد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس کی بنا پر ہمارے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ہمارے نظامِ تعلیم کی ناقص کارکردگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن اس کے باوجود تعلیمی نظام میں اسلام کو محض ایک مضمون کی حیثیت دے رکھی ہے، جب کہ اسلام ایک مکمل آئین اور ضابطۂ حیات ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ کوئی شعبۂ زندگی بھی مذہب سے مستغنی نہیں ہے ،  اس کے باوجود  اعلیٰ سطح پر اسلام کی ہمہ گیری اور انصاف پسندی کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔
ہمارے تعلیمی نظام کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ طبقاتی نظام کی کشمکش بھی ہے ۔طلبا میں تحقیق و جستجو ، صحیح فکر و سوچ ناپید ہوتے جارہے ہیں، اساتذہ کی کمی اور ذہنی جمود کے علاوہ تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان ہے۔ طوطے کی طرح چند الفاظ رٹوادیئے جاتے ہیں اور عملی زندگی میں وہ اعلیٰ و عمدہ صفات ناپید ہوتی ہیں جن کی معاشرے کو اہم ضرورت ہے۔؎
 کورس تو الفاظ سکھاتے ہیں                                    آدمی آدمی بناتے ہیں
          ایک بڑا مسئلہ جو ہمارے تعلیمی اداروں کو درپیش ہے وہ پرائمری سطح پر اساتذہ کی اپنے فرائضِ منصبی میں غفلت ہے، دور دراز پسماندہ دیہی علاقوں میں اس چیز کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ سکولوں کی خستہ اور شکستہ عمارتیں جو اپنی بوسیدگی پر نوحہ کناں ہیں ، ان کی تعمیرِ نو کی طرف مسلسل عدمِ توجہی برتی جارہی ہے۔تعلیم کو ایک کاروبار بنا لیا گیا ہے ، گلی گلی سکولوں اور اکیڈمیوں کی بھرمار ہے ، جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار گھٹتا جارہا ہے۔
          ایک بنیادی اہم مسئلہ ہمارا مغربیت سے متاثر ہونا اور ان کے نظام کو بند آنکھوں قبول کرنا ہے ، جس کی وجہ سے انگریزی زبان کو لازم کیا جارہا ہے۔ یہاں دوہرے معیار کی تعلیم دی جارہی ہے :انگلش میڈیم اور اردو میڈیم ، جب کہ آہستہ آہستہ تمام تعلیمی اداروں کو انگلش میڈیم بنایا جارہا ہے، حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ انسان جو بات اپنی مادری زبان میں جلد سمجھ پاتا ہے وہ دوسری زبانوں میں نہیں سمجھ پاتا، ہمارے لیے یہ بہت بڑی کنفیوژن پیدا کردی گئی ہے، ایک تو سائنس کے ذیلی مضامین جن کو اردو میں سمجھنا اور ان کے فارمولوں اور کلیوں کو یاد کرنا بذاتِ خود جان گسل کام ہے،  دوسرا اسے انگلش میں پڑہانے سے وہ مزید پیچیدہ اور مشکل صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
ہمارے لیے چین ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جس نے نہ صرف اپنے تعلیمی اداروں میں سب مضامین چینی زبان میں لاگو کیے ہیں بلکہ انگریزی کو بھی پاس نہیں بھٹکنے دیا، اس کے باوجود وہ معیشت میں بہت آگے ہے اور عالمی سطح پر اپنی برتری کا لوہا منوا چکا ہے۔ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم آزاد ہوکر بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اسی لیے ہم تعلیم سے لے کر معیشت تک سب میدانوں میں سب سے پیچھے ہیں ، جب کہ دیگر ترقی یافتہ اقوام کسی کی ذہنی غلامی اور مرعوبیت تیاگ کر اپنی مادری زبان میں اپنا نام و مقام پیدا کرتی ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، چاہیے تو یہ تھا کہ یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں قرآن و سنت کو بطورِ نصاب پڑہایا جاتا ، جب کہ الٹا رہے سہے اسلامی مضامین کو ہی نکالا دیا جارہا ہے۔تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی  مخلوق ہے ، جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنا کر کائنات میں  بھیجا ہے، اسی نے ہی اس کی دنیوی و اخروی زندگی کی فلاح کے لیے  آسمانی علوم نازل فرمائے ہیں ، تاکہ ان علوم کی روشنی میں یہ اپنی حیات کا مقصد جان لے اور اپنے خالق کو پہچان کر اس کی اطاعت بجالائے ، اسی وجہ سے اہلِ ایمان کے نزدیک سب سے بنیادی اور ضروری علم وہ ہے جسے خالقِ کائنات نے انسانیت کے لیے آسمان سے نازل فرمایا، جو اس وقت قرآن و سنت کی صورت میں ہم میں موجود ہے۔یہ اصل علم ہے جو انسانوں کو انسانیت سکھاتا ہے۔انسان کی تربیت کرتا اور اس کے باطن کو  سنوارتا ہے، لیکن اس سے غفلت برتی جارہی ہے ۔ مادیت کی دوڑ میں مغربیت کی نقالی کی جارہی ہے۔پھر امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والے نیک دل مشرقی روایات کے حامل افراد کیوں کر پیدا ہوں۔

ہمیں اپنی غلطیاں ڈہونڈھ کر ان کی اصلاح کرنی چاہیے، اپنی بنیاداور اصل کے ساتھ تعلق و ربط جوڑنا چاہیے، تاکہ ہمیں اپنے شاندار ماضی کو لوٹا سکیں ۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...