بدھ، 16 نومبر، 2016

انسانی زندگی پر فلموں کے مضر اثرات


                     
 محمد مبشر بدر

فلم انڈسٹری نے دنیا کو ایک نئی جہت اورموڑ دے دیا اور پورے کلچر کو بدل کر ہی رکھ دیا ہے۔ یہ جہاں دیکھنے والوں پرایک خاص اثر ڈالتی  ہیں ، وہاں انسانی دماغوں کو بھی اپنے سحر میں مبتلا کردیتی ہیں ۔ سکرین پر ہر سیکنڈ بدلتے مناظر انسانی دماغ میں تجسس اور جستجو پیدا کردیتے ہیں کہ اس سین کے بعد کون سا منظر ہوگا ۔ ہر لمحہ بدلتے مناظر لوگوں کی توجہ اپنے طرف مبذول کیے رہتے ہیں ، اگر بیچ میں کوئی بول پڑے تو سبھی ناگواری محسوس کرتے ہوئے بولنے والے کو روک دیتے ہیں تاکہ دیکھنے میں خلل پیدا نہ ہواور سسپینس برقرار رہے۔
            فلموں اور ڈراموں سے متعلق لوگوں کی آراء دو قسموں میں بٹی ہوئی ہیں ۔ بعض لوگ ان میں مثبت پہلو  دیکھ کر انہیں تعمیرِ معاشرہ میں ایک اہم عنصر قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرا گروہ  ان کے مضر اثرات اور نقصان دہ پہلوؤں  کی جانب دیکھ کر انہیں  انسانی اقدار و اخلاق کی تباہی کا سبب بتلاتا ہے ۔
            اس میں کوئی شک نہیں کہ فلموں اور ڈراموں نے انسانیت کو بجائے اخلاقیات ، حیاء داری ، نیکی ، تقویٰ ،  دیانت داری ،  برداشت اور تعمیرِ معاشرہ کے بداخلاقی ، بے حیائی ، فسق و فجور ،  بددیانتی ، تکبر ،  عدم برداشت اور تخریبِ معاشرہ کا ہی درس دیا ہے۔ انسانی رویوں میں بڑی حد تک تبدیلی پیدا کرنے میں فلموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس میں شہرت ، عزت اور پیسے کی ہوس ہی پائی جاتی ہےجن کی تلاش میں  اداکار ہر گھٹیے سے گھٹیا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔اور خواتین پیسے اور شہرت کی بھوک میں اپنا جسم تک ظاہر کرنے اور عزت لٹوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں ، بلکہ الٹا اسے ایک آرٹ اور فن سمجھا جاتا  ہے۔
ٹیلی ویژن ، ڈش ، کیبل ، انٹر نیٹ نے  لوگوں کی ذہنیت کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ پوری مشرقی تہذیب بدل کررکھ دی ۔ بچیوں کا لباس اور اور لباس پہننے کا ڈھنگ بدل گیا، حجاب چہروں سے اتر گیا اور سروں سے دوپٹہ غائب ہو گیا، سوچنے سمجھنے کے معیار اور پیمانے تک بدل گئے۔کل تک جن برائیوں کو برائی سمجھا جاتا تھا آج اس کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔جن عریاں مناظر کو کل تک انسان اپنے لیے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا تھا آج اپنی بیٹیوں ، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتا ہے، مجال ہے کہ چہرے پر کچھ ملال آئے اور کچھ غیرت جاگے۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فلمیں انسان کی ادبی زندگی پر بڑا  اثر ڈالتی ہیں اور اس سے اردو میں روانی اور پختگی پیدا ہوتی ہے ، جب کہ ان  سے انسان کی ادبی صلاحیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا ، الٹا وہ متکبرانہ جملے اور ڈائیلاگ دماغ میں گھومتے رہتے ہیں جو ہیرو یا ولن بولتے ہیں ۔ حتیٰ کہ آج وہ ڈائیلاگز بچوں اور جوانوں کی زبان پر اس طرح جاری ہوتے ہیں ایسے قرآن پاک کی سورتیں بھی جاری نہیں ہوتیں ،  وہ خود کو ہیرو  سمجھنے لگتے ہیں   ۔بلکہ ہر شخص خود کو ہیرو کے کردار میں تصور کرتا ہے اور خود کو اسی گیٹ اپ میں دیکھنا پسند کرتا ہے ، کوئی بھی خود کو ولن کے روپ میں دیکھنا پسند نہیں کرتا چاہے اس کا کردار کتنا ہی منفی کیوں نہ ہو۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ ان فلموں کے جذباتی اور پرتشدد مناظر کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت کا عنصر پروان چڑہا ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایکشن فلم ریلیز ہو کر سینما گھروں اور انٹرنیٹ پر آتی  ہے جنہیں مسلسل دیکھ کر جوانوں میں اسی تناسب سے لڑائی جھگڑے کا شوق و جوش بھی پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو سگریٹ،  شراب اور چرس کے علاوہ آوارگی کا درس انہی فلموں سے ملتا ہے ۔حال میں دنیا میں بڑہتی ہوئی منشیات فروشی کے کاروبار کے سدِ باب کے لیے تمام ممالک نے ایڑہی چوٹی کا زور لگادیا لیکن منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بجائے کمی کے الٹا خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔حتیٰ کہ عالمی رپورٹ میں بڑہتے ہوئے منشیات کے استعمال کا سبب فلموں کو قرار دیا جا چکا ہے ، جن میں ہیرو کو بار بار ایکشن سے سگریٹ ، شراب وغیرہ پیتا  دکھایا جاتا ہے ، جنہیں دیکھ کر نوجوان بھی ان مضر صحت اشیاء کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جرائم کا فروغ بھی انہی فلموں کا مرہون منت ہے، جن سے جرائم پیشہ افراد وارداتوں کی تربیت لیتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  انڈیا کی بت پرستانہ اور مشرکانہ تہذیب انہی فلموں کی وجہ سے مسلمانوں میں در آئی ہے ۔آج مسلمان کی نسل بجائے خدائے واحد کی ذات پر یقین رکھنے کے بجائے دیوی دیوتاؤوں ، مندروں اور گرجوں کی اسیر ہورہی ہے ۔ آج  مسلمان کا بچہ شادی میں باپ سے پوچھتا ہے پاپا! شادی میں سات پھیرے کب لیے جائیں گے۔؟ اسی طرح آج مسلمان بچے  گھروں میں کھلونوں کے سامنے ہاتھ جوڑے ہندوانہ پوجا پاٹ کی ایکٹنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہندوانہ کلچر آج جس تیزی سے مسلمان نسلوں میں پھیل رہا ہے اس کی بنیادی وجہ انڈیا کی فلمیں اور ڈرامے ہیں۔شادی ، غمی کی تمام رسمیں ہندو کلچر سے آج ہمارے معاشرے میں رواج پکڑتی جارہی ہیں۔اسلامی احکامات کا مذاق اڑایا جاتا اور انہیں روندا جاتا ہے۔  نکاح و شادی اور دیگر معاملات میں مسلم و غیر مسلم کی تفریق ختم کرکے انسانیت کو بطورِ مذہب پیش کیا جارہا ہے۔
فلموں میں سماجی مسائل کا حل کم اور عریانیت زیادہ پیش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے بچے قبل از بلوغت جوان اور نوجوان قبل از نکاح بےکارے ہورہے ہیں ۔فحاشی کا عنصر پہلے سے بہت بڑھتا جارہا ہے ، جس کے نقصانات نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ہر فلم میں ایک ہی جیسی پریم کہانی ہوتی ہے جس میں ہیرو اپنی ہیروین کو حاصل کرنے کے لیے سماج سے ٹکراجاتا ہے اور ہزاروں افراد کا خون کرکے اپنا گھر بساتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ پر مبنی ہیں پھر بھی شوق سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پروفیسر گیل ڈائنز نے لکھاہے کہ :‏ ”‏جس طرح کی فحاشی کو چند سال پہلے نہایت ہی بےہودہ خیال کِیا جاتا تھا،‏ آج‌کل اُسے معمولی سی فحاشی خیال کِیا جاتا ہے۔‏“‏ یہ سب مسلسل فلم بینی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جس کے حل کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا بلکہ اسے برائی اور گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ، جو کہ سنگین گناہ ہے۔


ان فلموں کی سب سے بڑی خرابی فیشن پرستی کو رواج اور تقویت دینا ہے ۔فلم بینی کو کسی صورت محمود نہیں کہا جاسکتا یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار اور فتنہ ہے جس نے بچوں اور بچیوں کے اذہان کو غلاظت سے بھردیا ہے ۔انڈیا فلم انڈسٹری میں سب سے اوپر جارہا ہے لیکن خواتین کی عصمت دری بھی اسی تناسب سے بڑہتی جارہی ہے، عصمت دری کے حساب سے انڈیا نمبر ون ملک قرار دیا جاچکا ہے ۔جب کہ ہالی وڈ کی خباثت ، فحاشی اور عریانی تو سب پر سبقت لے گئی ہے۔ آج سنبھلنے کا وقت ہے ، اپنی اور اپنی اولاد کی صحیح دینی تقاضوں کے مطابق نگہداشت بہت ضروری ہے ورنہ دنیا بھی جائے گی اور عقبیٰ بھی۔

2 تبصرے:

  1. بہت خوب ماشاء اللہ!
    یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور انشاءاللہ اس تحریر کا اثر بھی ضرور لیا جائے گا!!!

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ خیرا، حوصلہ افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تحریر لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگ اس سے اثر لیں۔

      حذف کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...