بدھ، 18 مارچ، 2015

اسلام اور آدابِ معاشرت


محمد مبشر بدر
موجودہ معاشرے میں دینِ  اسلام کو صرف نماز ، روزہ اور دیگر عبادات میں بند کر دیا گیا ہے اور اسی کو ہی دین داری کا معیار سمجھاجارہا ہے حالانکہ اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ اس میں صرف عبادات ہی نہیں بلکہ عقائدبھی ہیں معاملات کی ایک لمبی فہرست  ہے ۔ اخلاقیات کا وسیع باب موجود ہے جب کہ معاشرت سے آج کل بہت ہی زیادہ پہلو تہی کی جارہی ہے حتیٰ کہ دین دار کہلانے والے طبقات میں بھی اس طرف سے بہت بے پرواہی برتی جارہی ہے۔آج منبر و محراب  سے بھی اس موضوع پر خال خال ہی صدا سننے کو ملتی ہے ورنہ اکثر خطبات اس عنوان سے خالی  ہوتے ہیں ۔
آج باہمی اتفاق و اتحاد کی کمی کا سب سے بڑا سبب سوءِ معاشرت ہے ۔ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ بھائی بھائی سے دست و گریبان ہے۔قلبی انقباض اور مزاجوں میں گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ ہر طرف نفرتوں اور کدورتوں کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ان سب مسائل  کی وجہ معاشرتی بگاڑ ہے۔جب کہ قرآن و سنت میں معاشرتی زندگی گزارنے کے بہت ہی پیارے اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ اگر ان اصولوں کو سامنے رکھ کر زندگی گزاری جائے تو پورا معاشرہ سکھ چین کی زندگی گزار سکتا ہے۔ خاندانی نظام میں جوڑ اور اتفاق پیدا ہوسکتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ مجلس سے متعلق ایک ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’ اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے جگہ میں کشادگی کردو توجگہ فراخ کر دی کرواور جب تم سے کہا جائے کہ کھڑے ہو جاؤ تو کھڑے ہوجایا کرو۔(سورہ مجادلہ  آیت ۱۱ )۔اسی طرح آقا علیہ السلام کا ارشاد پاک مروی ہے کہ دو شخصوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنا حلال نہیں۔خود آقا علیہ السلام مجلس کے آداب کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے چنانچہ جب آپ علیہ السلام کو چھینک آتی تو اپنا منہ ہاتھ یا کپڑے سے ڈہانک لیتے اور آواز پست فرماتے۔اس سے معلوم ہوا کہ اپنے جلیس کی اس قدر رعایت رکھی جائے کہ اس کو سخت آواز سے وحشت و اذیت نہ ہو۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم آپ علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہوتے تو جو جہاں جگہ پاتا وہیں بیٹھ جاتا  یعنی لوگوں کو چیر پھاڑ کے آگے نہ بڑہتا۔
کسی کے گھر میں داخل ہونے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے مبارک اصول بیان فرمائے ہیں چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’ مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔یہ تمہارے حق میں بہتر ہے شاید تم یاد رکھو۔‘‘ (سورہ النور آیت:۲۷ ) ایک بار حضرت جابر رضی اللہ عنہ درِ اقدس پر حاضر ہوئےاور دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا ’’میں ہوں۔‘‘ آپ نے ناگواری سے فرمایا ’’میں ہوں ،میں ہوں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو صاف بات کہنی چاہیے تاکہ دوسرے کو سمجھنےیا پہچاننے  میں دشواری نہ ہو۔ یہ اتنے پیارے اصول ہیں کہ اگر ان کا لحاظ کر کے زندگی گزاری جائے تو خاندانی نظام میں  امن اور محبت میں  اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح گفتگو میں آداب کا لحاظ رکھنے سے  بہت سے سماجی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ آج کل ہر کوئی جدید دور کے جدید تقاضوں میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ سر کھجانے کو وقت نہیں ملتا ، جب انسان شام کو تھکا ہارا اپنے گھر یا حلقہء دوستاں میں آتا ہے تو تھکاوٹ کی وجہ سے مزاج میں سختی کا پیدا ہونا فطری عمل ہے جس کا اندازِ گفتگو پر گہرا اثر پڑتا ہے لیکن اگر اس نازک موقع پر ہم ان قرآنی ارشادات کو  مدنظر رکھیں تو  بہت حد تک تعلقات ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’اور لوگوں سے بھلی بات کہنا۔’’البقرہ‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا ’’ اور اپنی چال میں اعتدال اختیارکرو اور اپنی آواز آہستہ رکھو۔بیشک سب سے بری آواز گدہوں کی آواز ہے۔ ‘‘( لقمان )  دیکھیے کس طرح بات کرنے طریقہ سکھا دیا کہ بولنے میں آواز نیچی رہنی چاہیے۔  اونچی آواز میں اور گلا       پھاڑ کر بات کرنا  انتہائی نامناسب اور جانوروں کے مشابہہ عمل ہے۔
اسی طرح کھانا کھانے سے متعلق آقا علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک ساتھ کھانا کھاتے وقت دو دو چھوارے ایک دم نہیں لینا چاہییں تاوقتیکہ اپنے رفیقوں سے اجازت نہ لے لے۔ ‘‘دیکھیں اس حدیث مبارک میں ایک لطیف بات ارشاد فرمادی کہ محض بے تمیزی اور کھانے میں شریک دوسرے ساتھیوں کی ناگواری کے اندیشہ سے ایک ساتھ دودو کھجوریں لینے سے منع فرمادیا۔ایک مرتبہ آقا علیہ السلام کھانا تناول فرمارہے تھے آپ کے ساتھ ایک کم عمر لڑکا کھانے میں شریک تھا جو کھانا کھانے میں مختلف جہات سے لقمے لے رہا تھا آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا اپنے سامنے سے کھاؤ ۔کس قدر ایک قیمتی ادب بیان فرمایا کہ بجائے پورے کھانے میں ہاتھ گھمانے کے اپنی سائیڈ سے کھایا جائے تو اس سےسامنے والے کی طبیعت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بدمزگی سے بچاؤ ہوجاتا ہے۔آپ ﷺ ہاتھ دھو کر اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع فرماتے جب کھانا کھا چکتے تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ایک جگہ آقا علیہ السلام کا ارشادِمبارک ہے کہ’’لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے وقت گو پیٹ بھر جائےمگر جب تک دوسرے فارغ نہ ہوجائیں تب تک ہاتھ نہ کھینچےکیوں کہ اس سے دوسرا کھانا کھانے والا شرما کر ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔شاید اس کو ابھی کھانے کی حاجت باقی ہو۔‘‘
مہمان نوازی بہت مبارک اور اللہ کو پسندیدہ عمل ہے اس میں بھی شریعت میں حد مقرر فرمادی اور مہمان کو تین دن سے زیادہ میزبان کے پاس اس کی مشقت کی وجہ سے رہنے سے منع فرمادیا۔چنانچہ ارشاد فرمایا’’مہمان کے لیے حلال نہیں کہ میزبان کے پاس اتنا قیام کرےکہ وہ تنگ ہوجائے۔‘‘ اس ارشاد میں ایسے امر پر ممانعت ہے جس سے دوسروں پر تنگی ہو۔ غور کیجئے کتنےمبارک اصول آپ علیہ السلام نے ااپنی امت کو سکھائے ہیں۔ معاشرے میں جتنا بگاڑ پیدا ہورہا ہے ان اصولوں کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

مریض کی تیمار داری کو عظیم  نیکی ارشاد فرمایا گیا ہے  لیکن اس میں بھی ایک حد مقرر فرمادی کہ عیادت میں مریض کے پاس ( اس کی مشقت کے پیشِ نظر)  زیادہ دیر تک نہ بیٹھے تھوڑا بیٹھ کر اٹھ کھڑا ہو۔آقا علیہ السلام نے نے صرف اپنے اقوال اور افعال اس کے اہتمام پراکتفا نہیں فرمایا بلکہ خدام کی ذرا بے پرواہی پر ان  کو صحیح آداب پر عمل کرنے پر مجبور بھی فرمایا چنانچہ ایک صحابی آپ کی خدمت میں ہدیہ لے کر بغیر سلام و اجازت کے داخل ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ’’باہر واپس جاؤ اور ’’ السلام علیکم! کیا میں حاضر ہوں؟‘‘ کہہ کر حاضر ہو۔‘‘ در حقیقت لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق کی اساس اور بنیاد یہی امر ہے کہ میرے قول و فعل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے جس کی بنیاد پر انسانیت کو معاشرے میں زندگی گزارنے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔چنانچہ آقا ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ’’ کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ظاہر سی بات ہے کہ معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے جس میں انسان باہم مل کررہتے ہیں ۔یہاں ایک دوسرے سے معاملات پیش آتے ہیں ۔ایک انسان کی دوسرے انسان سے کچھ ضروریات وابستہ ہوتی ہیں ۔ کچھ تعلقات ہوتے ہیں ، رشتہ داروں کے حقوق کی پاسداری کرنی ہوتی ہے ۔اس لیے  شریعتِ مطہرہ میں اس باہمی رہن سہن کے کچھ آداب بیان کیے گئے ہیں ، جن کا لحاظ کرنے سے معاشرے میں پھیلے بگاڑ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...