ہفتہ، 27 جولائی، 2019

پی ٹی آئی حکومت کے ابتدا میں ہی اسلام مخالف اقدامات

محمد مبشر بدر
اہل ایمان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ موجودہ حکومت پر نظر رکھیں کہ وہ کیسے تدریجا اسلامی احکام کو اس ملک سے کالعدم کرتی ہے اور سیکولرازم و لبرازم کی ترویج کرتی ہے۔ وزیر اعظم کا کرسمس سرکاری سطح پر منانے کا اعلان اسی سیکولرازم کی کڑی ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ مغربی اقوام کی تائید اور حوصلہ افزائی کے لیے اس ملک کی مذہبی اسلامی شناخت مٹانے پر تلے ہیں۔ یہ جتنا اقلیتوں پر مرتے ہیں اتنا انہیں اکثریت نظر نہیں آتی۔ یہ اقلیت کے حقوق کی آڑ میں اکثریت کے مزاج، کلچراور اقدار پر حملہ آور ہیں۔ بسنت جیسا ہندوانہ تہوار جس کی بنیاد ہی توہین رسالت ﷺ میں سزا یافتہ ہندو کی سزا سے ڈالی گئی اسے اس ملک میں تہذیب و کلچر کے نام پر نافذ کرنا اور سرکاری سطح پر منانا ایک گھناؤنا اور اسلام بیزارانہ طرز عمل ہے۔

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے تب سے اب تک کے حکومتی اقدامات پر نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس حکومت نے سب سے پہلے قادیانی عاطف کو مشیر بنانے کی ناپاک کوشش کی حالانکہ انہیں حالات کی نزاکت کا علم تھا اب تو فواد چودھری کی وہ خفیہ ویڈیو بھی لیک ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لندن میں قادیانیوں سے ملاقات کے وقت ایک صحافی کے سوال کہ آپ نے عاطف قادیانی کو کیوں ہٹایا کے جواب میں کہا کہ اب تک ملک چند لوگوں (مذہبی لوگوں) کے دباؤ میں تھا اب آپ نے نہیں دیکھا کہ آسیہ مسیح کیس میں حکومت نے ان مولویوں کے خلاف کس قدر سخت ایکشن لیا ہے آپ دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کا منظر کچھ اور ہوگا۔ ہم پاکستان کو ماڈرن پاکستان بنائیں گے۔ یہ وزیر اطلاعات کی گفتگو کا ماحصل ہے کہ وہ کیسے اپنے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھارہے ہیں۔

اس حکومت نے دو عدالتوں سے سزائے موت پانے والی آسیہ ملعونہ کو رہا کروایا اس پر عمران خان کافی فکر مند اور پریشان دکھائی دیتے تھے اور وہ بہت جلد مغربی ایما پر اس ملعونہ کی رہائی چاہتے تھے سو انہوں نے وہ کر دکھایا جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ مغربی پارلیمنٹ میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے اور مبارک بادیں دی گئی جب کہ مسلمانوں نے احتجاج کیا نتیجتاً ان مسلمانوں سے معاہدہ کرکے احتجاج ختم کروایا اور انہیں گھر بھیج دیا پھر فواد چودھری کا بیان آیا کہ آج کے بعد کوئی مولوی احتجاج کرتا سڑکوں پر نظر نہیں آئے گا۔ ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور فورا ًمعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علماء اور مذہبی لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں بھرا جانے لگا۔

اسی حکومت کی رکن پارلیمنٹ خاتون عاصمہ حدید نے پارلیمنٹ میں یہ تجویز پیش کی کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات بنائے اور ان سے دوستی لگائے حالانکہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر یہود و نصاریٰ سے دوستی لگانے سے منع کیا اور انہیں مسلمانوں کا ازلی دشمن بتایا۔

اسی حکومت کے ایک ہندو رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر رمیش نے شراب کے لائسنس کینسل کرنے اور پاکستان میں شراب پر پابندی عائد کرنے کا بل پیش کیا جس پر پی ٹی آئی کے فواد چودھری نے ان کا مذاق اڑایا اور انہیں سستی شہرت کا بھوکا کہہ کر ان کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ پاکستان میں شراب پر پابندی نہیں لگا سکتے کیوں کہ یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے طالبان کا پاکستان نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا شراب پر پابندی کا مطالبہ طالابانائزیشن ہے اللہ اور رسول کا حکم نہیں؟؟اس ملک کو کس نہج پر لے جایا جارہا ہے؟  کیا ریاست مدینہ میں شراب کی کھلے عام اجازت تھی اور لائسنس جاری کیے جاتے تھے؟

اسی حکومت نے سکھوں کے مفاد کے نام پر کرتار پور بارڈر کھول کر قادیانیوں کو راستہ فراہم کیا کیوں کہ بارڈر سے 45 منٹ کے فاصلے پر قادیانی ہیڈ کوارٹر قادیان واقع ہے، اس فیصلے پر قادیانیوں نے خوشیاں منائیں اور مبارک بادیں دی۔ اسی حکومت کے دور حکومت میں کے پی میں چوتھی جماعت کی کتاب میں ختم نبوت کا لفظ ہٹا دیا گیا جسے مسلمانوں کے احتجاج کے بعد دوبارہ بحال کردیا گیا۔

اسی حکومت نے فرقہ ورانہ نفرت روکنے کے لیے علماء سے منبر و محراب کا اختیار چھین کر حکومتی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ سرگرمیاں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بہت ہی کم کہیں ایسا ہوتا ہو کہ فرقہ ورایت کو ہوا دی جاتی ہو جب کہ ملک کی اکثریتی مذہبی مساجد اس سے پاک ہیں۔ دراصل حکومت قادیانیوں کے خلاف بولنے اور لکھنے پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے تاکہ کوئی انہیں کافر نہ کہہ سکے۔ عالمی دباؤ کے پیش نظر حکومت کو یہ اقدام کرنا پڑ رہا ہے تاکہ حکومت کے کسی اسلام مخالف اقدام کی مخالفت منبر سے نہ ہوسکے اور علماء عوام کو حقائق نہ بتا سکیں۔ کیوں کہ علماء سیکولرازم اور لادینیت کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی حکومت نے عوامی خوشنودی حاصل کرنے اور سیکولرپاکستان کا نظام آگے بڑہانے کے لیے ہندوانہ رسم بسنت کی اجازت دی حالانکہ گذشتہ حکومتوں نے جانی نقصان ہونے کی بنا پر اس پر پابندی عائد کررکھی تھی۔

اسی حکومت نے پاکستان میں اسلامیات اور عربی نصاب پڑہانے میں اقلیت کا کوٹہ مقرر کر دیا حالانکہ غیر مسلم اقلیت کا اسلامیات اور عربی سے کوئی واسطہ اور تعلق ہی نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اورتربیت ہے کہ ایک مسلمان ٹیچر یہ علوم پڑہا کر مسلمان بچوں کو اسلام سے روشناس کراسکتا ہے۔ کیا اب ہندو، سکھ اور قادیانی مسلمانوں کو اسلام پڑھایا کریں گے جو خود اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ یہ کیسا اسلام دشمنی پر مبنی اقدام ہے اور کوئی اس کے خلاف بولنے والا نہیں۔ کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا تھا کہ یہودی مسلمانوں کو قرآن سمجھاتے تھے؟؟

اسی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان میں بھارتی فلمیں بند نہیں کر سکتے، فواد چودھری نے کہا کہ وہ غیر ملکی فلم سازوں کو لانے کی کوشش کررہے ہیں، ملک میں 187 سینما سکرینز ہیں جو 1100 ہونی چاہییں۔ اس طرح اس حکومت نے فحاشی کو پرموٹ کرکے اس ملک کو بے حیائی اور بدکرداری کی راہ پر ڈالنے کا عزم کرلیا ہے تاکہ ان فلموں کے ذریعے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوتے رہیں، اس کے لیے 14 ارب روپے مختص کیے جاچکے ہيں۔ کیا یہی ہے ریاست مدینہ کا تصور؟؟

اسی حکومت نے فیملی پلاننگ کا ناپاک منصوبہ پاکستان میں شروع کررکھا ہے تاکہ مسلمانوں کی شرح پیدائش کم ہوجائے حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اللہ نے اس کائنات میں اس سے زیادہ وسعت رکھی ہے جتنی وہ اس میں اپنی مخلوقات بسا رہا ہے یہ اس خدائی نظام سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔

بھائیو! علماء کرام شروع سے کہتے تھے کہ ان بے دین لوگوں کو ووٹ دے کر مت جتواؤ جن کی اپنی حقیقی زندگی میں اسلام کی ادنیٰ رمق بھی باقی نہیں، اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو سب سے پہلے وہ اس ملک سے اسلامی تشخص مٹائیں گے اور اسے سیکولر اور شراب و کباب، اور رقص وسرود کا مرکز بنادیں گے اور مخالفت کرنے والے علماء کو جیلوں میں ڈال کر ان پر تشدد کریں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا حکومت نے اتنے اقدامات کرلیے ہیں سوچیں وہ آنے والے دنوں میں کیا کرنے والی ہے۔ اللہ کی پناہ مانگیں اور توبہ تائب ہوں۔ اس تحریر کو خوب سے خوب شیئر کریں تاکہ حق لوگوں تک پہنچتا رہے اور مسلمان حالات کی نزاکت سمجھ جائیں۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...