منگل، 14 نومبر، 2023

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر

شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نماز کی فرضیت مکلف پر لاگو ہوجاتی ہے۔ تاہم اگر کہیں شرعی عذر لاحق ہوجائے تو آیا دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کا اس بارے کیا عمل رہا ہے  اس پر احناف کا موقف یہ ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک جمع حقیقی یعنی ایک وقت میں دو نمازیں جمع کردی جائیں،  دوسری  قسم جمع صوری یعنی اول نماز اس کے آخری وقت میں ادا کی جائے اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں ادا کی جائے۔ یوں دونوں نمازیں صورتاً جمع ہوجائیں گی لیکن حقیقتاََ اپنے اپنے وقت پر ہی ادا ہوں گی۔اگر ہم حقیقتاً جمع بین الصلاتین کے قائل ہوجائیں جیسا کہ کچھ لوگوں کا موقف ہے تو اس سے کچھ احادیث پر عمل اور کچھ کو ترک کرنا لازم آئے گا جب کہ جمع صوری پر عمل کرنے سے تمام احادیث پر یکساں عمل ہوگا کسی کا ترک لازم نہیں ہوگا۔

احناف کایہی اصول رہا ہے کہ ایسا موقف اختیار کیا جائے جس پر زیادہ سے زیادہ احادیث پر عمل ہو جتنا روایات میں مطابق دی جاسکتی ہو دی جائے۔ جہاں مطابقت ممکن نہ ہوں وہاں راجح جانب کو ترجیح دے کر ثانی موقف کی تاویل کردی جائے۔ چنانچہ اس حوالے سے قرآنی آیات اورتمام احادیث کا ادراک کرنے کے بعد اہلسنت احناف کا فہم اور موقف یہ ہے کہ جمع حقیقی صرف ایام حج میں مزدلفہ اور عرفات میں جائز ہے اس کے علاوہ کسی عذر کی وجہ سے جائز نہیں جب کہ جمع صوری شرعی عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ اس موقف پر چند دلائل پیش خدمت کرتا ہوں تاکہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ اہلسنت احناف کا موقف محض رائے پر قائم نہیں جیسا کہ بعض لوگ غلط تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں  بلکہ قرآن و سنت کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔

دلیل 1 :

احناف کی پہلی دلیل قرآن مجید کی آیت ہے۔

﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾  (النساء:۱۰۳ )

ترجمہ: "بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے"۔

امام بیضاوی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 ای فرضا محدود الاوقات لایجوز اخراجھا عن اوقاتہا فی شیئ من الاحوال

ترجمہ: " نماز ایسا فرض ہے  جسے اپنے اوقات میں محدود کردیا گیا ہے ، ان نمازوں کو پنے مقررہ اوقات سے باہر نکالنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔"

آیت مبارکہ اس معنیٰ میں واضح اور خاص ہے کہ ہر نماز کا ایک مقرر وقت ہے۔  وقت داخل ہوتے ہی نماز فرض ہوجاتی ہے،  اپنے وقت سے پہلے کوئی نماز فرض نہیں ہوتی۔ قرآن کے اس فیصلے کے بعد ہم تمام روایات کو اسی اصول پر پرکھیں گےکیوں کہ قرآن اصل الاصول ہے باقی دلائل اس کے تابع ہیں۔

دلیل نمبر 2:

اسی طرح قران مجید میں ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔ سورۃ الماعون )

ترجمہ: ان نمازیوں کیلئے ویل نامی جہنم کی جگہ ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔

دلیل نمبر 3:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (بقرۃ آیت:  ۲۳۸)

ترجمہ: "نمازوں کی حفاظت کرو۔"

اس آیت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی لکھتا ہے کہ { حافظوا عَلَى الصلوات } بالأداء لوقتها والمداومة عليها۔

ترجمہ: " یعنی اپنے وقت پر ادائیگی اور اسپر مداومت کے ساتھ اس نماز کی حفاظت کرو۔"

دلیل نمبر 4 :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ"۔ (سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)

ترجمہ: "جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں)جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔"

اس روایت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کی ممانعت ہے حتیٰ کہ کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ نمازوں کا اصل حکم ہے کہ بلا عذر ایک وقت میں دو نمازیں جمع نہ کرے۔یہ قرآن کی آیت کی تائید ہے۔

دلیل5 :

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا"۔

(صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع:۱٦۸۲)

ترجمہ: " میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ ﷺ نے جمع فرمائیں، اور مزدلفہ میں فجر کو معمول کے وقت سے پہلے (فجر کے بالکل ابتدائی وقت میں) ادا فرمایا  "۔

اس روایت میں سیدنا ابن مسعود فرمارہے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھتے نہیں دیکھا سوائے مزدلفہ کے۔ اس کے علاوہ کہیں جائز نہیں۔ نیز اس روایت میں آپ ﷺ کا فجر کی نماز کو وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:

" المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين"۔
(حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية:7، 1 / 228 ط:هنديه)

ترجمہ: "یعنی فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عموماً فجر کی نماز جس وقت (آخرِ وقت) ادا کرنے کا معمول تھا، اس وقت سے پہلے (ابتدائی) وقت میں فجر کی نماز ادا فرمائی، نہ کہ طلوع فجر (وقت داخل ہونے) سے پہلے ادا فرمائی ؛ کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے فجر کی نماز ادا کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع سے ناجائز ہے۔"

دلیل6 :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ، يُؤَخِّرُ صَلاَةَ المَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ العِشَاءِ» قَالَ سَالِمٌ: «وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ المَغْرِبَ، فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا، ثُمَّ يُسَلِّمُ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ العِشَاءَ، فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ، وَلاَ يُسَبِّحُ بَيْنَهُمَا بِرَكْعَةٍ، وَلاَ بَعْدَ العِشَاءِ بِسَجْدَةٍ، حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ»

(الصحیح للبخاری رقم الحدیث 1109)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے،پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓبھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے، مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے، پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے، دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے) "۔

اس روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر ؓ نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے تو حضرت ابن عمرؓ کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔ خود حافظ ابن حجرؒ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس روایت میں صورتا جمع کرنا مراد ہے۔

دلیل 7 :

خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روایات کی بنا پر انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ:

" يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ "۔

(موطأ محمد، باب الجمع بین الصلاتین في السفر:۲۰۵)

ترجمہ: "کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔"

اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین  حقیقتاًجائز نہیں ہے بلکہ صورتاً جائز ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...