بدھ، 9 دسمبر، 2015

کیا مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ ہے؟

محمدمبشربدر

زمانہ کے تغیر کے ساتھ دنیا بھی ترقی کرتے کرتے آج ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے جسے ٹیکنالوجی اور جدید سائنس کا دور کہا جاتا ہے ۔ نت نئی ایجادات نے انسانی عقلوں کو حیرت  میں ڈال دیا ہے ۔ ایسی ایسی چیزیں وجود میں آگئی ہیں جن کا پچھلے ادوار میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔  بھلا کس نے سوچا تھا کہ انسان بھی ہوا میں اڑے گا، برق رفتاری سے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں چند ساعتوں کے اندر  پُر سکون سفر کر لے گا ،  مصنوعی ٹھنڈک پیدا کرکے اشیائے خوردو نوش کو دیر پا محفوظ رکھ سکے گا ، کپڑوں کی بنائی سے لے کر برتنوں کی صناعت تک کے لیے مشینوں سے خدمت لی  جائے گی ، گھروں میں لکڑیاں  جلانے کی مشقت کے  بجائے گیس سے کھانا پکایا جائے گا  ،  بجلی کی توانائی سے بڑے بڑے کام لیے جائیں گے اور  علاج معالجے کے لیے اعلی ادویات و جراحی کے آلات وجود میں آجائیں گے۔

بلاشبہ ان ایجادات کے پیچھے انسانی سہولت کار فرما تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو مشقت سے بچاکرآسانی فراہم کی جائے ،جس کا سہراانسانی عقل کے سر بندھتا ہے ،  جواللہ رب العزت نے انسان کو ودیعت  فرمائی اوراشیاء میں خواص پیدا فرماکر انسانی عقل کی اس طرف رہنمائی فرمائی ، تاکہ وہ اشیاء کے خواص کو ڈھونڈ کر انہیں اپنے استعمال کے لیے کار آمد بنائیں۔ لیکن سائنس دانوں نے جتنا زندگی کوتیز  ، پرتعیش اور آرام دہ بنانے کی کوشش کی وہ اتنا ہی پزمردہ اور مضمحل ہوتی چلی گئی ۔ وہ بند کمروں میں بیٹھ کر جتنا انسانیت کی بھلائی اور سہولت کو سوچ کر نت نئی ایجادات کے لیے تجربے کرتے گئے اتنا انسانی روح بے چینی و بے قراری کی طرف سفر کرتی چلی گئی ۔لوگ اس کی وجہ دریافت کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟۔اس کی بنیادی وجہ  ہمارا          مادہ پرستانہ نظریۂ حیات ہے ، جس نے جسمِ انسانی کو تو  راحت بخش اسباب فراہم کر دیئے لیکن روح کی تشنگی کو سیراب کرنے سے قاصر رہا۔ انسان مادیت کی دلدل میں پھنس کر روح کی آسودگی کو ترس رہا ہے ۔روح کی آسودگی کے بغیر سب کچھ ہونے کے باوجود انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ۔

اگر ہم روح کی اس بے قراری و بے چینی کا علاج ڈھونڈیں تو لامحالہ اس کا مداوا سوائے مذہب کے اور کسی کے پاس نہیں ۔ ایک مذہب ہی ہے جو انسان کی روح کو وہ سرور و اطمینان دے سکتا ہے جو دولت و اسباب کے انبار نہیں دے سکتے ۔انسان کی موجودہ ذہنی و روحانی کشمکش کی بنیادی وجہ خود غرضی ہے جو مادیت پرستی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ فرانس کا ملحد فلسفی رینان Renon اپنی ایک کتاب 'The History of Religions' میں خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ’’مادیت ایک فریب اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا ہمیں لا محالہ مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔‘‘

انسانی روح مذہب کا تقاضہ کرتی ہے جسے مادیت کے مقابلے میں روحانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، کیوں کہ سائنسی ایجادات اور مادی اسباب انسان کی روح کی تشنگی دور نہیں کرسکتے ۔روح کا بے قرار ہونا مذہب کی سب سے وزنی اور ٹھوس دلیل ہے۔انسان مادی اعتبار سے خواہ کتنا ہی ترقی کرجائے اس کا روحانی وجود اس سے سکونِ قلب کی طلب پیدا کرکے اسے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے ۔ سائنس انسان کی مادی زندگی کو پرسکون بناتی ہے جو کائنات کی اشیاء میں غور و فکر کر کے اسے انسانی مفاد کے لیے بروئے کار لانے کا نام ہے ، سائنس بول کر آپ سائنسی ایجادات بھی مراد لے سکتے ہیں ، لیکن سائنس بذاتِ خود ایک فکر کا نام ہے، جو گزشتہ زمانے میں حاصل ہونے والی اپنی ابتدائی  ترقی و کامیابیوں  کے زعم میں چند داخلی و خارجی امور کے سبب مذہب و تصورِ خدا سے ٹکرا گئی تھی ۔لیکن اب ہر سطح پر یہ بات مسلم ہوچکی ہے کہ مذہب اور سائنس کا الگ الگ میدان ہے ، یہ آپس میں متعارض و متصادم نہیں ہیں ۔

سائنس کا مذہبی امور میں کوئی دخل نہیں ہے جب کہ مذہب کا سائنسی معاملات  میں تعمیری اور مثبت دخل ضرور ہے ۔جو عرصہ دراز  کےمسلسل تجربوں اور مشاہدوں سے ثابت ہوچکا ہے ۔لہٰذا دونوں میں ٹکراؤ اور تصادم کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ناممکن ہے ، چنانچہ فیلڈ مارشل سمٹس ۔ فلسفہ کی بلند پایہ کتاب ہولزم (Holism) کا مصنف کہتا ہے : ’’ صداقت کی مخلصانہ جستجو اور نظم و حسن کے ذوق کے اعتبار سے سائنس مذہب اور فن کے اوصاف سےحصہ لیتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ شاید سائنس ہمارے اس عہد کے لیے خدا کی ہستی کی واضح ترین نقاب کشائی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو جو کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہوگا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرے کا ازالہ کرے گی جو ہمارے مستقبل کو درپیش ہے‘‘۔ 

سائنس کے نظریات ظنی ہوتے ہیں ، ان کو یقین کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ، چونکہ ان کا وجود مشاہدات اور تجربات کی بنا  پر ہوتا ہے اس لیے یہ آئے روز بدلتے رہتے ہیں،جب کہ مذہبی نظریات قطعی ہوتے ہیں جن میں تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا ، اس لیے سائنس سے مذہب کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔کیوں کہ ایک ظنی اور تبدیل ہونے والی چیز ایک قطعی اور مستقل چیز کے ثبوت کے لیے  دلیل نہیں بن سکتی ، بالفرض  اگر ہم آج سائنس کو مذہب کی دلیل بنا لیں لیکن جب کل کو سائنس کا نظریہ تبدیل ہوگا تواس سے مذہب کے اس نظریئے  کا غلط ہونا لازم آجائے گا جسے کل تک ہم مستقل اور غیر مبدل مان رہے تھے ۔


مذہب ( اگر یہاں مذہب کے بجائے قرآن کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے ) خدا کا نازل کردہ ہوتا ہے ، جسے خدا انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل دیتا ہے اس لیے اس کے نظریات میں تبدیلی ممکن نہیں جب کہ سائنسی نظریات انسانوں کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں وجود پاتے ہیں۔ اس لیے یہ بدلتے رہتے ہیں۔سائنس کے نظریات اور مفروضات حتمی نہیں ہوتے  بلکہ علم کی ترقی کے ساتھ  ان میں ترمیم و اضافہ یاان کے بالکل بدل جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔سائنس کے سامنے جب کسی مسئلے پر کافی مواد جمع ہوجاتا ہے اور اس سے کسی حقیقت تک پہنچنے کا گماں ہوتا ہے تو قیاس یا مفروضہ جنم لیتا ہے ۔ پھر جب بہت سے سائنسدان اس پر بہت سے ثبوت دیکھ کر اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو اسے تھیوری کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر جب طویل عرصے  تک اس کے ثبوت دنیا میں پہنچتے رہتے ہیں اور اکثر سائنسدان اس سے اتفاق کرلیتے ہیں تو اسے قانون کا درجہ دیا جاتا ہے۔ پھر یہ قانون اس درجے کا نہیں ہوتا جسے حتمی کہا جاسکے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کےامکان کو مسترد کردیا جائے ، بلکہ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک قانون کو بعد کی تھیوری نے بدل کر رکھ دیا ۔ لہٰذا ایک مسلمان کے شایان نہیں کہ وہ قرآن کے یقینی نصوص کو انسان کے غیر یقینی نظریات پر محمول کرے۔

دینی مدارس کے انوار سے جگمگاتا برِّ صغیر


محمد مبشر بدر
مدارسِ اسلامیہ کو اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اسلامی تعلیمات نسل در نسل منتقل کرنے کے اہم مراکز ہیں، انہی مدارس کے ذریعے اسلام کا شجر ِسایہ دار اپنی تمام تر شاخوں سمیت سرسبز و شاداب رہتا ہے، انہیں مدارس سے عقائد ، عبادات،معاملات، اخلاقیات اور معاشرت کا علم حاصل ہوتا ہے، مدارس امن کے گہوارے اور معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں ۔روئے زمیں پر مدارسِ اسلامیہ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اسلام کی تاریخ ، اپنی اصل میں مدرسہ کسی عمارت اور بلڈنگ کا نام نہیں بلکہ ایک استاذ اور شاگرد کے وجود کا نام   ہے، جہاں استاذ و شاگرد تعلیمِ دین کے لیے مل بیٹھیں وہی جگہ مدرسہ کہلاتی ہے۔
اس مضمون میں انگریزی قبضے سے قبل برصغیر کی قدیم دینی درسگاہوں سے متعلق اجمالاً اہم معلومات فراہم کی جائیں گی ، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ جہاں عالمِ اسلام کے دیگر ممالک میں اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے مدارس کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا گیا وہاں برِّ صغیر بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہا۔یہاں بھی بڑے بڑے اور مشہور مدارس کی داغ بیل ڈالی گئی جو ایک عرصہ تک  لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے سیراب کرتے رہے۔ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے مدارس کی تاریخ پر کوئی ٹھوس معلومات منضبط نہیں کی گئیں، بلکہ قدیم تاریخِ ہند میں زیادہ تر بادشاہوں کی سوانح عمریاں ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ ان کی فتوحات ، ملکی و جنگی کارنامے جو اس زمانہ کے سب سے زیادہ قابلِ توجّہ واقعات تھے تفصیل و بسط کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں۔اس بنا پر اوراقِ تاریخ بھی جنگی صفحات بن گئے جہاں شمشیر و سناں کے شورمیں درس و تعلیم کی کمزور آوازیں دب کر رہ گئیں۔
قدیم زمانہ میں درس و تعلیم کے لیے الگ سے مستقل عمارتیں نہیں تھیں بلکہ اس کام کے لیے زیادہ تر مساجد سے کام لیا جاتا تھا جہاں باقاعدہ کلاسیں لگائی جاتیں اور لوگ ان مبارک حلقوں میں حصولِ تعلیم کے لیے شرکت کرتے تھے۔اسی وجہ سے آپ ہند کی قدیم مساجد میں دیکھیں گے جہاں صحن مسجد کے ارد گرد کمروں کی قطاریں آج بھی نظر آئیں گی،یہ دراصل طلباء کے درس و قیام کے لیے تعمیر کیے جاتے تھے ،جہاں دور دراز سے آئے مسافر طلباء قیام کرتے تھے۔ہندوستان کے قدیم اسلامی شہروں میں قدم قدم پر آپ کو وسیع و شاندار مساجد ملیں گی ، دلی، آگرہ ، لاہور ،ملتان ، گجرات، احمد آباد، جونپور، حیدرآباد دکن وغیرہ قدیم اسلامی دارالسلطنتوں میں جو عظیم مساجد تعمیر ہوئیں تھیں، جو اب تک باقی ہیں ان کی موجودہ صورت و ہیئت دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان کا اکثر حصہ تعلیمِ دین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
قدیم خانقاہیں بھی عموماً تعلیم و تربیت کا اہم مرکز سمجھی جاتی تھیں ، جہاں صرف مجاہدۂ نفس و وظائف کو ہی عبادت نہیں سمجھاجاتا تھا ، بلکہ تزکیۂ نفوس کی تعلیم دی جاتی اور احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونے کابھی  درس دیا جاتاتھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کاداخلہ پہلی صدی ہجری میں ہوگیا تھا لیکن اس کا اثر پورے ہند پر نہیں تھا، بلکہ ہند کے بعض اطراف میں اسلام کی کرنیں ضرور جگمگانے لگیں۔صحیح معنیٰ میں اسلامی حکومت کے قدم  ۳۹۰ ؁ھ میں سلطان محمود غزنوی کی مجاہدانہ جدّوجہد کی بدولت جمے، سلطان محمود علم دوست اور علماء کا قدر دان بادشاہ تھا، جس کے دربار میں علماء ، ادباء ، حکماء اور شعراء کا ہجوم رہتا، اسے اپنے حدودِ حکومت میں مدارس قائم کرنے کا بے حد شوق تھا، چنانچہ تاریخِ فرشتہ میں لکھا  ہے کہ  ۴۰۹؁ھ میں سلطان محمود غزنوی فتحِ قنوج کے بعد غزنی تشریف لائے اور وہاں جامع مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس بادشاہ کا یہ عالم ہو اس کی رعایا میں اس کے ذوق کا کس قدر اثر ہوگا ،چنانچہ عربی  کتب میں یہ مقولہ درج ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکہم ‘‘ یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔اسی ذوق کا ہی اثر تھا کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا جال پھیل گیاجس کو قاسم فرشتہؒ نے تاریخ میں بیان کیا ہے جس سے یہی بات مستفاد ہوتی ہے کہ  ہندوستان میں مدارس دینیہ کا قیام محمود غزنوی اور ان کے امراء کے توسّط سے داخل ہوا پھر تدریجاً سارے ملک میں مروج ہوگیااور ہندوستان سے باہر بھی یہی نظام رائج تھا۔
سلطان کے بعد زمامِ حکومت ان کے بیٹے  شہاب الدین مسعود کے ہاتھ میں آئی ، جو علم پرور شخص تھا جس نے علم کی ترویج کے لیے اپنی سلطنت میں بہت زیادہ مساجد و مدارس تعمیر کروائے۔چنانچہ ان سے متعلق فرشتہ لکھتا ہے کہ:
’’ انہوں نے اپنے مقبوضہ ممالک میں اپنی سلطنت کے اوائل میں اتنے مساجد و مدارس کی بنیاد ڈالی کہ زبان ان کے شمار سے عاجز اور قاصر ہے۔‘‘
اس کے بعد جب حکومت ِہند خاندانِ غوری میں منتقل ہوئی تو مصنف تاج المآثر کے بیان کے مطابق سلطان شہاب الدین غوری نے  ۵۸۷؁ھ میں اجمیر فتح کیا جہاں انہوں نے  متعدد مدارس قائم کیے جو ہندوستان کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتے ہیں۔۶۰۷؁ھ میں جب شمس الدین التمش تخت نشین ہوا تو اس نے بھی دہلی میں متعدد مدارس تعمیر کروائے جسے قطب الدین ایبک نے لاہور کے بعد ہندوستان کا دارالسلطنت قرار دے دیا تھا  ، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کا مشہور و معروف مدرسہ ٔ معزّیٰ اسی عہد کی یادگار ہے، جس کے مدرس مولانا بدرالدین اسحاق بخاری تھے جو علومِ عقلیہ و نقلیہ میں اپنے وقت کے  ماہر سمجھے جاتے تھے۔
اسی عہد میں دہلی میں ایک اور مشہور و کبیر مدرسہ کا پتہ چلتا ہے ، جو مدرسۂ ناصریہ کے نام سے موسوم تھا، جو کہ ناصر الدنیا والدّین شہزادہ محمود بن سلطان شمس الدین التمش کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔طبقاتِ ناصری کے مصنف سراج الدین عفیف اس مدرسہ کے مہتمم اور نگران تھے۔مدرسہ فیروز شاہی کے نام سے ایک اور عظیم الشان مدرسے کا تاریخ  میں ذکر ہے جو دہلی کا سب سے مشہور اور اپنے عہد کا زبردست مدرسہ تھا ، جسے فیروز شاہ نے فیروز آباد دہلی میں ۷۵۳؁ھ میں قائم کیا تھا۔ ضیاء برنی نے اس کی تعریف میں صفحات سیاہ کیے ہیں، لکھتا ہے:
’’مدرسہ اپنی شان و شوکت ، خوبیٔ عمارت و موقع اور حسن انتظام و تعلیم کے لحاظ سے تمام مدارسِ ہند میں سب سے بہتر اور عمدہ ہے ، مصارف کے لیے شاہی وظائف مقرر ہیں۔‘‘
مدرسہ سے متصل مسجد تھی، مولانا جلال الدین رومی اس میں مدرس دینیات تھے۔اس کے علاوہ دہلی میں درج ذیل مشہور اور عظیم الشان مدارس موجود تھے۔مدرسہ بالابند آب سیری ، یہ مدرسہ ایک شاہی عمارت میں واقع تھا، جس کے حسن کا کوئی عمارت مقابلہ نہیں  کرسکتی تھی۔مدرسہ خیرالمنازل جسےعہدِ اکبری میں ماہم بیگم نے ۹۶۹؁ھ میں پرانے قلعہ کے پاس مغربی دروازے کے مقابل تعمیر کرایا تھا۔ دلی کی جامع مسجد کے جنوبی رخ پر دارالبقاء کے نام سے ایک عظیم الشان مدرسہ قائم تھا ، جس کی بنیاد اندازاً ۱۰۶۰؁ھ میں رکھی گئی ۔دلی کا سب سے آخر الذکر اور مشہور مدرسہ شاہ عبدالرحیم دہلوی والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہما الرحمۃ کا ہے ۔اسی مدرسہ کی آغوش میں شاہ ولی اللہ ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی ، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی ، شاہ اسمٰعیل ، شاہ اسحاق ، شاہ عبدالقادر وغیرہ جید کبار اہلِ علم پڑھ کر جواں ہوئے ہیں، یہی وہ عظیم مدرسہ ہے جہاں سے پورے ہند میں حدیث کے چشمے پھیلے۔
علامہ مقریزی نے اپنی مشہور کتاب ’’ کتاب الخُطط‘‘میں لکھا ہے ۔
 ’’ چودہویں صدی عیسوی میں محمد تغلق کے دور میں صرف دہلی شہر میں ایک ہزار مدرسے تھے۔‘‘
کیپٹن ہیلیگزن ہملٹن مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے دور میں ۱۶۹۹؁ء میں اس خطے میں آئے تھے، انہوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا ۔ ’’ صرف ٹھٹھہ شہر میں مختلف علوم و فنون کے چار سو مدارس تھے ۔‘‘ کیئر ہارڈی نے میکس پولر کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ ’’ انگریزوں کی علمداری سے قبل بنگال میں اسّی ہزار مدرسے موجود تھے، تقریباً ہر چار سو افراد کے لیے  ایک مدرسہ تھا۔ ‘‘
لاہور کی وزیر خان مسجد جو مدرسہ کام بھی دیتی تھی آج تک اپنی علمی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہند کے مشہور شہر فتح پور کا ایک مشہور مدرسہ ابوالفضل آج بھی اپنی پوری تب و تاب کے ساتھ قائم ہے جو شاہی محل کی عمارتوں کے بالکل قریب ہے۔جہانگیر کی علم دوستی سے کون ناواقف ہے؟ جس نے ہندوستان کے قدیم خستہ و غیر آباد مدارس کو جو پرندوں اور جانوروں کا مسکن بنے ہوئے تھے طلباء  و علماء سے بھر دیا۔  امروہہ شہر کے قریب ایک مشہور مقام جو دارانگر کے نام سے موسوم ہے اس میں ایک مشہور مدرسہ مدرسہ دارانگر کہلاتا ہے، جسے نجیب الدولہ نے قائم کیا تھا ، اس جامعہ سے بہت سےطلباء نے کسبِ فیض کیا اس مدرسہ میں خصوصیت کے ساتھ فرنگی محل کے اکثر فارغ التحصیل اشخاص تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
رامپور کے مدرسہ عالیہ  جو اب تک قائم ہے ، نواب فیض اللہ خان نے مولانا بحر العلوم کو رامپور بلا کر اس مدرسہ کا صدر مدرس بنا دیا ، ہندوستان کے مشہور عالم ملّا حسن بھی اسی  مدرسہ میں عرصہ تک مدرّس رہے۔اودھ کے مدارس  میں مدرسہ سہالی ، مدرسہ شاہ پیر محمد  کاٹیلہ اور لکھنؤکا عظیم الشان مدرسہ فرنگی محل جس کا نام درسی کتابوں میں آج بھی لکھا ہوا موجود ہے۔دکّن کے مدارس میں مدرسۂ بدر ، مدرسہ گلبرگہ مدرسہ آثار شریف ، مدرسہ بغداد (احمد نگر)، مدرسہ خاندیس ، مدرسہ دولت آباد ۔ ملتان کے مدارس میں سے مدرسہ فیروزی ، مدرسہ ملتان ایسے عظیم مدارس تعلیم دین کے لیے ہندوستان میں علم کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔
یہ ان چند مدارس کا مختصر تذکرہ ہے جو انگریزی تسلط سے قبل برصغیر میں علم و عرفان کے نور سے لوگوں کے سینے منور کررہے تھے۔انہی مدارس کا فیض تھا کہ یہاں تعلیم عام تھی ، لوگوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ، جاگیر داروں نے فروغِ دین کے لیے اپنی جاگیریں مدارس کے نام الاٹ کرارکھی تھیں تاکہ مدارس پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے اور تعلیم میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔علماء و مدرسین کے وظائف حکومت نے مقرر کررکھے تھے جس کی وجہ سے وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر تعلیم و تعلّم کے فریضے کو بخوبی انجام دیتے تھے۔انہی مدارس کی برکت سے لوگوں میں دینی جذبہ و شعور پیدا ہوا اور یہاں کےعام  لوگوں کا اخلاق و کردار اعلیٰ اقدار کا حامل تھا ، جو دیگر اقوام کے لیے ایک بہترین نمونۂ عمل  تھا ، اس کا اعتراف خود یورپی مؤرخین نے کیا ہے۔ چنانچہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں انگریز سفیر تھامس کرو یہاں آئے۔ وہ ہندوستان کی تہذیب و تمدّن کو دیکھ کر دنگ رہ گئے، انہوں نے کہا:
’’ یہاں ہر شخص میں مہمان نوازی اور خیرات کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ صنفِ نازک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس کی عزت ، عصمت اور عفت کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ یہ ایسے اوصاف ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم اس قوم کو غیر مہذب اور غیر متمدّن نہیں کہہ سکتے اور ایسی صفات کی موجودگی میں ہندوستان کو یورپی اقوام سے کسی طرح کم تر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اگر ہندوستان اور انگلستان کے درمیان تہذیب و تمدّن کی تجارت کی جائے تو مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان سے تمدّن کی جو کچھ درآمد انگلستان میں ہوگی اس سے انگریزوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔‘‘

اس بیان سے اس نظریئے کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ برصغیر انگریز کی آمد سے قبل جہالت کی تاریکی میں  ڈوبا ہوا تھااور یہاں کوئی تعلیمی و تربیتی نظام موجود نہیں تھا۔حالانکہ یہاں کی اخلاقی و علمی اقدار پوری روئے زمیں پر نایاب تو نہیں کم یاب ضرور تھے۔

دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے ﷺ





محمد مبشربدر

انسانیت پر  قدرت کا اس سے بڑا احسان اور کیا ہوگا کہ ان کو حضرت محمد ﷺ جیسی بابرکت و پاکیزہ ہستی عطا کی ، جو رحمت و شفقت، محبت و الفت ، جود و سخا اور امن ووفا کی پیکر ہے۔ جن کے دم سے کائنات کو ثبات ہے۔ جو غریبوں اور بے کسوں کے ماویٰ و ملجأ اور بے سہاروں کے لیے سہارا ہیں ۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے والے، غم زدوں کی دلجوئی کرنے والے، مہمان نوازی میں درِّ یتیم اور یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھنے والےہیں۔  جب بارِ رسالت آپ کے سپرد کیے جانے کا وقت آیا اور علامات وحی کا ظہور ہونا شروع ہوا تو آپ علیہ السلام غارِ حراء سے گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ ؓ سے فرمایا:

«إِنِّي قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» ’’ اے خدیجہ! مجھے اپنی جان جانے کا خطرہ ہے۔‘‘

یہ سن کر سیدہ خدیجہؓ بولیں:  «كَلَّا - وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتُقِرِّي الضَّيْفَ، وَتُكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ».

’’ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بخدا اللہ آپ کو کبھی خالی ہاتھ نہیں کرے گا، بلاشبہ آپ رشتہ داری کا بھرم رکھتے ہیں ، گفتگو میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں، مہمان نواز ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں اور مشکل حالات میں حق کا ساتھ دیتے ہیں ۔‘‘

یہ وہ پیغمبرِ برحق ہیں جن کے کمالات و محاسن کی دنیا قائل ہے ، روئے زمین پر ان جیسا اعلیٰ اخلاق کا حامل ، بردبار، شیریں سخن، نازک دہن، گل بدن ، اپنی ذات میں ایک انجمن، صاحب العفت و  الحیاء، صاحبِ جود و سخا، صاحب الرداء السوداءمحمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کسی ماں نے جنا ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔

شاعرِ رسول ﷺ سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کی مدحت میں فرماتے ہیں:   ؎

وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنٌ،وَ اَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ ، کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآء

’’ آپ سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے، اور آپ سے زیادہ خوبصورت عورتوں نے کبھی جنا ہی نہیں ہے۔ آپ کو ہر عیب سے پاک کرکے پیدا کیا گیا، گویا آپ کو ایسے پیدا کیا گیا جیسا آپ نے چاہا۔‘‘  ؎

وہ دانائے سُبُل ، ختم الرسُل ، مولائے کل جس نے        غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر                وہی قرآں ،وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

آپ کی حیاتِ طیبہ کا کون سا گوشہ ہے جو انسانیت کے لیے مشعل راہ نہیں ہے؟ خلّاقِ عالم نے آپ کی ایک ایک ادا کو امت کے لیے قابلِ تقلید بنادیا اور آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کا درجہ دیا،آپ کے فیضانِ نظر سے رومی ، فارسی، حبشی ،غفاری سے لے کر بادیہ نشینان و شاہانِ عرب و عجم تک حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ایسی مقدس اور پاکیزہ ہستی کے اوصاف اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور آپ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے۔

یہ امت جب تک رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع نہیں کرلیتی، آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا نہیں لیتی تب تک کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتی۔ آپ کا دائرۂ نبوت قیامت تک آنے والے جن و انس کے علاوہ تمام مخلوقات تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ علیہ السلام نے امت کو ایک منہج اور راستہ دیا، زندگی گزارنے  کے لیے ایک نصاب دیا جس پر آپ کے اصحاب علیہم الرضوان نے  عمل پیرا ہوکر اتباعِ رسول ﷺ کا حق ادا کردیا اور آپ کے بعد اسلام کی روشنی چہار دانگِ عالم میں پھیلانے کے لیے گھربار چھوڑ دیا  اور اپنے بعد والوں کے لیے  ایک بہترین مثالی طرزِ زندگی چھوڑ گئے۔

وہ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی پامردی اور استقلال ہی تھا، جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر ننگی پیٹھ اور سینے پر پتھر رکھے ہوئے زبانِ مجسم سے اشہد ان محمدا رسول اللہ کی گردان جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا شبابِ وفا ہی تھا ، جو جلتے ہوئے انگاروں پر محمد رسول اللہ کا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔ یہ سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کا عشقِ صادق ہی تھا کہ جسم کے دو ٹکڑے کروادیے، یہ سیدہ زنیرہ رضی اللہ عنہا کی وفاداری تھی کہ غلامیٔ رسول ﷺ کی سزا میں آنکھیں قربان کر بیٹھیں ، ذرا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشقِ رسول دیکھیے ، گھر کا سارا مال رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈھیر کردیا۔ یہ عشق مصطفیٰ ﷺ ہی تو تھا جس کی بنا پر جلتے ہوئے انگاروں اور تپتے ہوئے صحراؤں پر لیٹنا سہل ہوگیا تھا۔ آج اسی جذبے اور عشق کی ضرورت ہے ۔   ؎

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے                            دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

امت  کی فکر میں اپنا آرام تیاگ کر راتوں کو سجدوں میں رونے والے نبی جوقدم قدم پر اپنی امت کی کامیابی اور سرخروئی کی دعائیں کرتے چلے گئے ،آج ان کی وہی امت سنت نبوی کو چھوڑ کر رسوم و رواج کے پیچھے ایسے چل پڑی ہے جیسے انہیں اپنے رسول ﷺ کی سنت،  عزت و حرمت کا پاس نہیں، ان کے ارشادات اور طریقوں کی اہمیت نہیں۔ دین و ایمان کی حرارت سینوں میں ٹھنڈی ہوتی جارہی ہے۔    ؎
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں                                اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبر ؐ ہیں

گمراہی کے سینکڑوں راستے ہیں لیکن ہدایت کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو اتباعِ نبی ﷺ ہے، اس سے ہٹ کر گزاری گئی زندگی ناکام اور خسارے والی ہے۔ آج ضرورت اسی امر کی ہے کہ امت کے بکھرے شیرازے کو ایک مرکز کی طرف مجتمع کیا جائے،  سینوں میں عشق مصطفیٰﷺ کی شمع  فروزاں کی جائے۔رسومات و  بدعات  کو ترک کرکے سنتوں اور احکاماتِ اسلامیہ کو اپنائیں ۔ایک مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی محبوب ومحترم ہستی نہیں ہوسکتی، چنانچہ آقا علیہ السلام کا فرمان ہے:

’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘

ہم سے رسول برحق ﷺ سے عہد پیمائی اور  وفاداری کے بارے سوال کیا جائے گا،اگر ہم ان کی شفاعت کے امیدوار ہیں تو ہمیں ان کے منہج اور طریق پر ضرور چلنا ہوگا، بغیر اتباع کے محض نعرہ بازی سے بات بننے والی نہیں ،چنانچہ علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے۔   ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں                یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...