پیر، 7 مئی، 2018

مذاح اور دل لگی کے آداب اور حدود


محمد مبشر بدر
          زندگی کا نشاط اور تازگی انبساط ، مذاح اور دل لگی میں ہے۔ وہ لوگ خود  میں زیادہ کھنچاؤ اور کشش رکھتے ہیں جو ظریف الطبع اور ہنس  مکھ ہوتے ہیں بنسبت ان لوگوں کے جو خشک مزاج اور کھردرے یا چپ چاپ رہتے ہیں۔زندگی کا مزہ ہی خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے میں ہے۔مزاح کہتے ہیں کسی کو تکلیف دیے بغیر اس سے خوش طبعی کرنا۔ چونکہ اس طرح کی مذاح میں کسی کی دل آزاری اور خفت و ملامت نہیں ہوتی اس لیے اس کے جواز میں دو رائے نہیں ہیں۔چنانچہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ظرافت طبعی اور مذاح کی بہت سے واقعات کتبِ احادیث میں ملتے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  میں نے آپ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو مذاح والا نہیں دیکھا۔
یہ مذاح جائز حدود اور حق طریق پر ہوتی  جس میں کوئی نامناسب پہلو کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی، اور نہ ایسی ہوتی جس سے دل مردہ ہوجائے کیوں کہ کثرت ضحک سے آقا علیہ السلام نے سختی سے منع فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہوتا ہے۔ ایسی مذاح بھی مسلمانوں کے لیے ناجائز ہے جس سے انسان آخرت  اور ذکر خداوندی سے غافل ہو، دل مردہ ہوجائے  اور مقاصد شریعت کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے۔ چنانچہ شمائل ترمذی میں روایت ہے کہ ’’ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ  آپ ﷺ ہم سے مذاح فرماتے ہیں ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں ہمیشہ حق بات کہتا ہوں۔‘‘  آپ علیہ السلام کو خود پر کامل ضبط حاصل تھا جس سے حدود سے تجاوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے اگر کسی کو خود پر قابو نہ ہو کہ وہ حدود کو قائم نہ رکھ سکے اس کے لیے مذاح سے بچنا لازم ہے۔
اگر کسی کی دل آزاری اور تکلیف کی نیت سے مذاح کی جائے تو وہ سخریہ کہلاتا ہے  جو شریعت میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: نہ اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا کرو اور نہ خوش طبعی۔ اس روایت میں خوش طبعی سے مراد وہ خوش طبعی  جو کسی کی دل آزاری،  تکلیف اور خفت  کا باعث ہو۔ چنانچہ چند واقعات سیرت نبویہ ﷺ سے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام ؓ کی خوش طبعی اور ظرافت کا پہلو سامنے آجائے۔
’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہم سے گھل مل کر رہتے تھےحتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی  سے فرمایا: اے عمیر! چڑیا کا کیا بنا؟ ان کی ایک چڑیا تھی جس سے وہ کھیلا کرتے تھے وہ مرگئی تھی۔‘‘ آقا علیہ السلام کا یہ فرمانا خوش طبعی کی بنا پرتھا۔
’’ ایک بوڑہی عورت آقا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی  اور جنت میں جانے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہیں جائیں گی۔ تو وہ عورت روتی ہوئی واپس ہوئی ۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا: اسے خبر دے دو کہ  بوڑہی عورتیں بڑہاپے کی حالت میں جنت میں نہ جائیں گی (بلکہ جوان ہو کر جائیں گی) کیوں کہ اللہ نے فرمایا: انا انشأنٰہن انشاءً فجعلنٰہن ابکارا: یعنی ’’ ہم نے وہاں کی عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے ۔ پس ہم ان کوایسا بنایا ہے کہ وہ  کنواریاں ہیں۔‘‘ یہ آقا علیہ السلام کی بوڑہی خاتون سے خوش طبعی تھی، ساتھ ہی قرآنی خوش خبری بھی سنا دی کہ وہ جوان اور کنواری ہو کر جنت میں داخل ہوں گی۔
ترمذی کی روایت میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مذاح میں فرمایا : ’’ اے دو کانوں والے!‘‘ گویا یہ فرما کر آپ ﷺ نے حضرت انس ؓ کی فہم و سمجھ کی تعریف فرمائی۔اسی طرح ایک شخص نے آپ ﷺ سے سواری کے لیے جانور مانگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم تجھے اونٹنی کے بچے  پر سوار کریں گے۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اونٹنی کا بچہ میرے کس کام کا؟ فرمایا: ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔ یہ بھی ظرافت اور خوش طبعی کی اعلیٰ مثال  ہے مذاحیہ مزاج والوں کو اپنی مذاح میں اس اسلوب  کی  اتباع کی ضرورت ہے۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں غزوۂ تبوک میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ چمڑے کے ایک چھوٹے خیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: اندر آجاؤ! میں نے عرض کیا کیا سارا ہی آجاؤ؟ حضور ﷺ نے فرمایا: سارے ہی  آجاؤ۔چنانچہ میں اندر چلا گیا۔‘‘ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ سارا ہی آجاؤں خیمے کے چھوٹا ہونے کی بنا پر تھا۔ ان کے اس  جملے میں وہ خوش طبعی ظاہر ہوئی جس سے بلا اختیار ہنسی آجاتی ہے۔
یہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین مذاح کی چند مثالیں پیش کی ہیں۔ اس سے ہم میں موجود معاشرتی مذاح کا پیمانہ مقرر کیا جاسکتا ہے ، جب کہ آج کے دور میں مذاح کے نام پر ایسے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں جو سراسرمزاجِ  شریعت کے خلاف اور دین و عقبیٰ  کے تقاضوں سے ہٹ کر ہیں۔ایسی خلافِ شریعت مذاح کو پیش کرنے میں میڈیا کا بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔ لوگوں کو ہنسانے کے لیے ایسے پروگرامز پیش کیے جارہے ہیں جن میں اداکار جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنساتا ہے، جب کہ جھوٹ بولنے والوں پر قرآن میں اللہ کی لعنت آئی ہےاور تمام برائیوں کی جڑ بھی جھوٹ کو قرار دیا گیا ہے۔آقا علیہ السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے مذاح  حقیقت پر مبنی ہوتی تھی اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔


جمعرات، 3 مئی، 2018

اپنے اور اہل خانہ کے ایمان کی حفاظت کیجیے



 محمد مبشر بدر

یہ دنیا دھوکا ہے جس میں ہم سب مبتلاء ہیں، جب سے مادیت نے اپنے پر پھیلائے اور دنیا نے اپنی ظاہری زینت کھولی تب سے ہم سب اس میں اتنا مست و منہمک ہوگئے ہیں کہ اپنی آخرت تو دور دنیا میں رشتوں ناتوں کا بھی احساس بھول گیا۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس کا کمایا ہوا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، ہرگز نہیں اس نے فنا ہونا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد غیروں کا ہوجانا ہے۔ موبائل کا فتنہ اور میڈیا کی خباثت اپنے زوروں پر ہے، ایسے میں ایمان کی فکر کرنا بہت ہی ضروری امر ہے، ایک ہی متاع ہی تو ہے جس نے نجات دلوانی ہے۔ یہ ہی چھن گئی تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور ہمیشہ کی تباہی و بربادی مقدر بن جائے گی۔ ایمان بچانے کے لیے ضروی ہے کہ نیک محفلوں میں بیٹھیں اور اپنے عقائد کی حفاظت کریں، غلط عقائد والوں کی صحبت سے بچیں، شرک و بدعات سے کنارہ کریں، علماء صالحین کی صحبت اختیار کریں کہ اللہ والوں کی صحبت سے ہی اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور عبادت کی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔ یہ فتنوں کا دور ہے، اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ایمان کی حفاظت کرنا اور خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ضروری اور لازمی امر ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ فرماتا ہے۔
 ’’ اے ایمان والو! خود کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندہن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جو کہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘ ( التحریم )
ایک اور جگہ نبی علیہ السلام کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے ۔
’’  اے نبی آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجیے اور خود بھی  اس پر ثابت قدم رہیے۔ ہم آپ سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم آپ کو دیں گے اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔‘‘ (سورہ  طٰہٰ)
اس آیت میں نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ حکم فرمارہا ہے کہ اپنے اہلِ خانہ ،اولاد کو  نماز کا حکم کرتے رہیں۔ حالانکہ نبی علیہ السلام خود اور آپ کے اہلخانہ نماز کے سختی سے پابند  تھے لیکن امت کو اہمیت بتانے کے لیے نبی علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے تاکہ  لوگ خود بھی دین پر قائم رہیں اور اپنے اہل خانہ کی بھی نگہداشت کرتے رہیں۔ قرآن پاک کی آیت ’’ وانذر عشیرتک  الاقربین‘‘  ( سورہ الشعراء ) کہ ’’ اے نبی! اپنے قریبی رشتہ داروں کو  خبر دار کر دیں۔‘‘ میں بھی یہی حکم ہے کہ گھر والوں کی طرف سے تغافل نہیں برتنا چاہیے بلکہ اس پہلو کو سنجیدگی سے لینے کی بہت ضرورت ہے۔ نبی کریم ﷺ کو حق جل و علا نے شروع میں ہی یہ حکم دے دیا تھا کہ اولاً اپنے اہلخانہ اورقریبی رشتہ داروں  کو دین کے بارے خبردار کیجیے اس کے بعد فرمایا کہ اپنے اعلانیہ لوگوں کو اللہ کے احکامات سے خبردار کیجیے اور ان کی تربیت کیجیے، چنانچہ آقا علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔
جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً اپنے اعمال و ایمان کی ہی فکر سے پہلو تہی کی جارہی ہے اور جہاں کہیں والدین یا سرپرست خود نماز یا دیگر عبادات  بجا لارہے ہیں وہاں وہ اپنے ماتحتوں اور اولاد کے بارے سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ والد صبح کی نماز میں خود مسجد  آکر اپنی اولاد کو گھر سوتا چھوڑ کر آتا ہے ۔ انہیں جگا کر بے آرام بھی نہیں کرنا چاہتے کہ مبادا جان سے پیاری اولاد  کی نیند خراب نہ ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اولاد و اہل خانہ کے خیر خواہ نہیں بلکہ بدترین دشمن ہیں جو اپنی جنت تو دیکھ رہے ہیں لیکن اپنی اولاد کو جہنم کا ایندہن بننا گوارا کررہے ہیں۔ کل قیامت میں والدین سے اولاد کی دینی تربیت و تعلیم بارے ضرور پوچھا جائے گا، ہم دنیاوی تعلیم اور ڈگری کے پیچھے تو بھاگتے ہیں اور اولاد پر اس حوالے سے کڑی نظر رکھتے ہیں جب کہ دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تساہل، غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں، چنانچہ بخاری شریف اور متعدد کتب احادیث میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ سن لو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں  کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
اس ارشاد کو سن کر بھی اگر آنکھ نہ کھلے تو ہم سے بڑھ کر بد نصیب اور محروم الہدایت اور کون ہوسکتا ہے۔ یہ غفلت کا وقت نہیں بیداری اور فکر کا وقت ہے۔ ایک مومن کی زندگی ہی آقا علیہ السلام کی اتباع و اطاعت میں گزرتی ہے، ہم کیسے مومن ہیں کہ ہر آن اور ہر پل غفلت میں گزر رہا ہے۔ خود تو ٖغافل رہے اہل خانہ کے بارے بھی غفلت برت رہے ہیں۔ ہم خود اپنی اولاد کی دینی تربیت کریں۔ ترمذی شریف کی روایت کا مفہوم ہے کہ ’’ حسن اخلاق کی تعلیم اور اچھی تربیت سے بڑھ ایک والد کا اپنی اولاد کے لیے اور کوئی بڑا تحفہ نہیں ہے۔‘‘

تبلیغی اجتماع رائیونڈ میں میری سرگزشت


محمد مبشر بدر
ہر  سال کی طرح اس سال بھی تبلیغی عالمی اجتماع رائیونڈ کی تاریخ قریب آگئی اور احباب روانگی کی تیاریاں کرنے لگے۔9 نومبر 2017ء کو اجتماع کا دوسرا مرحلہ شروع ہونا تھا۔چنانچہ بسیں، گاڑیاں بھر بھر کر رائیونڈ پنڈال کی طرف روانہ ہوگئیں اور میں اپنی کسی مجبوری کی بنا پر بروقت نہ جاسکا، اگلے دن بروز جمعہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد مہمان آگئے ان سے فراغت پائی تھی کہ بھائی عدیل میو کی کال آئی اور اجتماع پر جانے کا ارادہ معلوم کیا ، میں نے جانے کی حامی بھری اور نمازِ مغرب کے بعد ہی تیار ہوگئے ساتھ ہی قاری عثمان فاروقی بھی تیار تھے ہم ڈسکہ سے لاہور روانہ ہوئے لاہور پہنچ کر معلوم ہوا کہ داتا علی ہجویری رحمہ اللہ  کا عرس چل رہا ہے جس کی بنا پر بعض مقامات پر ٹریفک بند ہے چنانچہ کچھ راستہ پیدل چلے ۔ ہر طرف اوباش اور آوارہ لوگ ڈھول کی تاپ پر رقص کررہے تھے اور اسے عرسِ کی مناسبت سے ثواب کی چیز سمجھ رہے تھے۔  ان کی اس حالت پر دل گرفتہ ہوا کہ ان کم علموں کو کون سمجھائے کہ اللہ کی اولیاء ان ڈھول، تماشے ، رقص و سرود جیسی تمام خرافات سے بری ہیں اور ان کی تعلیمات کے سر سر خلاف اور منافی ہیں۔ ان کے لیے ہدایت کی دعا کی اور آگے چل پڑے۔
چلتے چلتے دریائے راوی پر پہنچے اور وہاں سے رکشہ کروا کر سیدھا ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ دھند اور سردی اپنا اثر دکھارہی تھی  اور وقت بھی کافی ہوچکا تھا۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ باہم مشورہ ہوا کہ اب شاید پنڈال کی کوئی گاڑی نہ ملے  لہٰذا رات لاہور میں گزار کر صبح ہوتے ہی رائیونڈ روانہ ہوا جائے۔چنانچہ عدیل میو نے اپنے  بھائی اسد میو کو کال کی جو علی ہجویری یونیورسٹی میں میڈیکل سٹوڈنٹ ہے ، اس نے ہماری رہائش کا بندبست کیا اور ہم اسٹیشن سے رکشہ کروا کر کلمہ چوک سیون اپ سٹاپ پر پہنچے وہاں اسد اور ان کے کزن ہمیں لینے کے لیے پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے بیگ انہوں نے اٹھالیے اور ہم سیدھا ہاسٹل میں جا پہنچے وہاں کھانا کھایا نماز عشاء باجماعت پڑھ کر سو گئے۔اگلا دن ہفتے کا تھا۔ دس بجے ناشتہ کیا اور ساڑہے گیارہ بجے کریم کی سروس سے رابطہ کیا اور پنڈال تک جانے کے لیے ایک کار منگوا لی۔ کریم اور اوبر کی سروسز بہترین سروسز ہیں جنہوں نے فی زمانہ سفر کو کم کرائے اور برقت پہنچ کی بنا پر بہت آسان بنا دیا ہے۔ اب ہم چار افراد ہوگئے اور پنڈال کی طرف رواں دواں ہوئے۔
بوقت ظہر ہم پنڈال پہنچ چکے تھے۔ ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ ہم قدم اٹھاتے گوجرانوالہ کے حلقے سے ہوتے سیالکوٹ  حلقے میں پہنچے جہاں ہماری مسجد کے ساتھیوں نے ہمارا استقبال کیا اور نہایت گرمجوشی سے ملے۔ میری نظر چار سو پھیلے وسیع و عریض پنڈال پر تھی جہاں انسانوں کا ایک جم غفیر تھا۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے ہزاروں، لاکھوں فرزندانِ اسلام اللہ کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے سامان اٹھائے نکلتے ہیں، یہیں سے ان کی تشکیل ان دور افتادہ علاقوں کی طرف ہوتی ہیں جہاں کے باسیوں کو کلمہ و اسلام کی ابتداء تک سے آشنائی نہیں ہوتی۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں آج میں کھڑا تھا اور لاکھوں کا مجمع دیکھ کر مفکر اسلام مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ کے لیے دل سے دعائیں  کررہا تھا۔ جن کی کڑہن، محنت اور دینی فکر کی بنا پر یہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوا۔ حقیقت ہے کہ اللہ نے انہیں اس  دور کے ہزاروں علماء میں سے چنا تھا اور ان سے یہ عظیم دعوت کا کام لیا کہ آج مختلف علاقوں، قوموں، قبیلوں ، نسلوں، رنگوں اور متنوع مزاجوں کے لوگ سمٹ کر کھلے آسمان تلے ایک میدان پر گداگروں کی طرح ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہاں ذات پات ، رنگ نسل، لسانیت و قومیت سے ماوراء اور کوسوں دور سبھی ایک ہوئے نظر آئے۔ یہاں غلام و آقا کی کوئی تمیز نہیں تھی، بندہ و بندہ نوازی بھی عنقاء تھی۔ مرتبے اور حیثیتیں اس میدان میں دفن ہوچکی تھیں، اب صرف ایک پہچان باقی تھی کہ‘‘  ہم سب مسلمان ہیں’’۔ نمازِ ظہر کا وقت ہوچکا تھا۔ وضو کیا اور صف میں کھڑے ہوگئے۔ جس طرف نظر دوڑائی محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔
آج لاکھوں کا مجمع بیک وقت ایک ہی فرش پر اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر بسجود تھا۔ مجھے  خود پر بہت فخر ہورہا تھا کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوں جنہیں لاکھوں کے مقبول بندگانِ خدا کے ساتھ نماز پڑہنے کا شرف حاصل ہورہا ہے۔یہ صرف اللہ کی عطا تھی اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا۔ نیکی کی توفیق بھی اسی در سے ملتی ہے اور بدی سے بچنے کی طاقت بھی۔نماز کے بعد بیان شروع ہوا اور معرفت کے موتی بکھیرے گئے اور ہم انہیں چننے میں مصروف ہوگئے۔ انبیاء علیہم السلام کی مشقت و محنت کے واقعات سنائے گئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قربانیاں بتائی گئیں۔ دنیا کی بے ثباتی بیان کی گئی اور آخرت کے دوام کی یاد دہانی کی گئی۔ مقصدِ حیات بتایا گیا ، اللہ سے تعلق اور اتباعِ نبوی ﷺ کی تلقین کی گئی اور مردہ دلوں کو جھنجھوڑا گیا۔
رائیونڈ پنڈال کے ساتھ ہی ایک عظیم الشان مدرسہ جامعہ موسیٰ البازی کے نام سے موجود ہے ، وہاں میرے ایک دوست مفتی نعیم صاحب تدریس و افتاء کے شعبے سے منسلک ہیں ان سے رابطہ پہلے ہی چکا تھا انہوں نے پنڈال آنے پر جامعہ میں آنے کی پہلے ہی دعوت دےرکھی تھی۔ جامعہ موسیٰ البازی ولی وقت ، مولف ، مفکر اسلام شیخ الحدیث مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور  کے نام پر ان کے فرزندان مولانا زبیرالبازی اور مولانا زہیر البازی حفظہما اللہ نے قائم کیا ہے۔ ان کی فکر و محنت سے ماشاء اللہ مدرسہ پوری آب و تاب سے چل رہا ہے اور شہری آبادی سے کافی دور ہونے کی بنا پر مخیر حضرات کےتعاون کا منتظر ہے۔ان دونوں حضرات کی بھی زیارت و ملاقات مقصود تھی ۔ چنانچہ مغرب کی نماز کے بعد ہم جامعہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے قبل میں نے بازار سے علامہ ڈاکٹر خالد محمود حفظہ اللہ کی مشہور اور اہم کتب خرید چکا تھا۔ ان میں سے ایک ‘‘ آثار التنزیل ’’ دو جلدوں  میں انتہائی اہم اور نادر کتاب ہے جس میں قرآنیات سے متعلق اہم مواد کو جمع کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب علم حدیث سے متعلق ‘‘ آثار الحدیث’’ دو جلدوں پر مشتمل ہے اس میں حدیث مبارکہ سے متعلق اہم او ر نادر ذخیرہ جمع ہے۔ تیسری کتاب فقہ جیسے وقیع موضوع پر دو جلدوں میں ‘‘ آثار التشریع ’’ ہے، یہ بھی مطالعہ کے لائق  اور اہم ترین کتاب ہے جو فقہ کے اہم شعبوں ، فقہاء ،  کتب فقہ ا وراس کے درجات کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ چوتھی کتاب تصوف و احسان و سلوک پر مشتمل ہے اس کی بھی دو جلدیں ہیں جو ‘‘ آثار الاحسان ’’ کے نام سے معنون ہے، یہ کتاب  تصوف کی حقیقت  ،  مراتب ، تاریخ اور صوفیاء کے تذکرے پر محتوی ہے۔
تقریبا عشاء کے قریب ہم جامعہ میں پہنچ چکے تھے ۔ہم کل تین تھے۔ مفتی  نعیم صاحب کو کال کی انہوں نے مرحبا کہا اور ہمارا سامان محفوظ کرکے سیدھا حضرت مولانا زبیر البازی اور مولانا زہیر البازی حفظہما اللہ سے ملاقات کے لیے ایک ہال کمرے میں لے گئے وہاں دیگر حضرات بھی جمع تھے۔ میں مولانا زہیر کی طرف بڑھا، نہایت وجیہہ چہرہ اور سر پر عمامہ ، لمبا اٹھا ہوا قد اور انتہائی سفید رنگت دیکھ کر میں مبہوت ہوکر رہ گیا ، یہ مولانا زہیر سے میری پہلی ملاقات تھی۔ حضرت نے مجھے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور معانقہ کیا میں شرم سے پانی ہوگیا کہ مجھ ناچیز کے لیے ولی وقت نے اتنی تکلیف اٹھائی۔خیر خیریت پوچھی اور دعاؤوں کی درخواست کی۔ ان سے ملاقات کر کے مولانا زبیر صاحب کی طرف بڑہا ان کے گرد کافی لوگ بیٹھے تھے۔ انتہائی بارونق، وجیہہ الشکل، دراز زلف اور سر پر عمامہ لیے ہوئے، رعب دار شخصیت کے حامل جنہیں دیکھ کر قرونِ اولیٰ کے اہل علم و فضل کا گمان ہوتا ہے۔ میں پہلے جامعہ اشرفیہ لاہور میں متعدد بار ان کی زیارت کرچکا تھا۔ فارغ ہوکر ان سے ملاقات ہوئی، تعارف کروایا اور حضرت موسیٰ البازی رحمہ اللہ کے وظائف کی اجازت چاہی اور دعائیں لے کر باہر نکل آیا۔
نمازِ عشاء کا وقت ہوچکا تھا۔ وضو بنا کر جماعت میں  شامل ہوگیا اور فراغت کے بعد دارالافتاء میں مفتی نعیم کی ہدایت پر بیٹھ گیا۔ مفتی صاحب تشریف لائے اور بغیر اجازت لیے باہر سے کھانا منگوا لیا۔ جامعہ میں مولانا موسیٰ البازی کی کتب کا سٹال لگا تھا وہاں سے ایک کتاب ‘‘ فلکیاتِ جدیدہ و سیر القمر و عید الفطر’’ خریدی۔ مفتی نعیم صاحب سے باتیں ہوتی رہیں بالآخر ان سے اجازت لی اور پنڈال کی طرف نکل آئے۔ پنڈال پہنچے وہاں مزید دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ کچھ سیکھنا سکھانا ہوا اور یوں رات کے دو بجے بستر پر لیٹ گئے صبح جلدی اٹھے اور نماز کی تیاری کی نماز کے بعد بیان سنا اور حاجی عبدالوہاب صاحب نے دعا کروائی۔ یہ اتوار کا دن تھا۔دعا کے بعد  مجمع منتشر ہونے لگا اور ہم نے ناشتہ کرکے ظہر کے بعد واپسی کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ رات عشاء کے قریب ہم ڈسکہ سیالکوٹ پہنچ چکے تھے۔ دماغ پر اجتماع کا روحانی منظر چھایا ہوا تھا اور دل سرور و انبساط سے بھرا ہوا تھا۔یوں اجتماع میں تھوڑا سا بتایا  وقت اتنا قیمتی بن  گیا کہ میں اس پر جتنا اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے۔ ولہ الحمد والشکر

فحاشی اور پھیلتی بے راہ روی کے برے نتائج

 محمد مبشر بدر
درندگی اپنا ناچ دکھا رہی ہے۔ معصوم کلیوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔ شہوت پوری طرح دماغوں پر خندہ زن ہوچکی ہے۔ عورت کی عریاں تصویریں اور ویڈیوز دکھا دکھا کر پیسہ کمانے والوں کی دکانوں پر جوانوں کا رش لگا ہوا ہے۔ حیا رخصت ہوچکی ہے۔ اللہ کا ڈر بھی دلوں سے نکل گیا ہے۔ پاکستان کے ہر قریہ و بستی سے کم سن معصوم بچوں سے ریپ کی خبریں بکثرت موصول ہورہی ہیں۔ پاک پتن اور قصور کے خونین واقعات منظر عام پر آچکے ہیں اور امت کی معصوم بچیاں کلثوم اور زینب درندوں کی ہوس کا نشانہ بن کر خالق حقیقی کے دربار میں پہنچ چکی ہیں۔ اس مقدس دربار میں وہ اپنا استغاثہ پیش بھی کرچکی ہوں گی ۔ وہاں عدل کا راج ہے ، بس عدل کا فیصلہ آنے ہی والا ہے۔ یہ کوئی پاکستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں کہ ظالم کو بچنے کے ہزاروں رستے فراہم کیے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ احکم الحاکمین کا دربار ہے جس کی پکڑ سخت ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
کیا اللہ کے نیک بندو ں نے نہ کہا تھا کہ اگر فحاشی اور عریانی کو نہ روکا گیا تو یہ پاکستانی معاشرے کو تو کیا پوری دنیا کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گی۔کیا صلحاء و نیک باز لوگوں نے فحش ویب سائیٹوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تھی اور انہیں بلاک کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا؟یہ علماء ہی تھے جو ہالی وڈ ، بالی وڈ اور لالی وڈ سے امنڈتی بے حیائی و عریانی کے خلاف امت کو خبردار کررہے تھے اور فلموں، ڈراموں اور فحش اشتہارات کے برے اثرات سے امت کو ڈرا رہے تھے اور دوسری طرف لبرلز تھے کہ اسے انٹرٹینمنٹ کا نام دے کر انسانی شہوتوں کو ابھارنے کا جواز ڈھونڈ رہے تھے اور ان بوریہ نشین، پاکباز علماء و مشائخ کا مذاق اڑا رہے تھے اور ان کی خامیاں تلاش کرکے اپنے برائیوں کے جواز کے لیے بطور دلیل پیش کررہے تھے۔
علماء کرام نے تو حکومت سے پر زور مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اس میں تمام چھپنے والے فحش ناولز اور لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے اور اس جرم کے مرتکب افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، لیکن حکومت نے مغربی تقلید میں آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر کہا ہر شخص اپنا خود ذمہ دار ہے جسے دیکھنا ہے دیکھے اور جیسے نہیں دیکھنا وہ آنکھیں بند کر لے۔
عورت کے جسم کو ننگا کرکے صبح و شام چینلوں، اخبارات اور ویب سائیٹس پر دیکھانے والے میڈیا کو بے لگام کرنے کے بھیانک نتائج آج پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ پاک پتن کی پانچ سالہ معصوم کلثوم کو میڈیا کی پھیلائی شہوت رانیوں کے ستائے بھیڑیوں نے دبوچ لیا اور اس معصوم کلی کو مسل کر اس کی آبرو ریزی کرڈالی ، آسمان کیوں نہیں پھٹا اور زمین کیوں نہیں لرزی، اس وقت سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں جب اللہ کی پکڑ آئے۔ ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ قصور میں عمرے پر گئے والدین کی معصوم بیٹی زینب کو شیطانوں نے اغوا کیا اس کی آبرو ریزی کرکے قتل کردیا اور بھاگ گئے۔
آہ! افسوس امت کی معصوم بچیاں بھی درندوں سے محفوظ نہیں رہیں۔ کم سن بچیاں، بیٹیوں والے اس تصور سے ہی لرز جاتے ہوں گے لیکن بے حس درندوں کو اس سے کیا غرض؟ جو یہ بھول گئے کہ آخر ان کی بھی تو بہنیں اور بیٹیاں ہوں گی۔ ایسی شہوت کی آگ میں جلنے والے شادی شدہ افراد کم کنوارے زیادہ ہیں جن کے والدین نے ان کے نکاحوں میں تاخیر کی اور ان کے جائز حقوق انہیں وقت پر دینے سے پہلو تہی کی جس کا خمیازہ یہ نکلا کہ وہ باؤلے کتے کی طرح گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں اور کسی معصوم کلی کا شکار کرتے ہیں۔ نہ ان کے شر سے معصوم بچے محفوظ ہیں اور نہ ہی کم سن بچیاں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ وہ انصاف کرتا ہے تو بڑے بڑوں سے اپنی زمین کو پاک کردیتا ہے پھر نہ تو ان پر زمین روتی ہے اور نہ آسمان آنسو بہاتا ہے۔
ہم نے اپنی تباہی و بربادی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن وہ کریم اللہ ہے جو ستاری کا معاملہ فرما کر دنیا میں درگزر کررہا ہے۔ جب اس کی پکڑ آئی تو کوئی نہیں بچے گا۔ ان حکمرانوں اور ان کو مضبوط کرنے والوں کو نہ دنیاوی مال و زر بچا پائے گا اور نہ ہی وہ آخرت میں نجات پاسکیں گے۔ ان ظالم حکمرانوں نے اپنے اقتدار کا غلط استعمال کیا۔ اللہ کے احکامات کو معطل کیا اور شیطان کے بنائے ہوئے یورپی قوانین کو نافذ کیا۔ اسلام کے نام لیواؤں پر زمین تنگ کی اور بدکاروں کے لیے راہیں فراہم کیں۔ انہوں نے ہی شراب خانوں کو لائسنس فراہم کیے اور عصمت دری کے اڈوں کو پرموٹ کیا۔ اللہ کی ان پر لعنت ہو فرشتوں کی بھی اور تمام انسانوں کی۔

کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو

خزاں کے پتوں کی جھانجھنوں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...