اتوار، 2 دسمبر، 2018

ہمیں اسرائیل کیوں تسلیم نہیں؟

محمد مبشر بدر
تحریک انصاف کی ایم این اے عاصمہ حدید نے قومی اسمبلی میں اسرائیل کے تسلیم کرنے اور یہودیوں سے دوستی بڑہانے کی تجویز پیش کردی ہے۔ اور کہا کہ بیت اللہ مسلمانوں کا قبلہ ہے اور بیت المقدس یہودیوں کا تو یہاں پر مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی ختم ہوجانی چاہیے۔ حضور علیہ السلام اور حضرت علی نے کہا کہ اپنے دشمن کو دوست بنالو اور آپ علیہ السلام نے بہترین بات یہ کی کہ آپ نے یہودیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔

قارئین ! جس بے باکانہ انداز میں پی ٹی آئی رہنما خاتون نے یہ بات قومی اسمبلی میں کہی ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کہتے ہوئے زبان رک کیوں نہیں گئی اور اسپیکر قومی اسمبلی نے خاموش کیوں نہی  کرا دیا اور اراکین پارلیمنٹ نے مذمت کیوں نہ کی۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی مقدس پارلیمنٹ میں ایک غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرنے کی ہمت آخر ان مرعوب ارکان کو  کون دلاتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست  ہے جو ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرکے ناجائز قبضہ کرکے قائم کی گئی ہے۔ یہود جن کی اسلام اور مسلمان دشمنی سے بچہ بچہ واقف ہے اور اللہ نے قرآن میں واضح آیات میں ان سے دوستی سے سختی سے روکا اور دھمکی دی ان کو دوست بنانے کی تجویز دینا اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا اور اللہ کے فیصلے کو چیلنج کرنا ہے۔ آقا علیہ السلام نے کبھی یہودیوں کے ساتھ کام نہیں کیا بلکہ ان سے جنگ بندی پر معاہدہ کیا تھا تاکہ مدینہ میں امن رہے لیکن یہودیوں نے نبی ﷺ سے کیا گیا معاہدہ توڑ دیا جس کے نتیجے میں آقا علیہ السلام نے یہودی قبیلہ بنو قریظہ سے جنک کی اور ان کے بالغ مردوں کو قتل کروادیا اور بنو نضیر کو جلا وطن کردیا۔

یہود و نصاریٰ کا قبلہ اول بیت المقدس پر کوئی حق نہیں کیوں کہ مسیحیوں  نے ۱۷ ہجری یعنی ۶۳۹ء میں ایک معاہدہ کے تحت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیت المقدس کی چابیاں تھما کر اسے مسلمانوں کے حوالے کردیا تھا اور یہ سب نصاریٰ کی رضا مندی سے بغیر جنگ کیے ہوا تھا جس کی بنا پر مسلمان اس کے حقیقی وارث بن گئے پھر ۱۰۹۹ء میں صلیبی جنگ میں یورپی مسیحیوں نے  بیت المقدس پر قبضہ کیا اور ستر ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پھر ۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرایا۔ دسمبر ۱۹۱۷ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے اس پر قبضہ کرکے یہودیوں کے حوالے کردیا۔ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جو ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے خون بہانے کے بعد قائم کی گئی ہے اس پر صرف مسلمانوں کا حق ہے جو دین حق کے پیروکار ہیں اور یہود و نصاریٰ اپنے اصل دین سے منحرف ہوچکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے دوستی لگانے سے سختی سے منع کیا ہے اور قرآن میں صاف فرما دیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘ ؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۱﴾ سورہ مائدہ ۔

’’ اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالٰی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ۔‘‘

علامہ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:

فَذَكَرَ السُّدِّيُّ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي رَجُلَيْنِ قَالَ أَحَدَهُمَا لِصَاحِبِهِ بَعْدَ وَقْعَةِ أُحُدٍ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى ذَلِكَ الْيَهُودِيِّ فَآوِي إِلَيْهِ وَأَتَهَوَّدُ مَعَهُ، لَعَلَّهُ يَنْفَعُنِي إِذَا وَقَعَ أمر أو حدث حادث. وقال الآخر أما أنا فإني ذاهب إِلَى فُلَانٍ النَّصْرَانِيُّ بِالشَّامِ فَآوِي إِلَيْهِ وَأَتَنَصَّرُ معه، فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصارى أَوْلِياءَ الْآيَاتِ، (مجلد۳ ص۱۲۱)

ترجمہ: ’’ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے ، دوسرے نے کہا ، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں ، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔‘‘

اس آیت میں کس قدر دھمکی دی گئی ہے کہ جو ان سے دوستی لگائے گا وہ انہیں میں سے شمار کیا جائے گا۔ اس قدر دھمکی کے باوجود ان سے تعلقات بنانے کے مطالبے کرنے والے اپنا یہودی ایجنٹ ہونا ثابت کررہے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَکُمۡ ہُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ الۡکُفَّارَ اَوۡلِیَآءَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾ سورہ مائدہ

’’مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں ( خواہ ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ( یہود اور نصاریٰ ) یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ۔‘‘

ان یہودیوں کا مسلمانوں سے بغض اور عناد کا عالم دیکھیے کہ خود خلاق عالم نے قرآن میں فرما دیا:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ مائده ۸۲

یعنی: ’’ یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔‘‘

ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا چاہیے کہ کیا اس کے بعد بھی یہودیوں سے دوستی لگائی جائے اور اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔؟ یقینا نہیں۔ یہودی ہمارے دشمن ہیں ان کے دلوں میں مسلمانوں کا اور پاکستان کا بغض دفن ہے وہ مسلمانوں کے قاتل اور بیت المقدس پر قابض ہیں۔ ان کا نہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی بیت المقدس سے۔ ہم روزانہ نماز میں سورہ فاتحہ میں غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھ کر یہود و نصاریٰ کے راستے سے بچنے کی دعا کرتے ہیں المغضوب علیہم سے مراد یہودی اور الضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اس ویڈیو کے بعد موصوفہ کا وضاحتی بیان آیا ہے جس میں کوئی وضاحت نہیں پچھلی بات کو ہی دہرایا گیا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی قومی اسمبلی میں ایسے غیر ذمہ دار لوگوں کا داخل ہوکر اسلام دشمن بیانات کرنا اور اس پر اراکین پارلیمنٹ اور اسپیکر کا خاموش رہنا قابل مذمت ہے اور اس بات کا عکاس بھی کہ یہ سارے لیڈران دینی تعلیمات سے ناواقف اور نااہل ہیں جنہیں قرآن مقدس کی بنیادی تعلیمات کا بھی علم نہیں۔

اراکان پارلیمنٹ کو اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے، اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور جناب اسپیکر سے درخواست ہے کہ وہ فی الفور اس گفتگو کو کارروائی سے نکالیں اور آئیندہ کے لیے اراکان پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ ایسی متنازعہ اور مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ گفتگو پر پابندی عائد کرے۔

جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

انکارِ قرآن عقلوں کا نقص




محمد مبشر بدر

حقیقت قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کی صورت میں موجود ہے ، پر حقیقت کو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں جن میں عقل و شعور کا کمال ہو اور حقیقت کو سمجھ سکیں ، معاملہ فہم اور وسیع النظر ہوں ۔ ایسی عقلیں ناپید ہوتی جارہی ہیں جو قرآن کا ٹھیک سے ادراک  اور اسلام کا غیرجانب دارانہ مطالعہ کرسکیں ۔ علامات قیامت کے باب میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھا  ’’ ان من علامات الساعۃ ان تعزب العقول و تنقص الاحلام ‘‘ کہ قرب قیامت میں عقلیں ناپید ہوجائیں گی اور کم عقلوں کی کثرت ہوگی۔
آج وہی ذہن اکٹھے ہوگئے ہیں جو عقلوں سے خالی ہیں ، ظالم مادیت کا شکار ہو کر روحانیت کا انکار کررہے ہیں ، حالانکہ یہی لوگ جسمانی سیرابی کے باوجود بھی روحانی پیاس کا شکار ہوکر بلبلا رہے ہوتے ہیں ، روحانی کبیدہ خاطری کو قرار میں بدلنے  کے لیے یا تو منشیات کا سہارا لیتے ہیں یا گناہ کے پہلو میں لذت تلاش کرتے ہیں ۔ لیکن نہیں!  گناہ خود نیگٹو اور منفی ہے اورمنفی چیز سے سکون نہیں بے چینی اور اضطراب  ہی ملتا ہے۔ یہ ناہنجار وجود انسانی میں وقتی لذت کے بعد دائمی آگ لگادیتا ہے اور تڑپنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ سکون و قرار تو نیکی میں ہے جو پازیٹیو اور مثبت ہے اور مثبت چیز ہی اپنے دامن میں ذہنی و قلبی آسودگی رکھتی ہے، اور اسی نیکی کا راستہ تو قرآن ہی دکھاتا ہے، اس سے ہٹ کر تو بھٹکتا ہوا صحرا ہے ریت ہے اور نا ختم ہونے والی پیاس ۔
فَقُلۡ ہَلۡ لَّکَ اِلٰۤی اَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۸﴾ وَ اَہۡدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخۡشٰی ﴿ۚ۱۹
اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے ۔ اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو ( اس سے ) ڈرنے لگے ۔(النازعات)
ناسمجھ کہتا ہے کہ ’’ اگر دین الہامی ہوتا تو دنیا میں ملحد نہ ہوتے ‘‘ قائل اگر قرآن سمجھتا تو ایسی بے تکی بات نہ کہتا۔ انسانی عقل کی حد ہی کتنی ہے کہ وہ الٰہیات میں فیصل بنے ، جو عقلِ مجرد روح کی بے قراری کا علاج ہی دریافت نہیں کرسکی وہ خدائی فلسفوں کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟ قرآن محیر العقول کتاب ہے، اس کے لیے  دل و دماغ کے بند دریچے کھول کر غیرجانب دار ی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن غیرمسلموں نے قرآن کا مطالعہ کیا وہ اس کے اعجاز اور حقانیت سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے  قطع نظر اس کے کہ کوئی مسلمان قرآن سے دور رہ کر غیر مسلم بن جائےکیوں کہ یہ لازمی امر ہے کہ جس چیز کی قدر  و قیمت کا اندازہ نہ ہو اور دل اس کی اہمیت سے خالی ہو،  لوگ اس میں پڑنے سے دور رہتے ہیں ، الحاد کی بھٹی میں ہمیشہ وہی لوگ گرتے ہیں جن کے دل قرآن کی قدر و قیمت اور مرتبہ و مقام سے تہی دامن ہیں ، اور ان کے دماغ قرآن کے بارے شکوک و شبہات  کا شکار ہیں جس کی بنا پر وہ اس کے پڑہنے اور سمجھنے سے عاری رہے ۔
اگر عقلِ انسانی قرآنی حقانیت اور اعجاز  کا انکار کرتی ہےتو یہ عقلیں قرآن کے بارے متفاوت کیوں ؟ ان میں اس بارے آراء کا اختلاف کیوں پایا جاتا ہے؟ اگر ہم ملحدین اور غیرمسلموں کی ہی آراء اور عقلی  جہتیں دیکھتے ہیں تو وہ قرآن کے بارے ایک نظریئے پر استوار نظر کیوں نہیں آتیں ؟ پھر انہی  غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ہے  جو قرآن  کی حقانیت کا اعلان و اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ عقل کی افادیت کا انکار نہیں کیا جارہا بلکہ عقل کی حد کا معیار جانچا جارہا ہے کہ کتنا ہے، بہت سے لوگ عقل میں آنے والی ہر بات کو حتمی اور قطعی قرار دیتے ہیں ، ان کی سوچ عقل کے مادی حصے میں بند اور اس تک ہی محدود ہوتی ہے ، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو عقلیات کا ہی سرے سے انکار کردیتے ہیں اور روحانیت کی رسیوں میں جکڑے خلاؤوں میں تکتے رہتے ہیں ، جب کہ حقیقت روحانیت و مادیت کے مابین راہِ اعتدال میں دائر ہے۔
چنانچہ مشہور متعصب پادری ”ریورینڈر جی ایم ایڈویل“ قرآن کو بت پرستی ، جنات ،  مادیت کا شرک ، بچوں کے قتل، حرمتِ شراب ،چوری،  جوا ، زنا کاری اور قتل وغیرہ ایسے  جرائم کے مٹانے والا اور ان پر سزائیں مقرر کرنے والا قرار دیتا ہے۔
نپولن بونا پارٹ نے قرآن کا مطالعہ کیا اور تعصب کو بالائے طاق رکھ کر قرآن کے انصاف اور عدل سے لبریز نظام کو دیکھ کر اسے انسانی فلاح کا ضامن قرار دیتا ہےاور اس کے اصولوں کو سچا اور اس کے قوانین کو کھرا کہتا ہے۔
نامور فرانسیسی فاضل ’’ کلاضل ‘‘ قرآن کو صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ اسے اجتماعی اور سماجی اصولوں پر مبنی نظامِ برحق کہتے ہیں اور اسے انسانیت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔
ڈین شیلی نے تو کھلے الفاظ اقرار کیا کہ  ’’ قرآن پاک کا قانون بلاشبہ بائبل کے قانون سے زیادہ مؤثر ہے‘‘
ان کے علاوہ غیر مسلم دانشوروں کے ایسے سینکڑوں اقوال پیش کیے جاسکتے ہیں جنہوں نے قرآن کو گہرائی سے جانچا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں اس کی حقانیت کا اقرار کرنا پڑا۔ ڈاکٹر موریس بوکائے ایک مشہور سائنس دان سرجن  ہیں جنہوں نے بائبل ، قرآن اور سائنس نامی کتاب لکھ کر قرآن کی حقانیت کا اقرار کیا اور اسے خدا کا آخری کلام اور پیغام قرار دیا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کو تعصبات سے بالاتر ہوکر سمجھنے سے انسان کفر کی تاریکیوں میں نہیں رہ سکتے بشرطیکہ اس کے ذہن پر ذاتی مفادات کا پردہ نہ پڑا ہو۔
قرآن ایک عمل کی کتاب ہے ،اس کا موضوع انسان ہے ۔ پورا قرآن انسانی زندگی کا احاطہ کرتا ہے اور اسکی عقلی ، روحانی اور جسمانی مکمل تربیت کرتا ہے ۔  نہ تو یہ سائنس کی کتاب ہے کہ اس میں سائنسی وجوہات اور پہلو تلاش کیے جائیں اور نہ ہی یہ محض قصہ گوئی کا صحیفہ ہے کہ اس سے دل بہلایا جائے۔ چنانچہ سید قطبؒ اپنی تفسیر ظلال القرآن میں لکھتے ہیں :
’’ قرآن نہ تو سائنٹفک نظریات کی کتاب ہے نہ وہ اس لیے آیا ہے کہ تجربی طریقہ سے سائنس مرتب کرے۔ وہ پوری زندگی کے لیے ایک نظام ہے۔ یہ نظام عقل کی تربیت کرتا ہےتاکہ وہ اپنی حدود کے اندر آزادانہ سرگرمِ عمل ہوسکے۔ وہ سماج کو ایسا مزاج عطا کرتا ہے کہ وہ عقل کو مکمل آزادانہ عمل کاپورا  موقع دے ۔ قرآن ایسی جزئیات اور تفصیلات سے نہیں تعرض کرتا جو سائنٹفک ہوں ۔ یہ امور عقل کی تربیت اور اس کے لیے آزادیٔ عمل کے اہتمام کے بعد عقل کے لیے ہی چھوڑدیئے گئے ہیں۔‘‘
جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا تب  مشرکین و کفار نے اس کے انسانی کلام ہونے کے الزامات لگائے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں چیلنج دیا کہ اگر یہ انسانی بنایا ہوا کلام ہے تو تم بھی انسان ہو اور الفاظ تمہارے پاس بھی ہیں، تم بھی اس جیسا کلام بنا کر لاؤ ، چنانچہ وہ عاجز آگئے اور آج تک اس جیسا کلام نہیں بنا سکے ۔ پھر اللہ نے فرمایا: ’’ اگر تم اس جیسی کتاب نہیں لاسکتے تو دس سورتیں اس طرح کی  بنا کر لاؤ۔ کفار اس پر بھی بے بس رہے بالآخر اللہ نے آخری چیلنج دیا کہ اگر تم دس سوتیں بھی اس کی مثل نہیں لا سکتے تو کم از کم ایک سورت ہی بنا لو ، کفار تب بھی اس چیلنج کا جواب نہیں د ے سکے ، جو اس قرآن کے اعجاز کی بہت بڑی دلیل ہے۔اس کلام کا تحریف و تبدّل سے پاک ہونا اور اس کے احکامات کا ابدی اور تمام زمانوں کے لیے یکساں قابل عمل ہونا اس کے معجز اور حقیقی ہونے کی واضح دلیل ہے جس کا کوئی ضدی اور ہٹ دھرم ہی انکار کرسکتا ہے ، ایک عقلمند جس میں عقل و شعور کی کچھ مقدار ہے وہ اس کی حقانیت کا انکار نہیں کرسکتا۔

انڈیا اور ایران ایک پچ پر


محمد مبشر بدر

پاکستان چاروں طرف سے جنگ کے شعلوں میں گھرا ہوا ہے، سوائے چینی سرحد کے پاکستان کی تمام سرحدات ایکٹو ہیں اور پڑوسی ممالک کی سازش کا شکار ہیں۔انڈیا نے پچاس سال سے پاکستان میں دہشت گردی کا جال بچھا رکھا ہے اور اس میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کررہا ہے۔  جب  نوّے کی دہائی میں بھارت نے پاکستان کو دہشت گردی کی لپیٹ میں جکڑا تو پاک آرمی نے بروقت کارروائی کرکے اس سازش کو کمزور کردیا تھا۔ کشمیر میں اٹھائے ہوئے زخم بھارت سو کر بھی نہیں بھلا سکتا ، وادیٔ کشمیر میں اپنی پھنسائی ہوئی سات لاکھ فوج کے اخراجات اور مسلسل شکست کا بدلہ لینے کے لیے مختلف حربے آزما رہا ہے ۔ وہ پاکستان سے اس کا بدلہ اس صورت لے رہا ہے کہ پاکستانی سرحدوں کو ایکٹو کردیا تاکہ پاکستان چاروں  طرف  اپنے مخالفین سے نبرد آزما رہے اور کبھی سکون سے نہ بیٹھ سکے۔
امریکہ ، روس اور اسرائیل کے ساتھ انڈیا  کا یارانہ کون بھلا سکتا ہے جس کے بل بوتے پر  اس نے ایران کو ساتھ ملایا پھر افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑہایا اور یوں پاکستان کو کمزور کرنے اور چاروں طرف سے جکڑنے کے لیے بھارت دوہری چال چل رہا ہے۔انڈیا پاکستان کو چاروں طرف سے بے آسرا و تنہا کرکے شکار کرنا چاہتا ہے۔  وہ اپنے ایجنٹس براستہ ایران و افغانستان پاکستان کی حدود میں داخل کرکے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔ جس پر پاکستانی فوج کو کئی ثبوت ہاتھ لگے ہیں ۔ عزیر بلوچ کے بیانات  منظرِ عام پر  ہیں،  جس میں اس نے انڈین اور ایرانی خفیہ ایجنسی سے تعلقات کا اعتراف کیا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ حاجی ناصر کو ایرانی خفیہ ایجنسی کے نمائندے کے طور پر جانتا تھا، جس نے ایران میں ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسر سے ملاقات کرائی۔ عزیر بلوچ نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو کراچی میں آرمڈ فورسز ،کور کمانڈر، اسٹیشن کمانڈر، نیول کمانڈر کراچی سے متعلق معلومات دیں۔ انڈین خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری بھی عزیر بلوچ کے بتائے گئے سرغنوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ۔ لیاری گینگ وار کے سربراہ نے مزید انکشافات میں بلوچستان میں انڈین ایجنسی را کے نیٹ ورک اورپاکستانی سرحد کے قریب  ایرانی علاقے میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے بیس کیمپ اور افغان خفیہ ایجنسی کا ذکر کیا، جو پاکستان کے لیے خطرے کا الارم ہے۔
گزشتہ دنوں ایرانی فوج سربراہ جنرل باقری نے سعودیہ اور پاکستان کو اکٹھے دھمکی دی ہے۔ جس پر پاکستان نے ایرانی سفارتی نمائندے کو بلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ایران کو اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں کی طرف سے جارحیت کا سامنا ہے ۔ ایرانی قبائل کی بلوچ قوم میں سنیوں کی اکثریت ہے ۔ ایرانی افواج ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے متعدد بار پاکستانی حدود میں داخل ہوئی  اور گولہ باری کی اور اپنے دشمنوں کو آ کر قتل کیا ۔ گزشتہ دنوں ایرانی فوج اور باغیوں کے درمیان شدید جنگ چھڑی جس کے نتیجے میں ایران کو اچھا خاصا نقصان اٹھانا پڑا ۔ ایرانی زخمی فوجیوں کو ’’ جیش العدل ‘‘ نامی باغی اپنے ساتھ اغوا کرکے بھی لے گئے ، جس کا ایران کو سخت غصہ ہے اور وہ اپنا غصہ پاکستان پر اتار رہا ہے ۔ایران چاہتا ہے کہ پاکستان ایران دشمن باغیوں کے خلاف اپریشن کرے حالانکہ ایران کے پاس اس بارے کوئی ثبوت نہیں کہ پاکستان نے ایک گولی بھی ایران پر چلائی ہواور نہ ہی کوئی پاکستانی ایران میں ہونے والی کارروائیوں میں ملوث ہے۔سارا گند پاکستان پر گرانے کا مقصد انڈیا کو خوش کرنا اور اس سے امداد سمیٹنا ہے۔
یہ وہی ایران ہے جس پر پاکستان نے احسانات کیے اور عالمی برادری کی مخالفت مول لے کر بھی اس کے ہاں میں ہاں ملائی اور مزید ترقیاتی کاموں میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔جب ایران پر مغربی ممالک نے ایٹمی ٹیکنالوجی کا الزام لگا کر اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی   تب پاکستان ہی تھا جس نے ایرانی موقف کی حوصلہ افزائی کی اور اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ایران کی مدد کے الزام میں وہ سزا بھگتنا پڑرہی ہے جس کے وہ حق دار ہی نہیں تھے ۔ آج ان کے لیے دنیا اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوچکی ہے تو اس کی بنیادی وجہ ایران ہے۔ اب ایران اس احسان کو بھول کر پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے؟
اگر پاکستان ایران کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلبھوشن یادو کو ایرانی پاسپورٹ کس نے دیا، عزیر بلوچ کو ایرانی شہرت کس نے دی، عزیر بلوچ کے رائیٹ ہینڈ کے پاس کس ملک کا پاسپورٹ تھا؟ کلبھوشن، عزیر بلوچ اور احسان اللہ احسان کے انکشافات اور بیانات سے انڈیا، ایران اور افغانستان کا پاکستان کے خلاف اکٹھ کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ انڈیا کو سی پیک چبھ رہا ہے اسی لیے ایران کے چاہ بہار کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے بھارتی عملہ ایرانی ایماء پر آنے والا ہے۔
انڈیا نے ایرانی  ساحلی شہر ’’ چاہ بہار ‘‘ میں اپنا انٹیلی جنس بیس کھول رکھا ہے۔ یہ باقاعدہ ایرانی اجازت سے قائم ہوا ہے،  کیوں کہ چاہ بہار گوادر سے متصل  ساحلی شہر ہے۔’’ را  ‘‘یہاں بیٹھ کر گوادر اور اقتصادی راہداری کو آسانی سے نشانہ بنا سکتی ہے۔کلبھوشن یادو کو بھی انڈیا نے فارسی اور بلوچی زبان سکھا کر اول چاہ بہار میں بھیجا جہاں اس نے ایک کارگو کمپنی کھول لی اور حسین  مبارک  پٹیل کےجعلی  نام سے تاجر بن گیا۔ کلبھوشن  2004 ء اور 2005ء میں کراچی بھی آیا اور یہاں  اس نے اپنے رابطے استوار کیے۔یہ ترقی کرتے پاکستان آپریشن کا سربراہ بن گیا۔ بھارت نے اسے چار سو ملین جو پاکستانی روپوں میں اکتالیس ارب روپے بنتے ہیں دیے۔کلبھوشن نے یہ رقم بلوچ علیحدگی پسندوں اور کراچی میں بدامنی پھیلانے والوں میں تقسیم کی۔یہ حربیار مری ، براہمداغ بگٹی اور عزیر بلوچ جیسے لوگوں سے بھی رابطے میں تھا اور ایم کیو ایم الطافی کو بھی فنڈ دیتا تھا۔
پاک آرمی نے حسین مبارک نامی انڈین ایجنٹ کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ بلوچستان علیحدگی پسند ہوں، کراچی کے مافیاگروپس ہوں یا پھر ملک میں خود کش بمبار وں  کے ماسٹر مائینڈوں ہوں یہ تمام لوگ چاہ بہار سے ہی آپریٹ ہوتے ہیں۔کلبھوشن کا پکڑا جانا ایک طرف تو انڈیا کے منہ پر زور دار تھپڑ تھا دوسری طرف ایران کے خبثِ باطن کی نقاب کشائی تھی۔پاکستانی آئی ایس آئی نے معلومات پا کر اپنے بندے بلوچ علیحدگی پسندوں میں شامل کرکے کلبھوشن سے رابطے استوار کیےاور اسے انڈیا سے واپس بلوانے میں کامیاب ہوئے۔ بلوچستان کے ضلع خاران کی تحصیل ماشکیل میں اسے گرفتار کیا گیا ، کلبھوشن پاکستان آپریشن کا سربراہ تھا، یہ عام جاسوس نہیں تھا ،  اور دنیا میں آج تک کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اتنے بڑے انٹیلی جنس آفیسر کو نہیں پکڑ سکا ۔اس نے تمام اطلاعات اور رابطے پاکستان  کے حولے کردیے، جس کے نتیجے میں چار سو ایجنٹ گرفتار کیے گئے اور اہم سیاسی چہروں سے بھی نقاب اترا۔اسلحے کی بھاری کھیپ برآمد ہوئی نیز  ایم کیو ایم اور  پیپلز امن کمیٹی میں چھپے غدارانِ وطن بھی سامنے آئے۔
ہمیں ایران کے ساتھ تعلقات پر غور کرنا چاہیےاور از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ زائرین کے روپ میں ایران نے اپنے حما یتیوں کو ٹریننگ دی اور انہیں پاکستان میں لانچ کردیا۔سی آئی ڈی کاؤنٹرٹیرا رزم یونٹ کے ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کی چونکا دینے والی پریس کانفرنس نے پاکستان میں جاری ایرانی دہشت گردی کی حقیقت کھول دی  ۔کالعدم تنظیم سپاہ محمد کے دو دہشت گردوں جوہر حسین اور ارشاد حسین  کو گرفتار کیا گیا ہےجنہوں نے اقرار کیا کہ ایک کالعدم شیعہ تنظیم کے ماتحت ایران میں اہل سنت علماء اور فعال افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے ٹریننگ حاصل کی ،اس گروپ کے ٹارگٹ کلرز چند برسوں کے دوران شہر میں سینکڑوں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیاں کر چکے ہیں ۔یہ سب جنگجو ایران سے تیار ہوکر پاکستان کی سرزمین کو فرقہ ورانہ فسادات میں دھکیلنے کے لیے دہشت گردانہ کروائیوں میں ملوث ہیں۔
 ایران ہمارے دشمنوں کو پناہ دیتا آیا ہے اس لیے ایرا ن کو سخت جواب دینا چاہیے۔انڈیا کے ساتھ مل کر سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی ایرانی سعی اور پاکستان کے خلاف بیانات دینے پر بھی  ہمیں سخت موقف اپنانا چاہیے۔ انڈیا ، ایران اور افغانستان ایک پچ پر کھڑے ہوگئے ہیں اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں غور کرنا چاہیے جہاں کمزوریاں ہیں انہیں دور کرنا چاہیےاور دشمن کے عزائم کو ناکام کرنے کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

امت ِ مسلمہ کی داستانِ عروج و زوال


محمدمبشر بدر

کائنات کا وجود انسان کے دم سے ہے ۔جب انسا نیت نہیں رہے گی تو کائنات کا وجودبھی ختم ہو جا ئے گا۔اس جہانِ رنگ و بو میں کئی قومیں اور امتیں آ ئیں ،کچھ صفحہء ہستی پراپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئیں تو بعض بے نام و نشاں اور نیست و نابود ہو ئیں ۔
امتِ مسلمہ غالب ہو نے کے لیے ہے۔اس کا بند ھن اسلام جیسے لا زوال مقدس دین سے بندھا ہوا ہے ۔اسے ذات ِ باری تعالیٰ نے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے کے لیے نازل فرمایا ۔یہی وجہ ہے رسول اللہ  ﷺ نے فتح مکہ کے بعد پورے جزیرئہ عرب پر اسلام کے نظامِ حیات کو عملًا نافذ کر دیا ۔ اس نظام کی جزیرئہ عرب سے باہر توسیع کے لیے آپ  ﷺ نے غزوئہ تبوک سے اس کا آغازکیا ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق  ؓنے جیش اسامہ ؓ کی روانگی اور فتنہ ء ارتدادکے بارے میں انتہائی مدبرانہ فیصلہ کیا اور دین اسلام کو محفو ظ کر کے عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا، پھر فارس اور روم کے علاقے فتح کرنے کے لیے لشکر بھیجے ۔چنانچہ دونو ں جگہ لشکر اسلام نے زبر دست معرکے لڑ کر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔
خلفائے اربعہ ؓ کی خلافتوں میں خوب کار ہائے نمایاں سر انجام دیے گئے۔ امیر المومنین سیدنا معاویہ ؓ کے زمانہ میں ہند ،افریقہ اور دیگر علاقوں میں فتوحات ہوئیںاور ایک وسیع رقبہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔ اموی خلفاء نے ملکی نظم ونسق ،امن و امان ، جہاد اور نئی فتوحات کے ذریعے اشاعت اسلام جیسے شاندار کارنامے سرانجام دیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شاندار پے در پے فتوحات کے بعد ،قیصر و کسریٰ کے پر خچے اڑانے سے لے کر یورپ و افریقہ کی فتوحات حاصل کرنے کے با وجود وہ کیا عوامل و اسباب ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ پر زوال کے سیاہ بادل منڈلانے لگے اور اب وہ دھیرے دھیرے پستی و انحطاط کے گہرے گڑہوں میں گرتی چلی جارہی ہے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان حکمرانوں کے آ پس کی کشمکش اور خانہ جنگی ہے ۔ امویوں کے بعد متعدد عباسی حکمرانوں نے حکومت کی ، لیکن جہاد اور توسیع سلطنت سے محروم رہے ۔ان کی آ پس کی رقابتیں اور خانہ جنگی جاری رہی ۔جب عباسی سلطنت انتہائی زوال کو پہنچی تو اس د وران منگولیا سے تاتاریوں کا طوفان اٹھا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔656 ھ میں بغداد سے خلافت کا وجود ختم ہو گیا ۔
مجموعی طور پر آٹھ صدیوں تک مسلمان خلفاء اور امراء نے اندلس میں حکومت کی، لیکن سلطان بادشاہوں کی عیش کوشی،دین سے دوری،خانہ جنگی اور شمشیر وسناں سے لا تعلقی کی وجہ سے عیسائی مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے کرتے آخر کار ربیع الاوّل  897 ھ میں اندلس کے آ خری شہر غرناطہ پر بھی غالب ہو گئے۔
سلطان عثمان دولت عثمانیہ کا پہلا تاجدار تھا ۔سلطان عثمان نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور اپنی سلطنت کو وسعت دینی شروع کی ۔گیلی پولی کی فتح کے ساتھ ہی یورپ میں عثمانی فتوحات کا آغاز ہوا ۔پھر عظیم عثمانی جرنیل اور مجاہد سلطان محمد فاتح  ؒ نے 29  مئی 1453ء کو قسطنطنیہ بھی فتح کرلیا۔
اس طرح گیارہ صدیوں سے قائم با زنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔جنوری 1517 ء میں سلطان سلیم اوّل نے مصر کے مملوکوں کو قاہرہ کے قریب رضوانیہ کے مقام پر فیصلہ کن شکست دے کر برائے نام عباسی خلیفہ سے خلافت اپنے نام منتقل کرا لی ۔اس طرح اب خلافت کا مرکزبغداد اور قاہرہ کی بجائے قسطنطنیہ بن گیا۔ستمبر 1516 ء تک خلافت عثمانیہ مصر ،شمالی افریقہ ، ایشیائے کوچک ، فلسطین ،شام ،ریاست ہائے بلقان اور ہنگری تک پھیلی ہوئی تھی ۔1914ء میں پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں نے جرمنی اور ترکی کو شکست دے کر تین براعظموں پر پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ جنگ کے بعد29  اکتوبر 1923ء میں مصطفی کمال پاشا کی صدارت میں جمہوری حکومت قائم ہوئی ،جس نے  2 مارچ  1924 ء کو منصب خلافت ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور ترکی کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا ۔
ولید بن عبدالملک کے زمانہء خلافت میںحجّاج بن یو سف کے حکم پر محمد بن قاسم ـ  ؒ نے سندھ کو فتح کیا اور پورے مغربی ہندوستان کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا ۔شہاب الدین غوری نے شمالی ہند کو فتح کر کے باقاعدہ حکومت قائم کی ۔غلام خاندان کے بعد خلجی خاندان اور ان کے بعد تغلق ،پھر لودھیوں نے ہندوستان پر حکو مت کی ،لودھیوں کے بعد ظہیر الدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جو کہ انیسویں صدی کے پہلے نصف اوّل تک کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی ۔
امت مسلمہ تدریجاََ تنزلی کے منازل طے کرتی اس موڑ پر آ پہنچی ہے کہ ا ب اس کا دوبارہ ترقی کی راہوں کی طرف پلٹنا بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے۔خلافت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد اس کا شیرازہ تسبیح کے دانوں کے دانوں کی طرح بکھرتا جا رہا ہے ۔کفار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ مسلم خطوں پر چڑھ دوڑا ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کی املاک اور معدنیات پر قابض ہو چکا ہے ۔مسلمانوں کی شناخت ایک مغلوب اور محکوم قوم طور پر ہوتی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ یہ اپنے اوپر ناروا مظالم کا انتقام لیتے،اپنے خطوں اور معدنیات کو کفار کے تسلط سے آزاد کراتے ،اپنی وحدت و جمعیت کو مضبوط کرتے ،آپس میں اتفاق و اتحاد کو بر قرار رکھتے ،کفار کی نقالی کو اپنی زندگیوں سے نکالا دیتے ،اسلامی اقدار اپناتے، لیکن افسوس!بجائے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کے اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس پر آشیانہ ہے۔
امت مسلمہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق ان کا  سدِّ باب کرنا ہو گا اور غلبہ و ترقی کے جو اصول مولائے کل ،دانائے سبل ، ختم الرسل  ﷺ نے سیکھائے انہیں مضبوطی سے تھامنا ہو گا ، تب ہی ہم اس پستی اور ذلت سے نکل سکتے ہیں ورنہ ’’ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ــــ‘‘ کا مصداق بن کر بے نام و نشان ہو کر رہ جا ئیں گے۔

امام الانبیاء ﷺ کے رمضان میں معمولات


محمد مبشر بدر

          نبی اکرم ﷺ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی دعوت و تبلیغ کی پرصعوبیت گھاٹیوں میں گزری ، وعظ و نصیحت ، انذار و تبشیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد اسے اسلامی اسٹیٹ بنا کر مسلمانوں کو عبادات ، معاملات ، اخلاقیات ، معاشرت ، عدالت اور سیاست وغیرہ کے احکامات سیکھانے کی طرف باضابطہ متوجہ ہوئے ۔ اسی دوران دو ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے۔ 2 سے 11  ہجری تک آپ علیہ السلام پر 9   ماہِ رمضان  آپ کی حیاتِ طیبہ میں آئے۔ہم نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرکے دیکھتے ہیں کہ آپ ماہِ  رمضان کی مبارک گھڑیاں کیسے گزارا کرتے تھے۔
آقا علیہ السلام کی مستقل عادت شریفہ تھی کہ خود چاند دیکھ کر  یا کسی بااعتماد ذرائع کی شہادت کی بنا پر روزہ رکھا کرتے ، چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ لوگ چاند دیکھنے کے لیے جمع ہوئے پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ ﷺ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ شعبان کے مہینے کی گنتی پر خصوصی توجہ دیتے جتنی دیگر مہینوں کی گنتی پر نہیں دیتے تھے تاکہ رمضان کی تاریخ میں غلطی واقع نہ ہواور امرِ شرعی فوت نہ ہو  چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ آپ شعبان کے مہینے کے دن اتنا اہتمام سے گنا کرتے تھے کہ اس کے علاوہ مہینوں کے اتنے اہتمام سے نہیں گنتے تھےپھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتےاور اگر اَبر ہوتا تو تیس دن پورے کرتےپھر روزہ رکھتے۔‘‘
آقا علیہ السلام سحری کھانے پر تاکید فرماتے اور خود بھی اس کا اہتمام فرماتے چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ سحری کھاؤ، اس لیے کہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ سحری کھاؤ اگرچہ پانی کا یک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ۔ سحری کھانے سے روزے میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اتباعِ سنت کی وجہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘یعنی اہل کتاب پر رات کو سونے کے بعد کھانا حرام تھا اور ابتدائے اسلام میں مسلمانوں پر بھی یہی حکم تھا جسے بعد میں منسوخ کردیا اور سحری کھانے کا حکم دے دیا گیا۔جس طرح آپ علیہ السلام اپنی امت کو سحری کاھنے کی ترغیب دیتے اسی طرح جلد افطاری کرنے کی تاکید فرماتےتھے کہ جب غروب آفتاب ہوجائے تو افطار کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔کیوں کہ اہل کتاب افطاری میں تاخیر کرتے تھے اس کی مخالفت بھی مقصود  ہے۔اس پر بخاری و مسلم نے یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ’’ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔(ترمذی)
آقا علیہ السلام کھجور سے روزہ کھولنا پسند فرماتے اگر کھجور میسر نہ ہوتی تو پانی سے کھول لیا کرتے تھے اور امت کو بھی اسی کی ترغیب دیا کرتے تھے ،چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی افطار کرے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرےپس کھجور برکت کا سبب ہے ، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرےکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔‘‘ کھجور ایک زودِ ہضم اور طاقتور غذا ہے ۔ اس کے کھانے سے ایک تو معدہ صاف ہوجاتا ہے دوسرا  روزے کی وجہ سے جسم میں غذائیت کی کمی کو پورا کردیتی ہے۔ عرب لوگ اسے شوق سے بکثرت کھاتے تھے۔تبھی آپ علیہ السلام نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا ہے۔بیہقی شعب الایمان کی ایک روایت میں ہے کہ  ’’ رمضان کے داخل ہوتے ہی  آپ علیہ السلام قیدیوں کو آزاد فرمادیتے اور ہر مانگنے والے کو عطا فرماتے۔‘‘ویسے تو غیر رمضان میں بھی آقا علیہ السلام سائلین کو خالی نہیں لوٹاتے تھے کہ اس در سے کبھی کوئی خالی لوٹ کر نہیں گیا لیکن  رمضان المبارک میں اس عادت شریفہ کو زیادہ کرتے۔
پیارے نبی ﷺ سے روزہ افطار کے وقت مختلف دعائیں پڑہنا منقول ہے جن میں سے یہ دعا زیادہ مشہور ہے  ’’ اَلّٰلھُمَّ إِنِّیْ لَکَ  صُمْتُ وَ بِکَ آمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ‘‘ ( اے پروردگار! یقینا میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اور تجھ پر ہی ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے رزق پر ہی افطار کرتا ہوں۔) روزے کے ساتھ آپ علیہ السلام مسواک کا استعمال بھی کثرت سے فرماتے تھے۔
رمضان کے داخل ہوتے ہی آپ علیہ السلام کا قرآن پاک کے ساتھ شغف بڑھ جاتا اور آپؑ بکثرت قرآن کی تلاوت فرماتے جناب جبرائیل امین علیہ السلام نازل ہوتے اور آقا علیہ السلام سے قرآن پاک کا دور کرتے۔ آپ کی تلاوت کا  وقت نمازِعشاء  کے بعد ہوتا تھا۔اور رات کے پچھلے پہر اٹھ کر بھی قرآن کی تلاوت فرماتے۔رمضان میں آپ اپنی کمر کس لیتے اور راتوں میں لمبا قیام کرتے تراویح کا اہتمام فرماتے اور صحابہ کرام کو پڑہنے کی ترغیب دیتےصحابہ کرام آپ علیہ السلام کی اقتدأ میں نماز تراویح پڑہنے کے لیے مسجد میں جمع ہونے لگے، آپ کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ امت پر فرض نہ ہوجائے چنانچہ آپ نے صحابہ کو انفرادا پڑہنے کا حکم دیا۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے وصال کے بعد مزاجِ شناسِ پیغمبر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو سیدنا ابی بن کعب کی اقتداء میں بیس رکعت تراویح باجماعت پڑہنے کی ترتیب مقرر فرمائی اور یوں اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع و اتفاق قائم ہوگیا۔
بخاری و مسلم میں سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ’’ نبی کریم ﷺ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بہت سخی تھے اور رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھےاور  رمضان کی ہر رات جبرائیل امین آپ سے ملاقات کرتے تھے، نبی اکرم ﷺ ان کے سامنے قرآن پڑہتے تھے، پس جس وقت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام سے ملاقات کرتے تو نبی کریم ﷺ کی سخاوت اس وقت ہوا کے جھونکوں سے بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔‘‘
آخری عشرے میں آپ علیہ السلام عبادات میں بہت زیادہ انہماک فرماتے ، آپ کے ذکر و فکر میں اضافہ ہوجاتا اور رات بھر جاگتے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو آپ علیہ السلام اپنا تہہ بند مضبوط باندھتے تھےاور رات بھر بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے۔‘‘ آپ ؑ کا معمول تھا کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ آپ علیہ السلام رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ان کی روح قبض کرلی۔ پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔‘‘( متفق علیہ )
اعتکاف میں آپ علیہ السلام طاق راتوں میں شبِ قدر کو تلاش فرماتے جو ہزار مہینوں  سے افضل ہے۔آپ فرماتے کہ ’’ ماہِ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہااور اس کی بھلائی سے وہی محروم ہوتا ہے جو مکمل محروم ہوتا ہے۔‘‘عید سے قبل آپ صدقہ فطر ادا فرماتے ۔ آپ نے ہر مسلمان مرد و عورت پر خواہ چھوٹا ہو یا بڑاصدقہ فطر لازم قرار دیا جس کی ادائیگی نمازِ عید سے پہلے کی جاتی ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور فقہ حنفی (اختصارا)


محمد مبشر بدر

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پہلے تابعی مجتہد ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور انہیں ابواب میں ترتیب دیا۔ انہوں نے مسائلِ دین کو اس طور یکجا کیا کہ سب سے پہلے طہارت کا باب قائم کیا پھر نماز اور دیگر تمام عبادات و معاملات ، پھر نکاح و طلاق وغیرہ کو بابوں میں تقسیم کر کے آخر میں میراث کا باب قائم کیا۔ کیوں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے قبل صحابہ کرام اور تابعین نے علم الشریعہ کے ابواب مقرر نہیں کیے تھے اور نہ ہی کتابیں مرتب کی تھیں۔ ان کے ہاں زیادہ تر علوم کی حفاظت کا ذریعہ حفظ تھا یا مختلف چیزوں پراحادیث و مسائل کا لکھ کر محفوظ کرلینا تھا۔ انہوں نے یہ اہم اور ضروری قدم اس لیے اٹھایا کہ وہ  اس خطرے کو بھانپ گئے تھے کہ کہیں بعد میں یہ علوم ناخلف اور ناعاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ کر ضائع نہ ہوجائیں۔  امت اس احسان کا بدلہ قیامت تک نہیں اتارسکتی۔
اسی لیے فقہ حنفی کو تمام فقہوں میں قدیم اور اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فقہ حنفی کا زیادہ تر مدار قرآن و حدیث کے بعد تعاملِ صحابہؓ و تابعینؒ پر رہا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مسائل کو حل کرنے کے لیے چار دلائل شرعیہ پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی ،اول قرآن پھر سنت پھر اجماع آخر میں قیاسِ شرعی۔اجماع سے مراد صحابہ کرام کا کسی امر پر اتفاق کرلینا ہے پھر ان کے بعد والوں کا اجماع حجت ہے ۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعد کے فقہاء نے انہی کی ترتیب کو آگے چلایا اور اپنا فقہی ماخذ قرآن، سنت ، اجماع اور قیاسِ شرعی کو قرار دیا جو آج تک چلا آرہا ہے۔خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘ إني آخذ بكتاب الله إذا وجدته، فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا لم أجد فيها أخذت بقول أصحابه من شئت، وأدع قول من شئت، ثم لا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم، فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب فلي أن أجتهد كما اجتهدوا۔ ’’
یعنی ’’ میں جب مسئلہ قرآن میں پا لوں تو قرآن کو تھام لیتا ہوں ، اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤں تو سنتِ رسول ﷺ سے لے لیتا ہوں، اگر سنت میں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال  میں سے کسی کے قول سے اخذ کرلیتا ہوں، حتی کہ ان کے اقوال کو چھوڑ کو دوسروں کے قول کو نہیں لیتا۔ پس جب مسئلہ وہاں سے بھی حل نہ ہو  اور معاملہ تابعین ، ابراہیم ، شعبی، حسن بصری، ابن سیرین اور سعید بن مسیب رحمہم اللہ تک پہنچ جائے تو میں اجتہاد کرتا ہوں  جیسے یہ اجتہاد کرتے ہیں۔‘‘
اس قول سے امام اعظم رحمہ اللہ کا فقہی ماخذ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ قرآن ، سنت، صحابہ اور اجتہاد کو معیار بنا کر مسائل کا استخراج فرماتے۔اس معاملے میں امام ابو حنیفہ دیگر ائمہ فقہ سے مختلف نہیں کیوں کہ وہ بھی اسی  طریق پر مسائل حل کرتے تھے۔فن حدیث کے عظیم امام اور میدان جہاد کے شہسوار حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے:
’’ احادیث اور آثارِ صحابہ ؓ کو لازم پکڑو ، مگر ان کے معانی کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ضرورت ہے،کیوں کہ وہ حدیث کے معانی جانتے تھے۔‘‘ (مناقب کردری)
امامِ اعظم رحمہ اللہ نے حدیث میں سب سے پہلے کتاب الآثارلکھی جس کا علم حدیث میں بلند مقام ہے۔ یہ کتاب فقہی ابواب پر حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ان کے بعد امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث کی  تفصیلی کتاب موطا امام مالک اسی ترتیب سے ابواب باندھ کر لکھی۔بقول مشہور محدث عبدالعزیز دراوردی:’’ امام مالک نے موطا لکھنے میں کتاب الآثار سے استفادہ کیا‘‘۔ اس سے قبل احادیث صحائف کی شکل میں موجود تھیں، بہت سی احادیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال پتوں، ہڈیوں، چوڑے پتھروں ، چمڑوں اور لکڑیوں پر لکھے ہوتے تھے یا انہیں زبانی سینہ بسینہ حفظ کیا جاتا تھا۔
امام ابوحنیفہ کو اللہ نے ایسے ہونہار اور قابلِ فخر شاگرد عطا فرمائے جنہوں نے ان کی تحقیقات کو اپنی کتابوں میں لکھ کر امت تک پہنچایا۔ ان میں زیادہ مشہور امام ابویوسف اور امام محمد ہیں جنہیں فقہی کتب میں صاحبین بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ امام زفر ، امام عبد اللہ بن مبارک، امام حسن بن زیاد ، یحیٰ بن سعید بن القطان ، امام شافعی کے استاذِ خاص وکیع بن الجراح ، رحمہم اللہ وغیرہ ہیںاور محدثین میں سے  امام مکی بن ابراہیم، زید بن ہارون، حفص بن غیاث النخعی ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ ، مسعر بن کدام، ابوعاصم النبیل، قاسم بن معن، علی بن المسہر، فضل بن دکین اور عبدالرزاق بن ہمام رحمہم اللہ وغیرہم شامل ہیں۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘ کان لأبي حنيفة أصحاب جلّة، رؤساء في الدنيا، ظهر فقهه على أيديهم، أكبرهم أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري’’
’’ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے  جلیل القدر اصحاب تھے ، دنیا میں ( علم و فضل میں ) سردار تھے، انہی کے ہاتھوں  فقہ حنفی پھیلی، ان میں سے بڑے امام ابوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری رحمہ اللہ ہیں۔‘‘ (اشہر المصنفات المذاہب)
فقہ حنفی تمام فقہوں میں سب سے زیادہ پھیل جانے والا اور رائج الوقت مذہب ہے۔ یہ قرآن و سنت کے ثابت شدہ اور اجتہادی مسائل کا مکمل خزانہ ہے۔ اس میں صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ہی تحقیقات شامل نہیں بلکہ ان کے شاگردوں کے اقوال و آراء بھی موجود ہیں۔ اسلامی حکومتوں خاص کر خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ میں عدالتوں اور سرکاری امور میں فقہ حنفی رائج رہا ہے۔ اسی کے مطابق فیصلے کیے جاتے رہے ہیں اور امت مسلمہ کی اکثریت اس پر عمل پیرا رہی ہے۔ براعظم ایشیاء میں مکمل حنفی مذہب رائج رہا ہے اور یہاں کے باشندے صدیوں سے اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ یہ اسمذہب کی عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے۔

اسلامی ناولوں میں جھوٹ کی آمیزش


محمد مبشر بدر

          فرضی ناول ، کہانی اور  افسانہ اگر کسی نیک مقصد کو سامنے رکھ کر تعمیرِ معاشرہ ، تعلیمِ اخلاق اور شریعت کی ان شرائط کو سامنے رکھ کر لکھے جائیں جو انہیں جائز ٹھہراتے ہیں  تو یہ محمود اور مستحسن ہیں ، بلکہ ان کے اچھے اثرات دیکھے گئے ہیں، اور اگر ان میں تخریب کے نشتر چھپے ہو ں اور اخلاق کی دھجیاں بکھری ہوں ، سیکس کا چورن لگا ہو اور جنسی ہیجانی کیفیات اور خیالات پروئے ہوئے ہوں تو یہ مذموم تر اور خطرناک حد تک قابلِ ملامت ہے۔ خاص طور پر تب اس کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے جب تاریخ اسلام کی مقدس شخصیات کے حالاتِ زندگی میں گڑ بڑ کر کے انہیں شرابی ، کبابی اور شبابی کرکے دکھایا گیا ہو، اور تاریخ اسلام کا حلیہ مسخ کیا گیا ہو۔ایسا بڑے پیمانے پر ہورہا ہے ، مارکیٹ میں ایسی کتابوں ، ناولوں اور افسانوں کی بھرمار ہے جو شریعت کی شرائط کو پامال کرکے مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھمائی جارہی ہیں۔
          مغربی ادیبوں کی طرح ہمارے بعض اردو ادیب  جب تک ناولوں اور افسانوں میں سیکس کا چٹخارہ نہ بھریں توان کا منجن فروخت ہی نہیں ہوتا ۔ لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ، ان کے جذبات  ابھارتے پھر انہیں بے قرار کرکے ان سے پیسے بٹورتے ہیں ، ٹی وی چینلز بھی اسی طرح شہوانی مناظر دکھا دکھا کر لوگوں کی جذبات سے کھیل کر  اپنا پیٹ انگاروں سے بھر رہے ہیں۔یہ وہ بعض  ناعاقبت اندیش لکھاری  ہیں جو مسلمانوں میں فحاشی اور بے حیائی پھیلا دینا چاہتے ہیں اور نوجوانوں کے اذہان میں گند انڈیل کر انہیں آوارہ اور ناکارہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے مصنفین انجام کار سے ناواقف ، خداخوفی سے عاری اور فکر آخرت سے بے پرواہ ہوتے ہیں ، ان کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ قلم کی عزت و حرمت کو بیچ کرکسی طرح سے متاعِ قلیل اکٹھی کرلیں اور چار روزہ فانی زندگی کے عوض اپنی آخرت کو بیچ ڈالیں۔
          یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ  چند نام نہاد صحافیوں نے پیسہ ، شہرت اور جھوٹی عزت کمانے کے لیے اسلامی تاریخ اور مسلم فاتحین کے احوال میں ناول طرز لاکر کافی رنگ آمیزی کی ہے ، جس کی وجہ سے حقیقت اور فریب آپس میں مل گئے ہیں ، بلکہ حقیقت پردوں میں چھپ کر رہ گئی ہے۔اگر ناول طرز میں حقیقت ہی عیاں کرتے اور واقعات میں خرد برد نہ کرتے تو بات اتنا سنگین نوعیت اختیار ہی نہ کرتی ۔اس میں سب سے بڑا ہاتھ مغربی مستشرقین کا ہے، جنہوں  نے اسلام دشمنی میں جل بھن کر اسلامی تاریخ اور تعبیر کو بگاڑ کر پیش کیا ہے، جسے پڑھ کر اچھا بھلا انسان کنفیوز ہوجاتا ہے۔سچ ہے کہ تعصب انسان کو اندھا کردیتا ہے۔ان کی کتابیں اور تحقیقات پڑہنے کے بجائے مسلم مستند محققین اور مورخین کی لکھی گئی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
مفتی اعظم پاکستان مولانا شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں، یہ سب چیزیں اسی لہو حرام میں داخل ہیں۔ اسی طرح گمراہ اہلِ باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کے لیے گمراہی کا سبب ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ راسخ العلم علماء ان کے جواب کے لیے دیکھیں تو کوئی مضائقہ نہیں ، اور جن کھیلوں میں نہ کفر ہے نہ کھلی ہوئی معصیت ، وہ مکروہ ہیں کہ ایک بے فائدہ کام میں اپنی توانائی اور وقت کو ضائع کرنا ہے۔‘‘
(معارف القرآن جلد ہفتم : ص: ۲۳ )
          ناول نگاری مستقل کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکی ہے  ،اور اس کے لیے اسلامی تاریخ کا انتخاب کر کے مستند تاریخی واقعات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے، انہیں فلمی اور ڈرامائی انداز میں پیش کرکے ان کی وقعت اور اہمیت نظروں سے گرانے کی کوشش کی گئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ پر مشتمل ناولز کی بہتات نظر آتی ہے جن میں جھوٹ کی اتنی زیادہ رنگ آمیزی کی گئی ہے کہ حقیقت بھی مسخ ہوگئی ہے۔چنانچہ  ’’ حجاز کی آندہی‘‘  نامی ناول کے پیشِ لفظ میں  عنایت اللہ التمش خود اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ وجہ یہ ہے کہ تاریخی ناولوں کے بیشتر مصنف تاریخ کم اور ناول زیادہ لکھتے ہیں۔ ان کا یہ انداز کاروباری ہے۔ وہ کہانی کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے کی کوشش میں تاریخ کو مسخ کردیتے اور تاریخ کے اصل واقعات کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اہم واقعات حذف ہو جاتے ہیں۔واقعات کا تسلسل بھی تہ و بالا ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے فوری بعد لکھتے ہیں:
’’  وہ ناول ہی کیا جس میں رومان نہ ہو، عشق و محبت کی چاشنی اور حسن بے مثال کا چسکا نہ ہو۔ تاریخی ناول لکھنے والوں نے ناول کے یہ مطالبات پورے کرنے پر زیادہ زورِ بیان صرف کیا ہے۔ تاریخی ناول بلکہ اسلامی تاریخی ناول لکھنے والے ایک مشہور و معروف ناول نویس ہیں جن کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ اس صنف کے خالق وہی ہیں۔ ان کے متعلق ایک مبصر نے کہا تھا کہ ان کے ہاں مجاہد کی یہ پہچان ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے بازو میں ایک نوخیز حسینہ ہو۔‘‘
العیاذ باللہ! کیا یہ ایک مسلمہ حقیقت نہیں کہ وہ مسلم فاتحین جنہیں ہم اپنے لیے ایک آئیڈیل اور نمونہ سمجھتے ہیں، جن کی حیا اور عفت کی مثالیں دی جاتی ہیں ، جو حدود اللہ کی پابندی کرنے والے اور دوسروں کو سختی سے اس پر عمل پیرا ہونےکی ترغیب دینے والے، احکاماتِ الٰہیہ کو نافذ کرنے والے اور دنیا سے ظلم و جور کو مٹانے والے تھے، جب ہمارے یہ نام نہاد ناول نگار انہیں شراب پیتا ہوا اور حسیناؤوں پر مرتا ہوا دکھاتے ہیں تو شرافت ، عفت  اور حیا بھی اپنا سینہ پیٹ کر رہ جاتی ہیں۔عقلیں محوِ تماشائے لبِ بام ہو کر رہ جاتی  ہیں۔

اسلام ہی پابندِ سلاسل کیوں ؟


محمد مبشر بدر

           اسلامی انقلابات کو دیکھ کر غیرمسلم حکومتوں کو اپنی بقا اور اقتدار خطرے میں نظر آرہا ہے ، جس کی بنا پر وہ اسلام مخالف بزدلانہ اقدامات پر مجبور ہوجاتیں ہیں جن سے انسانیت کیا حیوانیت بھی شرما جاتی ہے۔حالانکہ اسلام  امن و سلامتی کا دین ہے جس کی چھاؤوں میں ہر تہذیب و مذہب کا فرد سکھ چین کی زندگی  آرام سے گزار سکتا ہے ۔ ماضی کی اسلامی حکومتیں اس کی واضح مثال ہیں جن کے ماتحت لاکھوں  ،کروڑوں غیر مسلم افراد زندگی گزارتے تھے لیکن کبھی کسی پر اس کے مذہبی احکامات و شناخت  کے حوالےسےسختی نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں ان کی رسومات اور عبادات سے روکا گیا۔ہر ایک کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔جس کی گواہیاں آج بھی موجود ہیں۔
          لیکن آج مذہبی آزادی ، آزادیٔ اظہارِ رائے ، مساوات اور برابری کا درس دینے والی سیکولر حکومتیں اور ان کے ماتحت سیکولر باشندے اسلام کے ساتھ ناروا رویہ رکھے ہوئے ہیں اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے مسلمانوں پر نت نئی پابندیاں لگارہی ہیں ، اس طرح ان کی اسلام دشمنی نکھر کر سامنے آگئی ہے اورآزادی و مساوات جیسے  پر فریب کھوکھلے نعروں کی قلعی کھل گئی ہے۔کبھی سوئزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی لگادی جاتی ہے تو کبھی فرانس سمیت تمام یورپی ممالک میں پردے اور اسکارف پر پابندی کا حکمنا مہ سنایا جاتا ہے۔ کبھی داڑہی رکھنے پر مسلمان نوکری سے فارغ کیے جاتے ہیں تو کبھی دھماکے کر کے  مسجدوں کو اڑایا جاتا ہے۔
          انڈیا کے معروف ہندو گلو کار سونو نگھم نے اذان  کے خلاف ٹویٹ کیا کہ ’’ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے ہر روز اذان سننا پڑتی ہے ، یہ مذہبی غنڈا گردی کب ختم ہوگی؟ ‘‘  جسے  انڈین میڈیا نے خوب اچھالا  ۔  یہ وہ گلو کار ہے جس کے پروگراموں میں فل ساؤنڈ میوزک بج رہا ہوتا ہے، اسے اس وقت اپنی غنڈا گردی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے جس میں ہر مذہب والا دوسرے کے وجود کو برداشت کرتا ہے صرف ہندو ہی مسلمانوں کو برداشت نہیں کررہے ، مسلمان بھی ہندؤوں کو برداشت کررہے ہیں۔ کتنی چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں سہا جاتا ہے ، اسے غنڈا گردی نہیں کہا جاتا۔اگر ایسا بیان کوئی مسلمان ہندو شعار کے خلاف دے کر اسے غنڈہ گردی سے تعبیر کرتا تو اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور کہنے والے کی ایسی کی تیسی کردی جاتی۔گلوکار نے مشہوری کے بعد گم نامی سے نکلنے کا  اچھا طریقہ یہی ڈھونڈا ہے کہ مذہب کے خلاف بول کر سستی پبلک سٹی حاصل کی جائے، جس کے بعد میڈیا کو بھی بات کا بتنگڑ بنانے اور اسلامی شعائر کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہاتھ آگیا۔
امت مسلمہ پر در پے آفات کے نزول کے ساتھ چین کے مسلمانوں پر ایک اور آفت آگری ۔ چینی حکومت نے سنکیانک کے مقامی مسلمانوں پر بچوں کے اسلامی نام رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ سنکیانک  وہ صوبہ ہے جسے مقامی مسلمان مشرقی ترکستان کہتے ہیں کے دارالحکومت میں متعین ایک چینی سرکاری عہدے دار نے تصدیق کی ہے کہ حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ’’  اقلیتوں  کے لیے نام رکھنے کے قواعد ‘‘ کے نام سے ایک حکمنامہ جاری کیا ہے جس میں اسلامی ناموں کو شدت پسندی قرار دے کر پابندی لگائی گئی ہے۔جب کہ اس سے پہلے یہ پابندی سنکیانک صوبے کے جنوبی حصے ’’  ہوتان  ‘‘ میں عائد کی گئی تھی لیکن اب پورے صوبے میں عائد کردی گئی ہے۔
افریقی ملک انگولا میں تیزی سے بڑہتے اسلام کے سامنے بے بس حکومت نے اسلام پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اور کئی مساجد یہ الزام لگا کر مسمار کردی گئی ہیں کہ ان کی تعمیر کی اجازت نہیں لی گئی تھی ۔ امیریکا فرسٹ پیٹریاٹ نامی ویب سائٹ کے مطابق اب تک 80 مساجد مسمار کی جا چکی ہیں۔
ہالینڈ کی فریڈم پارٹی کے اسلام مخالف رہنما گیئرٹ ولڈر نے کہا کہ وہ ملک میں اسلام کے خلاف کسی بھی پابندی کی کھل کر حمایت کریں گے۔ گیئرٹ ولڈر کو ماضی میں کئی مقدمات کا سامنہ کرنا پڑا ہے جس میں سے اکثر اس کے مسلم مخالف بیانات اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز تقاریر ہیں ۔ دانش ور امریکی صدر کی کامیابی کی وجوہات میں سے ایک وجہ  اس کی شدت پسندانہ اور اسلام مخالفانہ ذہنیت کو قرار دے رہے ہیں ، ان کے اسلام اور مسلم مخالف بیانات کوشدت پسند امریکیوں میں  خوب پزیرائی ملی ہے۔
اسپین ، فرانس ، سوئزر لینڈ ، بیلجئیم ، بلغاریہ اور اٹلی سمیت تمام یورپی یونین نے پابندیاں لگا کر مسلمان عورتوں کو دوسرے درجے کی حیثیت دے دی اور ان کے نقاب پر پابندی عائد کر دی ۔ خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں بھاری جرمانہ عائد کردیا گیا ہے۔ جرمنی میں خواتین سرکاری ملازمین کے نقاب پہننے پر گزشتہ روز پابندی عائد کر دی گئی ہے ، جرمنی کے ایوانِ زیریں میں بل منظور کیا گیا جس میں سرکاری ملازم خواتین کو اس پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جرمنی اور ہمسایہ ملک فرانس کی دائیں بازوں کی جماعتیں پبلک مقامات پر  خواتین کے حجاب پر پابندی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ یہ تو ہے ان ممالک کا وہ رویہ جس کے سامنے ان کے آزادیٔ اظہارِ رائے اور مذہبی آزادی کے جھوٹے دعوے جھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں۔ ان کے آزادی یہ ہے کہ مسلمانوں کے مالوں پر قبضہ کیا جائے ، انہیں تنگ اور ذلیل کیا جائے، ان کے سامنے اسلام اور متعلقات اسلام کا مذاق اڑایا جائے ، حتیٰ کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی برملا توہین اور گستاخی کی جائے۔ اس میدان کو ہموا کرنے کے لیے ان اسلام دشمن قوتوں نے ایسے قوانین وضع کیے ہیں جو سراسر غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہیں ۔
مصر میں اسلامی جماعت اخوان المسلمین جمہوری طرز پر اقتدار میں پہنچی تو امتِ مسلماں نے خوشی سے سجدے کیےلیکن  سیکولر قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ کچھ ہی دنوں کے بعد نو منتخب صدر مرسی کو پابند سلاسل کرکے پسِ زنداں ڈال دیا گیا۔ماضی میں ترکی کے ساتھ ہونے حشر سب کے سامنے ہے  کہ وہاں مکمل اسلام پر پابندی لگادی گئی اور ترکی رسم الخط کو عربی سے انگریزی میں ڈھال دیا گیا۔ سویت یونین  سے آزاد ہونے والی وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستوں میں وہی لوگ برسرِ اقتدار آگئے جنہیں سویت یونین نے پرورش کی تھی چنانچہ اسلام پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ تاجکستان کی سیکولر حکومت نے مسلمانوں کے دینی احکامات پر عمل پیرا ہونے پر پابندیاں عائد کی  ہیں۔ وہاں حجاب ، حج اور داڑہی کے خلاف اعلانیہ مہم چلا رکھی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق تاجک آبادی ۹۹ % مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ہفتے کے دوران تیرہ ہزار افراد کی داڑہیاں مونڈی ہیں،اس سے قبل ہزاروں افراد کو داڑہی رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش اور انڈیا کی سیکولر حکومتوں کی اسلام مخالف پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور وہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبروں سے روزانہ اخبارات بھرے ہوتے ہیں۔کئی مذہبی رہنماؤوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور کئی ابھی تک جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی بنیاد بھی سیکولر خطوط پر استوار کی جارہی ہے جس کا اعلان وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک بیان میں کردیا ہے، اس کے بعد صاف ظاہر ہے مسلمانوں سے ان کا اسلام ( خدانخواستہ ) جبرا چھین لیا جائے گا۔ اس لیے دینی محاذ پر ڈٹنے اور دینی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں کا مصداق بن کر قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ آج امت مسلمہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود سوال کرتی ہے کہ آخر اسلام ہی پابندِ سلاسل کیوں ؟

اسلام کا تصور آخرت


محمد مبشر بدر

          دنیا کی زندگی ایک چھوٹی ، عارضی اور ناپائیدار  زندگی ہے۔ انسانی خواہشات پورا کرنے کے لیے اس کا دامن تنگ ہے۔ دنیا دارالعمل ہے ، یہاں انسان کو ہرنیک و بد عمل کرنے کا اخٹیار دیا گیا ہے، یہ دارالجزاء نہیں ہے کہ انسان کو اس کے ہر اچھے برے عمل کا بدلہ دیا جائے ۔یہ کائنات اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہے ، یہ سزا و جزاء کے لیے ناکافی ہے ۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اور جہان بنایا ہےجسے آخرت کہتے ہیں۔ اگر ہم آخرت کے وجود کو تسلیم نہ کریں ،  دنیا اور اس کی موت کو انسانی زندگی کا خاتمہ قرار دے دیں تو اس سے زیادہ بے معنیٰ اور بے مقصد زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔قدرت نے اس کائنات میں ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی ہے اس لیے دنیا کا جوڑا آخرت ہے۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں آخرت ،توحید و رسالت کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، جسے قرآن نے کھول کر بیان فرمایا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (سورۃ الجاثیہ : ۲۶)
اس آیت میں انسان کی حیات و موت کے بعد کی زندگی کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں موت کے بعد دوبارا قیامت کے دن زندہ کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے،اور جو لوگ اس دن کا انکار کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ جانتے نہیں، جس دن وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے تب وہ جان لیں گے کہ اللہ کا وعدہ سچ تھا۔
آخرت کے دن کے نظریئے کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود ہیں جنہیں اس جہاں میں پورا کرنا ناممکن ہے ۔ انسان کی زندگی کا مقصد صرف چند روزہ زندگی ، پھر مر کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا نہیں ہےبلکہ اس کا ہر عمل یا تو اسے ہمیشہ کی کامیابی کی طرف لے جارہا ہے یا ہمیشہ کی ناکامی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ دنیا میں خیر و شر کی جنگ ، عدل و انصاف کے تقاضوں کا پورا نہ ہونا، ظلم و ستم ، نیکی و بدی کا وجود ، قاتل اور ظالم کا بغیر سزا کے دندناتے پھرنا،کمزور ، ضعیف اور ناتواں کا اپنے حق کے لیے مارا مارا پھرنااس بات کا متقاضی ہےکہ ایک جہان ایسا ہو جس میں عدل و انصاف کے تمام تقاضے  پورے کیے جائیں ، جس دن میزانِ عدل قائم کی جائے، ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ اور مظلوم کو اس کا حق دلایا جائے، خیر و شر اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کیا جائے، خالق کائنات نے ایسا دن مقرر کرکھا ہے جسے قرآن میں متعدد ناموں سے ذکر کیا گیا ہے۔
یوم الجزاء، یوم الدین  ، یوم الاخرۃ، یوم الفصل ، یوم القیامۃ، یوم العدل ، یوم الحساب ، یوم العاجلۃ ، یوم الحسرۃ ، یوم الواقعۃ ، یوم القارعۃ، یوم الراجفۃ، یوم الرادفۃ، یوم الطلاق، یوم الفراق، یوم التناد، یوم العذاب، یوم الفرار، یوم الحق، یوم الجمع، یوم التغابن اور یوم الساعۃ وغیرہ قیامت کے اسماء ہیں ۔اس کا زیادہ مشہور نام یوم القیامۃ ہے جسے قرآن مجید میں ستر بار ذکر کیا گیا ہے۔
قیامت قائم کرنے اور انسان کادوبارہ  زندہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ عدل و انصاف ظاہر فرمائےاور نیکوکاروں کو بہترین جزا دے اور بدکاروں کو ان کے اعمالِ بد کی سزا دے ۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے: ’’پھر تمہارے پروردگار کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ ساری باتیں بتا دے گاجن میں تم اختلاف کرتے تھے۔‘‘
سورہ یونس میں فرماتا ہے۔’’ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے ، اللہ کا کیا ہوا وعدہ سچا ہے ۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ تاکہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو انصاف کے ساتھ جزاء دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گااور کفر کی وجہ سے ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘
سورۃ طٰہٰ  میں فرماتا ہے: ’’ قیامت آنے والی ہے جسے میں پوشدہ رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔‘‘
ان آیات کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے بدکار جو عیش و راحت میں ہیں اور بہت سے نیکوکار ظالموں کے ظلم کا شکار ہیں، اس لیے دنیا میں عدل و انصاف اپنے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔انسان کو دنیا میں بے مقصد و بے فائدہ نہیں پیدا کیا گیا کہ اس کی زندگی ہی سرے سے بے کار و بے سود ہو اللہ نے انسان کی زندگی کو ایک عظیم مقصد دیا ہے اور اللہ ہی کی طرف اس کی پلٹ ہے۔ سورہ مؤمنون میں ہے۔ ’’ سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کرنہیں آؤ گے۔‘‘
بروزِ قیامت حساب و جزا پر یقین رکھنا ایمان کے لیے ضروری ہے۔ اس دن انسان کے اعمال کے لیے میزان قائم کیا جائے گا اور اس سے حساب و کتاب لیا جائے گا ۔ اس کے کیے کے مطابق اسے بدلہ دیا جائےگا۔سورہ غاشیہ میں اللہ فرماتا ہے۔ ’’بے شک ہماری طرف ہی ان کو لوٹ کر آنا ہے پھر ہمارے ہی ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔‘‘سورہ انعام میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’ اور جو کوئی ( اللہ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ قیامت کے دن حساب کے بارے بیان کیا جائے گا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اپنا کرم بھی بیان فرمارہا ہےکہ قیامت کے دن ایک نیکی کا بدلہ دس گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور برائی کا بدلہ ایک ہی برائی کے بقدر ہوگا۔
سورہ انبیاء  میں اللہ میزانِ عدل کےبارے بیان فرماتا ہے۔ ’’ اور قیامت کےدن ہم انصاف کی ترازو قائم کریں گے پھر کسی پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل ہوگا تو اسے بھی ہم لے آئیں گے اور ہم ہی حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
جنت اور جہنم آخرت کا انجام کار ہیں، حساب و کتاب کے بعد یا تو انسان کے لیے جنت کا فیصلہ کیا جائے گا یا پھر جہنم کا، یہ مخلوق کے ابدی ٹھکانے ہیں۔ جنت اہل ایمان کے لیے نعمتوں کا گھر ہے جہاں وہ عیش و عشرت سے رہیں گے ، وہاں ان کے دل بہلانے کا مکمل سامان موجود ہوگا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سورہ البینہ میں فرماتا ہے ۔ ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے یہی لوگ ساری مخلوق میں سب سے بہترہیں۔ ان کے پروردگار کے پاس ان کا انعام وہ سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ وہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ ان سے خوش ہوگا، اور وہ اس سے خوش ہوں گے۔ یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھتا ہو۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے۔ ’’ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان چھپا کر رکھا گیا ہے۔(سورہ السجدہ)
جب کہ جہنم اللہ کا عذاب ہے جو اس نے مجرمین اور ظالم کافروں کے لیے تیار کررکھا ہے، جو اللہ کے رسولوں اور اس کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں ۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سورہ الکہف میں فرماتا ہے۔’’ بلاشبہ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کررکھی ہے ، جس کی قناتیں انہیں گھیرلیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہوگا، جو چہرے کو بھون دے گا۔بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی ہی بری آرام گاہ۔‘‘
ایمان والوں کے لیے آخرت بہت ہی بہتر اور عمدہ جہان ہےقرآن پاک میں اللہ نے اسے اہل ایمان کے لیے بہتر، اعلیٰ اور ہمیشہ رہنے والا جہان قرار دیا ہے۔ سورہ الضحیٰ میں آقا علیہ السلام کو فرمایا گیا ہے کہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہت بہتر ہےاور سورہ الاعلیٰ میں ایمان والوں کو فرمایا ۔ ’’ بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘ سورہ القصص میں اللہ فرماتا ہے۔’’وہ آخرت والا گھرتو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے، جو زمین میں نہ تو بڑائی چاہتے ہیں، اور نہ فساد، اور آخری انجام پرہیز گاروں کے حق میں ہوگا۔‘‘

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...