پیر، 5 دسمبر، 2016

رؤف و رحیم آقا



            محمدمبشربدر
               دنیا میں یہ سمجھاجاتا ہے کہ حقیقی اور بےلوث محبت وہ ہوتی ہے جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ اس میں کوئی طمع اور لالچ کا عنصر نہیں پایا جاتا، یہ  خالص اور   بے غرض  محبت ہوتی ہے۔اس کے سوا باقی محبتوں میں کوئی نہ کوئی غرض یا طمع کی ملاوٹ ہوسکتی ہے، اسے خالص کہنا مشکل ہوگا۔جب کہ ایک ایسی ہستی اللہ نے بنائی ہے جسے اپنی امت سے بےپناہ محبت اور بے انتہا شفقت تھی جس کا مقابلہ ماؤوں کی محبت بھی نہیں کرسکتی۔جو اپنی امت کی ہدایت  کے لیے راتوں کو روتے اور تڑپتے تھے ، ان کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں ایسی ہوتیں جیسے چولہے پر ہنڈیا ابل رہی ہو، حتیٰ کہ انہیں تسلی دینے کے لیے رب کا قرآن نازل ہوتا تھا۔’’ اے نبی! اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟(سورہ الکہف )
                 رسول اللہ ﷺ کی امت پر شفقت اور نرمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ خود خالقِ کائنات قرآن میں اس کا ذکر فرماتا ہے۔ ’’(اے پیغمبر) یہ اللہ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ۔ ورنہ اگرکہیں تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے، ان کا قصور معاف کردو ، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔‘‘ (سورہ آل عمران)
                 اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں پر اپنا احسان اور رحمت جتاتا ہے کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کو ایمان والوں اور ان کی اطاعت کرنے والوں کے لیے شفیق اور مہربان بنایا ہے۔اللہ کی رحمت کے بغیر اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ نبی اکرم ﷺ کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے۔‘‘مسند احمد میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوامامہ باہلی کا ہاتھ پکڑکر فرمایا:’’ اے ابو امامہ! بعض مؤمن وہ ہیں جن کے لیے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو آپ کا شیدا اسی لیے بنادیا تھا کہ آپ ان کے لیے نرم خو اور درگزر کرنے والے تھے، آپ ﷺ کی اسی نرم مزاجی کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل آپ ﷺ کے ساتھ لگے رہتے تھے۔
                 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’ میں آپ ﷺ کے اوصاف اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام ، سخت دل ، بازاروں میں شور مچانے  والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگزر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’ لوگوں کی آؤ بھگت ، خیر خواہی اور چشم پوشی کا اللہ کی جانب سے  اسی طرح حکم کیا گیا ہےجس طرح فرائض کی پابندی کا، چنانچہ ان آیات میں صحابہ کرام سے درگزر کرنے کا حکم ہے۔اسی محبت  اور نرمی کا اثر تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کے لیے جان تک دینے کو تیار رہتے تھے۔ جب بھی حکم ہوتا سب جانثار میدان میں کود پڑتے تھے۔ ایک لیڈر کی مقبولیت کے پیچھے اس کی نرم مزاجی کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور یہ صفت ہمارے آقا ﷺ  میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی امت پر شفقت کو ایک اور جگہ بہت پیارے پیرائے میں بیان فرماتا ہے۔
                 ’’یقیناً تمہارے پاس تم ہی  میں سے ایک رسول آچکا ہے، جس پر تمہارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق ہے ۔ وہ تمہارے ایمان کا حریص اور اہلِ ایمان کے لیے سراپا شفقت و رحمت ہے۔‘‘ (سورہ توبہ)
                 اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں کے ساتھ آقا علیہ السلام کے دووصف خصوصیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ ایک رؤف دوسرا رحیم، رؤف کا مطلب ’’ سراپا شفقت اور مہربانی‘‘  کے آتے ہیں اور رحیم کا مطلب ’’بے انتہاء رحم کرنے والا‘‘ کے ہیں ، یعنی آپ مؤمنین کے لیے بے انتہاء شفیق ، مہربان اور حد درجہ رحم کرنے والے ہیں۔سورۂ شعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ ۔یعنی  ’’ اور جن اہلِ ایمان نے تمہاری پیروی کی ہے ، ان کے لیے اپنی شفقت کے بازو جھکائے رکھو۔‘‘  اور سورہ الحجر میں فرمایا:
لَاتَمُدَّنَّ عَینَیْکَ اِلٰی مَامَتَّعْنَابِہ اَزوَاجًاِّ مِنْہُمْ وَ لَاتَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَاخْفضْ جَنَاحَکَ  لِلمُؤْمِنِیْنَ   ﴿۸۸
’’ آپ ہرگز اپنی نظریں اس چیز کی طرف نہ دوڑائیں جس سے ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے نہ ان پر آپ افسوس کریں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں۔‘‘
                 چنانچہ آپ علیہ السلام اپنے اصحاب پر انتہاء درجہ شفیق رہے ، صحابہ کرام رضٰ اللہ عنہم سے نظر نہ ہٹانا بھی آپ کی  بے انتہاء شفقت ہےجیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے  اپنی نظریں مت ہٹائیے۔امت کا غم اور فکر تو تھا ہی شفقت بھی انتہا درجے کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ کا ایک وصف’’ نذیر ‘‘بیان کیا ہے،جس کا مطلب ہے شفقت کی بنا پر ڈرانے والا یعنی ہمارے نبی کریم ﷺ کا اپنی امت کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا شفقت کی بنا پر ہی تھا جیسے ماں اپنے بچے کو شفقت کی بنا پر آگ سے ڈراتی ہے جو آگ کی طرف لپکتا ہو۔
                 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی  ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا:’’ میری مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے ارد گرد کو روشن کردیا ، تو اس میں پروانے اور حشرات الارض گرنے لگے ، وہ آدمی ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آکر آگ میں دھڑا دھڑا گررہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ، میں تمہاری کمر پکڑ کر تم کو جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ ، اورتم لوگ میری بات نہ مان کر جہنم میں گرے جارے ہو۔‘‘ امت کو جہنم کی آگ سے بچانا امت پر بے پناہ شفقت کی بنا پر ہے۔ یہ ہیں امت کے غم خوار نبی جن کو امت کی ادنیٰ سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہے۔
                 سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ قول تلاوت کیا:  "رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي"(إبراهيم: (36)) وقال عيسى عليه السلام : "إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ"(المائدة: (118)
یعنی ’’اے رب انہوں نے گمراہ کیا بہت لوگوں کوسو جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ ماناسو تو بخشنے والا مہربان ہے(سورہ ابراہیم: ۳۶ ) ‘‘ عیسی علیہ السلام نے فرمایا : ’’ اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور تو ان کو معاف کردے تو تو ہی زبردست حکمت والا ہے۔‘‘ (المائدہ :۱۱۸)
                 پس آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا ئے اور آنکھوں میں آنسو کے موتی برسا کر فرمانے لگے ’’ اے میرے پروردگار!  میری امت کو بخش دے میری امت کو بخش دے‘‘اللہ عزوجل نے سیدنا جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا:’’ اے جبرائیل ! تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ حالانکہ تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے اور ان سے رونے کی وجہ دریافت کرو۔ چنانچہ جبرائیل امین رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور رونے کی وجہ دریافت کی، آپ نے انہیں وجہ بتائی ، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: ’’ تم محمد ﷺ کے پاس جاکر کہہ دو کہ آپ کا پروردگار فرمارہا ہے :’’ ہم آپ کی امت کے معاملے میں آپ کو راضی کردیں گےآپ کو ناراض نہیں کریں گے۔‘‘ ( مسلم)
                 مسلم شریف کتاب الفتن کی ایک دوسری روایت میں آقا علیہ السلام کی اپنی امت کے لیے شفقت صاف جھلکتی نظر آتی ہے جس میں آپ ﷺ نے اللہ عزوجل سے اپنی امت کے لیے تین دعائیں خصوصیت سے فرمائیں ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو اس حد تک سمیٹ اور سکیٹر دیا کہ میں نے اس کے مشرق و مغرب دیکھ لیے۔ میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے سمیٹ کر دکھائی گئی۔ اور مجھے سفید(چاندی)اور سرخ(سونا)دوخزانے عطا کیے گئے۔ اور میں نے اپنی امت کے لیے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ عام قحط سالی سے اسے ہلاک نہ کرے۔ اور ان پر کوئی ایسا بیرونی دشمن بھی مسلط نہ کرے جو نھیں تباہ کرکے رکھ دے۔ میرے رب نے فرمایا: اے محمد(ﷺ!) جب میں کوئی فیصلہ کردیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا ۔میں آپ کی امت کے بارے میں آپ کی یہ دعا قبول کرتا ہوں کہ میں انہیں عام قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان پر کوئی ایسا بیرونی دشمن بھی مسلط نہیں کروں گا جو انھیں تباہ کرکے رکھ دے اگرچہ سارے دشمن ان کے خلاف متحد اور مجتمع کیوں نہ ہو جائیں۔ البتہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بھی بنائیں گے۔‘‘
                 اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت پرمشقت کے خدشے کے پیشِ نظر کچھ اعمال میں احیاناً ترک بھی فرمایا کہ کہیں وہ اعمال امت میں فرض نہ ہوجائیں، ان میں سے  مسواک اور تراویح سرِ فہرست ہیں ۔ چنانچہ تراویح کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کی راتوں میں نوافل پڑہتے تھے صحابہ کرام بھی آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوجاتے ، آپ نے جب اصحاب کا اس درجہ انہماک اور اہتمام دیکھا تو گھبرا گئے کہ کہیں رمضان کا قیام ( تراویح )  امت پر فرض نہ ہوجائے چنانچہ آپ نے جماعت کروانا چھوڑ دیا اور صحابہ کرام کو انفراداً پڑہنے کا حکم دیا حالانکہ آپ ﷺ جماعت کو پسند فرماتے تھے۔ اس قسم کی روایات بخاری ، مسلم اور صحیح ابن حبان وغیرہ میں موجود ہیں ۔مسواک کے بارے آ قا علیہ السلام کا یہ ارشاد مشہور ہے کہ : اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ہر وضو کے وقت ان پر مسواک کو فرض کردیتا۔‘‘ امت پر شفقت کی بنا پر مسواک کو لازم قرار نہیں دیا ۔ گویا کہ آپ ﷺ نے امت کے لیے آسانیوں  کی تلاش میں رہے ہیں، حتیٰ کہ معراج کی شب پچاس نمازوں میں تخفیف کرواکے پانچ تک لے آئےاور ثواب وہی رہنے دیا۔
                 صحیحین کی روایت جس میں آقا علیہ السلام نے فرمایا :’’ اے میرے پروردگار ! یقیناً میں ایک انسان ہی ہوں ، پس مسلمانوں میں سے کسی شخص کو میں نے کوسا ہو ، یا لعنت کی ہو یا کوڑا مارا ہوتو اس کو اس شخص کے حق میں پاکیزگی اور رحمت کا سبب بنا۔‘‘یقیناً اس حدیث مبارک میں آقا علیہ السلام کی اپنی امت پر شفقت صاف محسوس ہورہی ہے کہ آپ کو کس قدر اپنے ادنی سے امتی پر مہربانی تھی کہ تکلیف دینے پر بھی اس کے لیے دعا گو ہیں۔آپ کی امت پر ایک شفقت کا پہلو یوں بھی عیاں ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کی جانب سے قربانی کی ہے۔
                 حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ کے ارادے سے مکہ سے روانہ ہوئے، جب ہم عزوزا کے قریب ( جو مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے ) پہنچے تو آنحضرت ﷺ ( اونٹنی سے ) اترے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر تھوڑی دیر تک  ( دعا مانگتے ) رہے۔ آپ ﷺ دیر تک سجدے میں رہےپھر کھڑے ہوئے اور تھوڑی دیر تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے دعا مانگتے رہے۔ پھر سجدے میں گرپڑے، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور اپنی امت کے لیے شفاعت کی ، چنانچہ مجھے تہائی امت کی مغفرت عطا فرمادی گئی، میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیےسجدہ میں گر پڑا، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا ،  پس میں نے اپنے پروردگار سے اپنی امت کےلیے دعا مانگی۔ چنانچہ مجھےتہائی امت کی مغفرت عطا کی گئی۔ میں اپنے رب کا شکریہ ادا کرنے کے لیےسجدے میں گر پڑا، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے رب سے اپنی امت کے لیے سوال کیا، چنانچہ مجھے اخری تہائی کی بھی مغفرت عطا کی گئی تو میں اپنے رب کے شکریہ ادا کرنے کی خاطر سجدے میں گر گیا۔‘‘ ( مسند احمد و ابوداؤد)
                 اس حدیث پاک میں دنیا کے عذاب و بلا سے نجات کے لیے آقا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے تین طبقوں کے لیے خصوصی دعامانگی کہ جس طرح دیگر امتیں دنیا ہی میں اپنے جرائم اور گناہوں کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں اس طرح میری امت ہلاک نہ  ہو۔ یہ آقا علیہ السلام کی امت پر بے پناہ شفقت ہے کہ امت ابھی تک بچی ہوئی ہے۔

جمعہ، 2 دسمبر، 2016

خدا پر دل مطمئن نہ ہو تو؟

                       
محمدمبشربدر
ایک دوست نے کہا : ’’ اگر مذہب انسان کو شعور سے کام لینے کی آزادی دیتا ہے تو پھر خدا پر دل مطمئن نہ ہو تو کیا اس صورت میں خدا کا انکار کیا جاسکتا ہے۔؟ ‘‘
عرض کیا :  خدا پر اسی کا دل مطمئن نہیں ہوگا جو علم کے ذرائع سے رہنمائی نہیں لے گا۔ علم کے تین ذرائع ہیں : حواسِ خمسہ ، عقلِ مجرد اور وحیٔ الٰہی ، اللہ نے انسان کو پانچ حاسے عطا فرمائے ہیں جن سے انسان کو کچھ چیزوں کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ آنکھ دیکھنے کا کام کرتی ہے ، کان سننے کا کام کرتا ہے، ناک سونگھ کر کسی چیز کی بو کا علم دیتا ہے ، زبان سے ذائقہ معلوم ہوتا ہے اور  ہاتھوں سے چھو کر کسی چیز کے ٹھنڈے ، گرم ، سخت اور نرم کا علم حاصل ہوتا ہے۔
ان میں سے  ہر ایک کی اپنی الگ حد ہے ۔ کیوں کہ ایک حد حواسِ خمسہ کی ہے ، جہاں یہ حد ختم ہوتی ہے وہاں سے عقل سے سوچنے کی حد شروع ہوجاتی ہے اور جہاں عقل کی انتہاء ہوتی ہے وہیں سے وحی کی ابتدا ہوتی ہے ۔ اب خدا کی تلاش میں تینوں سے رہنمائی کی ضرورت ہے ، اور یہ تینوں ذرائع خدا کے وجود کو دلائل سے ثابت کرتے ہیں ، یہ بتاتے ہیں کہ کوئی ایک ہے جو کائنات میں تصرف کرتا ہے ، وہ ایک اکیلا اللہ ہے جس نے ہر ایک کی الگ الگ حد مقرر فرمادی ۔
حواسِ خمسہ خدا کے ہونے کو بتاتے ہیں کہ کوئی تو ہے جس نے زبان کو چکھنے اور بولنے ، آنکھ کو دیکھنے ، کان کو سننے ، ناک کو سونگھنے  اور ہاتھ کو چھونے کی طاقت دی ہے۔ ایک حاسہ دوسرے حاسے کا کام نہیں کرتا ، مثلاً زبان سونگھنے اور کان بولنے کا کام نہیں کرتے ، جب کہ یہ ایک ہی گوشت سے بنے ہیں اس کے باوجود کام الگ الگ نوعیت اور جہت سے کررہے ہیں، ہر ایک حاسہ اپنے دائرے اور حد میں ٹھیک طرح سے کام  کررہا ہے ۔ آخر وہ کون سی ذات ہے جس نے ان کے دائرے اور حدیں مقرر فرمادی ہیں    ؟ کوئی تو ہستی ہے جس نے ان کی راہیں متعین کی ہیں ، کوئی ذات تو ہے جس نے ان کے عمل کو محدود کیا ہے ، یہ خود بخود تو ایسے نہیں ہوگئے اور نہ ہی یہ ایک اتفاقِ محض ہوسکتا ہے کیوں کہ اس جیسے اتفاق کی کوئی نظیر اور مثال عالم میں موجود نہیں ہے۔
اسی طرح عقل بھی خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام بغیر فاعل کے نہیں ہوتا ، ہر فعل کا کوئی نہ کوئی کرنے والا فاعل لازمی  ہوتا ہے ، ہر مصنوع  کا کوئی نہ کوئی صانع ضرور ہوتا ہے، جب ایسا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اتنی بڑی عظیم الشان کائنات از خود بغیر خالق کے کیسے وجود میں آئی۔؟ سورج بھی اندازے سے لگ گیا اور چاند کی بھی از خود منزلیں مقرر ہوگئیں ، اسی طرح ستارے بھی از خود جگمگانے لگےاور کہکشائیں بھی اپنے تئیں وجود پا گئیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ۔؟یہ نظام اتنا خوبصورتی اور صحیح اندازے سے جیسے وجود میں آگیا۔کیا یہ محض ایک اتفاق ہے ؟ پھر تو حسنِ اتفاق ہے!! ایسے اتفاق کی ملحدین کوئی ایک  مثال ہی پیش کردیں۔
اسی طرح وحیٔ الٰہی بھی خدا کے وجود پر دلائیل قائم کرتی ہے اس کے دلائل سے تو پورا قرآن بھرا ہوا ہے اس کا مطالعہ ہی انسانیت کو اندہیرے سے نکال دیتا ہے۔


پھر بھی خدا کے وجود پر کسی کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو اسے کج روی اور عناد ہی کہا جاسکتا ہے ، جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...