منگل، 14 نومبر، 2023

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر

شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نماز کی فرضیت مکلف پر لاگو ہوجاتی ہے۔ تاہم اگر کہیں شرعی عذر لاحق ہوجائے تو آیا دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کا اس بارے کیا عمل رہا ہے  اس پر احناف کا موقف یہ ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک جمع حقیقی یعنی ایک وقت میں دو نمازیں جمع کردی جائیں،  دوسری  قسم جمع صوری یعنی اول نماز اس کے آخری وقت میں ادا کی جائے اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں ادا کی جائے۔ یوں دونوں نمازیں صورتاً جمع ہوجائیں گی لیکن حقیقتاََ اپنے اپنے وقت پر ہی ادا ہوں گی۔اگر ہم حقیقتاً جمع بین الصلاتین کے قائل ہوجائیں جیسا کہ کچھ لوگوں کا موقف ہے تو اس سے کچھ احادیث پر عمل اور کچھ کو ترک کرنا لازم آئے گا جب کہ جمع صوری پر عمل کرنے سے تمام احادیث پر یکساں عمل ہوگا کسی کا ترک لازم نہیں ہوگا۔

احناف کایہی اصول رہا ہے کہ ایسا موقف اختیار کیا جائے جس پر زیادہ سے زیادہ احادیث پر عمل ہو جتنا روایات میں مطابق دی جاسکتی ہو دی جائے۔ جہاں مطابقت ممکن نہ ہوں وہاں راجح جانب کو ترجیح دے کر ثانی موقف کی تاویل کردی جائے۔ چنانچہ اس حوالے سے قرآنی آیات اورتمام احادیث کا ادراک کرنے کے بعد اہلسنت احناف کا فہم اور موقف یہ ہے کہ جمع حقیقی صرف ایام حج میں مزدلفہ اور عرفات میں جائز ہے اس کے علاوہ کسی عذر کی وجہ سے جائز نہیں جب کہ جمع صوری شرعی عذر کی وجہ سے جائز ہے۔ اس موقف پر چند دلائل پیش خدمت کرتا ہوں تاکہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ اہلسنت احناف کا موقف محض رائے پر قائم نہیں جیسا کہ بعض لوگ غلط تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں  بلکہ قرآن و سنت کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔

دلیل 1 :

احناف کی پہلی دلیل قرآن مجید کی آیت ہے۔

﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾  (النساء:۱۰۳ )

ترجمہ: "بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے"۔

امام بیضاوی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 ای فرضا محدود الاوقات لایجوز اخراجھا عن اوقاتہا فی شیئ من الاحوال

ترجمہ: " نماز ایسا فرض ہے  جسے اپنے اوقات میں محدود کردیا گیا ہے ، ان نمازوں کو پنے مقررہ اوقات سے باہر نکالنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔"

آیت مبارکہ اس معنیٰ میں واضح اور خاص ہے کہ ہر نماز کا ایک مقرر وقت ہے۔  وقت داخل ہوتے ہی نماز فرض ہوجاتی ہے،  اپنے وقت سے پہلے کوئی نماز فرض نہیں ہوتی۔ قرآن کے اس فیصلے کے بعد ہم تمام روایات کو اسی اصول پر پرکھیں گےکیوں کہ قرآن اصل الاصول ہے باقی دلائل اس کے تابع ہیں۔

دلیل نمبر 2:

اسی طرح قران مجید میں ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔ سورۃ الماعون )

ترجمہ: ان نمازیوں کیلئے ویل نامی جہنم کی جگہ ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔

دلیل نمبر 3:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (بقرۃ آیت:  ۲۳۸)

ترجمہ: "نمازوں کی حفاظت کرو۔"

اس آیت کے ذیل میں تفسیر بیضاوی لکھتا ہے کہ { حافظوا عَلَى الصلوات } بالأداء لوقتها والمداومة عليها۔

ترجمہ: " یعنی اپنے وقت پر ادائیگی اور اسپر مداومت کے ساتھ اس نماز کی حفاظت کرو۔"

دلیل نمبر 4 :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ"۔ (سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)

ترجمہ: "جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں)جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔"

اس روایت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کی ممانعت ہے حتیٰ کہ کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ نمازوں کا اصل حکم ہے کہ بلا عذر ایک وقت میں دو نمازیں جمع نہ کرے۔یہ قرآن کی آیت کی تائید ہے۔

دلیل5 :

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا"۔

(صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع:۱٦۸۲)

ترجمہ: " میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ ﷺ نے جمع فرمائیں، اور مزدلفہ میں فجر کو معمول کے وقت سے پہلے (فجر کے بالکل ابتدائی وقت میں) ادا فرمایا  "۔

اس روایت میں سیدنا ابن مسعود فرمارہے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھتے نہیں دیکھا سوائے مزدلفہ کے۔ اس کے علاوہ کہیں جائز نہیں۔ نیز اس روایت میں آپ ﷺ کا فجر کی نماز کو وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:

" المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين"۔
(حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية:7، 1 / 228 ط:هنديه)

ترجمہ: "یعنی فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عموماً فجر کی نماز جس وقت (آخرِ وقت) ادا کرنے کا معمول تھا، اس وقت سے پہلے (ابتدائی) وقت میں فجر کی نماز ادا فرمائی، نہ کہ طلوع فجر (وقت داخل ہونے) سے پہلے ادا فرمائی ؛ کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے فجر کی نماز ادا کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع سے ناجائز ہے۔"

دلیل6 :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ، يُؤَخِّرُ صَلاَةَ المَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ العِشَاءِ» قَالَ سَالِمٌ: «وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ المَغْرِبَ، فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا، ثُمَّ يُسَلِّمُ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ العِشَاءَ، فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ، وَلاَ يُسَبِّحُ بَيْنَهُمَا بِرَكْعَةٍ، وَلاَ بَعْدَ العِشَاءِ بِسَجْدَةٍ، حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ»

(الصحیح للبخاری رقم الحدیث 1109)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے،پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓبھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے، مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے، پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے، دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے) "۔

اس روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر ؓ نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے تو حضرت ابن عمرؓ کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔ خود حافظ ابن حجرؒ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس روایت میں صورتا جمع کرنا مراد ہے۔

دلیل 7 :

خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روایات کی بنا پر انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ:

" يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ "۔

(موطأ محمد، باب الجمع بین الصلاتین في السفر:۲۰۵)

ترجمہ: "کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔"

اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین  حقیقتاًجائز نہیں ہے بلکہ صورتاً جائز ہے۔

پیر، 6 نومبر، 2023

استاذ القراء قاری محمد ابراہیم رحیمی رحمہ اللہ ایک قابلِ رشک شخصیت

مفتی محمد مبشر بدر عفی عنہ

کچھ لوگ قابلِ رشک ہوتے ہیں، جو حقیقی کامیابیاں سمیٹ کر اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوجاتے ہیں اور اپنے لیے ذخیرہ  آخر ت اتنا جمع کرجاتے ہیں کہ ملائکہ بھی ان پر رشک کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رضا کے متلاشی  اور اس کی نازل کردہ کتاب کے خادم ہوتے ہیں۔ جن کی پوری زندگی قرآن  پڑھنے پڑھانے میں گزر جاتی ہے اور وہ مخلوق سے اس کا صلہ و بدلہ نہیں چاہتے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: رشک دو آدمیوں کے سوا کسی پر جائز نہیں ایک اس  شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا علم دیا  اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا  آدمی جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔ (بخاری) قاری قرآن کی شان یہ ہے کہ گویا  وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتا ہے۔  ایک روایت میں ہے کہ "جنت کے درجات آیاتِ قرآن کے بقدر ہیں، قاری ء قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا جہاں آخری آیت ہو وہاں تمہارا مقام ہے۔"

محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قرآن پاک کے قاری نے گویا نبی کریم ﷺ کی زیارت کرلی" ( تنبیہ الغافلین) یہ خوش نصیب لوگ جن کی اللہ اور ملائکہ کے ہاں عزت ہے آج دنیا  کے طالب ان کی قدر و منزلت سے نا آشنا ہیں۔ یہ قابلِ رشک لوگ بروزِ محشر باعزت و باکرامت ہوں گے۔  شاعر ان پراسرار عبادِ ربانی کے بارے کہتا ہے:

؎          یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر

انہی کے اتقاء پہ ناز کرتی ہے مسلمانی

 استاذ القراء خادم القرآن  قاری محمد ابرہیم رحیمی نور اللہ مرقدہ انہیں قابل رشک لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے قرآن مجید کی خدمت کے لیے خاص کیا ، انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن پڑہنے پڑھانے میں گزار دی ، اور یوں امت کے بہترین طبقے میں شامل ہوگئے چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَهُ  یعنی " تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے۔" دنیا میں بھلا کوئی ان کی قدر جانے یا نہ جانے پر رسول اللہ ﷺ کی زبانی ان کا مرتبہ بیان کیا جاچکا کہ اللہ کے ہاں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

آپ  1940 ء کو ضلع مظفرگڑھ کے قصبہ شاہجمال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علاقے کے معروف عالم دین  اور مشہور قاری مولانا صالح محمد رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں خیر المدارس ملتان میں  استاذ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ سے قرآن کی تکمیل کی۔ آپ استاذ کے حد درجہ فرمانبردار اور تابعدار تھے۔ ایک مرتبہ قاری رحیم بخش رحمہ اللہ نے فرمایا: "ساری زندگی آپ نے جامع مسجد سنارے والی  شاہجمال  تحصیل و ضلع مظفرگڑھ میں اللہ کا قرآن پڑھانا ہے۔"  پس آپ نے رضائے  ربی میں استاذ کے حکم کی تعمیل کی اور ساری عمر جامع مسجد سنارے والی  میں گزار دی۔ آپ نے 65 برس امامت اور تدریس میں صرف کیے اور ہزاروں لوگوں کے دلوں کو قرآن کی تعلیم سے منور کیا ۔

آپ کے شاگرد اور فیض یافتہ کرہ ارضی پر پھیلے ہوئے ہیں، نصف شہر سے زیادہ لوگوں نے آپ کے سامنے  زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ کے پڑھانے کا انداز انتہائی آسان اور عمدہ  تھا۔ جہاں پورے شہر میں سادہ قرآن پڑھانے کا رواج تھا، مخارج اور تلفظ کی صحیح ادائیگی پر توجہ نہیں دی جاتی تھی وہاں استاذ محترم قاری ابراہیم رحمہ اللہ تمام حروف کو ان سے مخارج سے ادا کرنے کا اہتمام فرماتے۔ چنانچہ ناظرہ پڑھنے والے بچوں کے مخارج اور الفاظ کی ادائیگی مشاق قراء کرام کی طرح عمدہ اور شستہ ہوتی۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا آپ رسول اللہ ﷺ کے ان  فرامین پر بدرجہ اتم عمل فرماتے: ’’اِقْرَئُوُا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ العَرَبِ وَأَصْوَاتِھَا‘‘۔ ترجمہ: " قرآن کو عرب کے لہجے اور ان کی آواز میں پڑھو۔" (شعب الایمان)   ایک اور روایت میں ارشاد ہے: ’’حَسِّنُوا القُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُم؛ فانَّ الصَّوتَ الحَسَنَ یَزِیْدُ القُرآنَ حُسْنًا۔ ترجمہ: " اچھی آواز سے قرآن کوپڑھاکرو؛اس لیے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن کوبڑھادیتی ہے"(شعب الایمان)

آپ سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا تاہم چند معززین علاقہ جن میں: " مفتی محمد اصغر (ملتان)، مفتی محمد حذیفہ و مفتی محمد جعفر( کراچی)، مولانا  زین العابدین (شاہجمال) ( فاضل دارالعلوم کراچی)، ( راقم الحروف)مفتی محمد مبشر بدر (فاضل دارالعلوم کراچی) مولانا عبد الخالق رحمانی( خطیب پاکستان کبیر والہ)، حافظ عبد الرحمٰن انصاری سابق جج ہائیکورٹ لاہور، حافظ عبدالشکور انصاری چیف انجینئر ایریگیشن آف پنجاب، قاری خدا بخش قصائی،قاری محمد اسماعیل شاہجمال (برادر)، قاری مولانا عبدالستار (شاہجمال)،  ڈاکٹر میاں محمد اقبال، ڈاکٹر محمد فرخ رضا، میاں محمد عمران دھنوتر، سابق چئرمین یونین کونسل شاہجمال مہر غلام علی جانگلہ وغیرہ سر فہرست ہیں جب کہ  آپ  جامعہ دارالقرآن فیصل آباد کے بانی و مہتمم قاری محمد یٰسین حفظہ اللہ اور جامعہ طیبہ  فیصل آباد کے بانی و مہتمم قاری محمد ابرہیم  رحمہ اللہ کے ہم در س و ہم سبق رہے ہیں ان کے علاوہ  مفتی محمد اصغر علی ربانی رحمہ اللہ (نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی)، قاری محمد ادریس صاحب مہتمم  جامعہ رحیمیہ ملتان، الحاج  قاری مولانا اکرام الحق انصاری رحمہ اللہ، الحاج قاری عبد الکریم مدنی (مدینہ منورہ) قاری محمد منظور صاحب ( خانگڑھ) ایسے عظیم لوگ آپ کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے ہیں۔

حضرت قاری صاحب پانی پتی لہجے میں اتنی عمدہ اور سحر انگیز  تلاوت فرماتے تھے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے اور داد دیے بغیر نہ رہتے۔ ہر لفظ کو اس کے مخرج سے سہولت سےادا فرماتے ۔ قریب و جوار کے لوگ ان کی تلاوت کے مداح اور خطباتِ جمعہ و عیدین کے دیوانے تھے۔

؎          وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ

 آپ نے سادہ اور درویشانہ زندگی گزاری۔ چہرہ ہشاش بشاش  رہتا اور جسے ملتے والہانہ انداز اور خندہ پیشانی سے ملتے ۔ سخی تھے اور لوگوں کی بخیلی اور کنجوسی پر نالاں رہتے اور انہیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا کہتے رہتے۔حرمین شریفین  سے  اس درجہ وارفتگانہ اور عاشقانہ تعلق تھا کہ اسباب و زر کی قلت  کے باوجود ایک حج اور تین عمرے کی ادائیگی کی سعادت مع اہلیہ محترمہ حاصل کی۔ آپ کی محنتوں اور کاوشوں سے کئی لوگوں کے عقیدے درست ہوئے اور کئی صالحین بنے۔ ملامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے دور اقتدار میں آپ نے افغانستان کا سفر کیا۔

آپ نے 83 سال کی عمر میں  19 ستمبر بمطابق 2 ربیع الاول بروز منگل صبح 9 بج کر 20 منٹ پر تمام اعزاء و اقارب، مقتدیوں، شاگردوں، اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کیا ۔ اپنے پیچھے ایک بیوہ  چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔ جن میں سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں الحمدللہ حافظ قرآن  اور حضرت استاذ محترم کے لیے ذخیرہ آخرت ہیں۔ آپ کے بیٹوں میں قاری محمد اسحاق، قاری محمد محبوب احمد اور قاری محمد ایوب صاحب شعبہ امامت و تدریس قرآن سے منسلک ہیں جبکہ ماسٹر محمد یعقوب صاحب گورنمنٹ سکول شاہجمال کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ قاری محمد ابرہیم رحمہ اللہ کی وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے چھوٹے بیٹے قاری محمد ایوب الرحمٰن  حفظہ اللہ نے  گورنمنٹ ہائی سیکنڈری سکول شاہجمال میں پڑہائی۔ آپ کا جنازہ  شاہجمال کی تاریخ کا ایک عظیم  جنازہ تھا جس میں تمام مسالک کےجید علمائے کرام اور قراءِ عظام کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اللہ کی اس عظیم شخصیت قدسیہ  پر کروڑوں رحمتیں ہوں اور ان کی قبر نور سے منور ہو۔ اللہم آمین

؎         تیری جدائی پہ مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

          مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ا بھی تک یقیں نہیں ہے

پیر، 14 فروری، 2022

کیا لوگوں کو زبردستی مسلمان کیا گیا؟

 ایک اعتراض کا اجمالی جواب
 تحریر محمد مبشر بدر

    مکہ میں 13 سال تک مسلمان مسلسل ماریں کھاتے رہے۔ مشرکین اور کفار ان پر مسلسل ظلم کرتے رہے جن سے تاریخ اسلام کے اوراق سیاہ ہوئے پڑے ہیں اس وقت تو آقا علیہ السلام اور مسلمانوں نے کسی پر جبر نہیں کیا جتنے لوگ مسلمان ہوئے اپنی مرضی سے ہوئے اسی طرح مدینے میں اسلام کی دعوت پھیلی اس وقت بھی کسی نے مدینے والوں کے گلوں پر تلواریں نہیں رکھی تھی سب اپنی ہی مرضی سے مسلمان ہوئے تھے۔
پھر جب مشرکین نے آقا علیہ السلام کو مکہ سے نکالا اور آپ علیہ السلام ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تب بھی مدینہ والوں نے خود انہیں اپنے ہاں ہجرت کرنے کی دعوت دی کسی نے انہیں مجبور نہیں کیا تھا۔ آقا علیہ السلام مدینہ پہنچ گئے جہاں یہود کے تین قبیلے بنو قریظہ ، بنونظیر اور بنو قینقاع آباد تھے جنہیں مسلمانوں سے دشمنی پیدا ہوگئی۔ آقا علیہ السلام نے ان سے امن معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے سے نہیں لڑیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں غیروں کی مدد کریں گے، لیکن اس کے باوجود یہود نے عہد توڑ ڈالا اور مسلمانوں کے خلاف ان مشرکین کی مدد کی جو دین و مذہب میں ان سے بالکل میل نہ کھاتے تھے، یہودی اہل کتاب و اہل شریعت جب کہ مکہ کے مشرک جاہل اور بت پرست لیکن پھر بھی یہود نے اپنی اسلام دشمنی کا مکمل ثبوت دیا۔ اللہ نے غزوہ احزاب سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائی وہاں سے فارغ ہو کر پیغمبر اسلام ﷺ نے یہود کو عہد شکنی کی سزا دی اور یہ سزا بالکل حق پر مبنی ہے کیوں کہ اگر یہی کام مسلمان یہود کے ساتھ کرتے تب یہود مسلمانوں سے اس سے بھی بدتر حال کرتے۔
         اس لیے اسلام تو شروع سے اب تک پرامن رہا ہے۔ شروع سے اب تک اس پر تمام دنیا کے غیر مسلم فوجوں نے چڑہائی کی ہے اور ان کی وحدت کو تار تار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ دیکھیں فتح مکہ کے بعد اگر آقا علیہ السلام چاہتے تو انتقام میں تمام مشرکین کی ان کے ظلم و ستم کے بدلے گردنیں اڑا سکتے تھے لیکن آپ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا جس سے متاثر ہوکر تمام مشرک مسلمان ہوگئے۔
     اسلام نے اخلاق سے لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے نہ کہ ظلم وجبر سے کیوں کہ ظلم و جبر زیادہ دیر تک ٹکتا نہیں اور اسلام آج بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے۔ تلوار سے عیسائیت نے اندلس میں مسلمانوں کو عیسائی بنایا ہے اسلام اس غلط فعل سے بری ہے۔

جمعرات، 14 جنوری، 2021

ارطغرل غازی اور انجین التان

محمدمبشر بدر

ترکی ڈرامہ ارطغرل نے لاکھوں مسلمانوں میں ہمت اور ولولہ پیدا کردیا ہے، آخر میڈیا ایک طاقت اور اثر رکھتا ہے۔ اسے مثبت استعمال کیا جائے تو یہ معاشرے کو صحیح سمت میں لانے میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اسے فحاشی اور عریانی کے فروغ اور وقت کے ضیاع کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس سے معاشروں میں بجائے تعمیر کے بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ دیریلس ارطغرل کی چند اقساط دیکھ پایا باقی کی نہ تو فرصت ملی اور نہ ہی میرے پاس بقیہ اقساط موجود ہیں۔ ڈرامے میں موجود موسیقی، بے پردگی اور کرداروں کی شکل و شباہت میں غیر اسلامی جھلک کی مخالفت کرتا آیا ہوں۔ اس ڈرامے میں ترکش اداکارانجین التان کو ارطغرل کے کردار میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامے کا مرکزی اور جاندار کردار ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد انجین التان کو ہی ارطغرل سمجھ بیٹھی ہے اور اس کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلا رہی ہے۔ ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے کہ ارطغرل جیسے عظیم اور سحر انگیز شخصیت کو جاندار انداز میں پیش کرنے پر لوگ اداکار کو ہی حقیقی کردار سمجھنے لگ جاتے ہیں۔


 جب کہ انجین التان تو وہ اداکار ہے جس نے مسلمانوں کو ان کی تاریخ کے اجلے کردار سے روشناس کرایا ہے۔ لیکن جب انجین التان فوکس ٹی وی پر نئے دکھائے جانے والے ڈرامے پر سیکولرانہ کردار میں نظر آیا تو نامعلوم دل کیوں اداس ہوگیا۔ فوکس ٹی وی کا مالک ایک اسلام دشمن انسان ہے اور اس چینل سے دن رات مسلسل اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ انجین التان کو سوچنا چاہیے تھا کہ یہ چینل اس سے ایسا کام کیوں کروانا چاہتا ہے جس میں اسلام دشمنی اور عریانی کا درس عوام تک پہنچ رہا ہے۔؟ اس وجہ سے کہ ارطغرل کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے دلوں میں اپنا جو مقدس احترام بنا چکے ہیں اسے مسلمانوں کے دلوں سے ماند کرنا اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا مقصود ہے۔ فوکس ٹی وی کی سیریز میں انجین التان کو ایک سیکولر وکیل کے کردار میں پیش کردیا گیا ہے۔ 


انجین کو اس کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ مسلمان اسے اسلام کے کردار کے علاوہ کسی اور کردار میں قبول نہیں کریں گے۔ کیوں کہ وہ ارطغرل کے سحر انگیز کردار کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ ارطغرل کے جیالوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انجین التان اپنی حقیقی زندگی میں قطعا ارطغرل جیسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ سیکولرانہ ذہنیت رکھتا ہے اور اس نے اپنے ٹویٹر اور انسٹا گرام کے اکاؤنٹ پر اسلام دشمن مصطفیٰ کمال اتاترک کی تصاویر چڑھا رکھی ہیں، جس نے ترکی سے اسلام نکالنے کے سنگین اقدامات اٹھائے۔ اسلامی تعلیم پر پابندی لگائی،  قرآن کے نسخے ضبط کروائے اور ترکش زبان کی عربی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں ڈھال دیا۔ ایسے سیکولر اسلام دشمن انسان کی تائید کرنے والے اور اسے اپنا رول ماڈل قرار دینے والے شخص کو ارطغرل کا کردار دے دیا گیا۔ انجین التان ترکی کے اس خطے میں رہتے ہیں جہاں سیکولرز اکثریت میں ہیں۔


کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ انجین التان کا ذاتی معاملہ ہے اس میں ہمیں بولنے کا حق نہیں۔ ان کی بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ دیریلس ارطغرل محض ایک ڈرامہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی ایک تحریک ہے جس سے مسلمانوں کے اسلامی جذبات بیدار ہورہے ہیں۔ اس لیے ایک عظیم کردار پر ایک سیکولر شخص کو منتخب کرنا خود اس کردار کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ہم مسلمان نقلی اداکاروں سے حقیقی کرداروں جیسی توقعات اور ویسی عقیدت وابستہ کرلیتے ہیں جو بعد میں اس وقت چکنا چور ہوجاتی ہے جو وہ ہماری توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلتے ہیں۔ آئندہ سے ایسے کرداروں کے لیے ان افراد کا انتخاب کیا جانا چاہیے جو اسلامی سوچ اور نظریہ رکھتے ہوں تاکہ کردار کے ساتھ اداکار کی جو کشش اور محبت فطری طور پر دل میں اترتی ہے اس میں مماثلت پائی جائے۔

اتوار، 5 جنوری، 2020

عرب ممالک میں قادیانیت کی ہزیمت

مفتی محمد مبشر بدر عفی عنہ

قادیانی اپنے جھوٹے مذہب کی ترویج کے لیے اتنے متحرک ہیں کہ انہوں نے پوری دنیا میں دعوتی سرگرمیاں پھیلانے کا عزم کررکھا ہے۔ یہ مکر و فریب، جھوٹ اور دجل کا ایسا گورکھ دھندا ہے کہ پوری دنیا کو دھوکا دیا ہوا ہے کہ قادیانیت اور اسلام میں کوئی فرق نہیں۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے عرب مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسانا شروع کردیا ۔ سب سے پہلے 1928 میں اسرائیلی شہر حیفا میں قادیانی تبلیغی مرکز کھولا۔ جہاں سے انہوں نے پورے عرب کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ عرب خطے میں قادیانی تبلیغ کی صد سالہ محنت کے نتیجے میں ان کا ایک حلقہ بن چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر کنٹرول حاصل کر کےاسے  تبلیغی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اردو زبان سے ناواقفیت کی بنا پر اہل عرب  قادیانی مکائد اور چالاکیوں سے بے خبر رہے، وہ انہیں ایک عام مسلمان تنظیم سمجھتے رہے، اور اب بھی اکثر عرب ان کی اصلیت سے ناواقف ہونے کی بنا پر ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تبھی ان کی گمراہانہ جال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

لیکن اب تبدیلی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ عرب قادیانیت کی گمراہیوں کو پہچاننے لگے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ قادیانیت کے فلسطین، مصر اور دیگر عرب ممالک کے متحرک اور سرگرم مبلغ جناب ہانی طاہر نے قادیانیت کو خیر باد کہہ دیا اور 31 اگست کو اسلام قبول کرلیا۔ 47 سالہ ہانی طاہر ایک تعلیم یافتہ اور منجھے ہوئے صحافی ہیں جو کہ قادیانیت کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بہت بڑا نام تھا۔وہ قادیانیوں کے عرب ٹی وی چینل 3 کے پروگراموں قرآۃ فی الصحف، سبیل الہدیٰ، الحوار المباشر، اور الخزائن الروحانیہ کے میزبان کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ انہوں نے ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ قادیانیت کے خلاف تحقیقی اور علمی ویڈیو کلپ  بنا کر انٹر نیٹ پر پھیلانی شروع کردیں۔ ہانی طاہر کا کہنا ہے کہ جب تک مرزا قادیانی کی کتب کا عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا تب تک قادیانی جو کچھ بتاتے ہم اسے سچ سمجھتے رہے لیکن جب غلام احمد قادیانی کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا تو ہم پر اس گروہ کی حقیقت کھلنا شروع ہوگئی، اور میں اس نتیجے تک پہنچا کہ مرزا غلام احمد نہ تو مسیح موعود ہے اور نہ ہی مہدی  بلکہ وہ ایک جھوٹا اور اور مکار شخص ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ایسے شخص کے لیے تبلیغ کرتا رہا اور اپنی زندگی کے بہترین لمحات اس کے پرچار میں گنوا دیے۔

ہانی طاہر نے مرزے کی کتابوں سے تضادات اور تناقضات کو اکٹھا کرکے ویڈیو کلپ بنا کر یوٹیوب پر لگانے شروع کیے  اور ساتھ ہی مرزے کی عربی دانی کا پول کھول دیاکہ مرزے کی عربی میں انتہائی فاش قسم کی صرفی، نحوی اور ادبی اغلاط موجود ہیں جو قطعا کلام الٰہی نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی وہ الہامی عبارات ہوسکتی ہیں۔ طاہر ہانی نے واضح کیا کہ مرزے نے کس طرح عرب ادباء کی ادبی عبارتوں اور جملوں کو چوری کیا اور انہیں الہام اور وحی  کا درجہ دے کر عامۃ الناس کو دھوکہ دیا۔ مرزے کے دجل و فریب سے نقاب اٹھتے دیکھ کر قادیانیوں کی  نیندیں اڑ گئیں۔ ہانی طاہر کے دلائل اتنے قوی اور مضبوط ہوتے کہ خود قادیانی بھی جماعتی سطح پر اس کا جواب نہیں دے سکے۔جس کے نتیجے میں بہت سے قادیانیت کا شکار عربوں نے قادیانیت سے توبہ کی اور ہانی طاہر کی ٹیم ورک کا حصہ بن گئے۔

ہانی طاہر کی کاوشوں سے ہدایت پانے والے خوش نصیبوں میں لندن قادیانی مرکز کے مؤذن ، نائب امام اورمرزا مسرورکے انتہائی قریبی عکرمہ نجمی بھی شامل ہیں جنہوں نے ہانی طاہر کی ویڈیوز سے متاثر ہوکر قادیانیت پر چار حرف بھیجے۔ قادیانیوں نے انہیں لندن میں مرزا مسرور کی رہائش گاہ کے قریب عالیشان گھر دیا ہوا تھا۔عکرمہ نجمی عرب قادیانیوں میں صف اول کے مبلغ شمار ہوتے تھے اور پیدائشی قادیانی تھے۔ ان کے نانا نے سب سے پہلے قادیانیت قبول کی اور یوں ان کا گھرانہ اس سلسلے میں جڑ گیا۔

عکرمہ نجمی نے خود اپنے اسلام قبول کرنے سے متعلق لکھا کہ جب ہانی طاہر کے دندان شکن اعتراضات کا جواب قادیانیوں سے نہیں بن پڑا تو مرزا مسرور نے مجھ سے اس بابت پوچھا۔ میں نے کہا اس کے دلائل کے سامنے ہماری جماعت  بے بس دکھا ئی دیتی ہے اور کوئی خاطر خواہ جواب نہیں بن پارہا۔ مرزا مسرور نے یہ سن کر میری ذمہ داری لگائی کہ تم تیاری کرو اور اس کا جواب دو۔ میں نے انتہائی جاں فشانی سے ہانی طاہر کو جواب دینے کی کوشش کی لیکن جب مرزا قادیانی کی کتب کی طرف مراجعت کی  اور جوں جوں کتب پڑہتا گیا میں انکار، خوف، تنگی، شدید افسوس، کوفت اور دقت جیسےکئی مرحلوں سے گزرتا گیا۔میرے لیے بیان کرنا مشکل ہے کہ میں کس اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوگیا یہاں تک کہ ہدایت کا مرحلہ آیا اور میں نے مرزائیت سے برائت کا اعلان کردیا۔

مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ مرزا قادیانی نے عربی کتب سے سرقہ کیا ہے۔ حالانکہ جماعت احمدیہ یہ باور کراتی رہی تھی کہ مرزا غلام احمد نے کسی سے عربی تعلیم حاصل نہیں کی یہ وہبی اور عطائی صلاحیت ہے جو اللہ نے انہیں خصوصیت سے معجزانہ طور پر عطا فرمائی ہے۔ مرزے کی کتب میں عربی ادب کی اہم کتاب "مقامات حریری" کے ابتدائی چالیس صفحوں کے (1000) ادیبانہ جملے دیکھے جو مرزے نے چوری کرکے اپنی عربی تحاریر میں فٹ کیے تھے۔ ہانی طاہر نے مرزا کی کتب سے سو نحوی اور لغوی غلطیاں بھی نکالیں جس سے مجھ پر اس کا کذب اور جھوٹ کھل گیا۔  وہ شخص کیسے الہامی یا من جانب اللہ مقرر شدہ نبی و مہدی ہوسکتا ہے جو مقامات حریری اور دیگر عربی کتب کے ادبی جملوں کی چوری کرکے اپنی کتابوں میں لکھے اور کہے کہ یہ کلام من جانب اللہ نازل ہوا ہے؟اسی طرح مرزے کی پیشین گوئیاں جو جھوٹی ثابت ہوئیں اور محمدی بیگم بارے مرزے کی اشتہار بازی ، پیشین گوئی اور اس سے نکاح کی مذموم کوشش جس میں قادیانی بالکل ناکام رہا اور ساری پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں،  ان تمام چیزوں نے میری نگاہ میں مرزے کا دجل کھول دیا۔ اب میری ذمہ داری تھی کہ میں جماعت کے سامنے حق بات کھول کر بیا  ن کروں اور مرزے اور اس کی جماعت کی حقیقت بیان کروں۔

چنانچہ سب سے پہلے میں نے مرزائی خلیفہ  مسرور کو خط لکھا اور مرزے کی تمام خرافات بارے بات کی،  نیز یہ کہ ہانی طاہر سچ کہہ رہا ہے۔ اب سارا معاملہ آپ کے ہاتھ ہے اس وقت آپ خلافت کے تخت پر ہیں سب لوگ آپ کی بات توجہ سے سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔  آپ ہی موجودہ لوگوں اور آنے والی نسلوں کو اس ورطے سے نکال سکتے ہیں۔ آپ کو آج حق بتا دینا چاہیے اور اس دجل سے پردہ ہٹا دینا چاہیے۔ کم از کم اتنا ہوگا کہ قادیانی احباب کو بہت زیادہ دکھ و الم ہوگا لیکن اس کے بعد آخرت کی رسوائی سے تو بچ جائیں گے۔ آپ اپنی جماعت کا رخ  کسی مثبت فلاحی کاموں کی طرف موڑیں اور ان دعاوی کو چھوڑ دیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر آپ نے ایسا عظیم الشان کام کردکھایا تو تاریخ آپ کا نام سنہری حروف سے لکھے گی اور اس پر آپ کو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی طرف سے بہت اچھا بدلہ ملے گا۔ اگر آپ میری تجویز قبول کریں تو میں آخر تک آپ کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔

میں نے خط انہیں دیا، انہوں نے پوچھا کہ اس خط میں کیا ہے؟ میں نے کہا آپ کے پڑہنے سے پہلے میں کچھ نہیں بتا سکتا، آپ اسے پڑہیں اس کے بعد آپ سے ملاقات ہوگی۔ میں نے یہ توقع نہیں کی تھی کہ میری ساری زندگی اس طرح کے خواب دیکھ سکے گی! انہوں نے کہا، " کیا بات ہے، کیا تم جماعت چھوڑنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا میں نے آپ کو خط کے مندرجاتپڑہنے تک باتملتوی رکھنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں ایک یا دو  دن میں اسے پڑھ کر دوبارہ ملوں گا۔ چالیس منٹ بعد ایک خادم نے آکر کہا آپ کو خلیفہ صاحب بلا رہے ہیں۔ جب میں اندر گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے کلام میں ارتعاش تھا ۔ وہ دوران گفتگو کانپ رہے تھے اور ا ن کے ہاتھ بہت زیادہ  لرز رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا:
"تم نے بانی ءجماعت کے بارے جو غیر منطقی باتیں کی ہیں میں انہیں قبول نہیں کرتا۔  ہمارے دین اور طریقے پر تواتر قائم ہوچکا ہے۔ میں نے تمہارا تمام پیغام پڑھ لیا ہے ۔ اس کے بعد میں تمہیں ملازمت اور جماعت سے نکالنے پر مجبور ہوں۔ شیخ عکرمہ مزید لکھتے ہیں کہ: بجائے اس کے کہ مجھے قائل کیا جاتا اور مرزا قادیانی کی سچائی کے دلائل دیے جاتے اور میرے اشکالات دور کیے جاتےبلکہ  الٹا مجھے صاف جواب دیا کہ میں تمہیں ملازمت سے فارغ کرنےاور جماعت سے نکالنے پر مجبور ہوں۔ یہ کیسی سچائی ہے ؟

قارئین! میں نے عکرمہ نجمی کے خط کے ایک حصے کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا جب کہ طوالت کے ڈر سے مرزے کے بارے جو باتیں روشن دلائل سے لکھی تھیں انہیں  چھوڑ دیا۔ عکرمہ نجمی پہلے ہی قادیانیت سے توبہ تائب ہوچکے تھے۔ ملازمت سے فارغ کیے جانے اور جماعت سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے قادیانیت کی حقیقت سے ان نادان عربوں کو نکالنے کی ٹھانی جو مرزے کے دجل کا شکار ہوچکے تھے۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے اور بہت سے عرب قادیانیوں کی ہدایت کا ذریعے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ شیخ امجد سقلاوی  اردن کے تعلیم یافتہ سکالر ہیں جو قادیانیت کا شکار ہوچکے تھے بعد ازاں حقیقت کھلنے پر وہ  توبہ تائب ہوئے اور بھر پور طریقے سے قادیانیت کے خلاف کام کررہے ہیں۔

میرا مضمون طویل ہوگیا ۔ اگر مزید افراد کے نام لکھوں کو طوالت بڑھ جائے گی۔ یہ افراد اس وقت سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں اور قادیانیت کے خلاف سرگرم ِعمل ہیں۔میری خوش نصیبی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایڈ ہوں انہوں نے میری ریکویسٹ کو قبول کرکے مجھے اعزاز بخشا۔قارئین! آپ نے پڑھا کہ قادیانیت کا سورج اب سر زمینِ عرب میں ڈوب رہا ہے۔ یہ اب پستی کی طرف لڑھک رہے ہیں۔  ان نو مسلم افراد کی محنت رنگ لارہی ہے جو خود قادیانیت کی گود میں پل کر آئے ہیں اور اللہ نے انہیں ہدایت کی راہ دکھا دی ہے۔ ان شاء اللہ انگریزی ایما ء پر قائم کیا ہوا قادیانی شجرہء خبیثہ اب کھوکھلا ہورہا ہے۔ ان شاء اللہ آنے والے وقتوں میں آپ بہت بڑی خوشخبریاں سنیں گے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...