بدھ، 9 دسمبر، 2015

کیا مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ ہے؟

محمدمبشربدر

زمانہ کے تغیر کے ساتھ دنیا بھی ترقی کرتے کرتے آج ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے جسے ٹیکنالوجی اور جدید سائنس کا دور کہا جاتا ہے ۔ نت نئی ایجادات نے انسانی عقلوں کو حیرت  میں ڈال دیا ہے ۔ ایسی ایسی چیزیں وجود میں آگئی ہیں جن کا پچھلے ادوار میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔  بھلا کس نے سوچا تھا کہ انسان بھی ہوا میں اڑے گا، برق رفتاری سے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں چند ساعتوں کے اندر  پُر سکون سفر کر لے گا ،  مصنوعی ٹھنڈک پیدا کرکے اشیائے خوردو نوش کو دیر پا محفوظ رکھ سکے گا ، کپڑوں کی بنائی سے لے کر برتنوں کی صناعت تک کے لیے مشینوں سے خدمت لی  جائے گی ، گھروں میں لکڑیاں  جلانے کی مشقت کے  بجائے گیس سے کھانا پکایا جائے گا  ،  بجلی کی توانائی سے بڑے بڑے کام لیے جائیں گے اور  علاج معالجے کے لیے اعلی ادویات و جراحی کے آلات وجود میں آجائیں گے۔

بلاشبہ ان ایجادات کے پیچھے انسانی سہولت کار فرما تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو مشقت سے بچاکرآسانی فراہم کی جائے ،جس کا سہراانسانی عقل کے سر بندھتا ہے ،  جواللہ رب العزت نے انسان کو ودیعت  فرمائی اوراشیاء میں خواص پیدا فرماکر انسانی عقل کی اس طرف رہنمائی فرمائی ، تاکہ وہ اشیاء کے خواص کو ڈھونڈ کر انہیں اپنے استعمال کے لیے کار آمد بنائیں۔ لیکن سائنس دانوں نے جتنا زندگی کوتیز  ، پرتعیش اور آرام دہ بنانے کی کوشش کی وہ اتنا ہی پزمردہ اور مضمحل ہوتی چلی گئی ۔ وہ بند کمروں میں بیٹھ کر جتنا انسانیت کی بھلائی اور سہولت کو سوچ کر نت نئی ایجادات کے لیے تجربے کرتے گئے اتنا انسانی روح بے چینی و بے قراری کی طرف سفر کرتی چلی گئی ۔لوگ اس کی وجہ دریافت کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟۔اس کی بنیادی وجہ  ہمارا          مادہ پرستانہ نظریۂ حیات ہے ، جس نے جسمِ انسانی کو تو  راحت بخش اسباب فراہم کر دیئے لیکن روح کی تشنگی کو سیراب کرنے سے قاصر رہا۔ انسان مادیت کی دلدل میں پھنس کر روح کی آسودگی کو ترس رہا ہے ۔روح کی آسودگی کے بغیر سب کچھ ہونے کے باوجود انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ۔

اگر ہم روح کی اس بے قراری و بے چینی کا علاج ڈھونڈیں تو لامحالہ اس کا مداوا سوائے مذہب کے اور کسی کے پاس نہیں ۔ ایک مذہب ہی ہے جو انسان کی روح کو وہ سرور و اطمینان دے سکتا ہے جو دولت و اسباب کے انبار نہیں دے سکتے ۔انسان کی موجودہ ذہنی و روحانی کشمکش کی بنیادی وجہ خود غرضی ہے جو مادیت پرستی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ فرانس کا ملحد فلسفی رینان Renon اپنی ایک کتاب 'The History of Religions' میں خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ’’مادیت ایک فریب اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا ہمیں لا محالہ مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔‘‘

انسانی روح مذہب کا تقاضہ کرتی ہے جسے مادیت کے مقابلے میں روحانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، کیوں کہ سائنسی ایجادات اور مادی اسباب انسان کی روح کی تشنگی دور نہیں کرسکتے ۔روح کا بے قرار ہونا مذہب کی سب سے وزنی اور ٹھوس دلیل ہے۔انسان مادی اعتبار سے خواہ کتنا ہی ترقی کرجائے اس کا روحانی وجود اس سے سکونِ قلب کی طلب پیدا کرکے اسے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے ۔ سائنس انسان کی مادی زندگی کو پرسکون بناتی ہے جو کائنات کی اشیاء میں غور و فکر کر کے اسے انسانی مفاد کے لیے بروئے کار لانے کا نام ہے ، سائنس بول کر آپ سائنسی ایجادات بھی مراد لے سکتے ہیں ، لیکن سائنس بذاتِ خود ایک فکر کا نام ہے، جو گزشتہ زمانے میں حاصل ہونے والی اپنی ابتدائی  ترقی و کامیابیوں  کے زعم میں چند داخلی و خارجی امور کے سبب مذہب و تصورِ خدا سے ٹکرا گئی تھی ۔لیکن اب ہر سطح پر یہ بات مسلم ہوچکی ہے کہ مذہب اور سائنس کا الگ الگ میدان ہے ، یہ آپس میں متعارض و متصادم نہیں ہیں ۔

سائنس کا مذہبی امور میں کوئی دخل نہیں ہے جب کہ مذہب کا سائنسی معاملات  میں تعمیری اور مثبت دخل ضرور ہے ۔جو عرصہ دراز  کےمسلسل تجربوں اور مشاہدوں سے ثابت ہوچکا ہے ۔لہٰذا دونوں میں ٹکراؤ اور تصادم کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ناممکن ہے ، چنانچہ فیلڈ مارشل سمٹس ۔ فلسفہ کی بلند پایہ کتاب ہولزم (Holism) کا مصنف کہتا ہے : ’’ صداقت کی مخلصانہ جستجو اور نظم و حسن کے ذوق کے اعتبار سے سائنس مذہب اور فن کے اوصاف سےحصہ لیتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ شاید سائنس ہمارے اس عہد کے لیے خدا کی ہستی کی واضح ترین نقاب کشائی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو جو کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہوگا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرے کا ازالہ کرے گی جو ہمارے مستقبل کو درپیش ہے‘‘۔ 

سائنس کے نظریات ظنی ہوتے ہیں ، ان کو یقین کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ، چونکہ ان کا وجود مشاہدات اور تجربات کی بنا  پر ہوتا ہے اس لیے یہ آئے روز بدلتے رہتے ہیں،جب کہ مذہبی نظریات قطعی ہوتے ہیں جن میں تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا ، اس لیے سائنس سے مذہب کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔کیوں کہ ایک ظنی اور تبدیل ہونے والی چیز ایک قطعی اور مستقل چیز کے ثبوت کے لیے  دلیل نہیں بن سکتی ، بالفرض  اگر ہم آج سائنس کو مذہب کی دلیل بنا لیں لیکن جب کل کو سائنس کا نظریہ تبدیل ہوگا تواس سے مذہب کے اس نظریئے  کا غلط ہونا لازم آجائے گا جسے کل تک ہم مستقل اور غیر مبدل مان رہے تھے ۔


مذہب ( اگر یہاں مذہب کے بجائے قرآن کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے ) خدا کا نازل کردہ ہوتا ہے ، جسے خدا انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل دیتا ہے اس لیے اس کے نظریات میں تبدیلی ممکن نہیں جب کہ سائنسی نظریات انسانوں کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں وجود پاتے ہیں۔ اس لیے یہ بدلتے رہتے ہیں۔سائنس کے نظریات اور مفروضات حتمی نہیں ہوتے  بلکہ علم کی ترقی کے ساتھ  ان میں ترمیم و اضافہ یاان کے بالکل بدل جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔سائنس کے سامنے جب کسی مسئلے پر کافی مواد جمع ہوجاتا ہے اور اس سے کسی حقیقت تک پہنچنے کا گماں ہوتا ہے تو قیاس یا مفروضہ جنم لیتا ہے ۔ پھر جب بہت سے سائنسدان اس پر بہت سے ثبوت دیکھ کر اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو اسے تھیوری کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر جب طویل عرصے  تک اس کے ثبوت دنیا میں پہنچتے رہتے ہیں اور اکثر سائنسدان اس سے اتفاق کرلیتے ہیں تو اسے قانون کا درجہ دیا جاتا ہے۔ پھر یہ قانون اس درجے کا نہیں ہوتا جسے حتمی کہا جاسکے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کےامکان کو مسترد کردیا جائے ، بلکہ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک قانون کو بعد کی تھیوری نے بدل کر رکھ دیا ۔ لہٰذا ایک مسلمان کے شایان نہیں کہ وہ قرآن کے یقینی نصوص کو انسان کے غیر یقینی نظریات پر محمول کرے۔

دینی مدارس کے انوار سے جگمگاتا برِّ صغیر


محمد مبشر بدر
مدارسِ اسلامیہ کو اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اسلامی تعلیمات نسل در نسل منتقل کرنے کے اہم مراکز ہیں، انہی مدارس کے ذریعے اسلام کا شجر ِسایہ دار اپنی تمام تر شاخوں سمیت سرسبز و شاداب رہتا ہے، انہیں مدارس سے عقائد ، عبادات،معاملات، اخلاقیات اور معاشرت کا علم حاصل ہوتا ہے، مدارس امن کے گہوارے اور معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں ۔روئے زمیں پر مدارسِ اسلامیہ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اسلام کی تاریخ ، اپنی اصل میں مدرسہ کسی عمارت اور بلڈنگ کا نام نہیں بلکہ ایک استاذ اور شاگرد کے وجود کا نام   ہے، جہاں استاذ و شاگرد تعلیمِ دین کے لیے مل بیٹھیں وہی جگہ مدرسہ کہلاتی ہے۔
اس مضمون میں انگریزی قبضے سے قبل برصغیر کی قدیم دینی درسگاہوں سے متعلق اجمالاً اہم معلومات فراہم کی جائیں گی ، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ جہاں عالمِ اسلام کے دیگر ممالک میں اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے مدارس کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا گیا وہاں برِّ صغیر بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہا۔یہاں بھی بڑے بڑے اور مشہور مدارس کی داغ بیل ڈالی گئی جو ایک عرصہ تک  لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے سیراب کرتے رہے۔ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے مدارس کی تاریخ پر کوئی ٹھوس معلومات منضبط نہیں کی گئیں، بلکہ قدیم تاریخِ ہند میں زیادہ تر بادشاہوں کی سوانح عمریاں ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ ان کی فتوحات ، ملکی و جنگی کارنامے جو اس زمانہ کے سب سے زیادہ قابلِ توجّہ واقعات تھے تفصیل و بسط کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں۔اس بنا پر اوراقِ تاریخ بھی جنگی صفحات بن گئے جہاں شمشیر و سناں کے شورمیں درس و تعلیم کی کمزور آوازیں دب کر رہ گئیں۔
قدیم زمانہ میں درس و تعلیم کے لیے الگ سے مستقل عمارتیں نہیں تھیں بلکہ اس کام کے لیے زیادہ تر مساجد سے کام لیا جاتا تھا جہاں باقاعدہ کلاسیں لگائی جاتیں اور لوگ ان مبارک حلقوں میں حصولِ تعلیم کے لیے شرکت کرتے تھے۔اسی وجہ سے آپ ہند کی قدیم مساجد میں دیکھیں گے جہاں صحن مسجد کے ارد گرد کمروں کی قطاریں آج بھی نظر آئیں گی،یہ دراصل طلباء کے درس و قیام کے لیے تعمیر کیے جاتے تھے ،جہاں دور دراز سے آئے مسافر طلباء قیام کرتے تھے۔ہندوستان کے قدیم اسلامی شہروں میں قدم قدم پر آپ کو وسیع و شاندار مساجد ملیں گی ، دلی، آگرہ ، لاہور ،ملتان ، گجرات، احمد آباد، جونپور، حیدرآباد دکن وغیرہ قدیم اسلامی دارالسلطنتوں میں جو عظیم مساجد تعمیر ہوئیں تھیں، جو اب تک باقی ہیں ان کی موجودہ صورت و ہیئت دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان کا اکثر حصہ تعلیمِ دین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
قدیم خانقاہیں بھی عموماً تعلیم و تربیت کا اہم مرکز سمجھی جاتی تھیں ، جہاں صرف مجاہدۂ نفس و وظائف کو ہی عبادت نہیں سمجھاجاتا تھا ، بلکہ تزکیۂ نفوس کی تعلیم دی جاتی اور احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونے کابھی  درس دیا جاتاتھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کاداخلہ پہلی صدی ہجری میں ہوگیا تھا لیکن اس کا اثر پورے ہند پر نہیں تھا، بلکہ ہند کے بعض اطراف میں اسلام کی کرنیں ضرور جگمگانے لگیں۔صحیح معنیٰ میں اسلامی حکومت کے قدم  ۳۹۰ ؁ھ میں سلطان محمود غزنوی کی مجاہدانہ جدّوجہد کی بدولت جمے، سلطان محمود علم دوست اور علماء کا قدر دان بادشاہ تھا، جس کے دربار میں علماء ، ادباء ، حکماء اور شعراء کا ہجوم رہتا، اسے اپنے حدودِ حکومت میں مدارس قائم کرنے کا بے حد شوق تھا، چنانچہ تاریخِ فرشتہ میں لکھا  ہے کہ  ۴۰۹؁ھ میں سلطان محمود غزنوی فتحِ قنوج کے بعد غزنی تشریف لائے اور وہاں جامع مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس بادشاہ کا یہ عالم ہو اس کی رعایا میں اس کے ذوق کا کس قدر اثر ہوگا ،چنانچہ عربی  کتب میں یہ مقولہ درج ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکہم ‘‘ یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔اسی ذوق کا ہی اثر تھا کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا جال پھیل گیاجس کو قاسم فرشتہؒ نے تاریخ میں بیان کیا ہے جس سے یہی بات مستفاد ہوتی ہے کہ  ہندوستان میں مدارس دینیہ کا قیام محمود غزنوی اور ان کے امراء کے توسّط سے داخل ہوا پھر تدریجاً سارے ملک میں مروج ہوگیااور ہندوستان سے باہر بھی یہی نظام رائج تھا۔
سلطان کے بعد زمامِ حکومت ان کے بیٹے  شہاب الدین مسعود کے ہاتھ میں آئی ، جو علم پرور شخص تھا جس نے علم کی ترویج کے لیے اپنی سلطنت میں بہت زیادہ مساجد و مدارس تعمیر کروائے۔چنانچہ ان سے متعلق فرشتہ لکھتا ہے کہ:
’’ انہوں نے اپنے مقبوضہ ممالک میں اپنی سلطنت کے اوائل میں اتنے مساجد و مدارس کی بنیاد ڈالی کہ زبان ان کے شمار سے عاجز اور قاصر ہے۔‘‘
اس کے بعد جب حکومت ِہند خاندانِ غوری میں منتقل ہوئی تو مصنف تاج المآثر کے بیان کے مطابق سلطان شہاب الدین غوری نے  ۵۸۷؁ھ میں اجمیر فتح کیا جہاں انہوں نے  متعدد مدارس قائم کیے جو ہندوستان کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتے ہیں۔۶۰۷؁ھ میں جب شمس الدین التمش تخت نشین ہوا تو اس نے بھی دہلی میں متعدد مدارس تعمیر کروائے جسے قطب الدین ایبک نے لاہور کے بعد ہندوستان کا دارالسلطنت قرار دے دیا تھا  ، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کا مشہور و معروف مدرسہ ٔ معزّیٰ اسی عہد کی یادگار ہے، جس کے مدرس مولانا بدرالدین اسحاق بخاری تھے جو علومِ عقلیہ و نقلیہ میں اپنے وقت کے  ماہر سمجھے جاتے تھے۔
اسی عہد میں دہلی میں ایک اور مشہور و کبیر مدرسہ کا پتہ چلتا ہے ، جو مدرسۂ ناصریہ کے نام سے موسوم تھا، جو کہ ناصر الدنیا والدّین شہزادہ محمود بن سلطان شمس الدین التمش کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔طبقاتِ ناصری کے مصنف سراج الدین عفیف اس مدرسہ کے مہتمم اور نگران تھے۔مدرسہ فیروز شاہی کے نام سے ایک اور عظیم الشان مدرسے کا تاریخ  میں ذکر ہے جو دہلی کا سب سے مشہور اور اپنے عہد کا زبردست مدرسہ تھا ، جسے فیروز شاہ نے فیروز آباد دہلی میں ۷۵۳؁ھ میں قائم کیا تھا۔ ضیاء برنی نے اس کی تعریف میں صفحات سیاہ کیے ہیں، لکھتا ہے:
’’مدرسہ اپنی شان و شوکت ، خوبیٔ عمارت و موقع اور حسن انتظام و تعلیم کے لحاظ سے تمام مدارسِ ہند میں سب سے بہتر اور عمدہ ہے ، مصارف کے لیے شاہی وظائف مقرر ہیں۔‘‘
مدرسہ سے متصل مسجد تھی، مولانا جلال الدین رومی اس میں مدرس دینیات تھے۔اس کے علاوہ دہلی میں درج ذیل مشہور اور عظیم الشان مدارس موجود تھے۔مدرسہ بالابند آب سیری ، یہ مدرسہ ایک شاہی عمارت میں واقع تھا، جس کے حسن کا کوئی عمارت مقابلہ نہیں  کرسکتی تھی۔مدرسہ خیرالمنازل جسےعہدِ اکبری میں ماہم بیگم نے ۹۶۹؁ھ میں پرانے قلعہ کے پاس مغربی دروازے کے مقابل تعمیر کرایا تھا۔ دلی کی جامع مسجد کے جنوبی رخ پر دارالبقاء کے نام سے ایک عظیم الشان مدرسہ قائم تھا ، جس کی بنیاد اندازاً ۱۰۶۰؁ھ میں رکھی گئی ۔دلی کا سب سے آخر الذکر اور مشہور مدرسہ شاہ عبدالرحیم دہلوی والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہما الرحمۃ کا ہے ۔اسی مدرسہ کی آغوش میں شاہ ولی اللہ ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی ، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی ، شاہ اسمٰعیل ، شاہ اسحاق ، شاہ عبدالقادر وغیرہ جید کبار اہلِ علم پڑھ کر جواں ہوئے ہیں، یہی وہ عظیم مدرسہ ہے جہاں سے پورے ہند میں حدیث کے چشمے پھیلے۔
علامہ مقریزی نے اپنی مشہور کتاب ’’ کتاب الخُطط‘‘میں لکھا ہے ۔
 ’’ چودہویں صدی عیسوی میں محمد تغلق کے دور میں صرف دہلی شہر میں ایک ہزار مدرسے تھے۔‘‘
کیپٹن ہیلیگزن ہملٹن مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے دور میں ۱۶۹۹؁ء میں اس خطے میں آئے تھے، انہوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا ۔ ’’ صرف ٹھٹھہ شہر میں مختلف علوم و فنون کے چار سو مدارس تھے ۔‘‘ کیئر ہارڈی نے میکس پولر کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ ’’ انگریزوں کی علمداری سے قبل بنگال میں اسّی ہزار مدرسے موجود تھے، تقریباً ہر چار سو افراد کے لیے  ایک مدرسہ تھا۔ ‘‘
لاہور کی وزیر خان مسجد جو مدرسہ کام بھی دیتی تھی آج تک اپنی علمی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہند کے مشہور شہر فتح پور کا ایک مشہور مدرسہ ابوالفضل آج بھی اپنی پوری تب و تاب کے ساتھ قائم ہے جو شاہی محل کی عمارتوں کے بالکل قریب ہے۔جہانگیر کی علم دوستی سے کون ناواقف ہے؟ جس نے ہندوستان کے قدیم خستہ و غیر آباد مدارس کو جو پرندوں اور جانوروں کا مسکن بنے ہوئے تھے طلباء  و علماء سے بھر دیا۔  امروہہ شہر کے قریب ایک مشہور مقام جو دارانگر کے نام سے موسوم ہے اس میں ایک مشہور مدرسہ مدرسہ دارانگر کہلاتا ہے، جسے نجیب الدولہ نے قائم کیا تھا ، اس جامعہ سے بہت سےطلباء نے کسبِ فیض کیا اس مدرسہ میں خصوصیت کے ساتھ فرنگی محل کے اکثر فارغ التحصیل اشخاص تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
رامپور کے مدرسہ عالیہ  جو اب تک قائم ہے ، نواب فیض اللہ خان نے مولانا بحر العلوم کو رامپور بلا کر اس مدرسہ کا صدر مدرس بنا دیا ، ہندوستان کے مشہور عالم ملّا حسن بھی اسی  مدرسہ میں عرصہ تک مدرّس رہے۔اودھ کے مدارس  میں مدرسہ سہالی ، مدرسہ شاہ پیر محمد  کاٹیلہ اور لکھنؤکا عظیم الشان مدرسہ فرنگی محل جس کا نام درسی کتابوں میں آج بھی لکھا ہوا موجود ہے۔دکّن کے مدارس میں مدرسۂ بدر ، مدرسہ گلبرگہ مدرسہ آثار شریف ، مدرسہ بغداد (احمد نگر)، مدرسہ خاندیس ، مدرسہ دولت آباد ۔ ملتان کے مدارس میں سے مدرسہ فیروزی ، مدرسہ ملتان ایسے عظیم مدارس تعلیم دین کے لیے ہندوستان میں علم کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔
یہ ان چند مدارس کا مختصر تذکرہ ہے جو انگریزی تسلط سے قبل برصغیر میں علم و عرفان کے نور سے لوگوں کے سینے منور کررہے تھے۔انہی مدارس کا فیض تھا کہ یہاں تعلیم عام تھی ، لوگوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ، جاگیر داروں نے فروغِ دین کے لیے اپنی جاگیریں مدارس کے نام الاٹ کرارکھی تھیں تاکہ مدارس پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے اور تعلیم میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔علماء و مدرسین کے وظائف حکومت نے مقرر کررکھے تھے جس کی وجہ سے وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر تعلیم و تعلّم کے فریضے کو بخوبی انجام دیتے تھے۔انہی مدارس کی برکت سے لوگوں میں دینی جذبہ و شعور پیدا ہوا اور یہاں کےعام  لوگوں کا اخلاق و کردار اعلیٰ اقدار کا حامل تھا ، جو دیگر اقوام کے لیے ایک بہترین نمونۂ عمل  تھا ، اس کا اعتراف خود یورپی مؤرخین نے کیا ہے۔ چنانچہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں انگریز سفیر تھامس کرو یہاں آئے۔ وہ ہندوستان کی تہذیب و تمدّن کو دیکھ کر دنگ رہ گئے، انہوں نے کہا:
’’ یہاں ہر شخص میں مہمان نوازی اور خیرات کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ صنفِ نازک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس کی عزت ، عصمت اور عفت کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ یہ ایسے اوصاف ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم اس قوم کو غیر مہذب اور غیر متمدّن نہیں کہہ سکتے اور ایسی صفات کی موجودگی میں ہندوستان کو یورپی اقوام سے کسی طرح کم تر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اگر ہندوستان اور انگلستان کے درمیان تہذیب و تمدّن کی تجارت کی جائے تو مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان سے تمدّن کی جو کچھ درآمد انگلستان میں ہوگی اس سے انگریزوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔‘‘

اس بیان سے اس نظریئے کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ برصغیر انگریز کی آمد سے قبل جہالت کی تاریکی میں  ڈوبا ہوا تھااور یہاں کوئی تعلیمی و تربیتی نظام موجود نہیں تھا۔حالانکہ یہاں کی اخلاقی و علمی اقدار پوری روئے زمیں پر نایاب تو نہیں کم یاب ضرور تھے۔

دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے ﷺ





محمد مبشربدر

انسانیت پر  قدرت کا اس سے بڑا احسان اور کیا ہوگا کہ ان کو حضرت محمد ﷺ جیسی بابرکت و پاکیزہ ہستی عطا کی ، جو رحمت و شفقت، محبت و الفت ، جود و سخا اور امن ووفا کی پیکر ہے۔ جن کے دم سے کائنات کو ثبات ہے۔ جو غریبوں اور بے کسوں کے ماویٰ و ملجأ اور بے سہاروں کے لیے سہارا ہیں ۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے والے، غم زدوں کی دلجوئی کرنے والے، مہمان نوازی میں درِّ یتیم اور یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھنے والےہیں۔  جب بارِ رسالت آپ کے سپرد کیے جانے کا وقت آیا اور علامات وحی کا ظہور ہونا شروع ہوا تو آپ علیہ السلام غارِ حراء سے گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ ؓ سے فرمایا:

«إِنِّي قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» ’’ اے خدیجہ! مجھے اپنی جان جانے کا خطرہ ہے۔‘‘

یہ سن کر سیدہ خدیجہؓ بولیں:  «كَلَّا - وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتُقِرِّي الضَّيْفَ، وَتُكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ».

’’ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بخدا اللہ آپ کو کبھی خالی ہاتھ نہیں کرے گا، بلاشبہ آپ رشتہ داری کا بھرم رکھتے ہیں ، گفتگو میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں، مہمان نواز ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں اور مشکل حالات میں حق کا ساتھ دیتے ہیں ۔‘‘

یہ وہ پیغمبرِ برحق ہیں جن کے کمالات و محاسن کی دنیا قائل ہے ، روئے زمین پر ان جیسا اعلیٰ اخلاق کا حامل ، بردبار، شیریں سخن، نازک دہن، گل بدن ، اپنی ذات میں ایک انجمن، صاحب العفت و  الحیاء، صاحبِ جود و سخا، صاحب الرداء السوداءمحمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کسی ماں نے جنا ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔

شاعرِ رسول ﷺ سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کی مدحت میں فرماتے ہیں:   ؎

وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنٌ،وَ اَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ ، کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآء

’’ آپ سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے، اور آپ سے زیادہ خوبصورت عورتوں نے کبھی جنا ہی نہیں ہے۔ آپ کو ہر عیب سے پاک کرکے پیدا کیا گیا، گویا آپ کو ایسے پیدا کیا گیا جیسا آپ نے چاہا۔‘‘  ؎

وہ دانائے سُبُل ، ختم الرسُل ، مولائے کل جس نے        غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر                وہی قرآں ،وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

آپ کی حیاتِ طیبہ کا کون سا گوشہ ہے جو انسانیت کے لیے مشعل راہ نہیں ہے؟ خلّاقِ عالم نے آپ کی ایک ایک ادا کو امت کے لیے قابلِ تقلید بنادیا اور آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کا درجہ دیا،آپ کے فیضانِ نظر سے رومی ، فارسی، حبشی ،غفاری سے لے کر بادیہ نشینان و شاہانِ عرب و عجم تک حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ایسی مقدس اور پاکیزہ ہستی کے اوصاف اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور آپ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے۔

یہ امت جب تک رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع نہیں کرلیتی، آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا نہیں لیتی تب تک کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتی۔ آپ کا دائرۂ نبوت قیامت تک آنے والے جن و انس کے علاوہ تمام مخلوقات تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ علیہ السلام نے امت کو ایک منہج اور راستہ دیا، زندگی گزارنے  کے لیے ایک نصاب دیا جس پر آپ کے اصحاب علیہم الرضوان نے  عمل پیرا ہوکر اتباعِ رسول ﷺ کا حق ادا کردیا اور آپ کے بعد اسلام کی روشنی چہار دانگِ عالم میں پھیلانے کے لیے گھربار چھوڑ دیا  اور اپنے بعد والوں کے لیے  ایک بہترین مثالی طرزِ زندگی چھوڑ گئے۔

وہ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی پامردی اور استقلال ہی تھا، جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر ننگی پیٹھ اور سینے پر پتھر رکھے ہوئے زبانِ مجسم سے اشہد ان محمدا رسول اللہ کی گردان جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا شبابِ وفا ہی تھا ، جو جلتے ہوئے انگاروں پر محمد رسول اللہ کا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔ یہ سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کا عشقِ صادق ہی تھا کہ جسم کے دو ٹکڑے کروادیے، یہ سیدہ زنیرہ رضی اللہ عنہا کی وفاداری تھی کہ غلامیٔ رسول ﷺ کی سزا میں آنکھیں قربان کر بیٹھیں ، ذرا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشقِ رسول دیکھیے ، گھر کا سارا مال رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈھیر کردیا۔ یہ عشق مصطفیٰ ﷺ ہی تو تھا جس کی بنا پر جلتے ہوئے انگاروں اور تپتے ہوئے صحراؤں پر لیٹنا سہل ہوگیا تھا۔ آج اسی جذبے اور عشق کی ضرورت ہے ۔   ؎

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے                            دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

امت  کی فکر میں اپنا آرام تیاگ کر راتوں کو سجدوں میں رونے والے نبی جوقدم قدم پر اپنی امت کی کامیابی اور سرخروئی کی دعائیں کرتے چلے گئے ،آج ان کی وہی امت سنت نبوی کو چھوڑ کر رسوم و رواج کے پیچھے ایسے چل پڑی ہے جیسے انہیں اپنے رسول ﷺ کی سنت،  عزت و حرمت کا پاس نہیں، ان کے ارشادات اور طریقوں کی اہمیت نہیں۔ دین و ایمان کی حرارت سینوں میں ٹھنڈی ہوتی جارہی ہے۔    ؎
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں                                اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبر ؐ ہیں

گمراہی کے سینکڑوں راستے ہیں لیکن ہدایت کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو اتباعِ نبی ﷺ ہے، اس سے ہٹ کر گزاری گئی زندگی ناکام اور خسارے والی ہے۔ آج ضرورت اسی امر کی ہے کہ امت کے بکھرے شیرازے کو ایک مرکز کی طرف مجتمع کیا جائے،  سینوں میں عشق مصطفیٰﷺ کی شمع  فروزاں کی جائے۔رسومات و  بدعات  کو ترک کرکے سنتوں اور احکاماتِ اسلامیہ کو اپنائیں ۔ایک مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی محبوب ومحترم ہستی نہیں ہوسکتی، چنانچہ آقا علیہ السلام کا فرمان ہے:

’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘

ہم سے رسول برحق ﷺ سے عہد پیمائی اور  وفاداری کے بارے سوال کیا جائے گا،اگر ہم ان کی شفاعت کے امیدوار ہیں تو ہمیں ان کے منہج اور طریق پر ضرور چلنا ہوگا، بغیر اتباع کے محض نعرہ بازی سے بات بننے والی نہیں ،چنانچہ علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے۔   ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں                یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

جمعرات، 23 اپریل، 2015

حیاء،پاکیزہ معاشرے کی اساس



 محمد مبشر بدر
قدرت نے انسان کو بنا کر یونہی بیکار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے ایک کامیاب اور پرسکون زندگی جینے کے لیے جس طرح کچھ اصول اور رولز بتادیئے ہیں جن کے تحت وہ خوشگوار اور پر امن زندگی گزار سکتا ہے اور ان اصولوں کے ساتھ اس کی زندگی کی راحت جوڑ دی ہے جن سے انحراف کرکے وہ کہیں اطمینان نہیں پاسکتا، اسی طرح خدا نے انسانوں کو بے شمار فطری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک اہم خوبی شرم  و حیاء ہے،  جو اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ  معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے۔جن قوموں اور معاشروں سے شرم و حیاء رخصت ہوجاتی ہے وہ پستی اور ذلت کی اتاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں ، وہ خود اور ان کی نسلیں تباہی اور بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں ۔

چنانچہ مشکوٰۃ شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی کو سمجھا   رہا تھا کہ زیادہ شرم و حیاءنہ کیا کرو، آپ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:’’اس کو چھوڑ دو کیوں کہ حیاء ایمان کا جزء ہے‘‘۔ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ حیاء ایمان کا حصہ ہے ، ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔‘‘ ۔شریعت کی اصطلاح میں حیاء وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان بے ہودہ ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ شریعت میں حیاء  کا بہت اہم مقام ہے ، اسے اپنانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ نوجوان اسے اپنا کر معاشرے کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کریں اور منکرات و فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہےتاکہ انارکی اور فساد کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔

اسی شرم و حیاء سے خاندانی اور ازدواجی زندگی پرسکون اور کامیاب رہتی ہے ۔ حیاء طبعی خواہشات پورا کرنے کے لیے ہرفردکو اپنے رفیق ِ سفر تک محدود رکھتی ہے اسے اِدھر اُدھر منہ مارنے سے روکتی ہے، حیاء سے خاندانی تعلقات ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں ، ازدواجی تعلقات مضبوط رہتے ہیں اور اگر جنسی بے راہ روی عام ہو کر معاشرے اور ماحول میں رائج ہوجائے تو نوجوان گھر بسانے کے متعلق سوچیں گے بھی نہیں۔ جب خواہشات پوری ہورہی ہیں تو بیوی کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ، اسی جنسی بے راہ روی سے خاندانی نظام  کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے، زندگیوں میں یاس و ناامیدی در آتی ہے ، کوئی کسی کا سہارا بننے کو تیار نہیں ہوتا  ، بس اپنا مطلب نکال کر سب اپنی راہ چل پڑتے ہیں جس سے مایوس ہوکر بہت سے لوگ خودکشی پر مجبور ہوکر اپنی جانیں تک گنوا دیتے ہیں۔

دوسری طرف عفت و پاکدامنی گھروں کو مضبوط بنادیتی ہے۔ انسان کو معزز اور معتبر بنا دیتی ہے۔ وہ افراد جو ہوا و ہوس اور جنسی خواہشات میں مگن ہوجاتے ہیں لوگوں کے نزدیک قابل وثوق نہیں رہتے۔حدیثِ مبارک میں ہے:’’ حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے ۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی ۔‘‘حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ سورة القصص میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ترجمہ : ’’اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی ۔‘‘سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد مبارک ہے :حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مشکوٰۃ)حرام نگاہ صحیح فیصلے کی قوت ِقلب کو سلب کر دیتی ہے۔ اکثر جنسی انحرافات کی ابتدا دیکھنے سے ہوتی ہے۔ یہ اثرات عورت کا مرد اور مرد کا عورت کو دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اس سے منع کردیا ہے۔چنانچہ فرمایا:

          ’’ مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں کہ یہی زیادہ پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کے کاموں سے خوب واقف ہے اور مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کونیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں مگر جو ظاہر ہو اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبانوں پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے شوہر، باپ ، دادا اور وہ بچے جو عورتوں کی شرمگاہوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور اپنے پاؤں پٹخ کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے۔ ‘‘(سورۂ نور)

گویا نظر کو حیاء میں خاصا دخل ہے۔چنانچہ رسول  اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ لعنت برسائے دیکھنے والے اور دیکھنے کا موقع دینے والے پر۔ (مشکوٰۃ)ایک اور مقام پر فرمایا:’’غیر محرم کی طرف دیکھنا شیطان کا ایک زہریلا تیر ہے جو میرے خوف سے اسے ترک کردے گا میں اسے ایمان میں بدل دوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور اس کے قہر و غصے کی پھٹکار ہے۔‘‘ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ تم اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو ورنہ اللہ تمہاری شکلوں کو تبدیل کردے گا۔‘‘ (ترغیب و ترہیب)

لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ترجمہ ۔’’جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔‘‘  ترغیب و ترہیب میں ایک اور حدیث درج ہے جس میں  آقا علیہ السلام نے فرمایا  : ’’ بے شک حیاء اور پاکدامنی ایمان کا حصہ ہیں جب زندگی پاکدامن نہ رہی تو ایمان کہاں بچا؟۔‘‘ایک مقام پر آقا علیہ السلام نے فرمایا :’’حیاء اور ایمان دو جڑوے بھائیوں کی طرح ہیں جب ایک زندگی سے نکل جائے تو دوسرا بھی نکل جائے گا۔‘‘(ترغیب و ترہیب) یعنی اگر حیاء نہ رہے تو ایمان بھی نہ رہا اور ایمان نہ رہا تو حیاء نہ رہی ۔ ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے انتہائی اہم اور خطرے کی بات ارشاد فرمائی : ’’جب اللہ تعالی کسی بندے کی ہلاکت کا ارادہ کرتاہے تو اس سے حیاء کھینچ لیتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)

ایک نوبل انعام یافتہ مسلم لڑکی سے کسی صحافی نے پوچھا :’’ آپ حجاب کیوں پہنتی ہیں جب کے آپ باشعور ہیں آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے؟‘‘

’’ اْس عظیم لڑکی نے جواب بھی لاجواب دیا: ’’ آغازِ کائنات میں انسان بالکل بے لباس تھا اور جب اْسے شعور آیا تو اس نے لباس پہننا شروع کیا ،آج میں جس مقام پر ہوں اور جو پہنتی ہوں وہ انسانی سوچ اور انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مقام ہے، حجاب تحفظ و اعتماد کا احساس عطا کرتا ہے، یہ قدامت پسندی نہیں، اگر لوگ پرانے قوموں کی طرح پھر سے بے لباس ہوجائیں تو یہ قدامت پسندی ہے ، ‘‘اس عورت سے خوبصورت کوئی نہیں اس دنیا میں جو صرف اور صرف اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے پردہ کرتی ہو‘‘

جس طرح اللہ نے شریعت مطہرہ میں حیاء کا یک مقام اور اہم درجہ بیان فرمایا اور اسے اپنانے کا حکم فرمایا اسی طرح بے حیائی ، بے شرمی اور فحاشی سے سختی سے منع فرما دیا۔چنانچہ پاکدامنی کو بہترین عبادت قرار دینے  کے بعد اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے۔’’شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے۔‘‘ جب کہ اللہ تعالی بے حیائی سے روکتا ہے۔چنانچہ فرمایا:’’ یقیناً اللہ عدل، نیکی، قرابتداروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برے کاموں اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔‘‘

سورۂ اعراف میں فرماتا ہے:’’ کہہ دیجیے میرے پروردگار نے ہر قسم کی اعلانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے۔فحش کی تعریف کرتے ہوئے راغب اصفہانی کہتے ہیں:’’ہر بری شے کو فحش کہتے ہیں چاہے اس کا تعلق فعل سے ہو یا قول سے۔‘‘(مفردات راغب،ص ۳۷۴ )

ان تمام ارشادات کوسامنے رکھتے ہوئے ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہمارے حیاء و عفت والے معاشرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یورپ کے ننگے اور شرم و حیاء سے عاری معاشرے میں ڈھالنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں ، دن رات فلموں ، ڈراموں ، اخباروں ،حیاء سوز لٹریچروں ،مغربی مخلوط تہواروں اور مخلوط طرزِ تعلیم  کے ذریعے ہماری نوجوان نسلوں کومادر پدر آزاد معاشرے کی طرح آوارگی کا  درس دیا جارہا ہے ۔ اگر یہ سب کچھ ایسے چلتا رہا اور اس پر شرفاء اور نیک لوگ خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہےتو ایک دن ہم سب ننگِ دین و ننگِ ملت بن کر شرم و حیاء سے عاری ہوجائیں گے اور اپنا  وقار و  تہذیب سے محروم ہوجائیں گے اور جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر متعارف کرانا چاہتے اور مسلم معاشرے میں اسے رائج کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے بارے سورۂ نور کی اس آیت میں وعید ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہے۔“ یعنی وہ تمام ذرائع اور وسائل جس سے فحاشی وعریانی اور بے حیائی کی اشاعت‘ بے راہروی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلیں ممنوع اورحرام ہیں۔

یہ سوچنے اور خاموش بیٹھے رہنے  کا وقت نہیں ،ہمیں  حیاء ،پاکدامنی اور عفت کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہوگا ، اس کا سب سے پہلا اور مؤثر مرحلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا اور خود کو حیاء و پاکدامنی کے زیور ِ حسن سے آراستہ کرنا ہوگا ، تبھی ایک پاکیزہ اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔

حجاب! خواتین کا محافظ



محمد مبشر بدر

اللہ تعالیٰ نے عورت کو شرم و حیا   کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے۔بلکہ یہ چیزیں اس کی فطرت اور جبلت میں شامل کردی گئیں ہیں۔ چنانچہ وہ فطری طور پر حیادار اور عفت پسند ہوتی ہے۔اس کی مثال ایک خوبصورت نگینے کی سی ہے جس کی طرف آنکھیں متوجہ ہوتیں  اور ہاتھ چھونے کے لیے بڑہتے ہیں ۔ اگر اسے چھپا کر نہ رکھا جائے تو چوروں کی نظریں اس کے تعاقب میں رہتی ہیں تاکہ موقع پا کر اس کی نزاکت پر حملہ کردیں ۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے  اسے  پردہ کرنے کا حکم دیا،  دورِ جاہلیت کی طرح گھروں سے باہر نکلنے سے منع کیااور اجنبی مردوں سےکھردرے  لہجے میں بات کرنے کا امر دیا ہے تاکہ کسی بدباطن شخص کی طبیعت میں نرم گفتگو کی وجہ سے فتور واقع نہ ہو جائے ۔

پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لیے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کو باہمی اختلاط سے روکا گیا؛ تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ خصوصیت اب تک باقی تھی اور تقریباً پچاس سال سے غیروں کی حیاسوزی کی تحریک؛ بلکہ یلغار سے ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس اور حد درجہ ماتم کی چیز یہ ہے کہ اس کا مقابلہ اورفحاشی کا خاتمہ کرنے اور اس پر روک لگانے کے بجائے بعض مسلم دانشوران اس کوشش میں ہیں کہ بے حجابی کو جواز کا درجہ دے دیا جائے؛ بلکہ بعض نے تو چہرہ کے حجاب کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے اور اس بات کا دعوی ہی نہیں؛ بلکہ دعوت دینی شروع کردی ہے کہ چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کو کھلا رکھا جائے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیتے ہوئے  فرماتا ہے:’’ اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ‘‘(سورۃ الاحزاب،آیت: ۵۹ )
اسلام نے یہ بتایا کہ عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہے:

ترجمہ : اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔ (سورۃ الاحزاب: ۳۳)
اس سے ظاہر ہے کہ نمائش کے لئے بن سنور کر نکلنا درست نہیں البتہ کسی ضرورت کے لئے باہر نکلنا شرعا جائز ہے چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔ ترجمہ: ’’ تم کو اپنی ضرورتوں کے لئے باہر نکلنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔‘‘

لیکن اس کے لئے اصول وقوانین دے گئے ہیں کہ وہ کس طرح پردہ کا اہتمام کریں کیونکہ پردہ ان کی عفت وعصمت کا محافظ ہے اور عفت وعصمت عورت کا جوہر ہے ، جس عورت کا یہ جوہرداغ دار ہوجاتاہے وہ اخلاق کی بلندی سے اتر کر قعر مذلت میں جا پڑتی ہے اس لئے پردے کا حکم دیا گیا۔

حجاب کے درجات
اسلام نے عورت کے اصولی طور پر گھر میں رہنے اور بوقت ضرورت باہر نکلنے ہردو صورتوں میں پردے کے معتدل ومتوازن حدود وقیود مقرر کئے ہیں ۔

پہلا درجہ:  حجاب کے سلسلہ میں پہلا درجہ حجاب اشخاص کا ہے کہ عورتوں کا شخصی وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو ، وہ اپنے گھروں میں رہیں اور ان کے لباس وپوشاک پر بھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے ، یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے چنانچہ اس سلسلہ میں باری تعالی کا ارشاد ہے ۔: ’’ اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔‘‘  (سورۃ الاحزاب:۳۳ )
اور ارشاد خداوندی ہے: ’’ اور جب عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۵۳)
جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد اور مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:
’’ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں ، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سے ارشاد فرمایا : ان سے پردہ کرو!حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تونا بینا ہیں ، ہم کو تو وہ دیکھ نہیں سکتے ، آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم بھی نابینا ہو؟ اور فرمایا : تم ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘

دوسرا درجہ : ضرورت کے وقت عورت کو جب باہر نکلنا پڑے تو حکم دیا گیا کہ وہ کسی برقع یا لمبی چادر کو سرسے پیر تک اوڑھ کر نکلے ، اس طرح کہ بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہواور وہ خوشبولگائے ہوئے نہ ہو، بجنے والا کوئی زیور نہ پہنے ، راستہ کے کنارے پر چلے ، مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

ترجمہ: ’’ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی ازواج مطہرات و بنات طیبات اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنے اوپر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں ، اس سے بآسانی ان کا شریف زادی ہونا معلوم ہوجائے گا ، انہیں ستایا نہیں جائے گا۔(سورۃ الاحزاب: ۵۹ )

تیسرا درجہ:  گھر کے اندر رشتہ داروں ، عزیزوں ، ملازمین واحباب کے آنے جانے اور انفرادی واجتماعی طور پر کھانے پینے سے منع نہیں کیا گیا البتہ اس سلسلہ میں اصولی ہدایات دی گئیں :

ترجمہ: ’’ اور آپ حکم فرمادیجئے ایماندار عورتوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی اور نہ ظاہر کیا کریں اپنی آرائش کو مگر جتنا اس سے خود بخود نمایاں ہو اور ڈالے رہیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ، نہ ظاہر ہونے دیں اپنی آرائش کو مگر اپنے شوہروں کے لئے یا اپنے باپ کے لئے یا شوہر کے باپ کے لئے یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں کے لئے اپنے بھانجوں کےلئے یا اپنی ہم مذہب عورتوں پر یا اپنی باندیوں پر یا اپنے ایسے نوکروں پر جو عورت کے خواہشمند نہ ہوں یا ان بچوں پر جو عورتوں کی پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہوں اور نہ زور سے ماریں اپنے پاؤں زمین پر کہ معلوم ہوجائے وہ بناؤسنگار جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں اور رجوع کرو اللہ کی طرف تم سب اے ایمان والو تاکہ تم بامراد ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃ النور:۳۱ )

جہاں تک مرد اور عورت کے تعلق کا مسئلہ ہے تو اس میں بعض ایسے رشتے آتے ہیں جو فطرۃ ً عورت کی عصمت وعفت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں یہ وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہے ، ان کو محارم کہتے ہیں جیسے باپ ، دادا ، نانا، بھائی چچا، ماموں ، بھتیجا، بھانجہ ، پوتا ، نواسہ، خسر، وغیرہ اور بہت سے وہ رشتے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز ودرست ہے ان کو غیر محارم کہا جاتاہے جیسے چچازاد بھائی ، ماموں زاد بھائی ، خالہ زاد بھائی ، پھوپھی زاد بھائی ، دیور جیٹھ وغیرہ ۔ اوریہ ایک فطری بات ہے کہ تمام رشتے آپس میں برابر نہیں ہوسکتے ، بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھتی ہی نہیں اور وہ خود اس کی عفت وعصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ، اور بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھ سکتی ہیں اس لئے اسلام نے پردہ کے احکام میں بھی فرق کردیا ہے ، اس لحاظ سے اس کی دوقسمیں بنتی ہیں۔
عورت کے پردہ سے متعلق احکام قرآن مجید کی سات آیات میں بیان کئے گئے ہیں ۔ سورۂ نور کی تین آیات اور سورۂ احزاب کی چار آیات ۔پردے کے بارے میں تقریبا ستر(۷۰) احادیث شریفہ میں احکام بتلائے گئے ہیں۔

شوہر سے پردے کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ اپنی بیوی کے سرسے لیکر قدم تک کے ہر حصۂ بدن کو دیکھ سکتا ہے تاہم آداب میں یہ بات داخل ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ کو نہ دیکھیں۔

وقال الحنفية من الادب ان يغض کل من الزوجين النظر عن فرج صاحبه - (الموسوعۃ الفقھیہ ، ج۳۱ ،ص:۵۳ )

البتہ باپ دادا اور دیگر محارم سے پردے کے سلسلہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ عورت ناف سے لیکر گھٹنے تک ، پیٹ پیٹھ اور ران کو مستور رکھے ۔محارم میں سے کسی کو بھی ان اعضاء کے دیکھنے کی اجازت نہیں ، ان کے علاوہ دیگر اعضاء جیسے چہرہ ، سر، پنڈلی اور بازو وغیرہ تو اس کو دیکھنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

پیر، 30 مارچ، 2015

تقلیدِ شخصی کیوں واجب ہے؟



محمد مبشر بدر

پوری امت ایک راستے پر چلتی چلی آرہی ہوتی ہے ۔ اس کا ایک منہج ، ایک نظریہ اور ایک فکر ہوتی ہے ۔ گویا ایک اجتماعیت ہوتی ہے جس میں اس کی قوت و مضبوطی پنہاں ہوتی ہےپر فساد اور انتشار کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جہاں سے اس کے منہج و نظریئے کی یا تو غلط تعبیر و تشریح کی جائے یا اس کے سابق منہج سے سرمو انحراف کرکے الگ راہ نکال لی جائےاور سبیل ِالمؤمنین کی مخالف راہ اختیار کی جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے اور فتنہ ، فساد اور انتشار کو ہوا ملتی ہے ۔

قدرت نے جس طرح اسلام کی بقا کی ضمانت لی ہے جو بذریعہ نزولِ ملائکہ نہیں کہ فرشتے اتریں اور  اسلام کی اشاعت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں بلکہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کو گروہِ انسانیت میں سے پیدا کرکے اپنے پیغام کی تبلیغ کرائی گئی ٹھیک اسی طرح اسلام کی حفاظت کے لیے ایسے رجالِ کار کو امتِ مسلمہ میں پیدا فرمایا جنہوں نے اسلام کےنظریئے اور مزاج کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا اور تھکایا یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا۔

جناب رسول اللہ ﷺ جب تک موجود رہے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے مسائل کے حل کے لیے درِ رسول ﷺ پر حاضر ہوجاتے وہاں سے انہیں مسائل کا حل مل جاتا ۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ علیہ السلام نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا:

 ’’ میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تم میں زندہ رہوں گا۔لہٰذا  (فاقتدوابالذین من بعدی  ابی بکر ؓو عمرؓ ) تم میرے بعد ابو بکر ؓاور عمرؓ کی اقتداء کرنا۔‘‘(ترمذی۔ابنِ ماجہ۔مستدرک)

 اس امر کی تعمیل میں لوگ آقا علیہ السلام کی رحلت شریفہ کے بعد سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آنے لگے۔جب کہ صحابہؓ کرام  میں اجلہ صحابہ ؓ  کی ایک معتد بہ تعداد منصب اجتہاد کو پہنچی ہوئی تھی  جنہیں آقا علیہ السلام کے علم کا وافر حصہ ازبر تھا وہ لوگوں کو نئے پیش آمدہ مسائل کا حل بتایا کرتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب شریعت کے تمام مسائل مدون اور مرتب نہیں ہوئے تھے اس لیے کسی ایک عالم کی اتباع کا اس درجے اہتمام نہیں تھاکہ اس کے سوا دوسرے عالم سے رجوع جائز نہ ہو،  بلکہ لوگ کسی ایک عالم سے رجوع کرتے تو کبھی دوسرے سے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی عالم کے تقویٰ ، تبحرِ علمی  اوراس پر  اعتمادِ خاص کی وجہ سے لوگ اسی سے ہی تمام یا اکثر مسائل میں  رجوع کرتے ، اس کے ہوتے ہوئے دوسرے سے رجوع مناسب نہ سمجھتے ۔اور اس سے اس مسئلے کی دلیل بھی طلب نہیں کرتے تھے بس  تقویٰ اور تبحرِ علمی پر ہی اعتماد کرتےتھے اور یہی اصطلاح میں تقلید کامطلب ہےکہ ’’مجتہد کے قول پر بغیر مطالبۂ دلیل عمل کرنا اس حسنِ ظن کے ساتھ کہ  وہ قرآن و سنت سے ماخوذ اور  مطابق ہے۔

اس نوعیت کی ایک روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ’’ اہلِ مدینہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا کہ ’’کیا جب عورت حیض میں مبتلا ہوجائے تو اس کے لیے طواف زیارت کے بعد طواف ِ وداع چھوڑ کر اپنے وطن جانا جائز ہے؟‘‘جواب میں سیدنا ابن ِ عباس ؓ نے جواز کا قول فرمایا جس پر لوگ کہنے لگے ہم آپ کی بات لے کر سیدنا زید ؓ کی بات نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ عورت کے لیے طوافِ وداع چھوڑ کروطن جانا جائز نہیں۔اس کی وجہ حضرت زید رضی اللہ عنہ پر ان کا زیادہ اعتماد تھاتبھی سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے پر توجہ نہ دی پھر جب سیدنا زید ؓ تک حدیثِ صفیہ ؓ پہنچی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا۔یہ اس بات کی مثال تھی کہ لوگ اپنے اعتماد والے عالم پر دیگر علماء کی نسبت زیادہ رجوع کرتے تھےاور اس کے فتاویٰ کو دوسرے علماء کے فتاویٰ پر ترجیح دیتے تھے۔

یہ سب اس وقت تھا جب مذاہب مدون نہ تھے ۔ ان  کے اصول وضع نہیں ہوئے تھے۔اس لیے لوگ کسی خاص فقہ کے پابند بھی نہ تھے۔بس بعض تو مختلف علماء  سے جہاں موقع ملتا رجوع کرلیا کرتے اور بعض اپنے معتمد علیہ فقیہ کے فتاویٰ پر انحصار کرتے۔خیرالقرون کے زمانے میں فقہاء مجتہدین کی کمی نہ تھی، وہ  ہزاروں کی تعداد میں تھے جو بلادِ اسلامیہ میں پھیلے ہوئے تھے۔لیکن جو مقبولیت اللہ کی طرف سے فقہائے اربعہ امام ابوحنیفہ ،امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کو حاصل ہوئی وہ کسی کو حاصل نہیں ہوئی ۔سب سے پہلے جدید پیش آمدہ مسائل کی تدوین کی طرف سیدنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ متوجہ ہوئے انہوں نے باقاعدہ قرآن و سنت میں غور و خوض کر کے فقہ کے اصول مرتب فرمائےاور یوں سلسلہ چل نکلا اور وقت گزرنے کے ساتھ چار فقہ متعارف ہوگئیں جنہیں لوگوں میں قبولیتِ تامہ حاصل ہوئی۔جب کہ باقی فقہاء کو وہ مقام اور مقبولیت نصیب نہ ہوسکی یہاں تک کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا یاکہیں کسی کتاب میں ان فقہاء کا کوئی ایک آدھ قول مل جاتا ہے۔جب کہ مدون اور مرتب صورت میں ان چار فقہ کو شہرت حاصل ہوگئی۔ جن کا ماخذ صرف اور صرف قرآن و سنت تھا  نہ کہ خواہشاتِ و ہوائے نفس کی اتباع ، جن سے یہ فقہاء ماوراء تھے۔فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین اہلِ علم نے اس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام گوشوں سے متعلق مسائل حل فرما کر امت سے  استنباط و استخراج  کا بوجھ اتار دیا اور صحیح منہج امت کو دے گئے۔

یہ چاروں  فقہ عالمِ اسلام میں رائج ہوگئیں ۔ان کے مرتب اور مدون ہونے کے بعد انتظامی طور پر  لوگ کسی ایک فقہ جن پر ان کا اعتماد تھا عمل پیرا ہوگئے اور اپنی زندگی میں پیش آمدہ تمام مسائل کے حل کے لیے اس فقہ کے ماہر علماء سے رجوع کرنے لگے۔عالم اسلام کے تمام اہل علم کا ان مذاہبِ اربعہ کی حقانیت پر اجماع ہوگیا ۔در اصل یہی اہلسنت والجماعت کا اصلی مصداق ہیں جن سے عدول اہلسنت والجماعت سے خروج ہے۔

ان میں واقع ہونے والا آپس میں فقہی اختلاف در اصل احادیث مبارکہ اور اقوال و اعمال صحابہؓ کے اختلاف کی وجہ سے رونما ہوا ۔ہر فقیہ نے دلائل کی بنیاد پر ایک جانب کو راجح قرار دے کر دوسری جانب کو مرجوح قرار دیا ۔ ان میں سے کسی کو بھی قرآن و سنت کی مخالفت کرنے اور خواہشات پر عمل کرنے والا نہیں کہا جاسکتا ۔جسے بنیاد بنا کر یار لوگوں نے ان چاروں فقہ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے قرآن و سنت سے مخالف اور گمراہی کا موجب بنا کرپیش کیا (معاذاللہ) اور تقلید کے خلاف مکمل محاذ آرائی قائم کرلی اور امت کے متواتر و متوارث طریقے کے خلاف ایک الگ راہ اختیار کرکے خود کو مجتہد سمجھنے لگے۔

یاد رکھیے کہ غیر مجتہد پر چاروں فقہ میں سے کسی ایک فقہ کی تقلید لازم ہے اور یہ لزوم و وجوب کسی شرعی و قطعی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ انتظامی طور پر ہے جیسا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’سوہم تقلیدِ شخصی کو فی نفسہٖ فرض یا واجب نہیں کہتے ، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ تقلید شخصی میں دین کا انتظام ہے اور ترکِ تقلید میں بے انتظامی ہے۔‘‘(خطبات حکیم الامت ؒ: ج:۶ ص: ۱۷۲ )۔ اب یہاں سے اس  اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ بیک وقت  تمام فقہوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا صرف تقلید شخصی کو کیوں واجب کیا گیا ہے؟ اس کا جوا ب یہ ہے کہ  اگر تمام فقہوں کی بیک وقت تقلید جائز قرار دی جائے تو اس سے اتباعِ شریعت کے بجائے اتباعِ خواہشات لازم آتی ہے۔ خاص طور اس فساد کے دور میں جب کہ احکامات پر عمل کمزور پڑگیا ہے اور دین کے بجائے خواہشات کی اتباع کی جارہی ، لوگ ان فقہاء کے اقوال کو کھیل بنالیں گے ۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ  کے ہاں بدن سے خون نکلنا ناقضِ وضو نہیں ہے جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے۔اس طرح بیسیوں مسائل ہیں۔اب کوئی شخص اپنی آسانی دیکھتے ہوئے جس وقت جس پر چاہے عمل کرلے گا جب کہ یہ شریعت پر عمل تو نہ ہوا خواہشات کی تقلید ہوئی جسے حرام کہا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کے عظیم شارح علامہ نووی  ؒ نے اپنی کتاب ’’ المجموع شرح المہذب ، مقدمہ ، فصل فی آداب المستفتی ( ۱ ؍ ۵۵ ) ‘‘ میں لکھا ہےکہ ’’ اگر لوگوں کے لیے اپنی چاہت کے مذاہب پر عمل کو جائز قرار دیا جائے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہوگی کہ وہ ان مذاہب اربعہ کے رخصت اور آسانی والی مسائل کو چن کر عمل کرنے لگیں گے جو کہ خواہشات کی اتباع ہے نہ کہ شریعت کی۔ ‘‘

اسی وجہ سے علمائے کرام  رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ غیر مجتہد کے لیے ان چار مذاہبِ فقہیہ میں سے ایک کی تقلیداس طور پر واجب ہے کہ اس کے سوا پھر دوسرےمذہب کی تقلید نہ کرے۔‘‘ اور یہ وجوب انتظاماً ہے۔اللہ تعالی خواہشات کی اتباع سے محفوظ فرما کر اپنے دین کی اتباع کرنے کی اور امت کے سوادِ اعظم کے ساتھ چمٹا  رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تحریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند


 محمد مبشربدر

پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد اسی وقت سے ہی پڑ گئی تھی جب ملتِ اسلامیہ  کے عظیم جرنیل محمد بن قاسم ؒ نے ایک مسلمان بہن کی پکار پر ہندوستان پر لشکر کشی کر کے فتح حاصل کی  اور ایک عادلانہ حکومت قائم کرکے ہندؤوں کو ان کے حقوق دیئے جو اس سے قبل ہندو راجاؤں نے ضبط کیے ہو ئے تھے۔اس حسن سلوک ، نیکی اور عدل سے متأثر ہوکر لاکھوں ہندو حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے ۔ یہ سلسلہ برابر چلتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ کٹر بند ہندؤوں کو اسلام کی پھیلتی روشنی اور ہندوازم کا خاتمہ بالکل برداشت نہیں تھااسی لیے وہ مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کے جالے بنتے رہے۔

 جب کہ ادھر سرزمینِ ہند پر ایک بہت بڑی افتاد آن پڑی۔ تجارت کی غرض سے ہند میں وارد ہونے والے انگریزوں نے ہندوستان پر چڑہائی کر کے ناجائز قبضہ جمالیا ، مسلمانوں کی  مغلیہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ اس یلغار کو روکنے کے لیے علمائے اسلام میدان میں آئے جن میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں جو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ  کے مشن کے صحیح معنی میں جانشین تھے۔دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کےاساسی  مقاصد میں سے علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج ، تزکیہ ٔ نفوس اور انگریز کے خلاف جہاد شامل تھا۔ علمائے دیوبند نے  مسلمانوں میں اپنے ملک و ملت کو بچانے کے لیے انگریز کے خلاف جہاد کا شوق و ولولہ پیدا کیا جس کی بدولت انگریز کو ہندوستان سے  بھاگنا پڑااور یوں عملا ً تو ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن انگریز کے بنائے ہوئےکالے قوانین کی زنجیروں میں ایسی بری طرح  جکڑا کہ آج تک ان سے آزاد نہیں ہوسکا۔

انگریز کے چلے جانے کے بعد پاکستان میں ہندو  مسلم فسادات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے  دو قومی نظریے نے قوت پکڑی ۔مسلمان یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ انگریز کی مسلط کی ہوئی جمہوریت کی بنا پر ہندو بر بنا اکثریت  مسلمانوں پر حکمرانی کریں گے اور مسلمان ہندؤوں کی غلامی  میں پستے رہیں گے۔ اس وقت کے موجودہ حالات بھی ہندؤوں کے مکروہ عزائم کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ چنانچہ  مسلمانوں نے الگ اسلامی ملک کی صدا بلند کی جس میں وہ اسلامی احکامات کو نافذکرکے اسلام کے زیرِ سایہ اپنی زندگی گزار سکیں۔مسلمانوں کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

اسلامی سلطنت کے قیام کا خیال جو علامہ اقبال نے۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء آل انڈیا مسلم لیگ کےاجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں اپنے خطبہء صدارت کے دوران ظاہر کیاتھا بالکل وہی خیال ان سے بہت پہلے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی مجالسِ عامہ میں کئی بار ظاہر فرما چکے تھے، جس کا تذکرہ مولانا محمد علی جوہر کے دست راز اور کانگریس کے حامی مولانا عبدالماجد دریاآبادی اپنی کتاب ’’ نقوش و تأثرات ‘‘میں بیان کیا ہے۔یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے بارے ان لوگوں کی گواہی ہے جو کانگریس کے حامی اور نظریہء پاکستان کے مخالف تھے اور خود حضرت تھانوی ؒ سے متعدد بار اسلامی ملک کی تاسیس کے بارےسن چکے تھے۔

۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیں جس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانت المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی  کتاب شخصی اصلاح اور  اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح  کے لیے تھیں۔

جب مسلم لیگ  ۱۹۳۹ء  میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی اعظم مفتی شفیع  اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا ۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے ۔ ان کے ہزاروں متوسلین ، ،معتقدین اور خلفاء قصبہ قصبہ اور  قریہ قریہ  پھیلے ہوئے تھے۔

عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’ جب کونسلوں،میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمیعت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا سید حسین احمد مدنی فرمارہے تھےاور دوسری  مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے ، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ  اور پاکستان کی حمایت میں تھے ۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی ۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی شفیع اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر علمائے دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمیعت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو کم علمی اور تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا طوالت کے خوف سے اس عنوان پر پھر کبھی تفصیلاً روشنی ڈالوں گا۔

تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی ہیں ۔ مسلمانانِ ہند کو پاکستان کی طرف ہجرت پر ابھارنے والے علمائے دیوبند تھے۔ قائد اعظم کی تائید کرنے والے علامہ اشرف علی تھانویؒ تھے۔ مشرقی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ تھے ۔ مغربی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے حتی کہ قائدِ اعظم مرحوم نے اپنے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ پڑہائیں چنانچہ وصیت کے مطابق علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے ہی قائد ِاعظم کا جنازہ پڑہایا جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کے تعاون کے بغیر پاکستان کا بننا محال تھا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان میں ہر طبقے کی کوششیں شامل رہی ہیں لیکن جو امتیاز علمائے دیوبند کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں۔تحریک پاکستان میں علمائے دیوبند کے کردار کو جان بوجھ کر فراموش کیا جارہا ہے کیوں کہ اسلام مخالف سیکولر لابی اس ملک میں  اسلامی نظام نہیں چاہتی ،اس لیے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ نئی نسلوں کے ذہن سے یہ بات مٹ جائے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر قائم ہے اور اس میں علمائے اسلام کا بہت بڑا کردار ہے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...