جمعہ، 2 دسمبر، 2016

خدا پر دل مطمئن نہ ہو تو؟

                       
محمدمبشربدر
ایک دوست نے کہا : ’’ اگر مذہب انسان کو شعور سے کام لینے کی آزادی دیتا ہے تو پھر خدا پر دل مطمئن نہ ہو تو کیا اس صورت میں خدا کا انکار کیا جاسکتا ہے۔؟ ‘‘
عرض کیا :  خدا پر اسی کا دل مطمئن نہیں ہوگا جو علم کے ذرائع سے رہنمائی نہیں لے گا۔ علم کے تین ذرائع ہیں : حواسِ خمسہ ، عقلِ مجرد اور وحیٔ الٰہی ، اللہ نے انسان کو پانچ حاسے عطا فرمائے ہیں جن سے انسان کو کچھ چیزوں کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ آنکھ دیکھنے کا کام کرتی ہے ، کان سننے کا کام کرتا ہے، ناک سونگھ کر کسی چیز کی بو کا علم دیتا ہے ، زبان سے ذائقہ معلوم ہوتا ہے اور  ہاتھوں سے چھو کر کسی چیز کے ٹھنڈے ، گرم ، سخت اور نرم کا علم حاصل ہوتا ہے۔
ان میں سے  ہر ایک کی اپنی الگ حد ہے ۔ کیوں کہ ایک حد حواسِ خمسہ کی ہے ، جہاں یہ حد ختم ہوتی ہے وہاں سے عقل سے سوچنے کی حد شروع ہوجاتی ہے اور جہاں عقل کی انتہاء ہوتی ہے وہیں سے وحی کی ابتدا ہوتی ہے ۔ اب خدا کی تلاش میں تینوں سے رہنمائی کی ضرورت ہے ، اور یہ تینوں ذرائع خدا کے وجود کو دلائل سے ثابت کرتے ہیں ، یہ بتاتے ہیں کہ کوئی ایک ہے جو کائنات میں تصرف کرتا ہے ، وہ ایک اکیلا اللہ ہے جس نے ہر ایک کی الگ الگ حد مقرر فرمادی ۔
حواسِ خمسہ خدا کے ہونے کو بتاتے ہیں کہ کوئی تو ہے جس نے زبان کو چکھنے اور بولنے ، آنکھ کو دیکھنے ، کان کو سننے ، ناک کو سونگھنے  اور ہاتھ کو چھونے کی طاقت دی ہے۔ ایک حاسہ دوسرے حاسے کا کام نہیں کرتا ، مثلاً زبان سونگھنے اور کان بولنے کا کام نہیں کرتے ، جب کہ یہ ایک ہی گوشت سے بنے ہیں اس کے باوجود کام الگ الگ نوعیت اور جہت سے کررہے ہیں، ہر ایک حاسہ اپنے دائرے اور حد میں ٹھیک طرح سے کام  کررہا ہے ۔ آخر وہ کون سی ذات ہے جس نے ان کے دائرے اور حدیں مقرر فرمادی ہیں    ؟ کوئی تو ہستی ہے جس نے ان کی راہیں متعین کی ہیں ، کوئی ذات تو ہے جس نے ان کے عمل کو محدود کیا ہے ، یہ خود بخود تو ایسے نہیں ہوگئے اور نہ ہی یہ ایک اتفاقِ محض ہوسکتا ہے کیوں کہ اس جیسے اتفاق کی کوئی نظیر اور مثال عالم میں موجود نہیں ہے۔
اسی طرح عقل بھی خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام بغیر فاعل کے نہیں ہوتا ، ہر فعل کا کوئی نہ کوئی کرنے والا فاعل لازمی  ہوتا ہے ، ہر مصنوع  کا کوئی نہ کوئی صانع ضرور ہوتا ہے، جب ایسا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اتنی بڑی عظیم الشان کائنات از خود بغیر خالق کے کیسے وجود میں آئی۔؟ سورج بھی اندازے سے لگ گیا اور چاند کی بھی از خود منزلیں مقرر ہوگئیں ، اسی طرح ستارے بھی از خود جگمگانے لگےاور کہکشائیں بھی اپنے تئیں وجود پا گئیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ۔؟یہ نظام اتنا خوبصورتی اور صحیح اندازے سے جیسے وجود میں آگیا۔کیا یہ محض ایک اتفاق ہے ؟ پھر تو حسنِ اتفاق ہے!! ایسے اتفاق کی ملحدین کوئی ایک  مثال ہی پیش کردیں۔
اسی طرح وحیٔ الٰہی بھی خدا کے وجود پر دلائیل قائم کرتی ہے اس کے دلائل سے تو پورا قرآن بھرا ہوا ہے اس کا مطالعہ ہی انسانیت کو اندہیرے سے نکال دیتا ہے۔


پھر بھی خدا کے وجود پر کسی کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو اسے کج روی اور عناد ہی کہا جاسکتا ہے ، جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...