ہفتہ، 4 جنوری، 2020

آخر اک روز تو پیوندِ زمیں ہونا ہے


بقلم مفتی محمد مبشر بدر
آئیں ! کچھ دیر موت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کچھ عالم آخرت کی پہلی منزل کے بارے سوچتے ہیں۔  تھوڑا دنیا کے جھمیلوں سے وقت نکال کر آخرت کی وسعتوں کی طرف جھانکتے ہیں۔ انسان کو جہانِ دنیوی میں لمحاتِ زیست عطا ہوئے ہیں تو موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے جو تمام لذتوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ روئے زمین پر اللہ کے وجود کے منکر تو ملیں گے لیکن موت کا انکاری کوئی نہیں ملے گا۔ زندگی انسان کو عدم سے وجود میں لانے کا ذریعہ بنی تو موت انسان کو پھر سے عدیم بنا دیتی ہے۔ صدیوں سے انسان موت کا حل ڈھونڈنے میں لگا ہے، پھر بھی اپنی کوششوں میں ناکام ہے اور یہ ماننے پر مجبور ہے کہ موت کا کوئی علاج اور حل نہیں، موت سے کوئی مفر نہیں۔ اب انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے تجربات کررہا ہے اور اس کوشش میں ہے کہ مرے ہوؤں کو دوبارہ زندہ کر دے جو صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن  ہے۔ خالقِ موت و حیات  نے خود اپنی کتاب قرآن مجید میں فرما دیا:

اَۡ ینَمَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ  فِیۡ  بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ سورۃ النساء

یعنی " تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ پکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو۔"
موت انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی یہاں تک کہ مقررہ مقام پر پا کر اپنے پنجوں میں دبوچ لیتی ہے۔ پھر نہ تو انسان کو محفوظ قلعے بچا پاتے ہیں اور نہ ہی کوئی مضبوط تدبیر کار گر ثابت ہوتی ہے۔ تمام انسان، جن اور ملک زور لگا کر ایک انسان کو موت سے بچانا چاہیں تو بھی نہیں بچا سکتے۔ زندگی اور موت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی انسان کو پیدا کرتا ہے پھر اسے موت دے کر اپنے پاس اٹھا لیتا ہے، کچھ کو بچپن میں وفات دیتا ہے  تو کچھ کو جوانی میں اور کچھ بڑہاپے تک پہنچ کر فوت ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورہ نحل میں اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ یَتَوَفّٰىکُمۡ   ۟ ۙ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ  یُّرَدُّ   اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ  لِکَیۡ لَا یَعۡلَمَ  بَعۡدَ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ  قَدِیۡرٌ ﴿٪۷۰

ترجمہ : " اللہ تعالیٰ نے ہی تم سب کو پیدا کیا ہے، وہی پھر تمہیں فوت کرے گا، تم میں ایسے بھی ہیں جو بدترین عمر ( بڑہاپے ) کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے بوجھنے کے بعد بھی نہ جانیں۔ بیشک اللہ دانا  اور توانا ہے۔"

سورہ واقعہ میں فرمایا کہ ہم نے ہی انسانوں میں موت کو مقرر کررکھا ہے:

نَحۡنُ قَدَّرۡنَا بَیۡنَکُمُ الۡمَوۡتَ وَ مَا نَحۡنُ بِمَسۡبُوۡقِیۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾ سورہ واقعہ

ترجمہ : " ہم نے ہی تمہارے درمیان موت کے فیصلے  کررکھے ہیں، اور کوئی نہیں ہے جو ہمیں اس بات سے عاجز کرسکے۔"

سورہ انبیاء میں اللہ فرماتا ہے:

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ  الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ  فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا  تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۵

ترجمہ: " ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کررہے ہیں۔ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔"
مذکورہ آیت میں صاف فرمایا کہ انسان کی زندگی اور موت تو بس ایک آزمائش کے لیے ہے۔ موت کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کس نے کیسے اعمال کیے اسی کو سورہ ملک میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ"  اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ " انسان کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے۔ کسی نے ہمیشہ اس جہاں میں نہیں رہنا۔ انبیاء علیہم السلام جیسی مقدس ہستیاں بھی جہانِ فانی چھوڑ کر چلی گئیں، پھر ہماری کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ کسی  کو موت سے کوئی مفر نہیں۔ اگر کوئی موت سے بھاگنا بھی چاہے تب بھی نہیں بچ سکتا۔ چنانچہ فرمایا:

قُلۡ لَّنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ  فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ  اِلَّا  قَلِیۡلًا ﴿۱۶﴾ (الاحزاب)

ترجمہ: " اے نبی (ﷺ)! ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگا۔ اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا۔"

قُلۡ  اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِیۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡہُ  فَاِنَّہٗ مُلٰقِیۡکُمۡ  ثُمَّ  تُرَدُّوۡنَ  اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ  فَیُنَبِّئُکُمۡ  بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ٪﴿۸﴾ (سورۃ الجمعۃ)

ترجمہ: " کہو کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے، پھر تمہیں اس (اللہ) کی طرف لوٹایا جائے گا جسے تمام پوشیدہ اور کھلی ہوئی باتوں کا پورا علم ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کچھ کیا کرتے تھے۔"

سورہ ق میں فرماتا ہے:

وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ  الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ  تَحِیۡدُ ﴿۱۹
ترجمہ: " اور موت کی سختی سچ مچ آنے ہی والی ہے۔ (اے انسان!) یہ وہ چیز ہے جس سے تو بدکتا ہے۔"

موت کی سختی حقیقت لے کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ سکرات کا وقت ہے۔ جب انسان عالم بالا کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ گویا اللہ فرماتا ہے اے انسان! اب تک تو دنیا میں نعمتوں کے مزے میں تھا، تو نے آخرت کو بھلائے رکھا۔ اب موت کی سختی تجھے حقیقت دکھا رہی ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ جس حقیقت سے منہ موڑے چلتا رہا آج انسان کو اسی حقیقت سے سامنا کرنا ہے۔ انسان موت سے بدکتا اس وجہ سے ہے کہ موت کی تیاری نہیں کی ہوتی، آخرت کی ہولناکیاں آنکھوں کے سامنے آچکی ہوتی ہیں تب عزیز و اقارب کا ساتھ ہونے کے باوجود مرنے والا بدک رہا ہوتا ہے اور وحشت زدہ ہوتا ہے۔ تبھی  اللہ نے فرمایا کہ یہ وہ موت ہے جس سے تو بدکتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے جہاں موت کو کثرت سے یاد کرنے کی تاکید کی وہیں موت کی تمنا کرنے سے بھی منع کیا: چنانچہ ارشاد فرمایا: أكثروا ذكر هاذم اللَّذات: الموت  ( ترمذی) "لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو" دوسری حدیث میں ہے:

لا يتمنَّينَّ أحدُكم الموتَ لضُرٍّ نزل به، فإن كان لا بدَّ مُتمنِّيًا فليقل: اللَّهم أحيني ما كانت الحياةُ خيرًا لي، وتوفَّني ما كانت الوفاةُ خيرًا لي ( متَّفقٌ عليه)

ترجمہ: "تم میں سے کوئی کسی مصیبت کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے پس اگر اس کو لا محالہ کرنی ہی ہے تو اسے چاہئے کہ يہ کہے: اے اللہ مجھے زندہ رکھـ جب تک کہ زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہو اور مجھے موت دے جب موت میرے لئے بہتر ہو۔"

مؤمن کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ موت بدکردار اور برے انسان کے لیے بھیانک اور روح فرسا ہے تو مؤمن کے لیے خوشی کا مژدہ اور تحفہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "الموت تحفۃ المؤمن" یعنی موت مومن کا تحفہ ہے، مؤمن ہر وقت اپنے رب سے ملنے کا آرزو مند ہوتا ہے تبھی وہ ہر وقت اللہ سے ملاقات کی تیاری میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ  (البقرة: 46) یعنی " وہ لوگ جو  یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کریں گے اور یقیناً  اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔"

کافر بارے سورہ یونس میں اللہ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ ۙ﴿۷﴾ اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ۔ ترجم: " حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے ۔" صحیحین کی روایت میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے:

عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلممن أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه. فقلت: يا نبي الله أكراهية الموت؟ فكلنا نكره الموت. فقال: ليس كذلك، ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته أحب لقاء الله فأحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكره الله لقاءه۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ میں نے کہا یانبی اللہ ! کیا موت کی ناپسندیدگی مراد ہے؟ ( اگر ایسا ہے تو) ہم میں سے ہر کوئی موت کو ناپسند کرتا ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا یہ مطلب نہیں۔ مؤمن کو جب اللہ کی رحمت ، رضا اور جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے پس اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور ناراضگی کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔" (متفق علیہ)

پریشانی اس شخص کے لیے ہے جو من مانی کرتا رہا اور خواہشات کی پیروی کرتا رہا۔ مطیع و فرمانبردار کے لیے تو موت ایک عظیم نعمت ہے۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نےمزید  زندہ  رہنے  اور موت میں اختیار دیا ،  انہوں نے موت کو ہی پسند کیا۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " عقلمند آدمی وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور بے وقوف ہے وہ شخص جو اپنے آپ کو خواہشات پورا کرنے میں لگا دے اور اللہ پر (بخشش کی) امیدیں لگائے۔" چنانچہ ہمیں موت سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے، دنیاوی زندگی سے دھوکہ کھا کر مرنے کے بعد کے دن یومِ جزاء سے غافل نہیں ہونا چاہیے،  اس کے تقاضے پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ بقولِ شاعر: ؎    آخر اک روز تو پیوندِ زمیں ہونا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...