پیر، 6 نومبر، 2023

استاذ القراء قاری محمد ابراہیم رحیمی رحمہ اللہ ایک قابلِ رشک شخصیت

مفتی محمد مبشر بدر عفی عنہ

کچھ لوگ قابلِ رشک ہوتے ہیں، جو حقیقی کامیابیاں سمیٹ کر اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوجاتے ہیں اور اپنے لیے ذخیرہ  آخر ت اتنا جمع کرجاتے ہیں کہ ملائکہ بھی ان پر رشک کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رضا کے متلاشی  اور اس کی نازل کردہ کتاب کے خادم ہوتے ہیں۔ جن کی پوری زندگی قرآن  پڑھنے پڑھانے میں گزر جاتی ہے اور وہ مخلوق سے اس کا صلہ و بدلہ نہیں چاہتے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: رشک دو آدمیوں کے سوا کسی پر جائز نہیں ایک اس  شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا علم دیا  اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا  آدمی جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔ (بخاری) قاری قرآن کی شان یہ ہے کہ گویا  وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتا ہے۔  ایک روایت میں ہے کہ "جنت کے درجات آیاتِ قرآن کے بقدر ہیں، قاری ء قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا جہاں آخری آیت ہو وہاں تمہارا مقام ہے۔"

محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قرآن پاک کے قاری نے گویا نبی کریم ﷺ کی زیارت کرلی" ( تنبیہ الغافلین) یہ خوش نصیب لوگ جن کی اللہ اور ملائکہ کے ہاں عزت ہے آج دنیا  کے طالب ان کی قدر و منزلت سے نا آشنا ہیں۔ یہ قابلِ رشک لوگ بروزِ محشر باعزت و باکرامت ہوں گے۔  شاعر ان پراسرار عبادِ ربانی کے بارے کہتا ہے:

؎          یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر

انہی کے اتقاء پہ ناز کرتی ہے مسلمانی

 استاذ القراء خادم القرآن  قاری محمد ابرہیم رحیمی نور اللہ مرقدہ انہیں قابل رشک لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے قرآن مجید کی خدمت کے لیے خاص کیا ، انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن پڑہنے پڑھانے میں گزار دی ، اور یوں امت کے بہترین طبقے میں شامل ہوگئے چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَهُ  یعنی " تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے۔" دنیا میں بھلا کوئی ان کی قدر جانے یا نہ جانے پر رسول اللہ ﷺ کی زبانی ان کا مرتبہ بیان کیا جاچکا کہ اللہ کے ہاں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

آپ  1940 ء کو ضلع مظفرگڑھ کے قصبہ شاہجمال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علاقے کے معروف عالم دین  اور مشہور قاری مولانا صالح محمد رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں خیر المدارس ملتان میں  استاذ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ سے قرآن کی تکمیل کی۔ آپ استاذ کے حد درجہ فرمانبردار اور تابعدار تھے۔ ایک مرتبہ قاری رحیم بخش رحمہ اللہ نے فرمایا: "ساری زندگی آپ نے جامع مسجد سنارے والی  شاہجمال  تحصیل و ضلع مظفرگڑھ میں اللہ کا قرآن پڑھانا ہے۔"  پس آپ نے رضائے  ربی میں استاذ کے حکم کی تعمیل کی اور ساری عمر جامع مسجد سنارے والی  میں گزار دی۔ آپ نے 65 برس امامت اور تدریس میں صرف کیے اور ہزاروں لوگوں کے دلوں کو قرآن کی تعلیم سے منور کیا ۔

آپ کے شاگرد اور فیض یافتہ کرہ ارضی پر پھیلے ہوئے ہیں، نصف شہر سے زیادہ لوگوں نے آپ کے سامنے  زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ کے پڑھانے کا انداز انتہائی آسان اور عمدہ  تھا۔ جہاں پورے شہر میں سادہ قرآن پڑھانے کا رواج تھا، مخارج اور تلفظ کی صحیح ادائیگی پر توجہ نہیں دی جاتی تھی وہاں استاذ محترم قاری ابراہیم رحمہ اللہ تمام حروف کو ان سے مخارج سے ادا کرنے کا اہتمام فرماتے۔ چنانچہ ناظرہ پڑھنے والے بچوں کے مخارج اور الفاظ کی ادائیگی مشاق قراء کرام کی طرح عمدہ اور شستہ ہوتی۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا آپ رسول اللہ ﷺ کے ان  فرامین پر بدرجہ اتم عمل فرماتے: ’’اِقْرَئُوُا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ العَرَبِ وَأَصْوَاتِھَا‘‘۔ ترجمہ: " قرآن کو عرب کے لہجے اور ان کی آواز میں پڑھو۔" (شعب الایمان)   ایک اور روایت میں ارشاد ہے: ’’حَسِّنُوا القُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُم؛ فانَّ الصَّوتَ الحَسَنَ یَزِیْدُ القُرآنَ حُسْنًا۔ ترجمہ: " اچھی آواز سے قرآن کوپڑھاکرو؛اس لیے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن کوبڑھادیتی ہے"(شعب الایمان)

آپ سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا تاہم چند معززین علاقہ جن میں: " مفتی محمد اصغر (ملتان)، مفتی محمد حذیفہ و مفتی محمد جعفر( کراچی)، مولانا  زین العابدین (شاہجمال) ( فاضل دارالعلوم کراچی)، ( راقم الحروف)مفتی محمد مبشر بدر (فاضل دارالعلوم کراچی) مولانا عبد الخالق رحمانی( خطیب پاکستان کبیر والہ)، حافظ عبد الرحمٰن انصاری سابق جج ہائیکورٹ لاہور، حافظ عبدالشکور انصاری چیف انجینئر ایریگیشن آف پنجاب، قاری خدا بخش قصائی،قاری محمد اسماعیل شاہجمال (برادر)، قاری مولانا عبدالستار (شاہجمال)،  ڈاکٹر میاں محمد اقبال، ڈاکٹر محمد فرخ رضا، میاں محمد عمران دھنوتر، سابق چئرمین یونین کونسل شاہجمال مہر غلام علی جانگلہ وغیرہ سر فہرست ہیں جب کہ  آپ  جامعہ دارالقرآن فیصل آباد کے بانی و مہتمم قاری محمد یٰسین حفظہ اللہ اور جامعہ طیبہ  فیصل آباد کے بانی و مہتمم قاری محمد ابرہیم  رحمہ اللہ کے ہم در س و ہم سبق رہے ہیں ان کے علاوہ  مفتی محمد اصغر علی ربانی رحمہ اللہ (نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی)، قاری محمد ادریس صاحب مہتمم  جامعہ رحیمیہ ملتان، الحاج  قاری مولانا اکرام الحق انصاری رحمہ اللہ، الحاج قاری عبد الکریم مدنی (مدینہ منورہ) قاری محمد منظور صاحب ( خانگڑھ) ایسے عظیم لوگ آپ کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے ہیں۔

حضرت قاری صاحب پانی پتی لہجے میں اتنی عمدہ اور سحر انگیز  تلاوت فرماتے تھے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے اور داد دیے بغیر نہ رہتے۔ ہر لفظ کو اس کے مخرج سے سہولت سےادا فرماتے ۔ قریب و جوار کے لوگ ان کی تلاوت کے مداح اور خطباتِ جمعہ و عیدین کے دیوانے تھے۔

؎          وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ

 آپ نے سادہ اور درویشانہ زندگی گزاری۔ چہرہ ہشاش بشاش  رہتا اور جسے ملتے والہانہ انداز اور خندہ پیشانی سے ملتے ۔ سخی تھے اور لوگوں کی بخیلی اور کنجوسی پر نالاں رہتے اور انہیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا کہتے رہتے۔حرمین شریفین  سے  اس درجہ وارفتگانہ اور عاشقانہ تعلق تھا کہ اسباب و زر کی قلت  کے باوجود ایک حج اور تین عمرے کی ادائیگی کی سعادت مع اہلیہ محترمہ حاصل کی۔ آپ کی محنتوں اور کاوشوں سے کئی لوگوں کے عقیدے درست ہوئے اور کئی صالحین بنے۔ ملامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے دور اقتدار میں آپ نے افغانستان کا سفر کیا۔

آپ نے 83 سال کی عمر میں  19 ستمبر بمطابق 2 ربیع الاول بروز منگل صبح 9 بج کر 20 منٹ پر تمام اعزاء و اقارب، مقتدیوں، شاگردوں، اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کیا ۔ اپنے پیچھے ایک بیوہ  چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔ جن میں سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں الحمدللہ حافظ قرآن  اور حضرت استاذ محترم کے لیے ذخیرہ آخرت ہیں۔ آپ کے بیٹوں میں قاری محمد اسحاق، قاری محمد محبوب احمد اور قاری محمد ایوب صاحب شعبہ امامت و تدریس قرآن سے منسلک ہیں جبکہ ماسٹر محمد یعقوب صاحب گورنمنٹ سکول شاہجمال کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ قاری محمد ابرہیم رحمہ اللہ کی وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے چھوٹے بیٹے قاری محمد ایوب الرحمٰن  حفظہ اللہ نے  گورنمنٹ ہائی سیکنڈری سکول شاہجمال میں پڑہائی۔ آپ کا جنازہ  شاہجمال کی تاریخ کا ایک عظیم  جنازہ تھا جس میں تمام مسالک کےجید علمائے کرام اور قراءِ عظام کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اللہ کی اس عظیم شخصیت قدسیہ  پر کروڑوں رحمتیں ہوں اور ان کی قبر نور سے منور ہو۔ اللہم آمین

؎         تیری جدائی پہ مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

          مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ا بھی تک یقیں نہیں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...