پیر، 20 فروری، 2017

عفت مآب کا پردہ اور مغربی فریب

 محمد مبشربدر

ہم سب مسلمان ہیں لیکن اسلامی تہذیب سے باغی ہو کر یورپی تہذیب و تمدن کو حرزِ جان بنائے جارہے ہیں۔ اسلام جو شرم ، حیا اور شرافت جیسے اوصاف انسانوں کو سکھاتا ہے اس دین متین کی تعلیمات سے ہم کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی چیز ایمان ہے اس کے بعد عزت و ناموس ہے ، ان کے چھن جانے کے بعد انسان کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا ۔ ایمان جانے سے آخرت تباہ ہوجاتی ہے جب کہ عزت چھن جانے سے دنیا ہاتھ سے چلی جاتی ہے۔

آج جدیدیت کا فتنہ ہمارے ایمان و عزت دونوں پر حملہ آور ہے ۔ یورپی تہذیب ہمیں ظاہری و باطنی دونوں لباسوں سے عاری کررہی ہے، ہماری نسلیں آج جدیدیت کا شکار ہوکر اپنے ماضی سے اپنا رشتہ کاٹ رہی ہیں۔ ہم ایک بنیاد رکھتے ہیں اور ہماری بنیاد اسلام ہے ،۔ اس پر ہمیں فخر ہے ۔ یورپی تہذیب و تمدن شرم و حیا سے عاری ، حلال و حرام کے تقاضوں سے ناآشنا آج اپنی ظاہری اور  فانی چکاچوند کے نشے میں دھت ہے ، وہ اپنی خرافات مسلمانوں میں شامل کردینا چاہتا ہے ، یورپی دماغ مسلسل اسی سوچ میں سرگرداں ہیں کہ وہ کیسے مسلمان بیٹیوں کی چادر سروں سے اتروا کر بازاروں اور چوکوں میں گھمائیں پھرائیں۔ مسلمانوں کی نسل کو آوارگی کا درس دیں اور انہیں صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیں۔

آئے روز نئے فیشنوں نے تمام حدیں پار کرلیں ہیں، مسلم ممالک کے بازار خواتین سے بھر چکے ہیں ۔ جہاں مرد کم اور خواتین زیادہ پائی جاتی ہیں۔ وہ مسلم عزت مآب بہنیں جو گھر کی ملکہ ہوا کرتی تھیں آج بازاروں کی زینت بن رہی ہیں۔ خواتین کے کثرت سے بڑہتے فیشن کی وجہ سے آج خواتین سے متعلق اشیاء کی قیمتیں مردوں کے مقابلے میں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔

اہلِ مغرب کی طرف سے دخترانِ مشرق کو یہ پٹیاں پڑہائی جارہی ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکل کر دنیا کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ چلیں ، چاہے اس دوڑ میں اس کا  شانہ ہی نہ رہے۔ مغربیت سے مرعوب مسلم بیٹی ذرا اپنے بند ذہنیت کے دریچے کھول کر سوچے ، کیا گھرکی چار دیواری میں پرسکون اور محفوظ زندگی بہتر ہے یا دوکان ، دفتر اور پبلک مقامات پر گزرتی غیر محفوظ اور دشوار زندگی۔ ؟ بھلا دن بھر کی تھکی ہاری اور دھکے کھاتی عورت جب شام کو گھر پہنچے گی اور  اپنے شوہر کی قربت میں بیٹھے گی تو کیا وہ ذہنی و جسمانی آسودگی کے ساتھ اپنے میاں کو وہ محبت و الفت دے پائے گی جو ایک گھریلو خاتون دیتی ہے۔؟ کیا وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت اسی طرح کرسکتی ہے جیسے ایک چار دیورای میں بیٹھی یکسو عورت اپنے آنگن میں بچے کو چلنا سکھاتی ہے ۔؟ ہر گز نہیں ! لامحالہ جیسا سکون اور یکسوئی گھر میں امورِ خانہ داری کے سرانجام دینے میں ہے ویسی باہر  تو نہیں ہوسکتی جہاں سوائے ذلت کے اور کچھ نہیں ہے۔

خالقِ کائنات نے عورت کو بنایا ہی اس طرز پر ہے کہ اس کی آواز اور جسم کی ملائمت کی طرف ہر مرد کی نگاہ اٹھتی اور اسے پوری طرح گھورتی ہے۔ اس کی نسوانی کشش لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔ اس کے لیے عورت کی عزت اور ناموس کو بہت سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ، جس سے بچنے کے لیے کوئی لائحہ عمل اور قانون کا ہونا ضروری ہے ، جس پر عمل درآمد کروا کر صنفِ نازک کو نامحرموں کے حملوں سے بچایا جاسکے۔اس کے لیے جو نظام انسانیت کو اسلام دیتا ہے اس سے زیادہ محفوظ اور محتاط نظم اور کوئی نہیں ہے ، جس پر  عمل پیرا ہوکر عزت و ناموس کی بہتر طریقے سے حفاظت کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ کارگر نہیں ہوسکتا، چاہے جتنا مرضی عورت کو کھلی چھوٹ دے کر سخت سے سخت قوانین بنا لیے جائیں۔اگر ایسا ہوتا تو امریکہ و برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر آزادانہ ماحول کے پروردہ ممالک میں عورت محفوظ ہوتی حالانکہ وہاں مرد سے زیادہ عورت کو سپوٹ کیا جاتا  ہے اور وہاں کا آئین مرد کی بنسبت عورت کو زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے، حتیٰ کہ کنواری ماں بننے والی لڑکیوں کے لیے بھی قوانین بنا دئیے گئے ہیں اور انہیں تحفظ دیا گیا ہے۔اس سب کے باوجود وہ  عورت کے ساتھ ہوتی زیادتی اور تشدد روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

یورپ میں ساٹھ سے ستر فیصد خواتین جسم فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں ۔ لاکھوں عورتیں ہر سال جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ امریکہ میں حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی جتنی تنظیمیں کام کررہی ہیں ان کی رپورٹس میں موجود ہوتا ہے کہ ہر سال ساٹھ یا ستر فیصد خواتین اپنے باس یا سینئر کے ہاتھوں جنسی بلیک میلنگ یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔

عورت کو آزادی کے نام پر دی جانے والی غلامی آج واضح ہوچکی ہے اور صنف ناک آج پہلے سے زیادہ جکڑ بندیوں میں پھنس چکی ہے ۔ آج بھی عورت معاشی بھاگ دوڑ کے ساتھ اپنے گھر کو بھی خود ہی چلارہی ہے، مرد ان کےساتھ امورِ خانہ داری میں بالکل ہاتھ نہیں بٹاتے ۔ ڈاکٹر عابد علی مغرب کی طرف سے عورت کی نام نہاد آزادی سے متعلق لکھتے ہیں:

’’یورپ کے مرد نے جو عورت کو آزادی دی، وہ بظاہر آزادی تھی، لیکن حقیقی آزادی نہ تھی، اس آزادی و مساوات کا محض یہ مطلب تھا کہ مرد عورتوں سے ہر جگہ خدمت لیں، نوکریاں کروائیں اور بھاری بوجھ اُٹھوائیں اور مردوں کی عیاشی کا آسانی سے شکار بن سکیں۔‘‘

حقیقت بھی یہی ہے کہ عورت کو آج دل بہلانے کا کھلونا بنا لیا گیا ہے ۔  اسلام نے جو تقدس عورت کو ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی کی صورت میں دیا ہے اس کی کہیں سے بھی مثال نہیں لائی جاسکتی۔عورت کی تخلیق اس لیے نہیں کہ اسے پروڈکٹس پر چسپاں کرکے فروخت کیا جائے ، اور اشتہارات میں اس کے جسم کی عریاں نمائش کرا کر اس کی بولی لگائی جائے ، بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے لیے تخلیق ہوئی ہے۔ جیسے مرد کی تخلیق کا مقصد ہے اسی طرح عورت بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اسی کی وجہ سے کائنات میں رنگ اور روشنی ہے۔ اسی سے خاندانوں کی بقا اور تسلسل ہے۔ عورت چھپا کر رکھنے کے لائق ہے اسے سب کے سامنے ظاہر کرنا  اس کی عزت اور مرتبے کو گرانا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...