منگل، 28 فروری، 2017

فرشتوں کی حقیقت اور ماہیت


 محمد مبشربدر
          ملائکہ ’’ ملک ‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی مالک ، اور اقتدار کے آتے ہیں۔ ان میں تصرف قدرت اور امر کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے۔رب العٰلمین کی طرف سے انہیں بعض امور سپرد کیے جاتے ہیں اسی بنا پر انہیں ملائکہ کہا جاتا ہے۔ان کا وجود برحق ہے اور ان پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے۔ ان کا انکار اسلام سے نکال دیتا ہے۔ فرشتے نور سے بنے ہیں اور یہ وہ نور نہیں جو اللہ تعالیٰ کا نورِ قدیم ہے کیوں کہ فرشتے مخلوق اور حادث ہیں اور اللہ تعالیٰ کا نور ذاتِ باری تعالیٰ کی صفت ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔فرشتوں کی کوئی خاص ہیئت اور صورت نہیں ہوتی بلکہ وہ لطیف اور نورانی ہوتے ہیں قدرت کی طرف سے انہیں خاص ملکہ ملا ہوا ہے جس سے وہ جس طرح کی صورت چاہییں اختیار کرسکتے ہیں۔
          تفسیرِ بیضاوی میں درج ہے ۔: فَذَھَبَ اَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ إلیٰ أَنِّھِا أَجْسَامٌ لَطِیْفَۃٌ ، قَادِرَۃٌ عَلیٰ التَّشَکُّلِ بِاَشْکَالٍ مُخْتَلِفَۃٍ ۔
’’ پس جمہور مسلمانوں کے مطابق ملائکہ وہ لطیف نورانی اجسام ہیں جنہیں ( اپنی لطافت اور نورانیت کے باعث ) مختلف کلیں بدلنے قدرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
           حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ نے نقل فرماتی ہیں کہ :
’’ فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ، جنات کو شعلہ زن آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا جو تمہارے سامنے (  من جانب اللہ  ) بیان کی گئی یعنی  ( مٹی سے )۔ ( مسلم )
          فرشتے لاتعداد اور اتنی کثرت سے ہیں کہ پیدا کرنے والے کے سوا ان کے بارے اور کوئی نہیں جانتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی معراج والی روایت میں ہے :
’’ نبی اکرم ﷺ جب آسمان پر ’’ بیت المعمور ‘‘ پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ہرروز ستر ہزار فرشتے نماز پڑہتے ہیں اور جو اس میں ایک بار نماز پڑھ کر چلا جاتا ہے دوبارا اس میں لوٹ کر نہیں آتا ، یعنی پھر اس کی کبھی واپسی کی نوبت نہیں  آتی ۔ ( بخاری ومسلم )
قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر فرشتوں کی خصوصیات اور ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ،ہواؤں ، بادلوں اور دیگر انسانی ضروریات پر مامور کیے گئے ہیں ، حتیٰ کہ ان کی اہمیت کے پیشِ نظر ان پر ایمان لانے کو ایمانیات میں شامل کرکے انہیں خدا ، رسول اور کتاب اللہ کی صف میں کھڑا کیا ہے ، جو ان کی اہمیت کی دلیل ہے۔
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ۔
’’ یہ رسول ( یعنی حضرت محمد ﷺ ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور (ان کے ساتھ ) تمام مسلمان بھی ، یہ سب اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ ( البقرہ)
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی سرشت اور طبیعت میں اپنی اطاعت اور فرمانبراداری لکھ دی ہے وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرسکتے یہ چیز ان کی طبیعت میں بھی نہیں ہے۔وہ ازخود کوئی قدرت نہیں رکھتے بلکہ اپنے ذمہ امور کو سرانجام دیتے ہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے۔
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔
’’ وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور انہوں جو حکم کیا جاتا ہے وہ بجا لاتے ہیں ۔‘‘(النحل)
ایک اور جگہ فرمایا: لَا یعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَھُم وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔
’’ انہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم  دیا جائے بجالاتے ہیں۔‘‘ ( تحریم)
قرآن پاک میں جن فرشتوں کا ذکر ہوا ان میں سے چار مشہور فرشتے جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل اور عزرائیل  علیہم السلام ہیں ۔
جبرائیل علیہ السلام کو روح القدس ، روح الامین ، ذوی القوۃ المتین کہا گیا ہے، یہ تمام فرشتوں کے سردار ، سب سے طاقتور اور اللہ ہے ہاں بہت مرتبت والے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کے پاس پیغامِ خداوندی آپ ہی لاتے رہے ہیں۔شب معراج میں آپ کو حضرت محمد ﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔قرآن پاک میں ان کا نام تین مرتبہ آیا ہے جب کہ دیگر صفات سے ان کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔یہودیوں پر عذابات لانے کی وجہ سے یہود ان سے دشمنی رکھتے ہیں۔
میکائیل علیہ السلام کا قرآن پاک میں صرف ایک مرتبہ نام استعمال ہوا ہے ۔ ان کے ذمے بارش ، زمین ، نباتات اور لوگوں کی روزی کا انتظام ہے۔
اسرافیل علیہ السلام کے ذمے صور پھونکنے کی ذمہ داری ہے جو صور کو منہ میں لیے اللہ کے حکم کا انتظار کررہے ہیں ۔ ان کے صور پھونکتے ہی قیامت برپا ہوجائے گی۔یہ دو دفعہ صور پھونکیں گے۔ قرآن پاک میں ان کا نام  موجود نہیں جب کہ ان کی صفت صور پھونکنے کو متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ طَرْفَ صَاحِبِ الصُّورِ مُذْ وُکِّلَ بِه مُسْتَعِدٌّ يَنْظُرُنَحْوَ الْعَرْشِ مَخَافَةَ أنْ يُؤْمَرَ قَبْلَ أنْ يَرْتَدَ إِلَيْهِ طَرْفُه کَأنَّ عَيْنَيْهِ کَوْکَبَانِ دُرِّيَانِ ۔
’’بلاشبہ حضرت اسرافیل جب سے صور پھونکنے پر مقرر ہوئے ہیں تب سے تیار ہیں۔ عرش کے اردگرد اس خوف سے نظر کر رہے ہیں کہ انہیں نظر جھپکنے سے قبل حکم نہ دے دیا جائے، اس کی دونوں آنکھیں چمکدار ستاروں کی مانند ہیں ۔ ‘‘ ( مستدرک حاکم )
حضرت عزرائیل علیہ السلام کو ملک الموت بھی کہا جاتا ہے ، ان کے ذمے لوگوں کی روحیں قبض کرنا ہے۔ان کے ماتحت بہت سے فرشتے ہیں ۔ سورہ السجدہ میں اللہ فرماتا ہے:
قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ۔
’’  کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔‘‘
اس کے علاوہ کراماکاتبین جو انسان کے کندھوں پر ان کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں، سورۂ انفطار میں اللہ فرماتا ہے : وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَO كِرَامًا كَاتِبِينَO يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ O
’’یقیناً تم پر نگہبان عزت والے۔لکھنے والے مقرر ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔‘‘
ہاروت اور ماروت دو فرشتے جن کا ذکر سورہ بقرہ میں کیا گیا جو عراق کے شہر بابل میں بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے اتارے گئے تھے۔ ابرا ہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت اور قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے فرشتے، داروغہء جہنم  جسے مالک کہا گیا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کا عرش تھامے ہوئے آٹھ فرشتے اور سورۂ مدثر میں جہنم کے عذاب دینے والے انیس فرشتے ۔اسی طرح جو فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لیے بدر کے میدان میں اتارے گئے تھے، ان سب کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔
رعد نامی فرشتے کا ذکر بھی قرآن مجید میں ملتا ہے ، یہودیوں نے آقا علیہ السلام سےیہ سوال بھی کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر سے ادھر لے جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ گرج کی آواز کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: یہ اسی فرشتے کی آواز ہے۔
 قبر میں مردوں سے سوال کرنے کے لیے دو فرشتے مامور ہیں جنہیں منکر اور نکیر کہا جاتا ہے۔ یہ ہر انسان سے قبر میں تین سوالات پوچھتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...