اتوار، 6 نومبر، 2016

انسانیت کی ابتداء اور انتہاء


    محمد مبشر بدر
خلقتِ انسانی ایک انوکھے انداز میں ظہور پزیر ہوئی ، مٹی سے بنے انسان کو نورانی مخلوق پر ترجیح دے کر اسے مسجودِ ملائکہ کا اعزاز دینا قدرت کی زبردست حکمت تھی ۔ حضرتِ انسان کو وسیع و عریض اور پرتعیش جنت کی سیر کروا کر مقامِ اعلیٰ سے دنیا کے بے ثبات ،  بے مزہ اور پرمشقت مقامِ ادنیٰ پر آباد کرنا ایک بہت بڑے امتحان کی تمہید تھی، جہاں نہ جنت سا سکون میسر تھا ، نہ وہ راحت و چین ، نہ ہی ویسی  نعمتوں کی بہتات تھی اور نہ ہی وہ فراغ و لذت آفرینی۔

            فرشتے یہ دیکھ کر بول اٹھے’’ خدایا! یہ انسان دنیا کی وحشتوں میں کیوں کررہ سکے گا؟ جہاں نہ من مانی ہے اور نہ ہی جی بہلانے کا سامان ، نہ ہی لذت نفسانی کے اسباب میسر ہیں اور نہ ہی وہ حاکمانہ حیات ۔‘‘ ارشادِ باری ہوا ’’ ہم انسانوں کو زمین میں ایک خاص وقت تک کے لیے منفعت دیں گے پھر انہیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہوگا۔میں ان میں امید پیدا کردوں گا جس کی بنا پر یہ زمین پر بسیرا کریں گے۔ ان میں سے نیکوں کاروں کو جنت میں دوبارا وہی مقام عطا کروں گا جو ان سے چھن چکا ہے اور ان کے بدکرداروں کو جہنم کا ایندہن بناؤں گا۔

            چنانچہ انسان کو زمین پر بھیج دیا گیا اور اس کو خیر و شر کی دو راہیں سجھا دی گئیں  ’’ وَھَدَیْنَاہٗ النَّجْدَیْنِ ‘‘  اب اس کی مرضی ، چاہے اللہ کی رضا والے راستے پر چل کر کامیاب و سرخرو ہو یا شیطان کے نشاناتِ قدم کی اتباع کر کے گمراہی کے راستے پر خود کو ڈال دے اور ناکامی و نامرادی کو اپنے سر لے۔انسان کی دنیاوی زندگی ایک امتحان ہے ، اس کی مثال ایک حباب و بلبلے کی سی ہے جو تہہ سے اٹھ کر سطحِ آپ پر آکر فنا ہوجاتا ہے۔یہ جسدِ خاکی بھی کائنات کی فنائیت کی طرح فنا ہوجائے گا ، پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ حیات دے کر اپنے روبرو لا کھڑا کرے گا۔ ’’ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (۲۶) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (۲۷) ’’ سب پر فنا ہےبس  ایک اللہ کو بقا ہے۔

`           کامیابی کا راستہ اسلام ہے جو انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور  اسے نیکی کا حکم  کرتا اور برائی سے روکتا ہے ۔ اسلام کی بنیاد کلمہ ٔ توحید پر ہے ، جس میں خدا کی وحدانیت اور حضرت محمدﷺ کی رسالت کا اقرار ہے۔ اسلام میں انسانوں کو برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکنے اور بچانے کے لیے ایک اہم نظریہ پیش کیا گیا ہے جسے نظریۂ آخرت کہتے ہیں ۔ اس نظریۂ آخرت کو سن کر ملحدین مذاق اڑاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں کہ بھلا مرنے کے بعد کی زندگی کیوں کر سچ ہوسکتی ہے ، جب کہ قبر میں انسان مر کھپ جاتا ہے، ہڈیاں بوسیدہ ہو کر چورہ چورہ ہوجاتی ہیں۔  ان کے اس نظریئے کی کھلے الفاظ میں تردید کی گئی اور واضح الفاظ میں فرمایا گیا : آیاتِ ربانی کا مفہوم ہے۔’’ جس ذات نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا  کیا اس کے لیے تمہیں دوبارا پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔جس ذات نے تمہیں عدم سے وجود دے کر حیاتِ دنیوی بخشی وہ تمہیں دوبارا نابود کرکے بھی وجود میں لا سکتا  ہے۔بھلا دیکھو تو! آسمان کا بنانا زیادہ مشکل ہے یا انسان کابنانا؟۔ حالانکہ اس ذاتِ باری تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے مضبوط آسمانوں کو بنایا، جن میں کوئی پھٹن اور شگاف بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے  تمہیں دوبارا پیدا کرنا کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘‘

اللہ فرماتا ہے:

            وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا(۴۹) قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا (۵۰) أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا (۵۱) يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا(۵۲)

’’اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہمارا وجود ہڈیوں میں تبدیل ہوکر چورا چورا ہوجائے گا تو بھلا کیا اُس وقت ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اُٹھایا جائے گا ؟‘‘ کہہ دو کہ : ’’ تم پتھر یا لوہا بھی بن جاؤ یا کوئی اور ایسی مخلوق بن جاؤ جس کے بارے میں تم دل میں سوچتے ہو کہ (اس کا زندہ ہونا) اور بھی مشکل ہے، ( پھر بھی تمہیں زندہ کردیا جائے گا) ‘‘ اب وہ کہیں گے کہ : ’’ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ؟‘‘ کہہ دو کہ : ’’ وہی زندہ کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘ پھر وہ تمہارے سامنے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ : ’’ ایسا کب ہوگا؟‘‘ کہہ دینا کہ : ’’ کیا بعید ہے کہ وہ وقت قریب ہی آگیا ہو۔ ‘‘ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اُس کے حکم کی تعمیل کرو گے ، اور یہ سمجھ رہے ہوگے کہ تم بس تھوڑی سی مدت ( دنیا ) میں رہےتھے ۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل)

            خداوندِ کریم قرآن میں انسان کے دوبارہ پیدا کیے جانے اور اپنے روبرو کھڑا کرنے کے بارے متعدد مقامات پر کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ بندگانِ خدا کو اپنی فنائیت اور بے ثباتی کا یقین آجائے تاکہ  وہ خواہشات کی اتباع کے بجائے  خدا کی منشاء و مراد کی پیروی کریں۔انسان اپنی ابتدا سے لے کر انتہا تک اپنے خالق کی نعمتوں اور احسانات میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کا وجود ، اس کے لیے لاکھوں چیزوں کو ایجاد محض اتفاق اور خوش فہمی نہیں بلکہ ایک خالقِ قیوم کی قدرت کا مظہر اور ایک امتحان ہے جس سے انسان کو گزرنا ہے ، اس لیے کامیاب اور عقلمند انسان وہ ہے جو اپنا وقت  ضائع کیے بغیر اپنے مولا کی رضا کو تلاش کرے ۔ اس کے حکموں کو دل و جان سے تسلیم کرکے ان کی پیروی کرے  اور ابدی بہشت کا مستحق بن کر ہمیشہ کے مزے اڑائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...