اتوار، 6 نومبر، 2016

حکومت کا فیضی ! غامدی

   محمد مبشر بدر
 کچھ عرصہ سے ایک مخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے اس مغربی فکر کو پروان چڑہانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’’ اسلام کے احکامات میں تبدیلی کرنی چاہیے، اسے جدیددور سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے‘‘۔ جن میں سرِ فہرست اسلامی ریاست کا قیام،  حدود و تعزیرات ، تعددِ ازواج ، طلاق ، جہاد ، اسلامی لباس و شباہت ( داڑہی اور پردہ) اور بیسیوں اسلامی احکامات میں تبدیلی اور ترمیم کرنا ہے۔ اسی آڑ میں انہیں احکامات کو زیادہ نشانہء ملامت بنایا جارہا ہے اور ان کی تبدیلی پر سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔چونکہ علماء کرام اس مقصد میں کامیابی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اس لیے وہ اکثر ان کے نشانہ پر رہتے ہیں ۔حالانکہ اسلام کے قطعی اور اتفاقی مسائل میں تبدیلی  کی گنجائش بالکل نہیں جو ہر دور کے  لیے یکساں حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کی گنجائش ہےجن کو ماہر علماء اجتہاد کرکے حل کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو متجددین کہتے ہیں جو دین کی تشکیلِ نو اور تدوینِ نو کا ایجنڈا لے کر اٹھے ہیں ۔ یہ  درحقیقت مغربیت کے اس نظرئیے سے متاثر ہیں کہ شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں کی گئی بلکہ یہ آقا علیہ السلام کے وضع کردہ قوانین ہیں، لہٰذا ان انسانی وضع کردہ قوانین میں تغیر ِزمانہ کی وجہ سےتبدیلی کرنی چاہیے۔جس کے لیے سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔
اہل کلیسا کی طرف سے مسلمانوں کی وحدت میں چھرا گھونپنے کے لیے اسلامی صفوں سے کئی ایسے لوگ کھڑے کیے گئے ہیں جو اپنی چرب زبانی اور طلاقتِ لسانی سے یہ کام سرانجام دے رہے ہیں ۔جن میں سے ایک جاوید احمد غامدی ہے۔ جسے الیکٹرانک اور پریس میڈیا کے ذریعے مقبول کیا جارہا ہے تاکہ وہ اسلامی متفقہ مسائل میں رخنہ اندازی کرکے انہیں مشکوک بنائے ۔ اس طرح کفریہ طاقتوں کے لیےاسلامی سرحدات کی طرح اسلامی احکامات و نظریات پر شب خون مارنےکے لیے راستہ ہموار ہوجائے۔
ہمارے زمانے میں فتنۂ انکار حدیث کی آبیاری کرنے والوں میں ایک بڑا  نام موصوف کا ہے جن کی تحقیقات کا میدان تحریفِ قرآن تک پھیلا ہوا ہے۔ اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار  کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔جاوید احمد غامدی صاحب دورِ حاضر کے فتنوں میں ایک عظیم فتنہ ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارا نوجوان ، دنیاوی تعلیم یافتہ ، اردو دان طبقہ کافی حد تک اس فتنہ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔
فی زمانہ غامدی فکر ایک مکمل مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ (Miderbusts) ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ بھیڑ کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے
 ‎ جو لوگ بے عملى كا شكار ہوتے ہيں وہ دين اور دينى احكام كا ذكر آنے پر کسی آسانی کی تلاش میں رہتے ہيں اور كسى ايسى پناہ كى تلاش ميں ہوتے ہيں جو اس احساس سے ان كى جان چھڑا دے۔۔ ايسے ميں يہ نام نہاد سكالرز ان  كے كام آتے ہيں اور
خود بدلتے نہيں قرآں كو بدل ديتے ہيں
دین اور اہل ِ دین سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نفس اور شیطان انسان پر حاوی ہوکر اسے خواہش پرست اور آزادی پسند بنادیتے ہیں۔ ایسا انسان جس چیز کو اپنی غرض، خواہش اور مشن کے لئے سد ِ راہ اور رکاوٹ خیال کرتا ہے، غلط تاویلات اور فاسد خیالات کے ذریعہ اس کا انکار کردیتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا

 قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ:
وما اٰتٰکم الرسول فاخذوہ ومانہٰکم عنہ فانتھوا (اعشر آیت 59، ع 7)
ترجمہ: ’’ رسول جو کچھ تمہیں دیں، اس کو لے لو، اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔‘‘
غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔  یہ صاحب  اپنی چرب زبانی کے ذریعے اس فتنے کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اُن کو الیکٹرانک میڈیاکی توجہ و سرپرستی حاصل ہے۔
غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہات ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہاتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے کہ احادیث میں تو تضاد ہے۔یہی وہ پہلا خفیہ پینترا ہے جس کے ذریعے پھر بڑی چابک دستی کے ساتھ انکار حدیث کی راہ ہموار ہوجاتی ہے ۔ اب ہم ذیل میں موصوف کے گمراہ کن اور امت مسلمہ سے الگ باطل نظریات  آپ حضرات کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کو غامدی صاحب کی گمراہی کا اندازہ ہو۔
غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ۔
۱ : قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرائتیں عجم کا فتنہ ہیں۔ ( میزان ص ۲۵ ، ۲۶ ، ۳۲ طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ )
۲ : سنت قرآن سے مقدم ہے ۔ (میزان ص ۵۲ ، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ )
۳ : حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا ۔ ( میزان ص۶۴ طبع دوم )
۴ : نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد کسسی شخص کو  کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ( ماہنامہ اشراق، دسمبر۲۰۰۰ ص ۵۴ ، ۵۵ )
۵ : مرتد کے لیے قتل کی سز نہیں ہے ۔ ( برہان ص  ۴۰ ، طبع چہارم)
۶ : شادی شدہ  اور کنواری ماں زانی دونوں کے لیے ایک ہی سزا سو کوڑےہیں۔( میزان ص ۲۹۹ ، ۳۰۰ طبع دوم )
۷ : شراب نوشی پر شرعی کوئی سزا نہیں ہے۔ ( برہان ص ۱۳۸ ،طبع چہارم )
۸ : سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔( ماہنامہ اشراق ، اکتوبر ۱۹۹۸ ص ۷۹ )
۹ : عورت کے لیے دوپٹہ یا اوڑہنی پہننا کوئی شرعی حکم نہیں ۔ ( ماہنامہ اشراق ، مئی ۲۰۰۲ ص ۴۷ )
۱۰ : کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون ، مردار ، سؤر کا گوشت ، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ۔ (میزان ص ۳۱۱ طبع دوم)
۱۱ : حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ ( میزان حصہ اول، ص ۲۲، ۲۳، ۲۴ طبع ۱۹۸۵ )
۱۲ : جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے۔( ادارہ المورد کی کتاب’’ تصویر کا مسئلہ ‘‘ )
۱۳ : موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے۔ ( ماہنامہ اشراق ، مارچ ۲۰۰۴ص ۸ ، ۱۹ )
۱۴ : عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ (ماہنامہ اشراق مئی ۲۰۰۵ ، ص  ۳۵ تا ۴۶ )
۱۵ : اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ ( میزان ص ۲۶۴ ،، بطع دوم اپریل ۲۰۰۲)
۱۶ : کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور نفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں۔  ( میزان ص ۲۷۰ )
یہ چند باطل نظریات ہیں جو آپ کے سامنے پیش کیے ہیں ان کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جس میں موصوف نے پوری امت سے ہٹ کر ایک الگ راہ قائم کی ہوئی ہے۔
آخر میں ہم خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے،ہدایت کو ہمارا مقدر بنائے، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو  فریب سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اگر ہدایت ان کا مقدر ہے تو جلد انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے ورنہ انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے۔آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...