اتوار، 6 نومبر، 2016

اخلاص سے اعمال میں وزن پیدا کیجیے


 
محمد مبشربدر

انسان کے اعمال میں نیت کو خاص دخل حاصل ہے ، شریعت میں اعمال کا دارومدار نیت پر رکھا گیا ہے۔جس قسم کی نیت ہوگی اسی طرح اعمال کا اس پر ترتب ہوگا۔اس لیے ہر نیک عمل شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ وہ عمل اللہ کے ہاں قبولیت سے ہمکنار ہو ۔ آج کل کے اس نمود و نمائش کے دور میں اعمال میں وہ اخلاص ختم ہوتا جارہا ہے جس کے بل بوتے پر اعمال میں وزن پڑتا ہے اور وہ بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت پاتے ہیں۔اخلاص کو ایمان کہا گیا ہے چنانچہ آقا علیہ السلام سے پوچھا گیایارسول اللہ ﷺ ’’ایمان کیا ہے؟‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا! ’’ اخلاص ‘‘ ( بیہقی )
عمل خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اخلاص کے بقدر اس کا وزن پہاڑوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔اللہ غیرت والا ہے ، وہ اپنے بندوں کے صرف وہی اعمال قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لیے کیے جائیں ، اگر دکھاوا و ریاکاری کا ذرہ بھی شامل ہوجائے تو وہ عمل اللہ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرپاتا، بلکہ الٹاپکڑ کا سبب بنتا ہے۔حدیث پاک میں ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ شرک اصغر کیا ہے ؟ فرمایا: ریاکاری جس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیں گے تو فرمائیں گے۔ چلے جاؤ انہیں کی طرف جنہیں دکھانے کے لیے تم دنیا میں عمل کرتے تھے اور دیکھوکہ کیا تم ان کے پاس بھلائی پاتے ہو۔( مسند احمد) ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے دکھاوے کی نماز پڑہی اس نے شرک کیا ، جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیااور جس نے دکھانے کے لیے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔‘‘ ( مسند احمد )
ریاکار کا عمل رائیگاں جاتا ہے ۔تنبیہ الغافلین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ : ’’ ریا کار کی چار نشانیاں ہیں : جب تنہا ہو تو سست ہو، جب لوگوں کے ساتھ ہو تو چستی دکھائے، جب اس کی تعریف کی جائے تو مزید کام کرے اور جب مذمت کی جائے تو پہلا بھی چھوڑ دے۔‘‘ اس روایت پر غور کریں اور اپنے حال کا جائزہ لیں کہ یہ علامات کہیں ہم میں تو نہیں پائی جاتیں؟ اگر پائی جاتیں ہو تو اس سے خوب خوب بچنے کا اہتمام کریں۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہےکہ جب انسان نیک عمل کرنے لگتا ہے تو شیطان اول تو اسے اس نیک عمل سے ہٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے ۔ جب بندۂ مؤمن کے عزم کے سامنے ہارجائے تو اس کے دل میں ریاکاری کا  وسوسہ ڈالتا ہےتاکہ وہ ریاکاری کے ڈر سے عمل چھوڑ دے ایسے میں شیطان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے اور اپنے عمل کو جاری رکھنا چاہیے، ریا کاری کے ڈر سے نیک عمل نہیں چھوڑنا چاہیے ، چنانچہ تنبیہ الغافلین میں ابوبکر واسطی رحمہ اللہ کا قول لکھا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ: ’’نیکی کی حفاظت عمل سے زیادہ مشکل ہے ۔ اس کی مثال شیشے کی سی ہےکہ جلد ٹوٹ جاتا ہےاور اصلاح کے قابل نہیں رہتا۔ اسی طرح جب عمل کو ریا کاری اور عجب چھوتے ہیں تو توڑ ڈالتے ہیں اور جب بندہ کسی کام کا ارادہ کرے اور ریاکاری بھی خوب ہو تو اگر اپنے دل سے ریاکاری نکال سکتا ہو تو کوشش کرے، اگر ایسا نہ کرسکتا ہوتو اسے چاہیے کہ عمل کرکے ریاکاری کی وجہ سے نہ چھوڑے اور ریاکاری جو کچھ ہوگئی اس پر استغفار کرے ۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اگلے عمل میں اخلاص کی توفیق عطا فرمادیں گے۔‘‘
اخلاص کو عبادات میں روح کا درجہ حاصل ہے ۔ جیسے بغیر روح کے جسم بےجان اور بے کار ہوتا ہے اسی طرح بغیر اخلاص کے عبادات بھی بے جان اور ناکارہ ہوتی ہیں۔علماء نے عمل قبول کرنے کی دو شرطیں لکھیں ہیں:پہلی یہ کہ عمل میں اخلاص ہونا چاہیے دوسرا یہ کہ وہ عمل سنت رسول ﷺ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو عمل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔عمل میں سنت رسول ﷺ کی اتباع نہ ہو خواہ کتنا ہی اخلاص سے بھرپور کیوں نہیں ، پھر بھی قابل قبول نہیں اور عمل میں اخلاص نہ ہو خواہ کتنا ہی سنت رسول کے مطابق ہو پھر بھی مردود ہے ۔دونوں کا ہونا لازم ہے۔
اللہ کو عبادات میں یہ پسند ہے کہ بندہ صرف اسی کے لیے ہی عبادت کرے چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ’’اور خاص اسی کی ہی عبادت کرواور اسی کو پکارو‘‘(اعراف)ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے۔’’ اللہ تعالیٰ کو نہ تو ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون ، بلکہ ان کے پاس تو تمہاری پرہیز گاری پہنچتی ہے۔ یعنی (ان کے ہاں تو تمہارے دلی جذبات دیکھے جاتے ہیں)(الحج)۔اللہ مومن کا دل دیکھتا ہے کہ اس میں کتنا اخلاص ہے تب عمل قبول کرتا ہے ۔ قربانی کے جو جانور ذبح ہوتے ہیں ، اللہ فرماتا ہے مجھے ان کے گوشت اور خون کی کوئی ضرورت نہیں میں تو بس تمہارے دلوں کی آزمائش کرتا ہوں کہ ان میں میری محبت اور رجحان کتنا ہے؟َ۔
آج کے اس نمود و نمائش کے دور میں اعمال میں ریاکاری کا عنصر بہت پایا جاتا ہے۔ قربانی کا جانور اس لیے ذبح کیا جاتا ہے کہ اگر ذبح نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟۔حج اس لیے کیا جاتا ہے کہ لوگ حاجی کہیں گے۔ علم دین اس لیے سیکھاجاتا ہے کہ لوگ عالم کہیں گے۔خیرات اس لیے کی جاتی ہے کہ لوگ سخی کہیں گے۔آج کے دور میں اخلاص سے زیادہ نمود و نمائش کو ترجیح دی جاتی ہے ، بڑے بڑے بینر لگوا کر اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے۔لمبے چوڑے سخاوت کے اعلانات کرائے جاتے ہیں۔سنت سے زیادہ بدعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔فرائض چھوڑ کر منکرات کو اپنایا جاتا ہے۔ گمنامی پر شہرت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس پر اتنی روایات ہیں کہ مضمون کا دامن اس کا متحمل نہیں ورنہ وہ روایات یہاں بیان کردیتا کہ اللہ و رسول کو کیا پسند ہے اور ہم کیا اختیار کررہے ہیںَ؟۔ صحابہ کرام نے کس قدر اعمال کو چھپایا اور ہم ظاہرکررہے ہیں۔ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ سب ہی ایسا کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ کے نیک مخلص بندے موجود ہیں جو خالص اللہ کی رضا کے لیے ہی اعمال کرتے ہیں ذرا بھی اپنے دل میں ریاکاری کو راستہ نہیں دیتے۔اگراس نیت دے کوئی دکھاوے کا عمل کرے کہ دوسروں کو ترغیب ہو اور دل میں اخلاص موجزن ہو تو علمائے کرام فرماتے ہیں ایسا دکھاوا جائز بلکہ مستحسن ہے ، اگر اپنا دل ہی ریاکاری کی طرف مائل ہے تو چھپا کرہی عمل کرے۔

بسا اوقات نماز و دیگر عبادات میں شیطان انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں ، اس وسوسے سے مومن پریشان ہوجاتا ہے، یاد رہے یہ شیطان کا ایک حربہ ہے جو وہ ایمان والے پر آزماتا ہے تاکہ وہ ریاکاری کے خوف سے عمل ہی چھوڑ دے۔ علماء فرماتے ہیں جب ایسی حالت ہو تو دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرکے عبادت میں لگا رہے ریاکاری کے خوف سے ترک نہ کرے اور شیطان کو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...