جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

انڈیا اور ایران ایک پچ پر


محمد مبشر بدر

پاکستان چاروں طرف سے جنگ کے شعلوں میں گھرا ہوا ہے، سوائے چینی سرحد کے پاکستان کی تمام سرحدات ایکٹو ہیں اور پڑوسی ممالک کی سازش کا شکار ہیں۔انڈیا نے پچاس سال سے پاکستان میں دہشت گردی کا جال بچھا رکھا ہے اور اس میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کررہا ہے۔  جب  نوّے کی دہائی میں بھارت نے پاکستان کو دہشت گردی کی لپیٹ میں جکڑا تو پاک آرمی نے بروقت کارروائی کرکے اس سازش کو کمزور کردیا تھا۔ کشمیر میں اٹھائے ہوئے زخم بھارت سو کر بھی نہیں بھلا سکتا ، وادیٔ کشمیر میں اپنی پھنسائی ہوئی سات لاکھ فوج کے اخراجات اور مسلسل شکست کا بدلہ لینے کے لیے مختلف حربے آزما رہا ہے ۔ وہ پاکستان سے اس کا بدلہ اس صورت لے رہا ہے کہ پاکستانی سرحدوں کو ایکٹو کردیا تاکہ پاکستان چاروں  طرف  اپنے مخالفین سے نبرد آزما رہے اور کبھی سکون سے نہ بیٹھ سکے۔
امریکہ ، روس اور اسرائیل کے ساتھ انڈیا  کا یارانہ کون بھلا سکتا ہے جس کے بل بوتے پر  اس نے ایران کو ساتھ ملایا پھر افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑہایا اور یوں پاکستان کو کمزور کرنے اور چاروں طرف سے جکڑنے کے لیے بھارت دوہری چال چل رہا ہے۔انڈیا پاکستان کو چاروں طرف سے بے آسرا و تنہا کرکے شکار کرنا چاہتا ہے۔  وہ اپنے ایجنٹس براستہ ایران و افغانستان پاکستان کی حدود میں داخل کرکے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔ جس پر پاکستانی فوج کو کئی ثبوت ہاتھ لگے ہیں ۔ عزیر بلوچ کے بیانات  منظرِ عام پر  ہیں،  جس میں اس نے انڈین اور ایرانی خفیہ ایجنسی سے تعلقات کا اعتراف کیا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ حاجی ناصر کو ایرانی خفیہ ایجنسی کے نمائندے کے طور پر جانتا تھا، جس نے ایران میں ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسر سے ملاقات کرائی۔ عزیر بلوچ نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو کراچی میں آرمڈ فورسز ،کور کمانڈر، اسٹیشن کمانڈر، نیول کمانڈر کراچی سے متعلق معلومات دیں۔ انڈین خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری بھی عزیر بلوچ کے بتائے گئے سرغنوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ۔ لیاری گینگ وار کے سربراہ نے مزید انکشافات میں بلوچستان میں انڈین ایجنسی را کے نیٹ ورک اورپاکستانی سرحد کے قریب  ایرانی علاقے میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے بیس کیمپ اور افغان خفیہ ایجنسی کا ذکر کیا، جو پاکستان کے لیے خطرے کا الارم ہے۔
گزشتہ دنوں ایرانی فوج سربراہ جنرل باقری نے سعودیہ اور پاکستان کو اکٹھے دھمکی دی ہے۔ جس پر پاکستان نے ایرانی سفارتی نمائندے کو بلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ایران کو اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں کی طرف سے جارحیت کا سامنا ہے ۔ ایرانی قبائل کی بلوچ قوم میں سنیوں کی اکثریت ہے ۔ ایرانی افواج ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے متعدد بار پاکستانی حدود میں داخل ہوئی  اور گولہ باری کی اور اپنے دشمنوں کو آ کر قتل کیا ۔ گزشتہ دنوں ایرانی فوج اور باغیوں کے درمیان شدید جنگ چھڑی جس کے نتیجے میں ایران کو اچھا خاصا نقصان اٹھانا پڑا ۔ ایرانی زخمی فوجیوں کو ’’ جیش العدل ‘‘ نامی باغی اپنے ساتھ اغوا کرکے بھی لے گئے ، جس کا ایران کو سخت غصہ ہے اور وہ اپنا غصہ پاکستان پر اتار رہا ہے ۔ایران چاہتا ہے کہ پاکستان ایران دشمن باغیوں کے خلاف اپریشن کرے حالانکہ ایران کے پاس اس بارے کوئی ثبوت نہیں کہ پاکستان نے ایک گولی بھی ایران پر چلائی ہواور نہ ہی کوئی پاکستانی ایران میں ہونے والی کارروائیوں میں ملوث ہے۔سارا گند پاکستان پر گرانے کا مقصد انڈیا کو خوش کرنا اور اس سے امداد سمیٹنا ہے۔
یہ وہی ایران ہے جس پر پاکستان نے احسانات کیے اور عالمی برادری کی مخالفت مول لے کر بھی اس کے ہاں میں ہاں ملائی اور مزید ترقیاتی کاموں میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔جب ایران پر مغربی ممالک نے ایٹمی ٹیکنالوجی کا الزام لگا کر اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی   تب پاکستان ہی تھا جس نے ایرانی موقف کی حوصلہ افزائی کی اور اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ایران کی مدد کے الزام میں وہ سزا بھگتنا پڑرہی ہے جس کے وہ حق دار ہی نہیں تھے ۔ آج ان کے لیے دنیا اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوچکی ہے تو اس کی بنیادی وجہ ایران ہے۔ اب ایران اس احسان کو بھول کر پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے؟
اگر پاکستان ایران کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلبھوشن یادو کو ایرانی پاسپورٹ کس نے دیا، عزیر بلوچ کو ایرانی شہرت کس نے دی، عزیر بلوچ کے رائیٹ ہینڈ کے پاس کس ملک کا پاسپورٹ تھا؟ کلبھوشن، عزیر بلوچ اور احسان اللہ احسان کے انکشافات اور بیانات سے انڈیا، ایران اور افغانستان کا پاکستان کے خلاف اکٹھ کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ انڈیا کو سی پیک چبھ رہا ہے اسی لیے ایران کے چاہ بہار کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے بھارتی عملہ ایرانی ایماء پر آنے والا ہے۔
انڈیا نے ایرانی  ساحلی شہر ’’ چاہ بہار ‘‘ میں اپنا انٹیلی جنس بیس کھول رکھا ہے۔ یہ باقاعدہ ایرانی اجازت سے قائم ہوا ہے،  کیوں کہ چاہ بہار گوادر سے متصل  ساحلی شہر ہے۔’’ را  ‘‘یہاں بیٹھ کر گوادر اور اقتصادی راہداری کو آسانی سے نشانہ بنا سکتی ہے۔کلبھوشن یادو کو بھی انڈیا نے فارسی اور بلوچی زبان سکھا کر اول چاہ بہار میں بھیجا جہاں اس نے ایک کارگو کمپنی کھول لی اور حسین  مبارک  پٹیل کےجعلی  نام سے تاجر بن گیا۔ کلبھوشن  2004 ء اور 2005ء میں کراچی بھی آیا اور یہاں  اس نے اپنے رابطے استوار کیے۔یہ ترقی کرتے پاکستان آپریشن کا سربراہ بن گیا۔ بھارت نے اسے چار سو ملین جو پاکستانی روپوں میں اکتالیس ارب روپے بنتے ہیں دیے۔کلبھوشن نے یہ رقم بلوچ علیحدگی پسندوں اور کراچی میں بدامنی پھیلانے والوں میں تقسیم کی۔یہ حربیار مری ، براہمداغ بگٹی اور عزیر بلوچ جیسے لوگوں سے بھی رابطے میں تھا اور ایم کیو ایم الطافی کو بھی فنڈ دیتا تھا۔
پاک آرمی نے حسین مبارک نامی انڈین ایجنٹ کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ بلوچستان علیحدگی پسند ہوں، کراچی کے مافیاگروپس ہوں یا پھر ملک میں خود کش بمبار وں  کے ماسٹر مائینڈوں ہوں یہ تمام لوگ چاہ بہار سے ہی آپریٹ ہوتے ہیں۔کلبھوشن کا پکڑا جانا ایک طرف تو انڈیا کے منہ پر زور دار تھپڑ تھا دوسری طرف ایران کے خبثِ باطن کی نقاب کشائی تھی۔پاکستانی آئی ایس آئی نے معلومات پا کر اپنے بندے بلوچ علیحدگی پسندوں میں شامل کرکے کلبھوشن سے رابطے استوار کیےاور اسے انڈیا سے واپس بلوانے میں کامیاب ہوئے۔ بلوچستان کے ضلع خاران کی تحصیل ماشکیل میں اسے گرفتار کیا گیا ، کلبھوشن پاکستان آپریشن کا سربراہ تھا، یہ عام جاسوس نہیں تھا ،  اور دنیا میں آج تک کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اتنے بڑے انٹیلی جنس آفیسر کو نہیں پکڑ سکا ۔اس نے تمام اطلاعات اور رابطے پاکستان  کے حولے کردیے، جس کے نتیجے میں چار سو ایجنٹ گرفتار کیے گئے اور اہم سیاسی چہروں سے بھی نقاب اترا۔اسلحے کی بھاری کھیپ برآمد ہوئی نیز  ایم کیو ایم اور  پیپلز امن کمیٹی میں چھپے غدارانِ وطن بھی سامنے آئے۔
ہمیں ایران کے ساتھ تعلقات پر غور کرنا چاہیےاور از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ زائرین کے روپ میں ایران نے اپنے حما یتیوں کو ٹریننگ دی اور انہیں پاکستان میں لانچ کردیا۔سی آئی ڈی کاؤنٹرٹیرا رزم یونٹ کے ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کی چونکا دینے والی پریس کانفرنس نے پاکستان میں جاری ایرانی دہشت گردی کی حقیقت کھول دی  ۔کالعدم تنظیم سپاہ محمد کے دو دہشت گردوں جوہر حسین اور ارشاد حسین  کو گرفتار کیا گیا ہےجنہوں نے اقرار کیا کہ ایک کالعدم شیعہ تنظیم کے ماتحت ایران میں اہل سنت علماء اور فعال افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے ٹریننگ حاصل کی ،اس گروپ کے ٹارگٹ کلرز چند برسوں کے دوران شہر میں سینکڑوں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیاں کر چکے ہیں ۔یہ سب جنگجو ایران سے تیار ہوکر پاکستان کی سرزمین کو فرقہ ورانہ فسادات میں دھکیلنے کے لیے دہشت گردانہ کروائیوں میں ملوث ہیں۔
 ایران ہمارے دشمنوں کو پناہ دیتا آیا ہے اس لیے ایرا ن کو سخت جواب دینا چاہیے۔انڈیا کے ساتھ مل کر سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی ایرانی سعی اور پاکستان کے خلاف بیانات دینے پر بھی  ہمیں سخت موقف اپنانا چاہیے۔ انڈیا ، ایران اور افغانستان ایک پچ پر کھڑے ہوگئے ہیں اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں غور کرنا چاہیے جہاں کمزوریاں ہیں انہیں دور کرنا چاہیےاور دشمن کے عزائم کو ناکام کرنے کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...