جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

امت ِ مسلمہ کی داستانِ عروج و زوال


محمدمبشر بدر

کائنات کا وجود انسان کے دم سے ہے ۔جب انسا نیت نہیں رہے گی تو کائنات کا وجودبھی ختم ہو جا ئے گا۔اس جہانِ رنگ و بو میں کئی قومیں اور امتیں آ ئیں ،کچھ صفحہء ہستی پراپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئیں تو بعض بے نام و نشاں اور نیست و نابود ہو ئیں ۔
امتِ مسلمہ غالب ہو نے کے لیے ہے۔اس کا بند ھن اسلام جیسے لا زوال مقدس دین سے بندھا ہوا ہے ۔اسے ذات ِ باری تعالیٰ نے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے کے لیے نازل فرمایا ۔یہی وجہ ہے رسول اللہ  ﷺ نے فتح مکہ کے بعد پورے جزیرئہ عرب پر اسلام کے نظامِ حیات کو عملًا نافذ کر دیا ۔ اس نظام کی جزیرئہ عرب سے باہر توسیع کے لیے آپ  ﷺ نے غزوئہ تبوک سے اس کا آغازکیا ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق  ؓنے جیش اسامہ ؓ کی روانگی اور فتنہ ء ارتدادکے بارے میں انتہائی مدبرانہ فیصلہ کیا اور دین اسلام کو محفو ظ کر کے عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا، پھر فارس اور روم کے علاقے فتح کرنے کے لیے لشکر بھیجے ۔چنانچہ دونو ں جگہ لشکر اسلام نے زبر دست معرکے لڑ کر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔
خلفائے اربعہ ؓ کی خلافتوں میں خوب کار ہائے نمایاں سر انجام دیے گئے۔ امیر المومنین سیدنا معاویہ ؓ کے زمانہ میں ہند ،افریقہ اور دیگر علاقوں میں فتوحات ہوئیںاور ایک وسیع رقبہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔ اموی خلفاء نے ملکی نظم ونسق ،امن و امان ، جہاد اور نئی فتوحات کے ذریعے اشاعت اسلام جیسے شاندار کارنامے سرانجام دیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شاندار پے در پے فتوحات کے بعد ،قیصر و کسریٰ کے پر خچے اڑانے سے لے کر یورپ و افریقہ کی فتوحات حاصل کرنے کے با وجود وہ کیا عوامل و اسباب ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ پر زوال کے سیاہ بادل منڈلانے لگے اور اب وہ دھیرے دھیرے پستی و انحطاط کے گہرے گڑہوں میں گرتی چلی جارہی ہے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان حکمرانوں کے آ پس کی کشمکش اور خانہ جنگی ہے ۔ امویوں کے بعد متعدد عباسی حکمرانوں نے حکومت کی ، لیکن جہاد اور توسیع سلطنت سے محروم رہے ۔ان کی آ پس کی رقابتیں اور خانہ جنگی جاری رہی ۔جب عباسی سلطنت انتہائی زوال کو پہنچی تو اس د وران منگولیا سے تاتاریوں کا طوفان اٹھا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔656 ھ میں بغداد سے خلافت کا وجود ختم ہو گیا ۔
مجموعی طور پر آٹھ صدیوں تک مسلمان خلفاء اور امراء نے اندلس میں حکومت کی، لیکن سلطان بادشاہوں کی عیش کوشی،دین سے دوری،خانہ جنگی اور شمشیر وسناں سے لا تعلقی کی وجہ سے عیسائی مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے کرتے آخر کار ربیع الاوّل  897 ھ میں اندلس کے آ خری شہر غرناطہ پر بھی غالب ہو گئے۔
سلطان عثمان دولت عثمانیہ کا پہلا تاجدار تھا ۔سلطان عثمان نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور اپنی سلطنت کو وسعت دینی شروع کی ۔گیلی پولی کی فتح کے ساتھ ہی یورپ میں عثمانی فتوحات کا آغاز ہوا ۔پھر عظیم عثمانی جرنیل اور مجاہد سلطان محمد فاتح  ؒ نے 29  مئی 1453ء کو قسطنطنیہ بھی فتح کرلیا۔
اس طرح گیارہ صدیوں سے قائم با زنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔جنوری 1517 ء میں سلطان سلیم اوّل نے مصر کے مملوکوں کو قاہرہ کے قریب رضوانیہ کے مقام پر فیصلہ کن شکست دے کر برائے نام عباسی خلیفہ سے خلافت اپنے نام منتقل کرا لی ۔اس طرح اب خلافت کا مرکزبغداد اور قاہرہ کی بجائے قسطنطنیہ بن گیا۔ستمبر 1516 ء تک خلافت عثمانیہ مصر ،شمالی افریقہ ، ایشیائے کوچک ، فلسطین ،شام ،ریاست ہائے بلقان اور ہنگری تک پھیلی ہوئی تھی ۔1914ء میں پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں نے جرمنی اور ترکی کو شکست دے کر تین براعظموں پر پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ جنگ کے بعد29  اکتوبر 1923ء میں مصطفی کمال پاشا کی صدارت میں جمہوری حکومت قائم ہوئی ،جس نے  2 مارچ  1924 ء کو منصب خلافت ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور ترکی کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا ۔
ولید بن عبدالملک کے زمانہء خلافت میںحجّاج بن یو سف کے حکم پر محمد بن قاسم ـ  ؒ نے سندھ کو فتح کیا اور پورے مغربی ہندوستان کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا ۔شہاب الدین غوری نے شمالی ہند کو فتح کر کے باقاعدہ حکومت قائم کی ۔غلام خاندان کے بعد خلجی خاندان اور ان کے بعد تغلق ،پھر لودھیوں نے ہندوستان پر حکو مت کی ،لودھیوں کے بعد ظہیر الدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جو کہ انیسویں صدی کے پہلے نصف اوّل تک کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی ۔
امت مسلمہ تدریجاََ تنزلی کے منازل طے کرتی اس موڑ پر آ پہنچی ہے کہ ا ب اس کا دوبارہ ترقی کی راہوں کی طرف پلٹنا بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے۔خلافت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد اس کا شیرازہ تسبیح کے دانوں کے دانوں کی طرح بکھرتا جا رہا ہے ۔کفار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ مسلم خطوں پر چڑھ دوڑا ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کی املاک اور معدنیات پر قابض ہو چکا ہے ۔مسلمانوں کی شناخت ایک مغلوب اور محکوم قوم طور پر ہوتی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ یہ اپنے اوپر ناروا مظالم کا انتقام لیتے،اپنے خطوں اور معدنیات کو کفار کے تسلط سے آزاد کراتے ،اپنی وحدت و جمعیت کو مضبوط کرتے ،آپس میں اتفاق و اتحاد کو بر قرار رکھتے ،کفار کی نقالی کو اپنی زندگیوں سے نکالا دیتے ،اسلامی اقدار اپناتے، لیکن افسوس!بجائے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کے اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس پر آشیانہ ہے۔
امت مسلمہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق ان کا  سدِّ باب کرنا ہو گا اور غلبہ و ترقی کے جو اصول مولائے کل ،دانائے سبل ، ختم الرسل  ﷺ نے سیکھائے انہیں مضبوطی سے تھامنا ہو گا ، تب ہی ہم اس پستی اور ذلت سے نکل سکتے ہیں ورنہ ’’ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ــــ‘‘ کا مصداق بن کر بے نام و نشان ہو کر رہ جا ئیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...