جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور فقہ حنفی (اختصارا)


محمد مبشر بدر

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پہلے تابعی مجتہد ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور انہیں ابواب میں ترتیب دیا۔ انہوں نے مسائلِ دین کو اس طور یکجا کیا کہ سب سے پہلے طہارت کا باب قائم کیا پھر نماز اور دیگر تمام عبادات و معاملات ، پھر نکاح و طلاق وغیرہ کو بابوں میں تقسیم کر کے آخر میں میراث کا باب قائم کیا۔ کیوں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے قبل صحابہ کرام اور تابعین نے علم الشریعہ کے ابواب مقرر نہیں کیے تھے اور نہ ہی کتابیں مرتب کی تھیں۔ ان کے ہاں زیادہ تر علوم کی حفاظت کا ذریعہ حفظ تھا یا مختلف چیزوں پراحادیث و مسائل کا لکھ کر محفوظ کرلینا تھا۔ انہوں نے یہ اہم اور ضروری قدم اس لیے اٹھایا کہ وہ  اس خطرے کو بھانپ گئے تھے کہ کہیں بعد میں یہ علوم ناخلف اور ناعاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ کر ضائع نہ ہوجائیں۔  امت اس احسان کا بدلہ قیامت تک نہیں اتارسکتی۔
اسی لیے فقہ حنفی کو تمام فقہوں میں قدیم اور اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فقہ حنفی کا زیادہ تر مدار قرآن و حدیث کے بعد تعاملِ صحابہؓ و تابعینؒ پر رہا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مسائل کو حل کرنے کے لیے چار دلائل شرعیہ پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی ،اول قرآن پھر سنت پھر اجماع آخر میں قیاسِ شرعی۔اجماع سے مراد صحابہ کرام کا کسی امر پر اتفاق کرلینا ہے پھر ان کے بعد والوں کا اجماع حجت ہے ۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعد کے فقہاء نے انہی کی ترتیب کو آگے چلایا اور اپنا فقہی ماخذ قرآن، سنت ، اجماع اور قیاسِ شرعی کو قرار دیا جو آج تک چلا آرہا ہے۔خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘ إني آخذ بكتاب الله إذا وجدته، فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا لم أجد فيها أخذت بقول أصحابه من شئت، وأدع قول من شئت، ثم لا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم، فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب فلي أن أجتهد كما اجتهدوا۔ ’’
یعنی ’’ میں جب مسئلہ قرآن میں پا لوں تو قرآن کو تھام لیتا ہوں ، اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤں تو سنتِ رسول ﷺ سے لے لیتا ہوں، اگر سنت میں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال  میں سے کسی کے قول سے اخذ کرلیتا ہوں، حتی کہ ان کے اقوال کو چھوڑ کو دوسروں کے قول کو نہیں لیتا۔ پس جب مسئلہ وہاں سے بھی حل نہ ہو  اور معاملہ تابعین ، ابراہیم ، شعبی، حسن بصری، ابن سیرین اور سعید بن مسیب رحمہم اللہ تک پہنچ جائے تو میں اجتہاد کرتا ہوں  جیسے یہ اجتہاد کرتے ہیں۔‘‘
اس قول سے امام اعظم رحمہ اللہ کا فقہی ماخذ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ قرآن ، سنت، صحابہ اور اجتہاد کو معیار بنا کر مسائل کا استخراج فرماتے۔اس معاملے میں امام ابو حنیفہ دیگر ائمہ فقہ سے مختلف نہیں کیوں کہ وہ بھی اسی  طریق پر مسائل حل کرتے تھے۔فن حدیث کے عظیم امام اور میدان جہاد کے شہسوار حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے:
’’ احادیث اور آثارِ صحابہ ؓ کو لازم پکڑو ، مگر ان کے معانی کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ضرورت ہے،کیوں کہ وہ حدیث کے معانی جانتے تھے۔‘‘ (مناقب کردری)
امامِ اعظم رحمہ اللہ نے حدیث میں سب سے پہلے کتاب الآثارلکھی جس کا علم حدیث میں بلند مقام ہے۔ یہ کتاب فقہی ابواب پر حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ان کے بعد امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث کی  تفصیلی کتاب موطا امام مالک اسی ترتیب سے ابواب باندھ کر لکھی۔بقول مشہور محدث عبدالعزیز دراوردی:’’ امام مالک نے موطا لکھنے میں کتاب الآثار سے استفادہ کیا‘‘۔ اس سے قبل احادیث صحائف کی شکل میں موجود تھیں، بہت سی احادیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال پتوں، ہڈیوں، چوڑے پتھروں ، چمڑوں اور لکڑیوں پر لکھے ہوتے تھے یا انہیں زبانی سینہ بسینہ حفظ کیا جاتا تھا۔
امام ابوحنیفہ کو اللہ نے ایسے ہونہار اور قابلِ فخر شاگرد عطا فرمائے جنہوں نے ان کی تحقیقات کو اپنی کتابوں میں لکھ کر امت تک پہنچایا۔ ان میں زیادہ مشہور امام ابویوسف اور امام محمد ہیں جنہیں فقہی کتب میں صاحبین بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ امام زفر ، امام عبد اللہ بن مبارک، امام حسن بن زیاد ، یحیٰ بن سعید بن القطان ، امام شافعی کے استاذِ خاص وکیع بن الجراح ، رحمہم اللہ وغیرہ ہیںاور محدثین میں سے  امام مکی بن ابراہیم، زید بن ہارون، حفص بن غیاث النخعی ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ ، مسعر بن کدام، ابوعاصم النبیل، قاسم بن معن، علی بن المسہر، فضل بن دکین اور عبدالرزاق بن ہمام رحمہم اللہ وغیرہم شامل ہیں۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘ کان لأبي حنيفة أصحاب جلّة، رؤساء في الدنيا، ظهر فقهه على أيديهم، أكبرهم أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري’’
’’ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے  جلیل القدر اصحاب تھے ، دنیا میں ( علم و فضل میں ) سردار تھے، انہی کے ہاتھوں  فقہ حنفی پھیلی، ان میں سے بڑے امام ابوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری رحمہ اللہ ہیں۔‘‘ (اشہر المصنفات المذاہب)
فقہ حنفی تمام فقہوں میں سب سے زیادہ پھیل جانے والا اور رائج الوقت مذہب ہے۔ یہ قرآن و سنت کے ثابت شدہ اور اجتہادی مسائل کا مکمل خزانہ ہے۔ اس میں صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ہی تحقیقات شامل نہیں بلکہ ان کے شاگردوں کے اقوال و آراء بھی موجود ہیں۔ اسلامی حکومتوں خاص کر خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ میں عدالتوں اور سرکاری امور میں فقہ حنفی رائج رہا ہے۔ اسی کے مطابق فیصلے کیے جاتے رہے ہیں اور امت مسلمہ کی اکثریت اس پر عمل پیرا رہی ہے۔ براعظم ایشیاء میں مکمل حنفی مذہب رائج رہا ہے اور یہاں کے باشندے صدیوں سے اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ یہ اسمذہب کی عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...