پیر، 7 مئی، 2018

مذاح اور دل لگی کے آداب اور حدود


محمد مبشر بدر
          زندگی کا نشاط اور تازگی انبساط ، مذاح اور دل لگی میں ہے۔ وہ لوگ خود  میں زیادہ کھنچاؤ اور کشش رکھتے ہیں جو ظریف الطبع اور ہنس  مکھ ہوتے ہیں بنسبت ان لوگوں کے جو خشک مزاج اور کھردرے یا چپ چاپ رہتے ہیں۔زندگی کا مزہ ہی خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے میں ہے۔مزاح کہتے ہیں کسی کو تکلیف دیے بغیر اس سے خوش طبعی کرنا۔ چونکہ اس طرح کی مذاح میں کسی کی دل آزاری اور خفت و ملامت نہیں ہوتی اس لیے اس کے جواز میں دو رائے نہیں ہیں۔چنانچہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ظرافت طبعی اور مذاح کی بہت سے واقعات کتبِ احادیث میں ملتے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  میں نے آپ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو مذاح والا نہیں دیکھا۔
یہ مذاح جائز حدود اور حق طریق پر ہوتی  جس میں کوئی نامناسب پہلو کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی، اور نہ ایسی ہوتی جس سے دل مردہ ہوجائے کیوں کہ کثرت ضحک سے آقا علیہ السلام نے سختی سے منع فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہوتا ہے۔ ایسی مذاح بھی مسلمانوں کے لیے ناجائز ہے جس سے انسان آخرت  اور ذکر خداوندی سے غافل ہو، دل مردہ ہوجائے  اور مقاصد شریعت کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے۔ چنانچہ شمائل ترمذی میں روایت ہے کہ ’’ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ  آپ ﷺ ہم سے مذاح فرماتے ہیں ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں ہمیشہ حق بات کہتا ہوں۔‘‘  آپ علیہ السلام کو خود پر کامل ضبط حاصل تھا جس سے حدود سے تجاوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے اگر کسی کو خود پر قابو نہ ہو کہ وہ حدود کو قائم نہ رکھ سکے اس کے لیے مذاح سے بچنا لازم ہے۔
اگر کسی کی دل آزاری اور تکلیف کی نیت سے مذاح کی جائے تو وہ سخریہ کہلاتا ہے  جو شریعت میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: نہ اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا کرو اور نہ خوش طبعی۔ اس روایت میں خوش طبعی سے مراد وہ خوش طبعی  جو کسی کی دل آزاری،  تکلیف اور خفت  کا باعث ہو۔ چنانچہ چند واقعات سیرت نبویہ ﷺ سے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام ؓ کی خوش طبعی اور ظرافت کا پہلو سامنے آجائے۔
’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہم سے گھل مل کر رہتے تھےحتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی  سے فرمایا: اے عمیر! چڑیا کا کیا بنا؟ ان کی ایک چڑیا تھی جس سے وہ کھیلا کرتے تھے وہ مرگئی تھی۔‘‘ آقا علیہ السلام کا یہ فرمانا خوش طبعی کی بنا پرتھا۔
’’ ایک بوڑہی عورت آقا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی  اور جنت میں جانے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہیں جائیں گی۔ تو وہ عورت روتی ہوئی واپس ہوئی ۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا: اسے خبر دے دو کہ  بوڑہی عورتیں بڑہاپے کی حالت میں جنت میں نہ جائیں گی (بلکہ جوان ہو کر جائیں گی) کیوں کہ اللہ نے فرمایا: انا انشأنٰہن انشاءً فجعلنٰہن ابکارا: یعنی ’’ ہم نے وہاں کی عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے ۔ پس ہم ان کوایسا بنایا ہے کہ وہ  کنواریاں ہیں۔‘‘ یہ آقا علیہ السلام کی بوڑہی خاتون سے خوش طبعی تھی، ساتھ ہی قرآنی خوش خبری بھی سنا دی کہ وہ جوان اور کنواری ہو کر جنت میں داخل ہوں گی۔
ترمذی کی روایت میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مذاح میں فرمایا : ’’ اے دو کانوں والے!‘‘ گویا یہ فرما کر آپ ﷺ نے حضرت انس ؓ کی فہم و سمجھ کی تعریف فرمائی۔اسی طرح ایک شخص نے آپ ﷺ سے سواری کے لیے جانور مانگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم تجھے اونٹنی کے بچے  پر سوار کریں گے۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اونٹنی کا بچہ میرے کس کام کا؟ فرمایا: ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔ یہ بھی ظرافت اور خوش طبعی کی اعلیٰ مثال  ہے مذاحیہ مزاج والوں کو اپنی مذاح میں اس اسلوب  کی  اتباع کی ضرورت ہے۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں غزوۂ تبوک میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ چمڑے کے ایک چھوٹے خیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: اندر آجاؤ! میں نے عرض کیا کیا سارا ہی آجاؤ؟ حضور ﷺ نے فرمایا: سارے ہی  آجاؤ۔چنانچہ میں اندر چلا گیا۔‘‘ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ سارا ہی آجاؤں خیمے کے چھوٹا ہونے کی بنا پر تھا۔ ان کے اس  جملے میں وہ خوش طبعی ظاہر ہوئی جس سے بلا اختیار ہنسی آجاتی ہے۔
یہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین مذاح کی چند مثالیں پیش کی ہیں۔ اس سے ہم میں موجود معاشرتی مذاح کا پیمانہ مقرر کیا جاسکتا ہے ، جب کہ آج کے دور میں مذاح کے نام پر ایسے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں جو سراسرمزاجِ  شریعت کے خلاف اور دین و عقبیٰ  کے تقاضوں سے ہٹ کر ہیں۔ایسی خلافِ شریعت مذاح کو پیش کرنے میں میڈیا کا بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔ لوگوں کو ہنسانے کے لیے ایسے پروگرامز پیش کیے جارہے ہیں جن میں اداکار جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنساتا ہے، جب کہ جھوٹ بولنے والوں پر قرآن میں اللہ کی لعنت آئی ہےاور تمام برائیوں کی جڑ بھی جھوٹ کو قرار دیا گیا ہے۔آقا علیہ السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے مذاح  حقیقت پر مبنی ہوتی تھی اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...