جمعرات، 3 مئی، 2018

تبلیغی اجتماع رائیونڈ میں میری سرگزشت


محمد مبشر بدر
ہر  سال کی طرح اس سال بھی تبلیغی عالمی اجتماع رائیونڈ کی تاریخ قریب آگئی اور احباب روانگی کی تیاریاں کرنے لگے۔9 نومبر 2017ء کو اجتماع کا دوسرا مرحلہ شروع ہونا تھا۔چنانچہ بسیں، گاڑیاں بھر بھر کر رائیونڈ پنڈال کی طرف روانہ ہوگئیں اور میں اپنی کسی مجبوری کی بنا پر بروقت نہ جاسکا، اگلے دن بروز جمعہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد مہمان آگئے ان سے فراغت پائی تھی کہ بھائی عدیل میو کی کال آئی اور اجتماع پر جانے کا ارادہ معلوم کیا ، میں نے جانے کی حامی بھری اور نمازِ مغرب کے بعد ہی تیار ہوگئے ساتھ ہی قاری عثمان فاروقی بھی تیار تھے ہم ڈسکہ سے لاہور روانہ ہوئے لاہور پہنچ کر معلوم ہوا کہ داتا علی ہجویری رحمہ اللہ  کا عرس چل رہا ہے جس کی بنا پر بعض مقامات پر ٹریفک بند ہے چنانچہ کچھ راستہ پیدل چلے ۔ ہر طرف اوباش اور آوارہ لوگ ڈھول کی تاپ پر رقص کررہے تھے اور اسے عرسِ کی مناسبت سے ثواب کی چیز سمجھ رہے تھے۔  ان کی اس حالت پر دل گرفتہ ہوا کہ ان کم علموں کو کون سمجھائے کہ اللہ کی اولیاء ان ڈھول، تماشے ، رقص و سرود جیسی تمام خرافات سے بری ہیں اور ان کی تعلیمات کے سر سر خلاف اور منافی ہیں۔ ان کے لیے ہدایت کی دعا کی اور آگے چل پڑے۔
چلتے چلتے دریائے راوی پر پہنچے اور وہاں سے رکشہ کروا کر سیدھا ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ دھند اور سردی اپنا اثر دکھارہی تھی  اور وقت بھی کافی ہوچکا تھا۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ باہم مشورہ ہوا کہ اب شاید پنڈال کی کوئی گاڑی نہ ملے  لہٰذا رات لاہور میں گزار کر صبح ہوتے ہی رائیونڈ روانہ ہوا جائے۔چنانچہ عدیل میو نے اپنے  بھائی اسد میو کو کال کی جو علی ہجویری یونیورسٹی میں میڈیکل سٹوڈنٹ ہے ، اس نے ہماری رہائش کا بندبست کیا اور ہم اسٹیشن سے رکشہ کروا کر کلمہ چوک سیون اپ سٹاپ پر پہنچے وہاں اسد اور ان کے کزن ہمیں لینے کے لیے پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے بیگ انہوں نے اٹھالیے اور ہم سیدھا ہاسٹل میں جا پہنچے وہاں کھانا کھایا نماز عشاء باجماعت پڑھ کر سو گئے۔اگلا دن ہفتے کا تھا۔ دس بجے ناشتہ کیا اور ساڑہے گیارہ بجے کریم کی سروس سے رابطہ کیا اور پنڈال تک جانے کے لیے ایک کار منگوا لی۔ کریم اور اوبر کی سروسز بہترین سروسز ہیں جنہوں نے فی زمانہ سفر کو کم کرائے اور برقت پہنچ کی بنا پر بہت آسان بنا دیا ہے۔ اب ہم چار افراد ہوگئے اور پنڈال کی طرف رواں دواں ہوئے۔
بوقت ظہر ہم پنڈال پہنچ چکے تھے۔ ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ ہم قدم اٹھاتے گوجرانوالہ کے حلقے سے ہوتے سیالکوٹ  حلقے میں پہنچے جہاں ہماری مسجد کے ساتھیوں نے ہمارا استقبال کیا اور نہایت گرمجوشی سے ملے۔ میری نظر چار سو پھیلے وسیع و عریض پنڈال پر تھی جہاں انسانوں کا ایک جم غفیر تھا۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے ہزاروں، لاکھوں فرزندانِ اسلام اللہ کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے سامان اٹھائے نکلتے ہیں، یہیں سے ان کی تشکیل ان دور افتادہ علاقوں کی طرف ہوتی ہیں جہاں کے باسیوں کو کلمہ و اسلام کی ابتداء تک سے آشنائی نہیں ہوتی۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں آج میں کھڑا تھا اور لاکھوں کا مجمع دیکھ کر مفکر اسلام مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ کے لیے دل سے دعائیں  کررہا تھا۔ جن کی کڑہن، محنت اور دینی فکر کی بنا پر یہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوا۔ حقیقت ہے کہ اللہ نے انہیں اس  دور کے ہزاروں علماء میں سے چنا تھا اور ان سے یہ عظیم دعوت کا کام لیا کہ آج مختلف علاقوں، قوموں، قبیلوں ، نسلوں، رنگوں اور متنوع مزاجوں کے لوگ سمٹ کر کھلے آسمان تلے ایک میدان پر گداگروں کی طرح ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہاں ذات پات ، رنگ نسل، لسانیت و قومیت سے ماوراء اور کوسوں دور سبھی ایک ہوئے نظر آئے۔ یہاں غلام و آقا کی کوئی تمیز نہیں تھی، بندہ و بندہ نوازی بھی عنقاء تھی۔ مرتبے اور حیثیتیں اس میدان میں دفن ہوچکی تھیں، اب صرف ایک پہچان باقی تھی کہ‘‘  ہم سب مسلمان ہیں’’۔ نمازِ ظہر کا وقت ہوچکا تھا۔ وضو کیا اور صف میں کھڑے ہوگئے۔ جس طرف نظر دوڑائی محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔
آج لاکھوں کا مجمع بیک وقت ایک ہی فرش پر اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر بسجود تھا۔ مجھے  خود پر بہت فخر ہورہا تھا کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوں جنہیں لاکھوں کے مقبول بندگانِ خدا کے ساتھ نماز پڑہنے کا شرف حاصل ہورہا ہے۔یہ صرف اللہ کی عطا تھی اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا۔ نیکی کی توفیق بھی اسی در سے ملتی ہے اور بدی سے بچنے کی طاقت بھی۔نماز کے بعد بیان شروع ہوا اور معرفت کے موتی بکھیرے گئے اور ہم انہیں چننے میں مصروف ہوگئے۔ انبیاء علیہم السلام کی مشقت و محنت کے واقعات سنائے گئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قربانیاں بتائی گئیں۔ دنیا کی بے ثباتی بیان کی گئی اور آخرت کے دوام کی یاد دہانی کی گئی۔ مقصدِ حیات بتایا گیا ، اللہ سے تعلق اور اتباعِ نبوی ﷺ کی تلقین کی گئی اور مردہ دلوں کو جھنجھوڑا گیا۔
رائیونڈ پنڈال کے ساتھ ہی ایک عظیم الشان مدرسہ جامعہ موسیٰ البازی کے نام سے موجود ہے ، وہاں میرے ایک دوست مفتی نعیم صاحب تدریس و افتاء کے شعبے سے منسلک ہیں ان سے رابطہ پہلے ہی چکا تھا انہوں نے پنڈال آنے پر جامعہ میں آنے کی پہلے ہی دعوت دےرکھی تھی۔ جامعہ موسیٰ البازی ولی وقت ، مولف ، مفکر اسلام شیخ الحدیث مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور  کے نام پر ان کے فرزندان مولانا زبیرالبازی اور مولانا زہیر البازی حفظہما اللہ نے قائم کیا ہے۔ ان کی فکر و محنت سے ماشاء اللہ مدرسہ پوری آب و تاب سے چل رہا ہے اور شہری آبادی سے کافی دور ہونے کی بنا پر مخیر حضرات کےتعاون کا منتظر ہے۔ان دونوں حضرات کی بھی زیارت و ملاقات مقصود تھی ۔ چنانچہ مغرب کی نماز کے بعد ہم جامعہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے قبل میں نے بازار سے علامہ ڈاکٹر خالد محمود حفظہ اللہ کی مشہور اور اہم کتب خرید چکا تھا۔ ان میں سے ایک ‘‘ آثار التنزیل ’’ دو جلدوں  میں انتہائی اہم اور نادر کتاب ہے جس میں قرآنیات سے متعلق اہم مواد کو جمع کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب علم حدیث سے متعلق ‘‘ آثار الحدیث’’ دو جلدوں پر مشتمل ہے اس میں حدیث مبارکہ سے متعلق اہم او ر نادر ذخیرہ جمع ہے۔ تیسری کتاب فقہ جیسے وقیع موضوع پر دو جلدوں میں ‘‘ آثار التشریع ’’ ہے، یہ بھی مطالعہ کے لائق  اور اہم ترین کتاب ہے جو فقہ کے اہم شعبوں ، فقہاء ،  کتب فقہ ا وراس کے درجات کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ چوتھی کتاب تصوف و احسان و سلوک پر مشتمل ہے اس کی بھی دو جلدیں ہیں جو ‘‘ آثار الاحسان ’’ کے نام سے معنون ہے، یہ کتاب  تصوف کی حقیقت  ،  مراتب ، تاریخ اور صوفیاء کے تذکرے پر محتوی ہے۔
تقریبا عشاء کے قریب ہم جامعہ میں پہنچ چکے تھے ۔ہم کل تین تھے۔ مفتی  نعیم صاحب کو کال کی انہوں نے مرحبا کہا اور ہمارا سامان محفوظ کرکے سیدھا حضرت مولانا زبیر البازی اور مولانا زہیر البازی حفظہما اللہ سے ملاقات کے لیے ایک ہال کمرے میں لے گئے وہاں دیگر حضرات بھی جمع تھے۔ میں مولانا زہیر کی طرف بڑھا، نہایت وجیہہ چہرہ اور سر پر عمامہ ، لمبا اٹھا ہوا قد اور انتہائی سفید رنگت دیکھ کر میں مبہوت ہوکر رہ گیا ، یہ مولانا زہیر سے میری پہلی ملاقات تھی۔ حضرت نے مجھے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور معانقہ کیا میں شرم سے پانی ہوگیا کہ مجھ ناچیز کے لیے ولی وقت نے اتنی تکلیف اٹھائی۔خیر خیریت پوچھی اور دعاؤوں کی درخواست کی۔ ان سے ملاقات کر کے مولانا زبیر صاحب کی طرف بڑہا ان کے گرد کافی لوگ بیٹھے تھے۔ انتہائی بارونق، وجیہہ الشکل، دراز زلف اور سر پر عمامہ لیے ہوئے، رعب دار شخصیت کے حامل جنہیں دیکھ کر قرونِ اولیٰ کے اہل علم و فضل کا گمان ہوتا ہے۔ میں پہلے جامعہ اشرفیہ لاہور میں متعدد بار ان کی زیارت کرچکا تھا۔ فارغ ہوکر ان سے ملاقات ہوئی، تعارف کروایا اور حضرت موسیٰ البازی رحمہ اللہ کے وظائف کی اجازت چاہی اور دعائیں لے کر باہر نکل آیا۔
نمازِ عشاء کا وقت ہوچکا تھا۔ وضو بنا کر جماعت میں  شامل ہوگیا اور فراغت کے بعد دارالافتاء میں مفتی نعیم کی ہدایت پر بیٹھ گیا۔ مفتی صاحب تشریف لائے اور بغیر اجازت لیے باہر سے کھانا منگوا لیا۔ جامعہ میں مولانا موسیٰ البازی کی کتب کا سٹال لگا تھا وہاں سے ایک کتاب ‘‘ فلکیاتِ جدیدہ و سیر القمر و عید الفطر’’ خریدی۔ مفتی نعیم صاحب سے باتیں ہوتی رہیں بالآخر ان سے اجازت لی اور پنڈال کی طرف نکل آئے۔ پنڈال پہنچے وہاں مزید دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ کچھ سیکھنا سکھانا ہوا اور یوں رات کے دو بجے بستر پر لیٹ گئے صبح جلدی اٹھے اور نماز کی تیاری کی نماز کے بعد بیان سنا اور حاجی عبدالوہاب صاحب نے دعا کروائی۔ یہ اتوار کا دن تھا۔دعا کے بعد  مجمع منتشر ہونے لگا اور ہم نے ناشتہ کرکے ظہر کے بعد واپسی کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ رات عشاء کے قریب ہم ڈسکہ سیالکوٹ پہنچ چکے تھے۔ دماغ پر اجتماع کا روحانی منظر چھایا ہوا تھا اور دل سرور و انبساط سے بھرا ہوا تھا۔یوں اجتماع میں تھوڑا سا بتایا  وقت اتنا قیمتی بن  گیا کہ میں اس پر جتنا اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے۔ ولہ الحمد والشکر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...