جمعرات، 3 مئی، 2018

اپنے اور اہل خانہ کے ایمان کی حفاظت کیجیے



 محمد مبشر بدر

یہ دنیا دھوکا ہے جس میں ہم سب مبتلاء ہیں، جب سے مادیت نے اپنے پر پھیلائے اور دنیا نے اپنی ظاہری زینت کھولی تب سے ہم سب اس میں اتنا مست و منہمک ہوگئے ہیں کہ اپنی آخرت تو دور دنیا میں رشتوں ناتوں کا بھی احساس بھول گیا۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس کا کمایا ہوا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، ہرگز نہیں اس نے فنا ہونا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد غیروں کا ہوجانا ہے۔ موبائل کا فتنہ اور میڈیا کی خباثت اپنے زوروں پر ہے، ایسے میں ایمان کی فکر کرنا بہت ہی ضروری امر ہے، ایک ہی متاع ہی تو ہے جس نے نجات دلوانی ہے۔ یہ ہی چھن گئی تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور ہمیشہ کی تباہی و بربادی مقدر بن جائے گی۔ ایمان بچانے کے لیے ضروی ہے کہ نیک محفلوں میں بیٹھیں اور اپنے عقائد کی حفاظت کریں، غلط عقائد والوں کی صحبت سے بچیں، شرک و بدعات سے کنارہ کریں، علماء صالحین کی صحبت اختیار کریں کہ اللہ والوں کی صحبت سے ہی اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور عبادت کی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔ یہ فتنوں کا دور ہے، اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ایمان کی حفاظت کرنا اور خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ضروری اور لازمی امر ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ فرماتا ہے۔
 ’’ اے ایمان والو! خود کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندہن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جو کہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘ ( التحریم )
ایک اور جگہ نبی علیہ السلام کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے ۔
’’  اے نبی آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجیے اور خود بھی  اس پر ثابت قدم رہیے۔ ہم آپ سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم آپ کو دیں گے اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔‘‘ (سورہ  طٰہٰ)
اس آیت میں نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ حکم فرمارہا ہے کہ اپنے اہلِ خانہ ،اولاد کو  نماز کا حکم کرتے رہیں۔ حالانکہ نبی علیہ السلام خود اور آپ کے اہلخانہ نماز کے سختی سے پابند  تھے لیکن امت کو اہمیت بتانے کے لیے نبی علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے تاکہ  لوگ خود بھی دین پر قائم رہیں اور اپنے اہل خانہ کی بھی نگہداشت کرتے رہیں۔ قرآن پاک کی آیت ’’ وانذر عشیرتک  الاقربین‘‘  ( سورہ الشعراء ) کہ ’’ اے نبی! اپنے قریبی رشتہ داروں کو  خبر دار کر دیں۔‘‘ میں بھی یہی حکم ہے کہ گھر والوں کی طرف سے تغافل نہیں برتنا چاہیے بلکہ اس پہلو کو سنجیدگی سے لینے کی بہت ضرورت ہے۔ نبی کریم ﷺ کو حق جل و علا نے شروع میں ہی یہ حکم دے دیا تھا کہ اولاً اپنے اہلخانہ اورقریبی رشتہ داروں  کو دین کے بارے خبردار کیجیے اس کے بعد فرمایا کہ اپنے اعلانیہ لوگوں کو اللہ کے احکامات سے خبردار کیجیے اور ان کی تربیت کیجیے، چنانچہ آقا علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔
جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً اپنے اعمال و ایمان کی ہی فکر سے پہلو تہی کی جارہی ہے اور جہاں کہیں والدین یا سرپرست خود نماز یا دیگر عبادات  بجا لارہے ہیں وہاں وہ اپنے ماتحتوں اور اولاد کے بارے سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ والد صبح کی نماز میں خود مسجد  آکر اپنی اولاد کو گھر سوتا چھوڑ کر آتا ہے ۔ انہیں جگا کر بے آرام بھی نہیں کرنا چاہتے کہ مبادا جان سے پیاری اولاد  کی نیند خراب نہ ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اولاد و اہل خانہ کے خیر خواہ نہیں بلکہ بدترین دشمن ہیں جو اپنی جنت تو دیکھ رہے ہیں لیکن اپنی اولاد کو جہنم کا ایندہن بننا گوارا کررہے ہیں۔ کل قیامت میں والدین سے اولاد کی دینی تربیت و تعلیم بارے ضرور پوچھا جائے گا، ہم دنیاوی تعلیم اور ڈگری کے پیچھے تو بھاگتے ہیں اور اولاد پر اس حوالے سے کڑی نظر رکھتے ہیں جب کہ دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تساہل، غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں، چنانچہ بخاری شریف اور متعدد کتب احادیث میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ سن لو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں  کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
اس ارشاد کو سن کر بھی اگر آنکھ نہ کھلے تو ہم سے بڑھ کر بد نصیب اور محروم الہدایت اور کون ہوسکتا ہے۔ یہ غفلت کا وقت نہیں بیداری اور فکر کا وقت ہے۔ ایک مومن کی زندگی ہی آقا علیہ السلام کی اتباع و اطاعت میں گزرتی ہے، ہم کیسے مومن ہیں کہ ہر آن اور ہر پل غفلت میں گزر رہا ہے۔ خود تو ٖغافل رہے اہل خانہ کے بارے بھی غفلت برت رہے ہیں۔ ہم خود اپنی اولاد کی دینی تربیت کریں۔ ترمذی شریف کی روایت کا مفہوم ہے کہ ’’ حسن اخلاق کی تعلیم اور اچھی تربیت سے بڑھ ایک والد کا اپنی اولاد کے لیے اور کوئی بڑا تحفہ نہیں ہے۔‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...