جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

استہزاء ! ایک منافقانہ روش


محمد مبشر بدر
شروع اسلام سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ شیطان کے پیروکار اسلام اور مسلمانوں کا استہزاء اور مذاق اڑاتے آرہے ہیں ، جو دشمنوں کی بے بسی کی واضح دلیل ہے ، کیوں کہ کفر یہ جان چکا ہے وہ مسلمانوں کو دلیل اور جنگ کے میدان میں نہیں ہرا سکتا اس لیے مسلمانوں کی مقدس شخصیات اور دین کی گستاخیاں کر کے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔اب جب کہ ابلاغ کے ذرائع کا پھیلاؤ ہوچکا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے اپنی بات دنیا تک پہنچانے کا میدان ہاتھ آیا ہے تو منافقین ، کفار اور دشمنان اسلام کا بغض کھل کرسامنے آیا ہے جو صبح و شام اللہ ، رسالت مآب ﷺ ، مقدس شخصیات ، دین اسلام اور احکامات خداوندی کا کھلے عام مذاق اڑاتے اور گستاخیاں کرتے ہیں جو کہ ایک تشویش ناک امر ہے اور فساد و بد امنی پھیلانے کا موجب ہے۔شروع میں اس کی ابتداء کفار و شیطانی ایجنٹوں نے کی پھر رفتہ رفتہ دین و ملت کے مقام سے ناآشنا  نام نہاد  مسلمان بھی ساتھ شریک ہوگئے ۔
کبھی حدود اللہ کو پامال کرنے کی باتیں ہیں تو کبھی شعائر اسلام کی توہین کی جاتی ہے ،کبھی پردے کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو کبھی داڑہی ، ٹوپی اور پگڑی پر تنقید کی جاتی ہے، کبھی علماء کی عیب جوئی کی جاتی ہے تو کبھی تاریخ اسلام میں تحریف کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہے، کبھی مساجد کو تخریب کے اڈے کہا جانے لگاہے  تو کبھی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز اور جہالت کی فیکٹریاں کہا جاتا ہے، کبھی اسلامی ناموں پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کبھی عربی زبان پر منہ بگاڑا جاتا ہے۔ کبھی اسلامی تہذیب و تمدن کو مٹانے کی باتیں ہیں تو کبھی سنت رسول ﷺ پر عمل پیراؤوں پر کھلکھلا کر ہنسا جاتا ہے۔ نئی اسلام بیزار نسل پے در پے ایسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے لگے ہیں جن میں رفتہ رفتہ تیزی آرہی ہے اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو یہ دنیا تباہی کے دھانے تک جاپہنچے گی اور دنیا میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی۔ آخر ضرورت ہی کیا ہے ایسے مسائل کو چھیڑنے کی ، کیا دنیا کے باقی مسائل حل ہوگئے ہیں جو اب مذہب ، اسلام ، پیغمبر اسلام ﷺ ،قرآن  اور علماء کرام پر تبرا کرنا ہی رہ گیا ہے۔کیا اس سے دنیا میں امن آئے  گا یا انارگی پھیلے گی؟
ایک مسلمان اور مؤمن سے یہ بات بعید ہے کہ اس سے اسلام کے خلاف کوئی  ایسی بات صادر ہو جس سے اسلام پر طنز ہو یا اس کا مذاق اڑے۔ بلکہ وہ اس لمحے سے پہلے مرجانا پسند کرے گا چہ جائیکہ اسلام اور متعلقات اسلام اس کے ہاتھوں مخدوش اور مطعون  ہوں۔مسلمان کی متاعِ حیات ہی اسلام ہے جسے وہ اپنے لیے سرمایۂ افتخار سمجھتا ہے۔وہ اپنے لیے کفر میں جانا اسی طرح ناپسند کرتا ہے جس طرح آگ میں جانا۔گویا ایمان والے کے لیے ایمان اور اسلام سے بڑھ کر کوئی چیز بھی اہمیت و افضلیت نہیں رکھتی۔
یہ منافقانہ طرز اور روش ہے کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے اور ان سے استہزاکرتے ہیں۔ آج کل تو علی الاعلان اپنی معاندانہ اور منافقانہ روش کا اظہار کیا جاتا ہے جب کہ دورِ نبوی ﷺ میں منافقوں کی یہ حالت تھی کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف دل ہی دل میں معاندانہ رویہ رکھتے تھے لیکن کسی ذاتی مصلحت یا مفاد  کی بنا پرقصداً اس کا اظہار نہیں کرتے تھے ، تاہم پھر بھی کبھی کبھار دل کا غبار باہر آہی جایا کرتا تھا،  جس کا اظہار ان کے رویّوں اور باتوں سے ہوجاتا تھا ۔ مسلمان سمجھ جاتے کہ یہ مؤمن نہیں منافق ہے۔تاہم منافقین جب گوشۂ خلوت میں جمع ہوتے اور حلقہ جما کر اسلام کے خلاف اپنا بغض نکالتے اور مذاق اڑاتے تو ساتھ ڈرا بھی کرتے تھے کہ کسی طرح نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو اس کا علم نہ ہوجائے اور ان کی قلعی کھل نہ جائے۔وہ جانتے تھے کہ وحی الٰہی کا نزول ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ پیغمبر علیہ السلام کو ان تمام امور سے باخبر کردیتا ہے جو اسلام کے خلاف منافقین کے مابین ہوتےرہتے  ہیں ۔
چنانچہ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ ان کی اسی حالت کو بیان فرماتا ہے ۔
’’ منافق لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کہیں کوئی ایسی سورت نازل نہ کردی جائے جو انہیں ان ( منافقین ) کے دلوں کی باتیں بتلادے ۔ کہہ دو کہ : (اچھا ) تم مذاق اڑاتے رہو، اللہ وہ بات ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈرتے تھے۔‘‘  ( آیۃ ۶۴ )
منافقین کی طرف سے ان کی نجی محفلوں میں کی جانے والی اسلام مخالف باتیں اور مذاق و ٹھٹھا جب کھل جاتا اور مسلمان اس پر مطلع ہوجاتے تو کہتے  ’’ ہم تو یہ باتیں دل لگی میں کرتے ہیں سچ مچ میں تھوڑی ناں کرتے ہیں۔چنانچہ آگے اللہ اسی بات کو بیان  فرماتا ہے:
’’ اور اگر تم ان سے پوچھو تو یہ یقیناً یوں کہیں گے کہ : ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ کہو کہ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کررہے تھے؟‘‘ ( آیۃ ۶۵ )
یہ گویا کہ ان کا ایک بہانہ تھا جس کی بنا پر وہ مسلمانوں کے عتاب سے بچنے کے لیے گھڑتے تھے حالانکہ یہ کوئی دل لگی نہیں تھی، واضح گستاخی اور اپنے کفر کاخفیہ اعلان تھا جسے اللہ تعالیٰ تشت از بام کردیتا، اور ان کا کفر واضح ہوجاتا ۔اسلام کا مذاق اڑانا اور اسے حقیر سمجھنا کفر ہے اسی طرح متعلقات اسلام یعنی جو چیزیں اسلام سے نسبت رکھتی اور اس سے متعلق ہیں ان کا استہزاء بھی موجب کفر ہے۔ہاں اگر کوئی منافق اپنے نفاق سے توبہ کرلے اس کے لیے اللہ کی طرف سے معافی ہے اور جو اپنے نفاق اور عملِ بد پر ڈٹا رہے اس کے لیے درد ناک سزاہے ، چنانچہ  اگلی آیت میں اللہ منافقین کے بہانوں کا رد کرکے  فرماتا ہے:
’’ بہانے نہ بناؤ، تم ایمان کا اظہار کرنے کے بعد کفر کے مرتکب ہوچکے ہو ۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معافی دے بھی دیں تو دوسرے گروہ کو ضرور سزا دیں گے ، کیوں کہ وہ لوگ مجرم ہیں ۔ ‘‘ ( آیۃ ۶۶ )
توبہ کرنے کے بعد انسان کے حالتِ کفر اور نفاق میں کیے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں بشرطیکہ انسان اظہارِاسلام کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی گستاخی کا ارتکاب نہ کرے ورنہ اس کی سزا موت ہے ، جس سے فرار ممکن نہیں۔
سورۂ  مائدہ میں اللہ نے ایمان والوں کو سختی سے روک دیا کہ وہ دین کا مذاق اڑانے والوں کو  دوست بنائیں۔ چنانچہ فرمایا:
’’ مؤمنو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں ( خواہ ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔‘‘
اس آیت کو پڑھ کر میری ہر غیرت ایمانی رکھنے والے مسلمان سے درخواست ہے کہ وہ کسی گستاخ اور دین کا مذاق اڑانے والے سے دوستی نہ رکھے ، نہ ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں دین یا دین والوں کا مذاق اڑایا جارہا ہو۔ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں اللہ ہمیں بھی انہی ظالمین میں شمار نہ فرمادے۔آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اغیار تو غیر رہے اپنے مسلمان بھی مغربی پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں اور اسلام کی بنیادوں پر تیشے چلاتے ہیں جو کہ انتہائی ایمان لیوا اور مہلک عمل ہے۔ اس منافقانہ عمل سے خود کو بھی بچائیں اور اپنی اولاد کو بھی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا حکم

بقلم: مفتی محمد مبشر بدر شریعت میں نماز اپنے وقت مقرر پر فرض کی ہے  اپنے وقت سے قبل اس کی ادائیگی جائز نہیں۔ چنانچہ دخول وقت کے ساتھ ہی نم...